امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

باپ- دادا کی ولایت

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

باپ- دادا کی ولایت

۱سوال: ایک یتیم لڑکی جس کا باپ نہیں ہے اور اس کے دادا اور چچا وغیرہ بھی فوت ہو چکے ہیں ، کیا اس کا بھائی جو کہ ۱۳ سال کا ہے اسکی شادی کے لئے اس کا ولی امر کہلائے گا؟
جواب: مذکورہ صورت میں اگر وہ لڑکی بالغ اور رشیدہ ہو تو کسی کو اس پر ولایت نہیں، البتہ قبل بلوغ و رشد اس پر حاکم شرعی کو ولایت ہوگی۔
۲سوال: بچے کے اموال اوردیگر امور زندگی میں اس کی ولایت کس کے پاس ہوتی ہے ؟
جواب: بچے کے اموال میں تصرف کرنا یا اس کی رعایت و نگاھداشت کرنا حسب مصلحت اس کے باپ اور اس کے دادا پر ہے اور ان دونوں کی غیر موجودگی کی صورت میں وہ شخص جسےباپ یا دادا نے جسے قیم و نگران بنایا ہو یا اس کو وصیت کی ہو کہ وہ اس بچے پر ناظر ہو۔ اوراگر ایسا کوئی وصی بھی نہ ہو تو ولایت حاکم شرعی کے پاس ہوگی ۔البتہ ماں یا نانا یا بھائی یا چچا یا ماموں وغیرہ کو کوئی ولایت نہیں ہے۔اوراگرحاکم شرعی بھی موجود نہ ہو تو مومنین میں سے عادل افراد اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو حسب ظاھر عام مومنین کو ولایت حاصل ہوگی۔
۳سوال: کیا بچے کے ولی کے لئے جائز ہے کہ اسے کسی امین کے حوالے کرے تاکہ وہ اسے کوئی صنعت ومھارت سکھائے؟
جواب: بچے کے ولی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ بچے کو کسی ایسے معلم کے حوالے کرے کے جو اسے لکھنا پڑھنا ، حساب وکتاب یا دیگر ایسے علوم سکھائے کہ جو اس کے لئے دین و دنیا میں اس کے لئے نفع بخش ہوں جبکہ ولی پر واجب ہے کہ اس کی نگاہ داری کرے اور اسے ہر اس چیز سے بچائے کہ جو بچے کے اخلاق اورعقائد پر ضرر رساں ہو۔
۴سوال: کیا باپ اور داد کی ولایت میں عدالت کی شرط ہے؟
جواب: نہیں ان کی ولایت کی لئے عدالت کی شرط نہیں ہے البتہ اگر حاکم شرعی کے لئے ان کی طرف سے بچے کے حق میں یا اس کے اموال میں اعتداء جاوز کرنا ثابت ہو جائے تو وہ ان کو تصرف کرنے سے منع کر سکتا ہے ،جبکہ حاکم شرعی پر ان کے سلوک کے بارے میں تحقیق و خبر گیری واجب نہیں ۔
۵سوال: کیا باپ یا دادا کے لئے بچے پر تصرف کرنا اس طرح کے اسے کام کرنے کے لئے اجرت پر دے دیں یا کسی کارخانے میں مزدور لگا دیا جائے؟
جواب: باپ یا دادا کے لئے ایسا تصرف جائز ہے، بشرط یہ کہ عقلاء کی نظر میں فساد واخلاقی پستی سے خالی ہو۔
۶سوال: کیا ماں اور باپ کے لئے اپنے نا بالغ بچوں کے اموال میں تصرف کرنا جائز ہے ؟
جواب: باپ اپنے بچوں کےاموال میں بحیث ولی تصرف کرسکتا ہے جبکہ یہ تصرف بچے کی مصلحت کے خلاف نہ ہو۔ جبکہ ماں کے لئے ایسا کوئی تصرف (جیسا کہ بچے کے لئے کچھ خریدنا) جائز نہیں سوائے یہ کہ بچے کے باپ یا دادا کی اجازت سے ہو اور یہ تصرف بچے کی مصلحت میں ہو۔ اور جو تصرف مصلحت کے خلاف ہو وہ ماں باپ دونوں میں سے کسی کے لئے بھی جائز نہیں بلکہ واجب ہے کہ بچے کے اموال کو محفوظ کرکے رکھا جائے جب تک کہ وہ بالغ ہوجائے پھر جیسے وہ چاہے اپنے مال میں تصرف کرے۔
۷سوال: اگر کوئی شخص ایک بالغ باکرہ لڑکی سے اس کے باپ کی اجازت کے بغیر شادی کرلے جبکہ اس شخص کا مرجع تقلید بناء براحتیاط وجوبی باپ کی اجازت کو لازم قرار دیتا ہو۔ پھر اگر باپ اس نکاح کو کچھ عرصے بعد قبول کرلے اور اجازت دے تو کیا یہ نکاح صحیح ہوگا ؟
جواب: اگر اس کا مرجع تقلید باپ سے اجازت لینے کا فتوی دیتا ہو تو اجازت کے بغیر عقد صحیح نہیں ہوگا۔اور اگر وہ احتیاط کی بناء پر باپ کی اجازت کو ضروری سمجھتا ہو تو اس صورت میں یہ عقد بناء بر احتیاط درست نہیں ۔اور بہر حال ایسا عقد کے لئے اگر بعد میں باپ کی اجازت مل جائے تو بعد میں
۸سوال: جوان لڑکی جو(باکرہ رشیدہ) ہو اس کی شادی کے لئے ولی امر(باپ ،دادا) سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے؟ اول تو اس مسئلہ میں (باکرہ رشیدہ ) سے مراد کیا ہے؟ دوم یہ کہ بعض عبارات میں جو ذکر ہوتا ہے کہ ( باکرہ اگر اپنے امور زندگی میں غیر مستقل ہوتو نکاح کے لئے باپ یا داد سے اجازت لینا ضروری ہے) یہاں غیر مستقل ہونے سے کیا مراد ہے؟ اور اگر جوان اپنی لڑکی اپنی جنسی ضرورت پوری کرنے کے لئے موقت شادی یا متعہ کرنا چاہے مگر عرف عام میں اسے عیب سمجھا جاتا ہو اور اس وجہ سے وہ اپنے باپ یا دادا سے اجازت نہ لے سکتی ہو تو کیا یہ عذر کافی ہے کہ وہ بغیر اجازت زواج موقت کر لے؟
جواب: اول اس مسئلے میں رشد سے مراد ایسا رشد و فھم ہے جو امور مالیہ میں سفاھت( نہ سمجھی) کے مقابل ہو جیسا کہ رسالہ منھاج الصالحین ص ۲۶۳ جزء ۲ میں ذکر ہوا ہے۔ اور نکاح کے مسئلے میں سفاھت (نہ سمجھی) کے مقابل رشد کا معنی یہ ہے کہ مناسب زوج کے اختیار ، مھر کی کیفیت و دیگر خصوصیات کا فیصلہ کرنے میں اچھی طرح سمجھدار ہونا ۔ دوم یہ کہ (امور زندگی میں غیر مستقل) ہونے سے مراد ایسی لڑکی ہے جو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے میں چاھے اپنی ذات کے بارے میں یا اپنے مال کے بارے میں اپنے باپ یا دادا سے بے نیاز نہ ہو اور اسہی طرح اپنی ذات اور اپنے اموال کے بارے میں فیصلہ کرنے میں بھی والد سے بے نیاز نہ ہو۔ سوم جوان باکرہ لڑکی کو نکاح کرنے کے لئے ولی (باپ یا دادا) سے اجزت لینا ضروری ہے چاہےعقد دائمی ہو یا موقت۔
۹سوال: غیر شادی شدہ (باکرہ) لڑکی پر باپ کی ولایت کب ساقط ہوجاتی ہے ؟اگر لڑکی شادی کرنا چاھتی ہو اور باپ قبول نہ کرتا ہو تو کیا حکم ہے؟
جواب: اگر باپ کسی خواستگاری کرنے والے کی طلب کو لڑکی کی مصلت دیکھتے ہوئے رد کردے تو اس کی ولایت ساقط نہیں ہوتی البتہ اگر وہ مصلحت کے برعکس کسی بھی مناسب و ہم پلہ شخص کی خواستگاری کو قبول نہ کرتا ہو اوراس طرح بیٹی کو شادی نہ کرنے دے تو اس صورت میں اسکی ولایت ساقط ہوجائے گی البتہ اگر اس لڑکی کا دادا موجود ہو تو اس کی ولایت کے تحت اس سےاجازت لینا ضروری ہے۔
۱۰سوال: اگر کوئی باپ سفیہ ہو یعنی مصلحت و مفسدہ کی پہچان نہ رکھتا ہو تو کیا بیٹی پر اسکی ولایت ساقط ہو جائے گی ؟
جواب: باپ کے لئے اپنی بیٹی پر ولایت ہے جو کہ بیٹی کی مصلحت کے لئے ہے، لہذا ضروری ہے کہ وہ بیٹی کی مصلحت کو مد نظر رکھے، پس اگر باپ اس مصلحت کی مراعات کرنے والا نہ ہو تواس کی یہ ولایت ساقط ہو جائے گی البتہ باپ کے علاوہ اس لڑکی کے دادا کے لئے بھی ولایت ہے اگر وہ موجود ہو۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک