امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

آئمہ علیہم السلام کے انقلابی فرزندوں کے قیام اور ان سے متعلق ابہامات(3)

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

آئمہ علیہم السلام کے انقلابی فرزندوں کے قیام اور ان سے متعلق ابہامات(3)

 یہ شخص حضرت زید کی شہادت اور انکے قیام کی ناکامی کی خبر لیکر آیا تھا۔ آپکا سوال تھا، ماجرا کیا ہے؟
 اس شخص نے بتایا کہ یابن رسول اللہ آپکے چجا زید مسجد کوفہ میں شہید کر دیئے گئے، اسی طرح بقیہ تفصیلات بتائیں۔ امام بہت اندوہگیں ہوگئے اور فرمایا کہ تم میرے چچا کے ساتھ تھے؟
 اس نے جواب دیا کہ ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ جب میرے چچا کے ساتھ تھے تو کیا کسی کو قتل بھی کیا یا نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں۔ حضرت نے پوچھا کتنے لوگوں کو قتل کیا؟
 اس نے جواب دیا کہ سات یا پانچ لوگوں کو۔ امام صادق علیہ السلام ایک جملہ کہتے ہیں، جو اس شخص کی حوصلہ افزائی اور قدردانی کیلئے تھا، ساتھ ہی اس سے امام صادق علیہ السلام کا موقف بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ "اے پروردگار! اس قتال میں مجھے اس شخص کے ساتھ شریک قرار دے۔"

زید علیہ السلام کے قیام کے اہداف اور انکے بارے میں آئمہ علیہم السلام کی رائے
اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ زید علیہ السلام کے اس قیام کا مقصد کیا تھا؟ آپ نے کیوں قیام کیا؟
 دوسرے یہ کہ امام صادق علیہ السلام جن کے زمانے میں یہ قیام ہوا، وہ اس کے بارے میں کیا نظریہ رکھتے تھے۔؟
 میں یہ دو نکات بیان کرنا چاہتا ہوں۔ جہاں تک قیام کے ہدف و مقصد کا سوال ہے تو میں بس ایک دو روایتیں نقل کروں گا اور روایتوں سے جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
 اس لئے کہ یہ عقلی بحث نہیں، روایت کا موضوع ہے۔ یہ تاریخ ہے اور ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ روایتوں میں اور احادیث میں کیا بیان کیا گيا ہے، اسی کی مدد سے ہم حقیقت ِحال کو سمجھیں۔ میں ان کے بارے میں دو تین روایتیں نقل کرنا چاہتا ہوں۔

ایک روایت یہ ہے کہ زید بن علی بن الحسین ہشام کے پاس جاتے ہیں۔ روایت میں یہ وجہ نہیں بتائی گئی کہ وہ ہشام کے پاس کیوں گئے۔ بہرحال حضرت زید اسلامی معاشرے کی اہم ہستی تھے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کو خلیفہ یعنی ہشام سے کوئی کام رہا ہو۔ جیسے آپ کو کسی ادارے میں کوئی کام ہوتا ہے اور اس کے سربراہ سے رجوع کرتے ہیں۔ اس لئے کہ تمام امور انہی عمائدین ِحکومت کے ہاتھوں میں تھے اور وہ خود ہی براہ راست فیصلہ کرتے تھے۔ آجکل جو دفتری نظام رائج ہے، اس زمانے میں نہیں ہوتا تھا۔
ہشام کی نظر حضرت زید پر پڑی۔ اس نے دیکھا کہ امیر المومنین کا فرزند اور بنی ہاشم کا ایک فرد وہاں ہے تو اسے یہ موقع غنیمت لگا کہ ان پر طنز کرے۔ اس نے توہین شروع کر دی۔

روایتوں میں ہے کہ اس نے کئی توہین آمیز باتیں کہیں اور حضرت زید کے بھائی امام باقر علیہ السلام کی بھی توہین کی۔ اس لئے کہ امام باقر علیہ السلام ہشام کے مخالف تھے۔ اس توہین پر جناب زید خشمگیں ہوگئے۔ آپ نے دیکھا کہ اب خاموش رہنا مناسب نہیں ہے بلکہ کوئی سخت اقدام کرنا ضروری ہے۔ کیوں؟
صرف ایک جملے کی وجہ سے؟
 نہیں، اس وجہ سے کہ آپ نے دیکھا کہ بنی امیہ کا یہ بدعنوان نظام جس سے وہ ذاتی مفاد پورے کر رہے ہیں، اختیارات کا بے جا استعمال کر رہے ہیں، اب اس کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ بنی امیہ کے افراد علی الاعلان دین اسلام کی، اس دین کی جسے زندہ رکھنے کے لئے حضرت زید اور ان جیسے دیگر افراد کا وجود ہے، ایسے دین مقدس کی توہین کر رہے ہیں اور اس کے مقدسات کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔انھیں اس کا بھی لحاظ نہیں کہ کم از کم حضرت زید جیسی شخصیت کے سامنے تو دین کا مذاق نہ اڑائیں!

اس گستاخانہ برتاؤ سے یہی ظاہر ہو رہا تھا۔ حضرت کا چہرہ بدل گیا۔ آپ وہاں سے فوراً اٹھ گئے۔ بعد میں انھوں نے اپنے کچھ دوستوں سے کہا کہ اگر ایک شخص بھی میرے ہمراہ ہوتا تو میں قیام شروع کر دیتا، خاموش نہ رہتا۔ زید علیہ السلام کا ایک جملہ ہے، جس میں آپ نے آئمہ معصومین کے لہجے میں گفتگو کرتے ہوئے لازوال بات کہی ہے۔ وہ جملہ غالباً اس طرح ہے؛
«إنّه لمْ یکرهْ قوْمٌ قطّ حرّ السّیْف إلّا ذلّوا»
کہا: "جو قوم بھی شمشیر کی حرارت سے ڈر گئی، اسے ذلت اٹھانی پڑی۔"
جو جماعت بھی شمشیر کی تیزی سے ڈر جائے، وہ ذلت و خواری اٹھاتی ہے، زبوں حالی برداشت کرتی ہے۔ جب ہشام نے میرے مقدسات اور میرے قرآن کی توہین شروع کر دی تو میں کیسے بیٹھا رہ سکتا تھا۔ زید نے یہ جملہ کہا اور پھر خروج کا عزم کرکے نکلے۔ فیصلہ کر لیا کہ اب خروج کرنا ہے اور مقدمات کی فراہمی میں لگ گئے۔ اس دوران لوگ حضرت زید کے پاس جانے لگے اور ان کی بیعت کرنے لگے۔ زید حجاز سے عراق آگئے۔

چونکہ انھیں یہ محسوس ہوا کہ عراق میں تحریک کو بہتر انداز میں شروع کیا جا سکتا ہے۔ ان کو یہ اندازہ تھا کہ کوفہ میں ان کے والد اور جد کے چاہنے والے موجود ہیں، عراق میں ان کی تعداد زیادہ ہے، لہذا وہ اپنے قیام کی تیاریوں کے لئے عراق آگئے۔ البتہ حضرت زید کے قیام کی تفصیلات کافی زیادہ ہیں اور ان کا ہماری اس بحث سے ربط نہیں ہے۔ لوگ مسلسل حضرت زید کے پاس آتے تھے اور آپ سے امام صادق علیہ السلام کے بارے میں استفسار کرتے تھے۔ اسی طرح لوگ امام صادق علیہ السلام کے پاس بھی جاتے تھے اور ان سے حضرت زید کے بارے میں سوال کرتے تھے۔ جب زید سے امام صادق علیہ السلام کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا تو شیعہ کتب میں متعدد روایتوں میں ہے کہ آپ جواب میں کہتے تھے؛ "اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں اپنی مخلوقات پر ایک حجت رکھی ہے اور ہمارے زمانے میں حجت برحق جعفر ابن محمد میرے بھتیجے ہیں۔" یہ جملہ حضرت زید بار بار کہتے تھے اور خود بھی امام صادق علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔

امام صادق علیہ السلام سے سوال کرتے تھے، یہ میرا استنباط ہے، میری رائے ہے، ورنہ روایت میں اس کے برعکس باتیں بھی ہیں، جن کا میں ابھی ذکر کروں گا، امام حضرت زید کے بارے میں ایسی باتیں کرتے تھے کہ اسے سننے والا جاکر حضرت زید کے ساتھیوں میں شامل ہو جاتا تھا۔ ایک روایت میں امام فرماتے ہیں۔:
"جو لوگ زید کے ساتھ شہید ہوں گے، ان لوگوں کی مانند ہیں، جو علی ابن ابی طالب کے ہمراہ شہید ہوئے۔"
 البتہ حضرت زید کی تحریک زیادہ دن نہیں چلی۔ یعنی بہت مختصر مدت کے اندر اس تحریک کو کچل دیا گيا۔ انھیں ایک واقعہ پیش آیا، البتہ اس کی تمام تفصیلات میں یہاں نہیں پیش کرنا چاہتا۔ حضرت زید اور ان کے ساتھی مسجد کوفہ میں وارد ہوئے اور شہر پر بھی تقریباً پورا قبضہ ہوگیا تھا۔ اچانک ایک غفلت ہوئی اور اس کے نتیجے میں ایک تیر آکر حضرت زید کی پیشانی پر لگا، وہ زمین پر گر پڑے اور میدان جنگ میں شہید ہوگئے۔
اگر یہ تیر حضرت زید کی پیشانی پر نہ لگتا، یعنی اچانک یہ واقعہ ہوگیا، ان کی تحریک کی پیشرفت کے آثار نمایاں ہوچکے تھے، عین ممکن تھا کہ پہلے ہی حملے میں وہ کوفہ و بصرہ بلکہ پورے عراق کو اپنے قبضے میں کر لیتے۔ ان کی تحریک میں پختگی کی کمی نہیں تھی، لیکن شروع ہی میں یہ واقعہ ہوگيا۔ اس طرح کے واقعات ہر کسی کی زندگی میں اور ہر زمانے میں پیش آتے رہتے ہیں۔ الغرض یہ کہ جب سے جناب زید کوفہ گئے، وہاں قیام کیا اور قتل ہوئے اور قتل ہونے کے بعد امام صادق علیہ السلام سے ہمیشہ حضرت زید کے بارے میں سوال کیا جاتا تھا اور امام صادق علیہ السلام حضرت زید کی شہادت سے پہلے بھی اور بعد میں بھی بڑے مختصر لیکن عمیق کلمات کے ذریعے ان کی تائید کرتے رہتے تھے۔

ایک روایت ہے، جو حضرت زید کے شہید ہو جانے کے بعد کی ہے۔
 امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں؛
«رحم اللّه عمّی زیْدا»، "
اللہ رحمتیں نازل فرمائے میرے چچا زید پر۔
" «إنّ عمّی کان رجلًا لدنْیانا و آخرتنا»، "
وہ ہمارے دین کے لئے بھی اور ہماری دنیا کے لئے بھی منفعت بخش تھے۔" ہمارے دین کے لئے منفعت بخش تھے، اس اعتبار سے کہ دین کی تبلیغ کرتے تھے، قرآن کا احیا کرتے تھے، قرآن کے دشمنوں کو ختم کرتے تھے، یہ دین کے لئے ان کے فوائد ہیں۔ امام صادق کی دنیا کے لئے بھی حضرت زید نفع بخش تھے۔ اس لئے کہ بنی امیہ کے خلفاء کے زمانے میں امام صادق علیہ السلام کے چاہنے والے بہت گھٹن کے ماحول میں جیتے تھے، سخت دباؤ تھا، ہمیشہ پریشانیوں میں رہتے تھے، ان کے چاہنے والوں کے لئے ہمیشہ قتل کر دیئے جانے اور پھانسی پر چڑھا دیئے جانے کا خطرہ رہتا تھا۔ حضرت زید نے جب قیام کیا تو یہ امام صادق علیہ السلام کی دنیا کے لئے بھی بہتر تھا۔ آپ نے توجہ کی؟
 حضرت زید علیہ السلام کے لئے امام صادق علیہ السلام کی زبان سے اس طرح کے الفاظ اور جملے ادا ہوئے ہیں۔

امام صادق علیہ السلام سے ایک جملہ اور بھی منقول ہے؛
«مضى و اللّه عمّی شهیداً کشهداء اسْتشْهدوا مع رسول اللّه و علیٍّ و الْحسن و الْحسیْن.» "
خدا کی قسم میرے چچا زید شہید ہیں ان شہیدوں کی مانند جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ لڑے اور شہید ہوئے، علی کی مانند، حسن کی مانند اور حسین کی مانند۔"
ایک روایت میں آٹھویں امام فرماتے ہیں؛ "زید نے راہ خدا میں جہاد کیا۔"
یہ جو آراء ہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے واقف ہوں۔ ایک روایت میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام حضرت زید کا مرثیہ پڑھتے ہیں، ان کا سوگ مناتے ہیں اور ان کے سوگ میں لوگوں کو گریہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں بھی میں بتاؤں گا کہ کس مناسبت سے تھا۔ اس سلسلے میں روایتیں بہت زیادہ ہیں۔ اگر حضرت زید کے ہدف کی بات کی جائے تو ان کا ایک خطبہ ہے، جو بڑا تفصیلی ہے اور اس میں آپ نے اپنا ہدف امر بالمعروف، نھی عن المنکر  اور شہدائے کربلا کے خون کا انتقام بیان کیا ہے۔ یہ من و عن وہی ہدف ہے، جو امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کے لئے فرمایا تھا:
«أرید أنْ آمر بالْمعْروف و أنْهى عن الْمنْکر و أسیر بسیرة جدّی و أبی‏» (علیهم‌السّلام)
 یعنی ہدف بالکل وہی ہے، جس کے لئے امام حسین علیہ السلام نے قیام کیا تھا، وہی ہدف حضرت زید نے اپنے قیام کے لئے معین کیا تھا۔

ایک جگہ وہ اپنے قیام کا مقصد امت کی اصلاح کرنا بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرا قیام امت کی اصلاح کی خاطر ہے۔
 یہ بھی امام حسین علیہ  السلام کے قیام کا مقصد ہے۔ امام نے فرمایا تھا؛
«إنّما خرجْت ارید الْإصْلاح فی أمّة جدّی.‏»
 اور یہاں حضرت زید کہتے ہیں:
«لوددْت أنّی أحْرقْت بالنّار ثمّ أحْرقْت بالنّار و أنّ اللّه أصْلح لهذه الْأمّة أمْرها.»
 یعنی "مجھے بخوشی قبول ہے کہ مجھے آگ میں جلا دیا جائے، بار بار جلایا جائے، مگر اس کے بدلے میں اس امت کے امور کی اصلاح ہو جائے اور وہ موجودہ بدحالی اور گمراہی سے نکل آئے۔"
بہرحال اس طرح کی باتیں کافی زیادہ ہیں۔ اگر میں وہ سب بیان کروں تو بہت وقت لگ جائے گا۔ حضرت زید کے سلسلے میں امام صادق علیہ السلام کی رائے کو بیان کرنے والی ایک اور دلچسپ روایت بھی ہے۔ وہ روایت اس طرح ہے کہ حضرت زید کے ساتھیوں میں سے ایک شخص امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام نے سوال کیا کہ کہاں تھے؟ اس نے جواب دیا کہ کوفے میں تھا۔ آپ نے پوچھا کہ کیا خبر لائے ہو اور ماجرا کیا ہے؟ حضرت کو زید علیہ السلام کی فکر تھی۔ آپ کو ابھی اطلاع نہیں دی گئی تھی کہ کیا ہوا۔

یہ شخص حضرت زید کی شہادت اور ان کے قیام کی ناکامی کی خبر لیکر آیا تھا۔ آپ کا سوال تھا، ماجرا کیا ہے؟ اس شخص نے بتایا کہ یابن رسول اللہ آپ کے چجا زید مسجد کوفہ میں شہید کر دیئے گئے، اسی طرح بقیہ تفصیلات بتائیں۔ امام بہت اندوہگیں ہوگئے اور فرمایا کہ تم میرے چچا کے ساتھ تھے؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں۔ آپ نے پوچھا کہ جب میرے چچا کے ساتھ تھے تو کیا کسی کو قتل بھی کیا یا نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں۔ حضرت نے پوچھا کتنے لوگوں کو قتل کیا؟
 اس نے جواب دیا کہ سات یا پانچ لوگوں کو۔
امام صادق علیہ السلام ایک جملہ کہتے ہیں، جو اس شخص کی حوصلہ افزائی اور قدردانی کے لئے تھا، ساتھ ہی اس سے امام صادق علیہ السلام کا موقف بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ امام صادق علیہ السلام نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا کہ "اے پروردگار! اس قتال میں مجھے اس شخص کے ساتھ شریک قرار دے۔"

آپ نے غور فرمایا۔ امام صادق علیہ السلام یقینی طور پر اس ثواب میں شامل ہیں۔ اس لئے کہ کچھ چیزوں سے صاف ظاہر ہے کہ امام صادق علیہ السلام حضرت زید سے تعاون کر رہے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا امام صادق علیہ السلام لوگوں کو حضرت زید کی سرگرمیوں کے بارے میں اطلاع دیتے رہتے تھے۔ خبر لانے والے شخص کو آپ یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ تم نے جو عمل انجام دیا، وہ بالکل درست تھا۔ اس عمل میں تمہاری شرکت بالکل صحیح اقدام تھا۔ اسی لئے فرمایا کہ اے پروردگار! اس قتال میں مجھے اس شخص کے ساتھ شریک قرار دے۔ ایک جگہ اور روایت میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے حضرت زید کے ساتھ شہید ہونے والے افراد کے پسماندگان کے اخراجات اور امور زندگی کو اپنے ذمے لے لیا تھا اور ان کے لئے زندگی کے اسباب فراہم کرتے تھے۔

حضرت زید کی مذمت میں وارد ہونیوالی روایتوں کا جائزہ
بہرحال آخر میں ایک نکتہ یہ بھی عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ روایتیں ایسی بھی نقل ہوئی ہیں، جو حضرت زید کی مذمت میں ہیں۔ ان روایتوں کے ساتھ ہی ساتھ جو میں نے پیش کیں اور جن میں حضرت زید کی تعریف اور حمایت کی گئی ہے، کچھ روایتیں ان کی مذمت میں بھی نقل کی گئی ہیں۔ ان میں کچھ روایتیں ایسی ہیں، جو بظاہر بڑی محکم دکھائی دیتی ہیں اور ان کا مضمون یکساں ہے۔ میں اس مضمون کو بیان کرتا ہوں، پھر اس بارے میں بحث کروں گا اور یہ ثابت کروں گا کہ یہ مضمون سرے سے اسلام کے خلاف اور سراسر جھوٹ ہے۔ اس روایت کا صحیح ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ روایت اس طرح ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے ایک صحابی، اب ان کے نام کے بارے میں اختلاف ہے، کچھ جگہوں پر زرارہ کا نام ہے اور کچھ جگہوں پر مومن الطاق کا نام ذکر کیا گيا ہے، وہ حضرت زید سے بحث کرتے ہیں۔ حضرت زید سے کہتے ہیں کہ آپ کا خروج اور آپ کا قیام بے جا ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ چونکہ امام نے قیام نہیں کیا، اس لئے آپ کو بھی قیام کرنے کا حق نہیں تھا۔ اس طرح کی کچھ باتیں اس شخص اور حضرت زید کے درمیان ہوتی ہیں۔

بعض روایتوں میں اس طرح کا مضمون ہے اور بعض روایتوں میں ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ گویا حضرت زید نے امامت کا دعویٰ کیا ہے اور راوی حضرت زید سے کہتا ہے کہ آپ  امام نہیں ہیں بلکہ آپ کے بھائی امام ہیں اور ان کے بعد ان کے فرزند امام صادق علیہ السلام امام ہیں اور حضرت زید یہ بات نہیں مانتے بلکہ اپنی امامت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ میرے پاس ایسے کئی تاریخی شواہد ہیں، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ رواتیں جھوٹ ہیں۔ ان روایتوں سے ہم جو استنباط کریں گے، اس کے علاوہ بھی متعدد تاریخی شواہد ہیں، جو اس کے جھوٹ ہونے کا ثبوت ہیں اور یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ زید بن علی درحقیقت امام صادق علیہ السلام کی امامت کا عقیدہ رکھتے تھے۔ اس کے کچھ نمونے میں نے پہلے پیش کئے اور ان کے علاوہ بھی کئی نمونے موجود ہیں۔ یہ روایت اس طرح ہے کہ گویا حضرت زید دعوائے امامت کرتے ہیں۔ دوسرا شخص کہتا ہے کہ یہ صحیح نہیں ہے، زید امام کے چچا ہیں۔ اس روایت میں جو باتیں حضرت زید سے منسوب کی گئی ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ حضرت زید اس شخص سے کہتے ہیں کہ کس طرح میرے بھتیجے صادق امام ہوسکتے ہیں، اگر وہ امام ہوتے تو مجھے زیادہ بہتر معلوم ہوتا، کیونکہ میں اس خاندان کا حصہ ہوں، تم تو اس خاندان سے الگ ہو، پھر بھی تم سمجھ گئے اور میں نہیں سمجھ پایا۔؟

میں تو امام سجاد کا بیٹا ہوں اور میرے والد امام سجاد مجھے اپنے زانو پر بٹھاتے تھے، اپنے ہاتھ سے مجھے لقمہ کھلاتے تھے، اگر کھانا گرم ہوتا تو پہلے اسے ٹھنڈا کرتے تھے کہ مجھے تکلیف نہ ہو۔ وہ کیونکر آمادہ ہوتے کہ میں جہنم میں جاؤں اور مجھے نہ بتاتے کہ ان کے بعد ان کے فرزند باقر اور ان کے بعد ان کے فرزند صادق امام ہیں۔ میں ان کا بیٹا ہوں اور وہ مجھے اتنا چاہتے تھے کہ اپنے ہاتھ سے مجھے لقمہ کھلاتے تھے، اگر گرم ہو تو پہلے ٹھنڈا کرتے تھے کہ میرا منہ نہ جلے، مجھ سے انھوں نے نہیں کہا، لیکن تم جو ایک غیر ہو اور قریش سے کوئی تعلق نہیں رکھتے، تم کو بتا دیا اور تم سمجھ گئے؟
 اگر ایسا کچھ ہوتا تو وہ پہلے مجھے بتاتے۔
 حضرت زید سے یہ بات نقل کرتے ہیں۔ مومن الطاق کے حوالے سے یا زرارہ کے حوالے سے یا محمد بن مسلم کے حوالے سے، جو بظاہر حضرت زید کو کوئی جواب بھی دیتے ہیں۔ وہ زید سے کہتے ہیں کہ یہی وجہ جو آپ نے بیان کی کہ آپ ان کے چہیتے تھے، آپ کو وہ بہت چاہتے تھے، اسی وجہ سے آپ کو نہیں بتایا اور مجھے بتایا، کیوں؟ اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ اگر آپ کو معلوم ہوگيا کہ صادق علیہ السلام امام ہیں تو آپ ان کی مخالفت کرتے۔

چونکہ وہ آپ سے پیار کرتے تھے اور آپ ان کے پارہ جگر تھے، اس لئے آپ کو نہیں بتایا کہ اگر آپ مخالفت کریں گے تو قاصر شمار ہوں اور جہنم میں جانے سے بچ جائیں گے۔ میں چونکہ غیر ہوں، اس لئے مجھے بتا دیا کہ اگر میں مخالفت کروں اور جہنم میں جاؤں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن آپ سے انھیں ہمدردی تھی، ہم سے یہ ہمدردی نہیں تھی۔ حضرت زید نے جب یہ سنا تو خاموش ہوگئے، اب ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر وہ شخص وہاں سے اٹھ کر امام صادق علیہ السلام کے پاس جاتا ہے اور آپ کو بتاتا ہے کہ ’’آپ کے چچا زید سے میری یہ بحث ہوئی۔ انھوں نے مجھے یہ کہا اور میں نے ان کو یہ جواب دیا، پھر وہ خاموش ہوگئے۔‘‘ حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ بارک اللہ، تم نے چاروں طرح سے ان کا راستہ بند کر دیا۔ کیا آپ کے خیال میں یہ روایت صحیح ہے۔؟ اس کی سند کیا ہے، اس کا راوی کون ہے اور دوسری باتوں کے بارے میں بحث ہونا چاہیئے اور دیکھنا چاہیئے کہ اس روایت کا راوی کون ہے۔ راویوں کا سلسلہ درست ہے یا نہیں؟ مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کی سند کا جائزہ لیں، روایت کے متن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
اگر ہمیں کوئی ایسی روایت نظر آئے، جو اسلامی فکر سے مطابقت نہیں رکھتی تو ہم اس کی سند دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے۔ آئمہ علیہم السلام نے خود فرمایا ہے کہ جو بھی قرآن کے موافق ہو لے لو اور جو بھی قرآن کے خلاف ہو، اسے دیوار پر مار دو، اس پر کوئی توجہ نہ دو۔ اس روایت کا مضمون یہ ہے کہ اسلام کی مقدس شریعت میں اور آئمہ علیہم السلام کی دنیا و آخرت کی زندگی میں بھی نعوذ باللہ کینہ پروری کا ماحول ہے۔ امام اپنے فرزند زید علیہ السلام کی طرفداری کر رہے ہیں، بلا وجہ طرفداری کر رہے ہیں۔ امام اسی طرفداری کی وجہ سے انھیں حق بات نہیں بتاتے، تاکہ اگر وہ حق کی مخالفت کریں تو گنہگار قرار نہ پائیں، لیکن مومن الطاق کے سلسلے میں وہ کوئی طرفداری نہیں کرتے۔ انھیں حق سے آگاہ کر دیتے ہیں کہ اگر وہ مخالفت کریں اور جہنم میں جائیں تو کوئی حرج نہیں۔
اسلام میں اس طرح کی کسی چیز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سارے انسان مساوی ہیں اور اللہ کی نظر میں سب برابر ہیں۔ اللہ کے قریب وہی ہے، جو اس کی زیادہ عبادت کرتا ہے، اس کی زیادہ بندگی کرتا ہے، اس کی زیادہ اطاعت کرتا ہے۔ یہ چیز بے معنی ہے کہ فرزند امام کی صرف اس لئے طرفداری کی جائے کہ وہ امام کے بیٹے ہیں اور اس چیز کو قیامت میں اللہ بھی قبول کر لے گا۔ یہ ایسی بات ہے، جو اسلام کی اصلی فکر سے کوسوں دور ہے، بالکل الگ ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ امام سجاد نے اپنے فرزند زید کو نہیں بتایا تو حضرت زید خود بھی نہیں سمجھ پائے؟
شیعہ عقیدے کے اعتبار سے ایک امام کا ہونا ضروری ہے کہ نہیں؟
وہ امام کون ہے؟
کیا زید کو قاصر مانا جائے گا؟ وہ جاہل اور نادان تھے؟
وہ بھی اس قدر کہ امام باقر اور امام صادق علیہما السلام کو پہچان نہ سکیں؟
 یقیناً ایسا نہیں تھا۔ اگر پہچانتے تھے اور اس کے باوجود انھیں امام نہ مانیں تو انھیں قاصر نہیں کہا جائے گا، مقصر مانا جائے گا۔ امام سجاد علیہ السلام نے انھیں بتایا ہو یا نہ بتایا ہو، دونوں صورت میں ان کی جگہ جہنم ہے، آپ نے توجہ فرمائی۔؟

بنابریں یہ روایت ایسی ہے، جو متن کے اعتبار سے بہت ضعیف ہے اور ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔ اب اگر اس کی سند صحیح ہو تو اس روایت کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کا مفہوم ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، اس روایت کی مراد کیا ہے، یہ ہمیں نہیں معلوم، ہم اسے قبول نہیں کرسکتے۔ اگر ہم اس روایت کو مسترد نہیں کرتے، اسے ہم دیوار پر نہیں مارتے، تو کم از کم اتنا تو ضرور کہیں گے کہ اسے ہم قبول نہیں کرسکتے۔ یہ روایت جو اس شکل میں ہے اور اس مضمون کی ہے تو ہم اسے قبول نہیں کرسکتے۔ ان روایتوں کی رو سے بھی یہی بات صحیح ہے، جو اس روایت کے برخلاف ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ حضرت زید بڑے پختہ عقیدے والے انسان تھے اور امام صادق علیہ السلام سے ان کے روابط بہت اچھے تھے اور آپ امام صادق علیہ السلام کے شیعوں میں تھے۔ متن کے اعتبار سے بھی یہ روایت بڑی مبہم ہے۔

حضرت زید کی شہادت کے بعد زیدیہ فرقے کا ظہور
ایک بات اور بھی ہے کہ اگر کوئی سوال کرے کہ حضرت زید اگر اچھے انسان تھے، صحیح انسان تھے تو یہ زیدیہ فرقہ کیا کہتا ہے۔ زیدیہ فرقہ جو زید کو اپنا امام مانتا ہے، اپنا رہبر مانتا ہے، ظاہر ہے، وہ زیدیہ فرقے کے امام ہیں، تو پھر یہ فرقہ کیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں اس بات پر توجہ دینا چاہیئے کہ یہ فرقہ حضرت زید کے زمانے میں شروع نہیں ہوا۔ حضرت زید نے امامت کا دعویٰ کبھی کیا ہی نہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت عیسی بن مریم سے کہتا ہے؛
«یاعیسى ابن مرْیمءانْت قلت للنّاس اتّخذونی و أمّی الهیْن من دون اللّه»؛
"تم نے لوگوں سے کہا ہے کہ تم کو اور تمہاری ماں کو وہ خدا سمجھیں اور اللہ کو خدا نہ سمجھیں؟"
اس پر حضرت عیسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ بار الہا!
تو پاک و منزہ ہے، تو مقدس ہے، میری کیا مجال کہ میں ایسا کچھ کہوں۔ اور
«ان کنت قلته  فقد علمته»، "اگر میں نے ایسا کچھ کہا ہوتا تو اس سے تو واقف ہوتا۔" تو عالم ہے اور تو جانتا ہے کہ میں نے نہیں کہا ہے۔ اگر کچھ لوگ حضرت عیسی کو خدا مانتے ہیں تو اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی غلطی کیا ہے؟
 علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا گناہ کیا ہے کہ کچھ لوگ ان کے بارے میں غلو کرتے ہیں، انھیں خدا مان لیتے ہیں۔ زید کا گناہ کیا ہے، اگر کچھ لوگ ان کو امام مان لیتے ہیں اور امام صادق کو قبول نہیں کرتے؟ اس میں حضرت زید کا کوئی گناہ نہیں ہے۔
رہبر انقلاب کی کتاب ہمرزمان  امام حسین علیہ السلام سے اقتباس

-----

پہلی قسط کا لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=2677

دوسری قسط کا لنک

https://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=2675

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک