آئمہ علیہم السلام کے انقلابی فرزندوں کے قیام اور ان سے متعلق ابہامات(1)
آئمہ علیہم السلام کے انقلابی فرزندوں کے قیام اور ان سے متعلق ابہامات(1)
عباسی خلیفہ منصور اُن خلفاء میں سے تھا، جن پر ان امامزادوں کا بڑا دباؤ تھا۔ وہ لوگوں کے سامنے منبر پر جاتا تھا اور امام حسن علیہ السلام کی اولاد اور بقیہ امامزادوں کو جو امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی نسل سے تھے، گالیاں دیتا تھا۔ صرف انکو نہیں بلکہ انکے آباء و اجداد کو، خود امام حسن یہاں تک کہ امیرالمومنین علیہما السلام کو بھی برا بھلا کہتا تھا، حالانکہ یہی منصور کسی زمانے میں امیرالمومنین کی تبلیغ کیا کرتا تھا۔ ان انقلابیوں کو لوگوں کی نظر میں گرانے کیلئے اس نے امیر المومنین کو بھی برا بھلا کہنا اور تہمتیں لگانا شروع کر دیا۔ آپ آئمہ علیہم السلام کے دور کے انقلابی امامزادوں کی زندگی کا جائزہ لینا چاہیں تو اس قضیئے کو ایک مسلمہ اصول کے طور پر مدنظر رکھئے اور یہ ہمیشہ یاد رہے کہ امامزادوں کیخلاف روایتیں انہی دشمنوں کی گڑھی ہوئی ہیں، تاکہ اس طرح ان انقلابیوں کو لوگوں کی نظروں میں گرائیں۔ یہ ایک کلی بات تھی، جو بحث شروع کرنے سے قبل میں آپکے سامنے پیش کر دینا چاہتا تھا۔
آئمہ علیہم السلام کی زندگی کے بارے میں بحث میں ایک اہم مسئلہ جو زیر بحث آنا چاہیئے، وہ بنی امیہ اور بنی عباس کے دور میں آئمہؑ کے انقلابی فرزندوں کا قیام اور ان کی بغاوتیں ہیں۔ یہ بڑا اہم موضوع ہے اور ساتھ ہی ساتھ کافی مشکل بھی ہے۔ ہم آج یہ کوشش کریں گے کہ اس بحث کو مکمل کرکے ایک نتیجے تک پہنچ جائیں۔ مقدمے کے طور پر یہ بات ذہن میں رکھیے کہ امام باقر علیہ السلام کے زمانے سے، جہاں تک میرا مطالعہ ہے، امام علی نقی اور امام حسن عسکری علیہما السلام کے دور تک، اس پوری مدت میں جو تقریباً دو سو سال کی مدت ہے، ہر دور میں آئمہ کے کسی نہ کسی فرزند نے، امام حسن یا امام حسین علیہما السلام کے فرزندوں میں سے کسی ایک نے، بلکہ جہاں تک میرا خیال ہے، امام صادق علیہ السلام کی اولاد میں سے بھی کسی نہ کسی نے خلیفہ وقت کے خلاف قیام کیا اور کچھ لوگوں کو اپنے گرد جمع کر لیا، پھر مسلحانہ جدوجہد شروع کی۔ پھر اس بغاوت کو کچلا گیا۔ بغاوت کے کچل دیئے جانے کی وجہ عام طور پر ہر زمانے کا ایک خاص سماجی عنصر ہے۔ میں بعض قیاموں کی ناکامی کی وجہ ابھی بیان کروں گا۔ اس سلسلے میں ایک مجموعی بحث ہے اور ایک دو بغاوتوں کے سلسلے میں خاص وجوہات موجود ہیں، جو میں بیان کروں گا۔
آئمہ کے انقلابی فرزندوں کے بارے میں دو متضاد نظریات:
آئمہ کا دور گزرنے کے بعد پوری تاریخ میں شیعہ مسلک کے لئے یہ سوال ہمیشہ اٹھتا رہا کہ اماموں کی اولاد نے، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی نسل سے تعلق رکھنے والے افراد نے جو مسلحانہ جدوجہد شروع کی، وہ صحیح اقدام تھا یا غلط۔؟
1۔ آئمہ علیہم السلام کی اولاد کے قیاموں اور بغاوتوں کا صحیح ہونا
کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ بالکل صحیح اقدام تھا۔ ویسے سب کے بارے میں یہ نظریہ شاید درست نہیں ہے، بلکہ ایک شخص، دو افراد یا ایک خاص سلسلے کے بارے میں یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ ان کا اقدام درست بلکہ ضروری تھا۔ اگر یہ کام کوئی نہ کرے تو تشیع سے خارج ہو جائے گا۔ کچھ کا یہ نظریہ تھا کہ مثال کے طور پر زیدیہ یعنی جو لوگ زید کی امامت کے قائل ہوئے، ان کے عقائد میں ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ امام وہی ہے، جو مسلحانہ قیام کرے، تلوار اٹھائے اور آگے بڑھے، ورنہ وہ امام نہیں ہے۔ شیعہ مسلک میں ایک جماعت یہ بھی تھی، جو قیام کو لازمی جانتی تھی۔ اگر کوئی شخص قیام نہیں کر رہا ہے اور مسلحانہ انقلاب نہیں لاتا تو وہ امام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت زید سلام اللہ علیہ کے بعد جو چوتھے امام کے فرزند تھے، اس جماعت نے کسی کو امام نہیں مانا۔
انھوں نے امام باقر علیہ السلام کو بھی امام نہیں مانا۔ ہم جو کہہ رہے ہیں کہ امام نہیں مانا تو یہ مطلب نہیں ہے کہ اس زمانے میں موجود تھے اور انھوں نے امام ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس زمانے میں زیدیہ فرقہ تھا ہی نہیں، بعد میں وجود میں آیا۔ یہ لوگ امام باقر علیہ السلام کو امام نہیں مانتے بلکہ یحییٰ بن زید یعنی حضرت زید کے فرزند کو امام مانتے ہیں، جنھوں نے مازندران (شمالی ایران) کے علاقے میں قیام کیا اور کچھ عرصہ جنگ کرتے رہے، پھر شہید کر دیئے گئے۔ یہ سلسلہ اسی طرح بعد کے برسوں میں ہمیشہ جاری رہا۔ زیدیہ ایک جماعت تھی، بعد میں ان کی اپنی ایک فقہ بھی تیار ہوگئی، ایک خاص تاریخ اور اسلامی تعلیمات بھی معین ہوگئیں اور یہ اسلام کے دیگر فرقوں کی طرح ایک فرقے میں تبدیل ہوگیا۔ ایک گروہ یہ تھا۔
2۔ آئمہ علیہم السلام کے فرزندوں کے اقدامات غلط اور انتہاء پسندانہ تھے؟
دوسری جانب آئمہ علیہم السلام کے فرزندوں کے اقدامات کے بارے میں دوسرا نظریہ یہ تھا کہ آئمہ علیہم السلام کے فرزند انتہاء پسند تھے، ان کے قیام کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس زمانے میں فریضہ بغاوت کرنا نہیں بلکہ سکوت اختیار کرنا تھا۔ اس نظریئے کے لوگ دوسرے اماموں کی مثال پیش کرتے تھے کہ انھوں نے قیام نہیں کیا بلکہ سکوت اختیار کیا اور ظالموں اور حکمرانوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے۔ یہی نہیں انھوں نے اپنی عاجزی کا بھی اظہار کیا۔ اس طرح کی باتیں بھی آئمہ علیہم السلام کی بابت کہی جاتی تھیں۔ اسی کو بنیاد قرار دیکر ائمہ کے فرزندوں کے قیام کو غلط ٹھہراتے تھے۔ ایک جماعت اس نظریئے کے حامل افراد کی تھی۔ بدقسمتی سے شیعہ اثناء عشری مسلک کی اکثریت اس نظریئے کو مانتی تھی۔ زمانہ قدیم سے تاحال ان لوگوں میں یہی فکر رائج ہے کہ آئمہ علیہم السلام کے فرزندوں نے قیام کرکے غلطی کی۔
دوسرے نظریئے کا بطلان
جب ہم روایتوں سے رجوع کرتے ہیں، آئمہ علیہم السلام کے فرمودات یا قیام کرنے والے امام زادوں کے حالات زندگی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو تاریخ کی ان عظیم ہستیوں کی زندگی کے ایسے درخشاں پہلو سامنے آتے ہیں، جو ہم سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ یہ عامیانہ رائے جو عوام الناس کے درمیان رائج ہوگئی ہے اور وہ خود کو خواص سمجھتے ہیں! اس پر نظرثانی کریں اور یہ حقیقت سامنے لائیں کہ آئمہ علیہم السلام کے فرزندوں کا قضیہ ایسا نہیں ہے۔ آج ہماری بحث اس بارے میں ہے کہ امام صادق علیہ السلام کے دور سے لیکر بعد تک جن امام زادوں نے قیام کیا، تحریک چلائی، تلوار اٹھائی، وہ کیسے افراد تھے؟ کیا سب ایک جیسے تھے یا ہر ایک کا معاملہ دوسرے سے بالکل الگ تھا یا پھر ان میں دو تین قسمیں ہیں؟ اسی طرح ہم ان میں سے ہر ایک کو پوری طرح پہچاننے کی کوشش کریں گے۔
ظالم حکومتوں کی تہمتیں، انقلابی امام زادوں کی بدنامی کی اصلی وجہ
سب سے پہلے میں آپ حضرات کے ذہن کو امام زادوں کی بدنامی کی اصلی وجہ کی جانب متوجہ کرانا چاہتا ہوں۔ جو شخص اللہ کے لئے، امر بالمعروف، نھی عن المنکر کے لئے، عوام کے حقوق کے لئے سماج میں قیام کرتا ہے، اسے ان لوگوں کے درمیان جن کے لئے اس نے قیام کیا ہے، بدنامی کیوں ملتی ہے؟ ان کے بارے میں یہ تصور کیوں پھیلتا ہے کہ یہ ایسے افراد تھے، جن سے آئمہ علیہم السلام راضی نہیں تھے؟ سب سے پہلے میں یہ غلط تصور پیدا ہونے کی وجہ اجمالی طور پر بیان کرتا ہوں۔ آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی استبدادی قوتیں، ظالم و جابر حکمراں یہ حربہ بہت استعمال کرتے تھے کہ اپنے سنجیدہ اور بڑے مخالفین کو عوام الناس کے درمیان بدنام کرتے تھے، ان کی بے عزتی کرتے تھے۔ یہ ایک عام روش ہے۔ یہ روش پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ اگر آپ قرآن میں دیکھیں تو یہ نظر آئے گا کہ فرعون جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے یا اپنے قریبی لوگوں سے بات کرتا ہے تو حضرت موسیٰ کو فساد برپا کرنے والا انسان کہتا ہے: "انّی اخاف أن یبدّل دینکم او انْ یظهر فی الْارض الفساد" فرعون لوگوں سے کہتا ہے کہ "مجھے ڈر ہے کہ یہ انقلابی شخص موسیٰ جو آپ کے سماج میں داخل ہوا ہے، آپ کے دین کو بدل نہ دے اور آپ کے درمیان فساد نہ برپا کر دے۔"
سادہ لوح افراد جب فرعون کے منہ سے یہ بات سنیں گے تو سوچیں گے کہ فرعون کو عام لوگوں کے دین کی کتنی فکر ہے اور اس بات کی کتنی فکر ہے کہ لوگوں کے درمیان فساد برپا نہ ہو۔ وہ صرف اس خوف سے کہ لوگوں کا دین تبدیل نہ ہو جائے اور فساد برپا نہ ہو، موسیٰ، ہارون اور ان کے اعوان و انصار کو ختم کر دینا چاہتا ہے؟! مگر جو اہل فکر افراد ہیں، انھیں تو بخوبی علم ہے کہ فرعون کی لغت میں دین کے لفظ کا کوئی معنی نہیں ہے۔ اس کے نزدیک لوگوں کا دین وہی ہے، جو فرعون کی مرضی ہے اور سماجی زندگی صرف وہی ہے، جو اس نے منفعت اور مفاد پرستانہ اہداف کے تحت طے کر دی ہے۔ اسے عوام سے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کی شان و شوکت کی زندگی اسی صورت میں ممکن ہے، جب عوام کمزور ہوں۔ اگر عام لوگوں کے پاس طاقت آجائے تو فرعون کے لئے اپنی زندگی موجودہ شکل میں جاری رکھ پانا ممکن نہیں رہے گا۔
جو لوگ فرعون کی اس حقیقت سے آگاہ ہیں، ان کے لئے یہ پورا قضیہ بالکل واضح ہے کہ موسیٰ کی سرکوبی اور قتل کر دینے کا منصوبہ اس لئے نہیں ہے کہ فرعون کو لوگوں کا دین بدل جانے کا خوف ہے، اسے تو ڈر اس بات کا ہے کہ وہ خود ختم ہو جائے گا، اسے خوف ہے کہ اس کی شاہانہ زندگی ختم ہو جائے گی۔ فرعون کی یہ روش تھی اور فرعون سے پہلے بھی ظالموں کی یہ روش تھی اور فرعون کے بعد بھی تھی۔ امام زادوں کا قضیہ واضح کرنے کے لئے میں ماضی قریب کے دور کی ایک مثال پیش کرنا چاہتا ہوں، تاکہ آپ دیکھیں کہ جو روش فرعون نے اختیار کی، وہی روش اموی و عباسی خلفاء نے استعمال کی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف ایک بنیادی مزاحمتی تحریک شروع ہوئی۔ البتہ یہ گاندھی کی پیدائش سے پہلے کی بات ہے۔ یعنی اس وقت ہندوستان کے معروف رہنماء گاندھی کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔ گاندھی کے پیدا ہونے سے چالیس پچاس سال پہلے ہندوستان میں یہ تحریک شروع ہوئی۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی جانب سے جو اس وقت ہندوستان پر حکومت کرتے تھے۔
اس زمانے میں ہندوستان کے رہنماء اور حکمران مسلمان تھے، البتہ کافی کمزور ہوگئے تھے۔ ہندوستان میں مغل اور تیموری سلسلہ حکومت رفتہ رفتہ کمزور ہوگيا اور انگریز وہاں اپنی کمپنی کے ذریعے تدریجی طور پر امور اپنے قبضے میں کرتے جا رہے تھے۔ مسلمانوں کی اس تحریک کی قیادت کس کے ہاتھ میں تھی؟ اس تحریک کے رہنماء ہندوستان کے مسلمانوں کے چند معروف علماء منجملہ مولانا شاہ اسماعیل دہلوی تھے، جو ہندوستان کے بہت بڑے علماء میں سے ایک تھے۔ وہ برطانوی سامراج کے مقابلے میں مسلمانوں کی تحریک مزاحمت کے اہم رہنماء تھے۔ انھوں نے بہت لڑائیاں لڑیں، لیکن ان کی مزاحمت کی تفصیلات کہیں رقم نہیں کی گئیں۔ اس موضوع پر میری ایک مختصر تحریر ہے، وہ بھی کامل نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس وقت اور حوصلہ ہے تو مزید تحقیق کرے اور اس موضوع پر کچھ لکھے تو میرے خیال میں یہ بہت بڑی خدمت ہوگی۔
مختصر یہ کہ انگریزوں نے کوشش کی کہ ان عظیم ہستیوں کو جس طرح بھی ممکن ہو نابود کریں اور ان کی تحریک کو کچل دیں۔ جیل بھیج کر، جلا وطن کرکے، گرفتاریوں کے ذریعے، یہاں تک کہ پھانسی دیکر۔ اس طرح ان پر بہت سخت دباؤ ڈالا گيا۔ لیکن عملی طور پر ہوا یہ کہ جب وہ جیل جاتے تھے، یا جلا وطن کر دیئے جاتے تھے، یا انھیں ایذائیں دی جاتی تھیں اور وہ واپس آتے تھے تو ان سے عوام کا لگاؤ اور بھی بڑھ جاتا تھا اور ان کی تحریک میں نئی جان پڑ جاتی تھی۔ یہ ابھی ڈیڑھ سو سال پہلے کی بات ہے۔ ہمارے اپنے اس دور سے قریب کی بات ہے۔ برطانوی حکومت نے انھیں پوری طرح مٹا دینے اور ان کے پاس سے لوگوں کو منتشر کر دینے کی غرض سے ان پر کاری ضرب لگانے کے بارے میں سوچا۔ اس بارے میں کافی عرصے تک غور و فکر کا سلسلہ رہا، تحقیق کی گئی، مشیروں کی جماعت ایک ساتھ بیٹھی اور مشورے ہوئے۔
آخرکار وہ ایک نتیجے پر پہنچے اور یہ نتیجہ کسی حد تک موثر ثابت ہوا، برطانیہ کو اس سے فائدہ پہنچا۔ انھوں نے یہ ترکیب نکالی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے درمیان اور ان کی تحریک سے دلچسپی رکھنے والے دنیا کے دیگر خطوں کے مسلمانوں کے درمیان یہ افواہ پھیلا دی جائے کہ مولانا شاہ اسماعیل دہلوی اور ان کے جیسے دوسرے افراد جو تحریک چلا رہے ہیں، وہ سب وہابی ہیں۔ وہابی مشن جو ایک رجعت پسندانہ اور سامراجی مشن تھا، اس وقت نیا نیا شروع ہوا تھا۔ دشمنوں کی سازش سے ایک گروہ حجاز پر مسلط ہوگیا تھا اور وہاں موجود روضوں کو اس نے مسمار کر دیا تھا، صحابہ کی قبروں کو منہدم کر دیا تھا۔ نتیجے میں وہابیوں سے نفرت کی ایک لہر ہر جگہ پھیل گئی تھی۔ مسلمان جہاں بھی تھے، وہاں وہابیوں کے خلاف تھے، وہابیوں کے دشمن تھے۔آج کے دور سے زیادہ سخت مخالف تھے۔
آج بھی دنیا میں شیعہ و سنی دونوں کے درمیان وہابی ایک خاص نکتہ نظر رکھنے والے ہیں۔ میں نے اسی کتاب کے حاشئے پر لکھا ہے کہ وہابیت ایک رجعت پسندانہ سامراجی مشن تھا، جس کا مقصد مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت وہ واقعات تازہ تھے۔ ائمہ کی قبروں، اولیاء و صحابہ کی قبروں کو اسی وقت مسمار کیا گیا تھا۔ یہ سامراجی رجعت پسندانہ مشن اسی وقت شروع ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت ہندوستان کے مسلمان بھی جن کی اکثریت اہل سنت اور اقلیت شیعہ تھی، متفقہ طور پر وہابیوں کے مخالف تھے۔ انگریزوں نے عوام الناس کے درمیان یہ افواہ پھیلائی کہ مولانا شاہ اسماعیل دہلوی، وہ جلیل القدر عالم دین اور ان کے ہمراہ دیگر افراد سب وہابی ہیں۔
ظاہر ہے یہ ایک سازش تھی اور کچھ عرصے تک یہ سازش کارگر بھی ثابت ہوئی۔ کچھ سادہ لوح افراد اس سازش کے فریب میں آگئے اور اس سے متاثر ہوگئے اور ان بڑے رہنماؤں کو وہابی سمجھنے لگے۔ لیکن رفتہ رفتہ حقیقت آشکار ہوئی اور آج جب ہم دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ وہ وہابی نہیں انگریزوں کے مخالف تھے اور انگریز اس وقت وہابیوں کے سرپرست تھے۔ اس طرح ہندوستانی مسلمانوں کے رہنماء وہابیوں کے بھی مخالف تھے۔ آج ہماری نظر میں یہ حقیقت بالکل واضح اور آشکار ہے۔ میں نے یہ ایک مثال پیش کی کہ آئمہ علیہم السلام کے زمانے کے انقلابی امام زادوں کی صورت حال کو بخوبی سمجھ سکیں۔ آپ یہ دیکھیں کہ دشمن آئمہ علیہم السلام کے زمانے کے انقلابی امام زادوں کو بدنام اور نابود کرنے کے لئے کیسی سازشیں کرتا تھا۔ اس طرح آپ کی آگاہی بڑھے گی۔
عباسی خلیفہ منصور اُن خلفاء میں سے تھا، جن پر ان امام زادوں کا بڑا دباؤ تھا۔ وہ لوگوں کے سامنے منبر پر جاتا تھا اور امام حسن علیہ السلام کی اولاد اور بقیہ امام زادوں کو جو امیر المومنین امام علی علیہ السلام کی نسل سے تھے، گالیاں دیتا تھا۔ صرف ان کو نہیں بلکہ ان کے آباء و اجداد کو، خود امام حسن یہاں تک کہ امیر المومنین علیہما السلام کو بھی برا بھلا کہتا تھا، حالانکہ یہی منصور کسی زمانے میں امیر المومنین کی تبلیغ کیا کرتا تھا۔ ان انقلابیوں کو لوگوں کی نظر میں گرانے کے لئے اس نے امیر المومنین کو بھی برا بھلا کہنا اور تہمتیں لگانا شروع کر دیا۔ آپ آئمہ علیہم السلام کے دور کے انقلابی امام زادوں کی زندگی کا جائزہ لینا چاہیں تو اس قضیئے کو ایک مسلمہ اصول کے طور پر مدنظر رکھئے اور یہ ہمیشہ یاد رہے کہ امام زادوں کے خلاف روایتیں انہی دشمنوں کی گڑھی ہوئی ہیں، تاکہ اس طرح ان انقلابیوں کو لوگوں کی نظروں میں گرائیں۔ یہ ایک کلی بات تھی، جو بحث شروع کرنے سے قبل میں آپ کے سامنے پیش کر دینا چاہتا تھا۔
رہبر انقلاب کی کتاب ہمرزمان امام حسین (ع) سے اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی قسط کا لنک
https://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=2677
دوسری قسط کا لنک