عیدغدیر کے اعمال
عیدغدیر کے اعمال اور
18ذی الحجہ کے اہم واقعات
18 ذی الحجہ ہجری قمری کیلنڈر کے مطابق سال کا 343 واں دن ہے۔
اہم واقعات
طوفان نوح کا ختم ہونا۔
آتش نمرود کا حضرت ابراہیم کیلئے گلستان بننا۔
سنہ 10 ہجری عید غدیر روز اعلان ولایت حضرت علیؑ، رسول اللہؐ نے حجۃ الوداع کے موقعے پر امیرالمومنین کو اپنا جانشین اور خلیفہ مقرر کیا۔
سنہ 1415 ہجری مجمع جہانی اہل بیت کی جانب سے قم المقدس میں بین الاقوامی شیعہ خواتین کا اجتماع۔
ولادت
سنہ 1214 ہجری ولادت شیخ مرتضی انصاری۔
وفات
سنہ 672 ہجری وفات خواجہ نصیرالدین طوسی؛ شیعہ فلسفی اور متکلم 2 جولائی1274ء
سنہ 940 ہجری وفات محقق کرکی۔
عیدغدیر کے اعمال
غسل کرنا
روزہ رکھنا
زیارت حضرت علی علیہ السلام
دو رکعت نماز جس کے اختتام پر سجدہ میں جاکر 100 دفعہ شکرا للہ کہے پھر سجدے سے سر اٹھا کر کہے:
"اللهم انی اسئلک بانّ لک الحمد وحدَکَ لا شریک لک "
دعا کے آخر میں سجدے میں جا کر 100 دفعہ الحمدلله اور شکراًلله پڑھا جائے۔
ظہر سے پہلے دو رکعت نماز جس کی ہر رکعت میں حمد کے بعد سورہ توحید، آیۃ الکرسی اور سورہ قدر کو دس دس مرتبہ پڑھا جائے ۔
دعائے ندبہ
اس دعا کا پڑھنا: "اللهم انی اسئلک بِحقِّ محمد نبیِّک و علی ولیِّک..."
ایک دوسرے سے ملاقات کے دوران اس ذکر کا پڑھنا: " الحمدلله الذی جعلنا من المتمسکین بولایه امیرالمومنین و الائمه علیهم السلام"
100 مرتبہ اس ذکر کا پڑھنا: "الحمدلله الذی جعل کمال دینه و تمام نعمته بولایه امیرالمومنین علی بن ابیطالب علیهالسلام"
عقد اخوت
مواخات یا "بھائی چارہ" سے مراد دو مسلمان مردوں کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کرنا ہے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد انصار اور مہاجرین کے درمیان قائم ہونے والا بھائی چارہ تاریخ میں سب سے زیادہ معروف ہے جس میں حضرت محمدؐ نے مہاجرین اور انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا۔
اس سلسے میں پیغمبر اکرم ؐ نے امام علیؑ کو اپنا بھائی منتخب کیا جو تاریخ میں تواتر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔ یہ واقعہ شیعہ تاریخی اسناد کے علاوہ اہل سنت کے بھی بہت سارے منابع میں نقل ہوا ہے، علامہ امینی نے کتاب الغدیر میں ان میں سے پچاس موارد کی طرف اشارہ کیا ہے۔
عید غدیر کے مستحب اعمال میں سے ایک مؤمنین کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کرنا ہے۔
عید غدیر اور اخوت و بھائی چارگی
مؤمنین کا آپس میں عقد اخوت پڑھنا عید غدیر کے مستحب اعمال میں سے ایک ہے جس میں دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدلی اور برادرانہ سلوک روا رکھنے اور آخرت میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا عہد کیا جاتا ہے۔
اس عقد سے نہ متعلقہ افراد ایک دوسرے سے ارث پاتے ہیں اور نہ ان میں سے ہر ایک کے متعلقین دوسرے کا محرم بنتے ہیں۔
یہ عقد صرف دو مردوں یا دو عورتوں کے درمیان منعقد ہو سکتا ہے اس بنا پر اس عقد کے ذریعے کسی نامحرم مرد اور نامحرم عورت کے درمیان بہن بھائی کا رشتہ قائم نہیں ہو سکتا۔
درج بالا نکات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس عقد کے ذریعے صرف متعلقہ دو مردوں یا دو عورتوں کے درمیان دنیا اور آخرت میں ایک قسم کی دینی بھائی چارگی ایجاد ہوتی ہے۔ اور اس عقد کا مفاد یہ ہوتا ہے کہ متعلقہ افراد ایک دوسرے سے یہ عہد کرتے ہیں کہ یہ دونوں دنیا میں ایک دوسرے کو اپنی دعاوں میں فراموش نہیں کریں گے اور آخرت میں ان میں سے ایک شفاعت کے اہل ہونے کی صورت میں دوسرے کو اپنی شفاعت سے محروم نہیں کرینگے۔
عقد اخوت کا طریقہ
دو مرد یا دو عورتیں اپنے دائیں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ میں رکھتے ہیں اور ان میں سے ایک عقد اخوت کا صیغہ پڑھتے ہیں اور دوسرا اسے قبول کرتے ہیں۔
صیغہ عقد کی عربی عبارت:
"واخَیْتُکَ فِی اللَّہ وَ صَافَیْتُکَ فِی اللَّہ وَ صَافَحْتُکَ فِی اللَّہ وَ عَاہدْتُ اللَّہ وَ مَلَائِکَتَہ وَ کُتُبَہ وَ رُسُلَہ وَ أَنْبِیَاءَہ وَ الْأَئِمَّة الْمَعْصُومِینَ ؑ عَلَى أَنِّی إِنْ کُنْتُ مِنْ أَہلِ الْجَنَّة وَ الشَّفَاعَة وَ أُذِنَ لِی بِأَنْ أَدْخُلَ الْجَنَّة لَا أَدْخُلُہا إِلَّا وَ أَنْتَ مَعِی"
(ترجمہ: خدا کی رضا کیلئے میں آپ سے برادرانہ اور صمیمیت کا اظہار کرتا ہوں اور اپنے ہاتھ کو آپ کے ہاتھ میں رکھ دیتا ہوں اور خدا، فرشتوں، آسمانی کتابوں اور خدا کے بھیجے گئے انبیاء کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر میں اہل بہشت یا اہل شفاعت قرار پاؤں اور مجھے الله کی طرف سے بہشت میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی تو میں آپ کے بغیر بہشت میں داخل نہیں ہوں گا۔)
پھر دوسرا فریق جواب میں کہے گا: "قَبِلْتُ"
اس کی بعد پہلا شخص دوبارہ کہے گا:
"أَسْقَطْتُ عَنْکَ جَمِیعَ حُقُوقِ الْأُخُوَّة مَا خَلَا الشَّفَاعَة وَ الدُّعَاءَ وَ الزِّیَارَة"
(ترجمہ: میں برادری کے تمام حقوق سوائے حق شفاعت، دعا اور ایک دوسرے کی زیارت کرنا، کو آپ کی گردن سے ساقط کرتا ہوں۔)
پھر دوبارہ دوسرا شخص کہے گا:
"قَبِلْتُ"
[نوری، حسین این محمدتقی، مستدرک الوسائل، ۱۴۰۸ق، ج ۶، ص ۲۷۹.]
عقد اخوت کا صیغہ عربی میں پڑھنا ضروری نہیں بلکہ اسے اردو یا کسی اور زبان میں بھی پڑھا جا سکتا ہے لیکن ایک چیز ضروری ہے کہ ایسے الفاظ کے ساتھ عقد پڑھا جائے جس سے مطلوبہ مفاہیم ادا ہو سکیں۔
اگر دو خواتین ایک دوسرے کے ساتھ عقد اخوت پڑھ رہیں ہوں تو صیغہ عقد کو مؤنث ضمیروں کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے۔