امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

واقعہ غدیر

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

واقعہ غدیر

واقعہ غدیر تاریخ اسلام کا اہم ترین واقعہ ہے۔ جس میں پیغمبر اسلامؐ نے حجۃ الوداع سے واپسی پر غدیر خم نامی جگہ پر ہجرت کے دسویں سال 18 ذی الحجہ کے دن حضرت علیؑ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ جس کے بعد تمام بزرگ صحابہ سمیت حاضرین نے حضرت علیؑ کی بیعت کی۔
یہ تقرری خدا کے حکم سے ہوئی جسے خداوند عالم نے آیت تبلیغ میں بیان فرمایا ہے۔ یہ آیت ہجرت کے دسویں سال 18 ذی الحجہ سے کچھ مدت قبل نازل ہوئی جس میں پیغمبر اکرمؐ کو حکم دیا گیا تھا کہ جو کچھ خدا کی طرف سے آپ پر نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچائیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو گویا آپ نے رسالت کا کوئی کام انجام نہیں دیا۔ اس کے بعد آیت اکمال نازل ہوئی جس میں خدا نے دین کی تکمیل اور نعمات کی تمامیت کا اعلان کرتے ہوئے دین اسلام کو خدا کا پسندیدہ دین قرار دیا۔
معصومینؑ نے حدیث غدیر کے ساتھ استناد کیا ہے۔ اسی طرح امام علیؑ کے دور سے لے کر موجودہ دور تک کے بہت سے شعراء نے غدیر کے بارے میں اشعار لکھے ہیں۔ اس واقعہ اور حدیث غدیر کے سب سے اہم مستندات میں علامہ امینی کی کتاب الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب شامل ہے۔ پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین ؑ نے اس دن کو عید قرار دیئے ہیں اسی لئے تمام مسلمان بطور خاص، شیعہ اس دن جشن مناتے ہیں۔

غدیر کا واقعہ
رسول خداؐ ہجرت کے دسویں سال، 24 یا 25 ذیقعدہ کو ایک لاکھ بیس ہزار افراد کے ساتھ فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔[1] رسول اللہؐ کا یہ حج حجۃ الوداع، حجۃ الاسلام اور حجۃ ‌البلاغ کہلاتا ہے۔
اس وقت امام علیؑ تبلیغ کے لئے یمن گئے ہوئے تھے، جب آپؑ کو رسول خداؐ کے حج پر جانے خبر ملی تو یمنی مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور اعمال حج کے آغاز سے قبل ہی رسول اللہؐ سے جا ملے۔[2] حج کے اختتام پر رسول خداؐ مسلمانوں کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ ہوئے۔

آیت تبلیغ
فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مسلمانوں کا یہ عظیم الشان اجتماع بروز جمعرات 18 ذی الحجہ کو پیغمبر اکرمؐ کی معیت میں غدیر خم کے مقام پر پہنچے۔ جہاں سے شام، مصر اور عراق وغیرہ سے آنے والے حجاج اس عظیم کاروان سے جدا ہو کر اپنے اپنے مقرره راستوں سے اپنے ملکوں کی طرف جانا تھا اتنے میں جبرائیل آیت تبلیغ لے کر نازل ہوئے اور رسول خداؐ کو اللہ کا یہ حکم پہنچا دیا کہ علیؑ کو اپنے بعد ولی اور وصی کے طور پر متعارف کرائیں۔

آیت نازل ہونے کے بعد رسول اللہؐ نے کاروان کو رکنے کا حکم دیا اور آگے نکل جانے والوں کو واپس پلٹنے اور پیچھے رہ جانے والوں کو جلدی جلدی غدیر خم کے مقام پر آپؐ تک پہنچنے کا حکم دیا۔[3]

رسول خداؐ کا خطبہ
حدیث ولایت
رسول اللہؐ نے فرمایا:أَلَستُ أَولٰى بِالمُؤمِنِينَ مِن أَنفُسِهِم؟ قالوا بَلٰى، قال: مَن کُنتُ مَولاهُ فَهذا عَلٰى مَولاهُ، اللّٰهُمَّ والِ مَن والاهُ وَعادِ مَن عاداهُ وَانصُر مَن نَصَرَهُ وَاخذُل مَن خَذَلَهُ
ترجمہ: کیا میں مؤمنین پر حقِ تصرف رکھنے میں ان پر مقدم نہیں ہوں؟ سب نے کہا: کیوں نہیں! چنانچہ آپؐ نے فرمایا: میں جس کا مولا و سرپرست ہوں یہ علی اس کے مولا اور سرپرست ہیں؛ یا اللہ! تو اس کے دوست اور اس کو اپنا مولا اور سرپرست سمجھنے والے کو دوست رکھ اور اس کے دشمن کو دشمن رکھ؛ جو اس کی نصرت کرے اس کی مدد کر اور جو اس کو تنہا چھوڑے اس کو اپنے حال پر چھوڑ کر تنہا کردے۔
مآخذ، ابن مغازلی شافعی، المناقب ص 24۔
نماز ظہر ادا کرنے کے بعد رسول خداؐ نے خطبہ دیا جو خطبۂ غدیر کے نام سے مشہور ہوا اور اس کے ضمن میں فرمایا:

"حمد و ثنا صرف اللہ کے لئے ہے۔ اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی پر ایمان رکھتے ہیں۔ اپنے نفس کی شرانگیزیوں اور اپنے کردار کی برائیوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں... خداوند لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ مجھے بہت جلد اس کے پاس سے بلایا آئے گا اور میں اس کے بلاوے پر لبیک کہوں گا... میں تم سے پہلے حوض کوثر کے کنارے حاضر ہونگا اور تم اسی حوض کے کنارے میرے پاس لائے جاؤگے، پس دیکھو کہ میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو؛ ثقل اکبر کتاب اللہ ہے ... اور میری عترت، ثقل اصغر ہے..."۔
اس کے بعد رسول خداؐ نے حضرت علیؑ کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا یہاں تک کہ سب نے آپؑ کو رسول الله ؐ کے پہلو میں دیکھ لیا اور اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا:
"اے لوگو! کیا میں تمہاری نسبت تم پر مقدم نہیں ہوں؟"، لوگوں نے جواب دیا: "کیوں نہیں اے رسول خداؐ"؛ رسول الله ؐ نے فرمایا: "خداوند متعال میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، پس جس جس کا میں مولا ہوں علیؑ بھی اس کے مولا ہیں"۔ رسول خداؐ نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور فرمایا: "اے اللہ! تو اس شخص کو دوست رکھ اور اس کی سرپستی فرما جو علی کو دوست رکھتا ہے اور اسے اپنا مولا اور سرپرست مانتا ہے اور ہر اس شخص سے دشمنی کر جو علیؑ کا دشمن ہے۔ اس کی مدد اور نصرت فرما جو علیؑ کی مدد اور نصرت کرتا ہے اس شخص کو اپنی حالت پر چھوڑ دے حو علیؑ کو تنہا چھوڑتا ہے"۔ بعد از آں لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا: " حاضرین اس پیغام کو غائبین تک پہنچا دیں"۔
آیت اکمال کا نزول
ابھی اجتماع منتشر نہیں ہوا تھا کہ جبرائیل دوبارہ نازل ہوئے اور خدا کی طرف سے رسول خداؐ پر آیت اکمال نازل کردی؛ جس میں ارشاد ہوا: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً
ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔
تصویر بیعت کردن مسلمانان با حضرت علیؑ در واقعه غدیر خم در کتاب حبیب السیر که توسط غیاث‌الدین خواندمیر در هرات در قرن دهم هجری و شانزدهم میلادی تهیه شده است.
ہرات میں سولہویں صدی عیسوی کو "کتاب حبیب السیر" میں "غیاث‌الدین خواندمیر" کے قلم سے غدیر خم کے مقام پر حضرت علی کی بیعت کی منظر کشی ۔
امام علیؑ کو تبریک و تہنیت
اس موقع پر، لوگوں نے امیرالمؤمنینؑ کو مبارکباد پیش کی۔ ابوبکر اور عمر تبریک و تہنیت کہنے والوں میں پیش پیش تھے اور باقی صحابہ ان کے پیچھے پیچھے تبریک و تہنیت کہہ رہے تھے۔ عمر مسلسل کہہ رہے تھے: بخ بخ لك ياعلي اصبحت مولاي ومولٰی كل مؤمن ومؤمنة، یعنی مبارک ہو مبارک ہو اے علی آپ ہر مؤمن مرد اور عورت کے مولا و سرپرست ہوگئے۔[4]
مروی ہے کہ رسول الله ؐ کے حکم پر ایک خیمہ بپا کیا گیا اور آپؐ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ گروہ در گروہ آ کر علی علیہ السلام کو امیرالمؤمنین کے عنوان سے سلام کریں، اور حتی کہ ازواج رسولؐ نے بھی اس حکم نبوی کی تعمیل کی۔ [5]
حاضرین کی تعداد
غدیر خم میں حاضر افراد کی تعداد کے بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے ان کی تعداد 10000 [6]،بعض نے 12000، بعض نے 17000 [7]، اور بعض نے 70000 افراد[8] نقل کی ہے۔

غدیر خم کے مقام پر اجتماع کی گنجائش اور سنہ 10 ہجری میں مدینہ کی آبادی کے پیش نظر نیز مکہ میں حجۃ الوداع کے موقع پر حجاج کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے غدیر خم میں 10000 افراد پر مبنی روایت کو مستند تر اور صحیح تر قرار دیا جاسکتا ہے۔[9]

غدیر کے راوی
تاریخ اسلام میں کم ہی ایسا کوئی مرحلہ اور کوئی واقعہ ہوگا جو سند اور وقوع کے لحاظ سے اس قدر قوی اور مستحکم ہو۔ حدیث غدیر کے راوی بہت ہیں جن میں سے بعض مشہور راویوں کے نام حسب ذیل ہیں:

اہل بیت یعنی امام ‌علیؑ، حضرت فاطمہ(س)، امام حسنؑ اور امام حسینؑ۔ بعد ازاں 110 صحابہ کے نام آتے ہیں جن میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں:

عمر بن ‌الخطاب[10]، عثمان بن عفان[11]، عائشہ بنت ابی بکر[12]، سلمان فارسی[13]، ابوذر غفاری[14]، زبیر بن‌ عوام[15]، جابر بن عبداللہ انصاری[16]،عباس بن عبدالمطلب[17]، ابوہریرہ[18] وغیرہ، جو واقعہ غدیر کے وقت غدیر خم کے مقام پر حاضر تھے اور انھوں نے یہ حدیث بلاواسطہ طور پر نقل کی ہے۔

بعد ازاں تابعین ہیں جن میں سے 83 افراد نے یہ حدیث نقل کی ہے اور ان میں سے اصبغ بن نباتہ[19]، اور اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز[20] کے نام قابل ذکر ہیں۔

تابعین کے بعد دوسری صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک 360 علمائے اہل سنت سے یہ حدیث نقل ہوئی ہے؛ جن میں شافعیوں کے امام محمد بن ادریس شافعی،[21] حنابلہ کے امام احمد بن حنبل،[22]، احمد بن شعیب نسائی[23]، ابن مغازلی،[24] احمد بن عبداللہ[25]، احمد بن عبدربہ[26] زیادہ مشہور ہیں۔

شیعہ محدثین اور علماء میں سے بےشمار افراد نے حدیث غدیر کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے جن میں شیخ کلینی، شیخ صدوق، شیخ مفید، شیخ طوسی، سید مرتضی وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔[27]

بہت سے محدثین حدیث غدیر کو حدیث حسن اور بہت سے دوسرے اس کو حدیث صحیح سمجھتے ہیں؛[28] نیز تمام شیعہ محدثین اور بعض اکابرین اہل سنت اس کو حدیث متواتر سمجھتے ہیں۔[29]

غدیر سے متعلق آیات
شیعہ[30] اور سنی مفسرین[31]، کے مطابق قرآن کی چند آیات حجۃ الوداع کے موقع پر واقعۂ غدیر کے سلسلے میں نازل ہوئی ہیں:

1۔ سورہ مائدہ آیت 3:

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِيناً۔؛
ترجمہ: آج میں نے تمہارے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا۔
2۔ سورہ مائدہ آیت 67:

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ۔؛
ترجمہ: اے پیغمبر ! جو اللہ کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے، اسے پہنچا دیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو اس کا کچھ پیغام پہنچایا ہی نہیں اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت کرے گا، بلاشبہ اللہ کافروں کو منزل تک نہیں پہنچایا کرتا۔
3۔ سورہ معارج آیات 1 و 2:

سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ ٭ لِّلْكَافِرينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٗ۔؛
ترجمہ: ایک طلب کرنے والے نے طلب کیا اس عذاب کو جو ہونے ہی والا ہے ٭ کافروں کے لئے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ہے۔
مؤخر الذکر دو آیات کریمہ کی تفاسیر میں بیان ہوا ہے کہ رسول الله ؐ نے امیرالمؤمنینؑ کی ولایت کا اعلان کیا تو نعمان بن حارث فہری آپؐ کے قریب آیا اور اعتراض کی حالت میں آپؐ سے کہا: "تو نے ہمیں توحید اور اپنی رسالت پر ایمان لانے اور جہاد و حج اور روزہ و نماز اور زکات کا حکم دیا اور ہم نے بھی قبول کیا لیکن تو اس پر راضی نہ ہوا اور اب اس نوجوان کو مقرر کیا اور اس کو ہمارا ولی قرار دیا، کیا یہ اعلان ولایت تو نے اپنی طرف سے کیا یا خدا کی جانب سے؟ جب رسول خداؐ نے فرمایا کہ یہ اعلان خدا کی طرف سے تھا تو اس نے انکار کی حالت میں کہا: اگر یہ اعلان خدا کی جانب سے تھا تو ایک پتھر آسمان سے اس کے سر پر آگرے۔ اسی حالت میں آسمان کی طرف سے ایک پتھر اس کے سر پر نازل ہوا اور اس کو وہیں ہلاک کرڈالا اور یہ آیات نازل ہوئیں۔[32]

اسلام میں عید غدیر
مسلمانان عالم اور بالخصوص شیعہ روز غدیر کو بڑی عیدوں میں شمار کرتے ہیں اور یہ دن ان کے درمیان عید غدیر کے نام سے مشہور و معروف ہے۔[33]

اس عید کی شہرت اس قدر زیادہ ہے کہ عباسی خلیفہ مستعلی بن مستنصر عباسی کی سنہ 487 میں عید غدیر کو انجام پائی۔ [34] نیز اہل سنت کے مصادر حدیث میں منقول ہے کہ جو بھی 18 ذی الحجہ کو روزہ رکھے خداوند متعال اس کو چھ مہینوں کے روزے کا ثواب عطا فرمائے گا؛ اور یہ دن وہی عید غدیر ہی کا دن ہے۔[35] عید غدیر کی رات بھی مسلمانوں کے درمیان معروف راتوں میں شمار ہوتی ہے۔[36]

رسول خداؐ نے فرمایا:

يوم غدير خم أفضل أعياد أمتي، وهو اليوم الذي أمرني الله تعالى ذكره فيه بنصب أخي علي بن أبي طالب علما لامتي يهتدون به من بعدي، وهو اليوم الذي أكمل الله فيه الدين، وأتم على امتي فيه النعمة، ورضي لهم الاسلام دينا۔
ترجمہ: روز غدیر میری امت کی بہترین عیدوں میں سے ہے اور یہ وہ دن ہے جب خداوند متعال نے حکم دیا کہ میں اپنے بھائی علی بن ابی طالب کو اپنی امت کے پرچمدار کے طور پر مقرر کروں تا کہ میرے بعد لوگ ان کے ہاتھوں ہدایت پائیں اور یہ وہ دن ہے جب خدا نے دین کو کامل کیا اور اپنی نعمت میری امت پر پوری کردی اور اسلام کو ان کے لئے بحیثیت دین پسند کر لیا۔[37]
امام صادقؑ نے فرمایا:

وهو عيد الله الاكبر، وما بعث الله نبيا إلا وتعيد في هذا اليوم وعرف حرمته، واسمه في السماء يوم العهد المعهود وفي الارض يوم الميثاق المأخوذ والجمع المشهود۔
ترجمہ: غدیر خم کا دن اللہ کی بڑی عید ہے، خدا نے کوئی پیغمبر مبعوث نہیں کیا مگر یہ کہ اس نے اس دن کو عید قرار دیا اور اس کی عظمت و حرمت کو پہچان لیا؛ اور اس عید کا نام آسمان میں عہد و پیمان کا دن اور روئے زمین پر میثاق محکم اور عمومی حضور اور موجودگی کا دن، ہے۔[38]
غدیر معصومین کے کلام میں
امام علیؑ نے فرمایا:اے مسلمانو اور اے مہاجرین و انصار! کیا تم نے نہیں سنا کہ رسول خداؐ نے غدیر کے دن مجھے تمہارا مولا قرار دیا؟ اور سب نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔ [39]
حضرت فاطمہ(س) فرماتی ہیں:گویا تم نہیں جانتے! رسول الله ؐ نے غدیر کے دن کیا فرمایا؟ خدا کی قسم، اس دن آپؐ نے مقام ولایت و امامت کو علیؑ کے لئے مقرر اور استوار فرمایا تاکہ اس منصب کی نسبت تمہاری لالچ کی رسی کو کاٹ ڈالیں"۔[40]
امام حسنؑ نے فرمایا:مسلمانوں نے رسول اللہؐ کو دیکھا اور آپؐ کی بات سنی جب روز غدیر میرے والد کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان سے مخاطب ہوکر فرمایا: جس کا میں مولا اور راہبر و راہنما ہوں پس یہ علیؑ بھی اس کے مولا و رہبر و راہنما ہیں"۔[41]
امام حسینؑ نے فرمایا:رسول خداؐ نے علیؑ کو تمام آداب کے ساتھ پرورش دی، جب علیؑ کو روحانی اور نفسیاتی لحاظ سے مستحکم کیا عہدہ امامت ان کے سپرد کیا اور غدیر کے دن فرمایا: جس کا میں مولا ہو اور رہبر ہوں، پس یہ علیؑ بھی اس کے مولا اور رہبر ہیں"۔[42]
امام علی رضاؑ نے فرمایا:"روز غدیر آسمان والوں کے نزدیک اہل زمین والوں کی نسبت زیادہ مشہور ہے... اگر لوگ اس دن کی قدر و عظمت سے واقف ہوتے بےشک فرشتے ہر روز 10 مرتبہ ان کے ساتھ مصافحہ کرتے"۔[43]
حوالہ جات
1.    ↑ طبرسی، احتجاج، ج1، ص56، مفید، ارشاد، ص91، حلبی، السیرہ، ج3، ص308۔
2.    ↑ حلبی، ج3، ص318 و 319، مفید، ص92۔
3.    ↑ نسائی، ص25۔
4.    ↑ احمد حنبل، ج4، ص281، مفید، ص94۔
5.    ↑ مفید، ج1، ص 176، قمی، ج1، ص268،امینی، ج1، ص9 ـ 30۔
6.    ↑ عیاشی، ج1، ص329۔
7.    ↑ شعیری، ص10۔
8.    ↑ طبرسی، احتجاج، ج1، ص56۔
9.    ↑ سیدجلال امام، مقالہ بررسی تعداد جمعیت حاضر در غدیر۔
10.    ↑ محب طبری، ج2، ص161۔
11.    ↑ ابن مغازلی، ص27۔
12.    ↑ ابن عقده، ص152۔
13.    ↑ حموینی جوینی، ج1، ص315۔
14.    ↑ حموینی جوینی، ج1، ص315۔
15.    ↑ ابن مغازلی، ص27۔
16.    ↑ متقی هندی، ج6، ص398۔
17.    ↑ جزری شافعی، 3 و 48۔
18.    ↑ متقی هندی، ج6، ص154۔
19.    ↑ ابن اثیر، ج3، ص307۔
20.    ↑ ابونعیم، ج5، ص364۔
21.    ↑ بیهقی، ج1، ص337۔
22.    ↑ احمد، ج1، ص84، 118 و 331۔
23.    ↑ نسائی، ج5، ص45۔
24.    ↑ ابن مغازلی، ص16۔
25.    ↑ احمد بن عبدالله، ص67 و 87۔
26.    ↑ احمد بن عبدربه، ج2، ص275۔
27.    ↑ امینی، ج1، ص14 اور بعد کے صفحات۔
28.    ↑ ترمذی، ج5، باب 20۔
29.    ↑ ابن کثیر، ج5، ص233، طوسی، تلخیص الشافی، ج2، ص168۔
30.    ↑ طوسی، التبیان،ج 3، ص436 و 587، طبرسی، مجمع البیان، ج3، ص274 و 380، طباطبائی، المیزان، ج5، ص193 - 194۔
31.    ↑ واحدی نیشابوری، ص126، حاکم حَسکانی، ج1، ص200 و 249۔
32.    ↑ طبرسی، ج10، ص530، قرطبی، ج19، ص278، ثعلبی، ج10، ص35۔
33.    ↑ ابو ریحان بیرونی، ص95۔
34.    ↑ ابن خلکان، ج1، ص60۔
35.    ↑ خطیب بغدادی، ج8، ص290۔
36.    ↑ ثعالبی، ص511۔
37.    ↑ صدوق، امالی، ص125۔
38.    ↑ حر عاملی، وسائل الشیعه، ج5، ص224۔
39.    ↑ صدوق، خصال، ص550۔
40.    ↑ طبرسی، احتجاج، ج1، ص80۔
41.    ↑ صدوق، امالی، ج2، ص171۔
42.    ↑ ری شهری، ج2، ص232۔
43.    ↑ طوسی، تهذیب الاحکام، ج6، ص24۔
44.    ↑ رجوع کنید بہ: الغدیر، ج۲-۱۱.
45.    ↑ شریف رازی، گنجینہ دانشمندان(۱۳۵۳ش)، ج۴، ص۴۱۴-۴۱۵.
مآخذ
o    قرآن کریم، اردو ترجمہ: سید علی نقوی نقوی (نقن)۔
o    ابن اثیر، اسد الغابہ، تحقیق محمد ابراہیم بنا، دار الشعب، قاہرہ
o    ابن خلکان، وفیات الاعیان، تحقیق احسان عباس، دار الثقافہ، لبنان
o    ابن عبد ربہ، عقد الفرید، دار و مکتبہ الہلال، بیروت
o    ابن عقدہ کوفی، کتاب الولایۃ، تحقیق عبد الرزاق حرز الدین، انتشارات دلیل ما، قم
o    ابن کثیر، البدایۃ و النہایہ، تحقیق علی شیری، دار احیاء التراث، بیروت
o    ابن مغازلی، مناقب علی بن ابی طالب، مکتبہ اسلامیہ، تہران
o    ابو ریحان بیرونی، آثار الباقیہ، انتشارات ابن سینا، تہران
o    ابو نعیم، حلیہ الاولیاء، دارالکتاب العربی، بیروت
o    احمد بن عبداللہ طبری، ذخائر العقبی، مکتبہ القدسی، قاہرہ
o    احمد حنبل شیبانی، مسند احمد بن حنبل، دار احیاء التراث العربی، بیروت
o    امام، سید جلال؛ مجلہ تاریخ در آینہ پژوہش، زمستان 1386، شمارہ چہارم
o    امینی، الغدیر، دارالکتاب العربی، بیروت
o    بیہقی، مناقب الشافعی، تحقیق سید احمد صقر، مکتبہ دار التراث، قاہرہ
o    ترمذی، سنن ترمذی، دارالمعرفہ، بیروت
o    ثعالبی، ثمار القلوب، تحقیق ابراہیم صالح، دار البشائر، دمشق
o    ثعلبی، الکشف و البیان عن تفسير القرآن، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1422ق
o    جزری شافعی، اسنی المطالب، تحقیق محمد ہادی امینی، مطبعہ امام امیرالمومنین، اصفہان
o    حاکم حسکانی، شواہد التنزیل، تحقیق محمد باقر محمودی، وزارت ارشاد اسلامی، تہران
o    حر عاملی، وسائل الشیعہ، موسسہ الاسلامیہ، تعلیقات عبدالرحیم ربانی شیرازی سال ۱۴۰۳ ق
o    حلبی، السیرہ الحلبیہ، دار المعرفہ، بیروت
o    حموینی جوینی، فرائد السمطین، تحقیق محمد باقر محمودی، موسسہ محمودی، بیروت
o    خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، تحقیق مصطفی عبد القادر، دار الکتب العلمیہ، بیروت
o    ری شہری، موسوعہ الامام علی ابن ابی طالب، دار الحدیث، قم
o    شعیری، جامع‌الاخبار، انتشارات رضی، قم
o    صدوق، امالی، تحقیق موسسہ بعثت، موسسہ بعثت، قم
o    صدوق، خصال، تحقیق علی اکبر غفاری، جامعہ مدرسین، قم
o    طباطبایی، المیزان، جامعہ مدرسین، قم
o    طبرسی، الإحتجاج، نشر مرتضی، مشہد
o    طبرسی، مجمع البیان، موسسہ اعلمی للمطبوعات، بیروت
o    طوسی، التبیان، تحقیق احمد حبیب قصیر، مکتب اعلام الاسلامی
o    طوسی، تلخیص الشافی، تحقیق سید حسین بحر العلوم، دار الکتب الاسلامیہ، تہران
o    طوسی، تہذیب الاحکام، سید حسن موسوی خرسان، دار الکتب الاسلامیہ، تہران
o    عیاشی، کتاب التفسیر، ترجمہ سید ہاشم رسولی محلاتی، چاپخانہ علمیہ، تہران
o    قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، ناصر خسرو، تہران، 1364ش
o    قمی، منتہی الامال، انتشارات نقش نگین، اصفہان
o    متقی ہندی، کنز العمال، موسسہ الرسالہ، بیروت
o    مجلسی، بحارالانوار، موسسہ الوفاء، بیروت
o    محب طبری، الریاض النضرۃ، دار الندوہ، بیروت
o    مفید، ارشاد، موسسہ آل البیت، قم
o    نسائی، سنن الکبری، تحقیق عبدالغفار سلیمان، دار الکتب العلمیہ، بیروت
o    واحدی نیشابوری، اسباب نزول الایات، موسسہ حلبی، قاہرہ

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک