صَحیفہ سجّادیہ (اخت القرآن)
صَحیفہ سجّادیہ امام زین العابدینؑ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے
جسے آپؑ نے امام محمد باقرؑ اور زید بن علی کو املا کیا ہے۔ یہ کتاب قرآن اور نَہجالبلاغہ کے شیعہ مکتب کی اہم ترین مکتوب میراث شمار ہوتی ہے اور "اخت القرآن" اور"اِنجیل اہلبیتؑ" جیسے ناموں سے پہچانی جاتی ہے۔
صحیفہ سجادیہ شروع میں 75 دعاؤں پر مشتمل کتاب محسوب ہوتی تھی؛ لیکن بعد کے ادوار میں اس کی چند دعائیں مفقود ہوکر صرف 54 دعائیں باقی رہ گئیں۔
صحیفہ سجادیہ کی جانب علمائے اہل سنت کی توجہ بھی مرکوز رہی ہے اور انہوں نے اس کی چند دعاؤں کو نقل کیا ہے۔ بعض مستشرقین کا خیال ہے کہ صحیفہ سجادیہ لوگوں کو اسلام کا حقیقی اور نیا چہرہ دکھا سکتی ہے۔ امام زین العابدینؑ نے اس میں اخلاقی اصول اور سماجی و سیاسی طرز زندگی کو دعا و مناجات کے قالب میں بیان کیا ہے۔ محققین کے مطابق چونکہ امام سجادؑ تقیہ کی زندگی گزار رہے تھے اس لیے آپؑ نے اسلامی تعلیمات کو دعا کی شکل میں بیان کیا ہے۔ صحیفہ سجادیہ میں امامت جیسا اہم سیاسی و دینی موضوع بھی بیان ہوا ہے۔ غاصبان خلافت کو بے نقاب کرنا، ائمہؑ کی حاکمیت اور امامت کے اصول کو فروغ دینا، دین کی حرمت کو تحفظ فراہم کرنے کی تاکید، مظلوم کی حمایت اور ظالم کا مقابلہ کرنا اس کتاب میں بیان شدہ دیگر موضوعات ہیں۔
یہ کتاب شیعوں کے یہاں مشہور بھی ہے اور مقبول خاص و عام بھی۔ بعض ماہرین حدیث نے اس کے سلسلہ سند کو تواتر کے حامل قرار دیا ہے۔ البتہ بعض فقہاء متوکل بن ہارون کی وثاقت قابل خدشہ ہونے کے سبب صحیفہ کے سارے سلسلہ سند کو معتبر نہیں سمجھتے ہیں۔
صحیفہ سجادیہ کا دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا ہے۔ ان میں سے فارسی، انگریزی، فرانسیسی، انڈونیشی، ترکی، اردو، ہسپانوی، بوسنیائی، البانوی اور تامل اس کے مشہور ترجمے ہیں۔ صحیفہ سجادیہ پر دسیوں شروحات بھی لکھی جاچکی ہیں۔ سید علی خانی مدنی کی کتاب "رِیاضُ السالکین" اس کی مشہور ترین شرح ہے۔ کچھ محققین نے امام زین العابدینؑ کی دیگر منابع میں موجود بعض دعاؤں کو الگ سے کتابوں میں جمع کی ہے۔.
نہج البلاغہ کے بعد اہم ترین کتاب
صحیفه سجادیه نہج البلاغہ کے بعد شیعوں کی سب سے اہم کتاب شمار ہوتی ہے۔[1] یہ کتاب امام زین العابدینؑ سے منقول دعاؤں کا مجموعہ ہے۔[2] ابن شہر آشوب (متوفیٰ:588ھ) کے مطابق صحیفه سجادیه اسلام کی آمد کے بعد پہلی کتابوں ممیں شامل ہے۔[3] شیعہ محقق اسلام مرتضی مطہری نے صحیفہ سجادیہ کو قرآن مجید کے بعد قدیمی ترین کتابوں میں شامل کیا ہے، ان کے خیال میں یہ کتاب مضمون اور سند دونوں لحاظ سے نہایت درجہ قابل اعتبار ہے۔[4] مرتضی مطہری کی نظر میں یہ واحد کتاب ہے جسے پہلی صدی ہجری کے اواخر اور دوسری صدی ہجری کے اوائل میں باقاعدہ کتاب کی شکل میں تدوین کی گئی ہے۔[5]
شیعہ ماہر کتاب شناس آقا بزرگ تہرانی کے مطابق صحیفه سجادیه کو "اُختُ القرآن"، "اِنجیل اہل بیت"، "زَبور آل محمد" اور "صحیفہ کاملہ" جیسے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔[6] عزالدین جزائری کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے دینی مدارس میں صحیفہ سجادیہ کی باقاعدہ تدریس کی جاتی تھی۔[7]
دوسرا نام؛ صحیفه کامله
صحیفہ سجادیہ کے شارح سید علی خان مدنی کے مطابق صحیفہ سجادیہ میں دنیوی و اخروی تمام حاجتوں کے لیے کافی دعائیں موجود ہونے یا دعا کی تمام خصوصیات کی حامل ہونے کی وجہ سے اسے "صحیفه کاملہ" کا نام دیا گیا ہے۔[8] نیز صحیفہ کاملہ کی وجہ تسمیہ میں بتایا گیا ہے کہ مذہب امامیہ اور مذہب زیدیہ کے ہاں موجود اسی نام کی کتابوں میں فرق ڈالنے کے لیے اسے صحیفہ کاملہ نام دیا گیا ہے کیونکہ زیدیوں کے پاس بھی صحیفہ کا ایک نسخہ موجود ہے جو تقریبا امامیہ کے پاس موجود نسخے کے نصف برابر ہے۔[9]
صحیفه سجادیه کی دعاؤں کی تعداد
آغاز میں صحیفہ سجادیہ میں 75 دعائیں تھیں جنہیں امامؑ نے اپنے دو فرنزدوں امام محمد باقرؑ اور زید بن علی کو املا کیا اس لیے پہلے نسخے کو دو نسخوں میں تقسیم کر کے تدوین کیا گیا۔[10] یحیی بن زید نے اپنے والد کے لکھے گئے نسخے کو متوکل بن ہارون بلخی (صحیفه سجادیه کا پہلا راوی) کے اختیار میں دیا۔[11] متوکل وہ نسخہ لے کر امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں گیا اور امام باقرؑ کے پاس موجود نسخے سے اس کا مقایسہ کیا گیا تو ان دونوں نسخوں میں کوئی فرق نہیں پایا گیا۔[12] امام صادقؑ نے اسے متوکل بن ہارون کو املا کیا اور متوکل نے اسے لکھا؛ لیکن 11 دعائیں مفقود ہوگئیں لہذا صرف 64 دعائیں باقی رہ گئیں۔[13] ان 64 دعاؤں میں سے بھی کچھ دعائیں بعد کے ادوار میں منتقل نہیں ہوئیں اس طرح موجودہ صحیفہ سجادیہ میں صرف 54 دعائیں باقی رہ گئیں۔[14]
عمیر بن متوکل فرزند متوکل واحد شخص یے جس نے صحیفہ کو اپنے والد سے نقل کیا ہے اور دیگر راویوں(1. احمد بن مسلم مطهری، 2. علی بن نعمان اعلم، 3. محمد بن صالح، 4. حسین بن اشکیب مروزی، 5. عبید الله بن فضل نبهانی، و 6. علی بن حمّاد بن علاء) نے اس سے نقل کیا ہے۔[15] صحیفه سجادیه کے متعدد نسخے موجود ہیں جس میں سے بہترین نسخہ بهاء الشَّرَف کا نسخہ ہے۔[16]
ابراہیم بن علی عاملی کفعمی کا خطی نسخہ بھی صحیفه سجادیه کے بہت پرانے نسخوں میں شامل ہے جس میں 54 دعاؤں کے علاوہ مزید 4 دعائیں زیادہ ہیں۔[17]
صحیفہ سجادیہ کے بارے میں امام خمینیؒ کی یاد داشت کا ایک حصہ جو صحیفہ سجادیہ کے اس نسخے کے حاشیے میں ہے جسے انہوں اپنے پوتے سید علی خمینی کو دیا تھا :
صحیفہ کاملہ سجادیہ قرآن صاعد کا ایک بہترین نمونہ ہے اور یہ خدا سے انس و محبت پیدا کرنے کی خلوت گاہ میں پڑھی جانے والی عظیم ترین عرفانی مناجات میں سے ہے جس کی برکات سے ہم محروم ہیں۔ یہ ایک الہی کتاب ہے جس کا منبع نور خدا ہے اور عظیم اولیاء اور عظیم الشان اوصیائے الہی کو سلوک الی اللہ کے طرز عمل کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ مقدس کتاب قرآن کی طرح آسمانی دسترخوان ہے جس میں ہر قسم کی نعمتیں موجود ہیں اور ہر کوئی اپنی روحانی ضرورت اور تقاضا کے مطابق اس سے متنعم ہوتا ہے۔ ۔
امام خمینی، صحیفه امام، 1389ہجری شمسی، ج21، ص209
سید شہاب الدین مرعشی نجفی کے نام اہل سنت عالم دین طنطاوی جوہری کے خط کا ایک حصہ :
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج تک یہ قیمتی اور لازوال کتاب-جو کہ میراث نبوت ہے- ہماری پہنچ سے دور تھی۔ میں جب بھی اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے یہ مخلوق کے کلام سے برتر اور کلام خالق سے کمتر معلوم ہوتی ہے۔ ۔
بلاغی، ترجمه صحیفه سجادیه، 1369ھ، ص249-252، به نقل از: حسینی طهرانی، امامشناسی، 1425ھ، ج15، ص41.
صحیفہ کی تشہیر
علمائے علم حدیث کے مطابق صحیفہ سجادیہ مجلسیِ اول، یعنی محمد تقی مجلسی کےدور میں مشہور ہوا۔[18] انہوں نے عالم رؤیا یا کسی مکاشفے اور امام زمان(عج) سے ملاقات میں اس کے ایک نسخے کو پایا بعد میں اسے عام کرنے میں اس حد تک کوشش کی کہ جس گھر میں قرآن موجود تھا وہاں ضرور صحیفہ سجادیہ بھی پایا جاتا تھا۔[19] محمد تقی مجلسی کے مطابق صحیفہ سجادیہ کی برکت سے اصفہان کے نصف لوگ مستجاب الدعوۃ تھے۔[20]
اسلام پر تحقیق کرنے والے محققین اور علمائے اہل سنت کا نظریہ
مصری مصنف اور محقق محمد زکی مبارک (1310-1371ھ) اپنی کتاب "اَلتَّصوفُ الاِسلامی و الاَدَبُ و الاَخلاق" میں لکھتے ہیں: صحیفہ سجادیہ حضرت عیسیٰؑ پر نازل شدہ صحیفہ آسمانی انجیل (البتہ وہ حقیقی انجیل جو حضرت عیسیٰ مسیح پر نازل ہوئی نہ کہ وہ انجیل جو آج کل عیسائیوں کے ہاں پائی جاتی ہے) کی مانند ہے، صحیفه سجادیہ فیض الہی کا چشمہ ہے جو امام زین العابدینؑ کی زبان پر جاری ہوا ہے۔[21] کتاب "خصائص الائمۃ" کے مصنف ابن جوزی(متوفیٰ:645ھ) لکھتے ہیں: علی بن الحسین، زین العابدین اللہ کی بارگاہ میں عرضِ حاجت کے سلسلے میں تمام مسلمانوں پر معلمی کا حق رکھتے ہیں؛ چنانچہ امامؑ نے لوگوں کو تعلیم دی کہ استغفار کے وقت خدا کے ساتھ کس طرح کلام کرنا ہے اور بارش طلب کرنے کے وقت کس زبان سے بارش کے نزول کی التجا کرنا ہے اور دشمن سے خوف کے وقت کس طرح اللہ کی پناہ میں چلے جانا ہے اور دشمنوں کا شر دور کرنے کے لئے اللہ سے کیسی درخواست کرنا ہے۔[22]
اہل سنت عالم دین سلیمان بن ابراهیم قندوزی (متوفیٰ: 1294ھ) نے اپنی کتاب "ینابیع المودة لذوی القربی" میں صحیفہ سجادیہ کا ذکر کرتے ہوئے اس کی کچھ دعاؤں کو نقل کیا ہے۔[23] کتاب "الجواهر فی تفسیر القرآن الکریم" کے مصنف اور اہل سنت عالم دین طنطاوی جوهری نے سنہ 1979ء میں سید شہاب الدین مرعشی نجفی سے صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ پانے کے بعد اس طرح اس کتاب کی توصیف کی ہے: اس کتاب میں موجود کلام مخلوق کے کلام پر فوقیت رکھتا ہے اور اللہ کے کلام سے کمتر ہے۔[24]
دین اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک امریکی محقق "ولیم سی چیٹک" کے مطابھ، مغرب میں زیادہ تر لوگ اسلام کو جمود، سطحی، اور لامتناہی قانون کی زنجیروں کے حامل دین کے طور پر جانتے ہیں۔ لیکن صحیفہ سجادیہ اپنے قارئین کو اسلام کا حقیقی چہرہ دکھا سکتا ہے، اسی طرح اسلام کے اعلیٰ اہداف و مقاصد کے حصول میں ممد و معاون اور انسانیت پر مبتنی نجات بخش عقیدوں کو بیان کر سکتا ہے۔[25]
کتاب کا سَنَدی اعتبار
علوم حدیث کے دانشوروں کے مطابق صحیفہ سجادیہ طول تاریخ میں شیعہ علما کے یہاں مشہور اور مقبول کتاب کے طور پر نسل در نسل چلا آرہا ہے اور شیخ طوسی، قطب الدین راوندی، شہید اول اور ابراهیم بن علی عاملی کفعمی جیسے برجستہ علما نے اپنی تصنیفات میں اس کتاب سے دعائیں نقل کی ہیں۔[26] کتاب بِحارُ الاَنوار کے مولف محمد باقر مجلسی[27] اسی طرح آقا بزرگ تہرانی جیسے علما نے صحیفه سجادیه کے سلسلہ سند کو متواتر قرار دیا ہے؛ کیونکہ اس کتاب کے مطالب کی نقل کے سلسلے میں قرار پانے والے سارے راوی حضرات تمام طبقات میں اجازہ نقل روایت کے حامل افراد تھے۔[28]
محمد تقی مجلسی نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس صحیفہ سجادیہ کی نقل کے سلسلے میں دس لاکھ اسناد موجود ہیں۔[29] انہوں نے زیدیہ کے پاس بھی اسے متواتر محسوب کیا ہے۔[30] محمد تقی مجلسی کا کہنا ہے کہ صحیفہ سجادیہ کے عالی مرتبہ مضامین اور بے حد درجہ فصاحت سے بھر پور مضامین پر مشتمل ہونے اور حقائق و علوم الہی کا سرچشمہ ہونے کے ناطے اس کے کلمات امام زین العابدین سے صادر ہونے میں کوئی شک باقی نہیں رہتا۔[31] بعض علما نے مجلسی کی بات کا استناد کرتے ہوئے صحیفہ سجادیہ میں موجود مطالب کو مستفیض یا متواتر جانا ہے۔[32]
سندی لحاظ سے مذکورہ مطالب کے باوجود بعض محققین نے اس کتاب کے اصلی راویوں میں عدم کثرت کی وجہ سے اس کے متواتر ہونے کے دعویٰ کو نادرست قرار دیا ہے۔[33] ابو القاسم خوئی نے بھی کتاب کے اصلی راوی متوکل بن ہارون کی وثاقت کو نامعلوم جانا ہے۔[34] امام خمینیؒ کے مطابق صحیفہ سجادیہ بلاغت و فصاحت کا حامل ہونے اور اس کے متعالی مضامین کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے امام سجادؑ سے منقول ہونے کا یقین کرسکتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس میں موجود تمام مطالب کو یقینی طور پر امامؑ سے منسوب نہیں کرسکتے ہیں اور ان کو حجت نہیں مان سکتے ہیں۔[35] مجتہدین اور مفسرین کی ایک بڑی تعداد نے اپنی تصنیفات اور استدلالات میں صحیفہ سجادیہ سے استناد کیا ہے۔[36] ابوا لمَعالی کَلباسی (متوفیٰ: 1315ھ) نے ایک مستقل رسالہ اس کی سند کی تحقیق کے سلسلے میں تصنیف کیا ہے۔[37] یہ رسالہ "کتاب الرَّسائلُ الرِّجالیه" کے ضمیمے کے طور شائع کیا گیا ہے۔[38]
نسخه جات اور اشاعتیں
صحیفہ سجادیہ ان کتابوں میں سے ہے جن کے بکثرت خطی نسخے موجود ہیں۔[39] صرف ایران میں اس کے 3 ہزار سے زیادہ خطی نسخے پائے جاتے ہیں۔[40] صحیفہ سجادیہ کا ایک بہت پرانا نسخہ (تاریخ کتابت: 695ھ) آیت اللہ مرعشی نجفی کے کتب خانے میں محفوظ کیا یا ہے۔[41] حرم امام رضاؑ کی تعمیر نو کے دوران صحیفہ سجادیہ کا ایک نسخہ ملا جس پر تاریخ کتابت 416ھ تحریر ہے،[42] اس نسخے کے مطابق صحیفہ کے سارے راوی اہل سنت سے تعلق رکھتے ہیں۔[43] آستان قدس رضوی نے اس نسخے کو؛ جو دیگر مشہور نسخوں کی بنسنبت نامکمل ہے؛ شائع کیا ہے۔[44]
سید مرتضیٰ نجومی کہتے ہیں کہ ہمارے ایک رشتہ دار نے صحیفہ سجادیہ کے ایک اصلی نسخہ کو جسے زید بن علی کے قلم سے تحریر کیا گیا ہے؛ روم کے ویٹیکن سٹی کے کتب خانے میں دیکھا ہے۔[45] احتمال دیا گیا ہے کہ صحیفہ سجادیہ ایک اور اصلی نسخہ جسے امام محمد باقر علیہ السلام کے قلم سے تحریر کیا گیا ہے؛ ودایع امامت میں قرار پایا ہے اور ابھی امام مہدی(عج) کے پاس موجود ہے۔[46]
صحیفہ سجادیہ پہلی بار سنہ 1248ھ کو ہندوستان کے کلکتہ شہر میں شائع ہوا۔[47] اس کے بعد مختلف ادوار میں اس کے مختلف ترجمے اور شروحات اسی شہر سے شائع ہوئے۔[48] نیز ایران میں سنہ1262ھ کو، مصر میں سنہ 1322ھ کو، دمشق میں سنہ1330ھ کو اور عراق میں سنہ 1352ھ کو صحیفہ سجادیہ پہلی بار شائع ہوا۔[49]
مندرجات
بعض محققین کے قول کے مطابق صحیفہ سجادیہ میں موجود دعاؤں کے مضامین توحیدی ہیں اور ان ادعیہ کا اصلی موضوع درگاہ الہی میں تضرع کا اظہار کرنا ہے۔[50] امام زین العابدینؑ نے صحیفہ سجادیہ میں اخلاقی اصول اور سماجی و سیاسی طرز زندگی کو دعا اور مناجات کی شکل میں پیش کیا ہے؛[51] امامؑ نے مذکورہ مطالب کو ان دعاؤں میں اس انداز میں بیان کیا ہے کہ لوگ امامؑ کے سیاسی و سماجی نقطہ نظر سے آگاہی حاصل کریں۔[52] امام سجادؑ کا اسلامی تعلیمات اور الہی معارف کو دعاؤں کے انداز میں بیان کرنے کی وجہ یہ تھی کہ امامؑ ایک گٹھن ماحول میں زندگی گزار رہے تھے، مخصوصا عبد الملک بن مروان[53]) جیسے حاکموں کے دور میں آپؑ تقیہ کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔[54] صحیفہ سجادیہ میں بہت کم ایسی دعائیں ہیں جن میں درود و صلوات کا ذکر نہ ہوا ہو۔[55] رسول جعفریان کے قول کے مطابق ان دعاؤں میں درود کا استعمال شیعہ عقیدہ اور تفکر کے عین مطابق ہے؛ کیونکہ صلوات کے ذریعے حضرت محمدؐ اور آلؑ محمدؐ کے مابین رابطہ بیان ہوتا ہے۔[56]
صحیفہ سجادیہ میں بیان شدہ ایک دینی اور سیاسی اہم موضوع، امامت سے متعلق مطالب ہیں[57] چنانچہ امام سجادؑ نے خلافت کے سلسلے میں شیعہ ائمہؑ کو اس منصب کے حقدار کے طور پیش کیا ہے اور اماموں کو علم انبیاء اور عصمت کے حامل قرار دیے ہیں۔[58] حق خلافت کے سلسلے میں حق پر مبنی عقیدے کا بیان، ائمہؑ کی حکمرانی کی فکر کو فروغ دینا، حرمت دین کی حفاظت اور باطل کا مقابلہ کرنے پر زور دینا، مظلوم کی حمایت اور ظالم کا مقابلہ کرنا، کچھ دیگر سیاسی مسائل میں سے ہیں جن کا بیان صحیفہ سجادیہ میں آیا ہے۔[59] جعفر سبحانی کا کہنا ہے کہ صحیفہ سجادیہ میں کچھ علمی معجزات کا تذکرہ بھی ہوا ہے جن کو اس زمانے کے لوگ نہیں جانتے تھے؛[60] جیسے پانی کے ذریعے کسی وبا کا پھیلنا، جس کا تذکرہ اس دعا میں ہوا ہے:
"اللَّهُمَّ وَ امْزُجْ مِیاهَهُمْ بِالْوَبَاءِ:
ے اللہ! ان (دشمن) کے پانی میں وبا کی آمیزش کر دے"[61]
امام زین العابدینؑ :
بار پروردگارا! اہل بیت محمد(ص) پر درود بھیج؛ جن کو تو نے حکومت کے لئے منتخب کیا اور اپنے علوم کا خزانہ اور دین کا محافظ مقرر کیا اور روئے زمین پر انہیں خلیفہ اور اپنے بندوں پر حجت کے عنوان سے متعین کیا؛ انہیں اپنے ارادے سے، ہر پلیدی اور آلودگی سے پاک و منزہ قرار دیا اور انہیں اپنے ارادے سے ہر ناپاک کرنے والی شیئے سے پاک کردیا اور انہیں اپنے مقام قرب اور بہشت بریں تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا۔
صحیفۂ سجادیہ، دعا نمبر 47 فقرہ 56۔
ادعیہ صحیفہ سجادیہ کی فہرست
صحیفہ سجادیہ کی بعض دعائیں مخصوص ایام میں پڑھی جاتی ہیں؛ جیسے دعائے عرفہ، دعائے وداع رمضان اور دعائے رؤیت ہلال اور بعض دعائیں ایسی ہیں جن کے لیے کوئی خاص دن نہیں۔ [62] صحیفہ سجادیہ میں مجموعا 54 دعائیں ہیں جس کی فہرست درج ذیل ہے:
1۔ اللہ کی حمد و ثنا
2۔ محمدو آل محمد پر درود
3۔ حاملین عرش اور مقرب فرشتوں پر درود
4۔ انبیاء کے پیروکاروں پر درود
5۔ اپنے آپ اور رشتہ داروں کے لئے دعا
6۔ صبح و شام کی دعا
7۔ دشواریوں اور نآگواریوں سے پناہ
8۔ سختیوں اور غیرپسندیدہ اخلاق سے پناہ
9۔ شوق استغفار
10۔ خدا کی پناہ
11۔ انجام بخیر ہونا
12۔ اعتراف اور توبہ
13۔ طلب حاجت
14۔ ظلم سے دادخواہی
15۔ بوقت بیماری
16۔ طلب مغفرت
17۔ شر شیطان
18۔ مصائب سے بچاؤ
19۔ طلب باران
20۔ مکارم الاخلاق
21۔ خطاؤں کا غم
22۔ سختیوں کے وقت
23۔ تندرستی
24۔ والدین
25۔ اولاد
26۔ پڑوسی اور دوست
27۔ مرزداران
28۔ خدا کی پناہ مانگنا
29۔ رزق
30۔ ادائے قرض
31۔ توبہ
32۔ تہجد کےوقت کی دعا
33۔ خیر کی طلب
34۔ گناہوں میں ابتلا
35۔ راضی بہ قضا ہونا
36۔ بجلی گرنے کے وقت
37۔ شکر کرنے میں کوتاہی
38۔ ظلم سے اعتذار
39۔ عفو و رحمت طلب کرنا
40۔ موت کی یاد
41۔ گناہوں سے پردہ پوشی
42۔ ختم قرآن
43۔ رؤیت ہلال
44۔ استقبال رمضان
45۔ وداع رمضان
46۔ عید فطر اور جمعہ
47۔ دعائے عرفہ
48۔ عید الضحی و جمعہ
49۔ دشمنوں کی حیلہ گری کا تقابل
50۔ خوف خدا
51۔ خدا کے آگے انکسار
52۔ دعا پر اصرار
53۔ خدا کے آگے انکسار
54۔ غموں اور اندیشوں کا ازالہ۔
ترجمے
آج تک صحیفہ سجادیہ کے متعدد تراجم مختلف زبانوں میں شائع ہوئے ہیں جن میں اردو ترجموں کے علاوہ فارسی میں انجام پانے والے 60 تراجم اور شروح بھی شامل ہیں۔ نیز صحیفہ کے تراجم انگریزی، فرانسیسی، ترکی، ہسپانوی، بوفرانسیسی، بوسنیائی، البانیائی، تامل[63]روسی، برمائی، کردی، کرمانجی[64] اور دیگر زبانوں میں بھی اس کے تراجم شائع ہوئے ہیں۔ بعض تراجم کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
• اردو تراجم:
اردو تراجم میں سید محمد ہارون، سید علی مجتہد، مفتی جعفر حسین، سید مرتضیٰ حسین، نسیم امروہوی اور ذیشان حیدر جوادی کے تراجم قابل ذکر ہیں۔ جن کی اپنی اپنی خصوصیات ہیں مثال کے طور پر علامہ سید علی کے ترجمے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس پر دیگر علماء نے مقدمے لکھے ہیں؛ مفتی جعفر حسین نے ہر دعا کے اختتام پر اس کے مضمرات کی تشریح کی ہے اور نسیم امرہوی نے دعاؤں کےالفاظ کی تشریح کی ہے۔[65]
• فارسی تراجم:
• ترجمہ فارسی؛ ابوالحسن شعرانی کے قلم سے؛[66]
• ترجمہ فارسی؛ عبدالمحمد آیتی کے قلم سے؛[67]
• ترجمہ فارسی؛ مہدی الہی قمشہ ای کے قلم سے؛[68]
• ترجمہ فارسی به قلم محمدمهدی فولادوند، با عنوان «پیشوای چهرهبرخاکسایندگان»؛[69]
• دیگر زبانوں کے تراجم:
• ترجمہ فرانسیسی؛ فریده مہدوی دامغانی؛ عنوان:"Les Psaumes De L'islam»؛[70]
• ترجمہ تاجیکی؛ ملا معروف استروشنین کے قلم سے؛[71]
• ترجمہ ترکی آذری؛ رسول اسماعیلزاده کی کوششوں سے؛[72]
شروحات، تعلیقات اور تکملے
آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب"کتاب الذریعہ" میں صحیفہ سجادیہ کے تقریبا 70 شروحات کا نام لیا ہے۔[73] مشہور ترین شرح "ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سید الساجدین (کتاب)" ہے جسے سید علی خان کبیر نے تحریر کی ہے۔ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ پرانی شرح جو فی الحال دسترس میں ہے وہ "اَلفَوائدُ الشَّریفة فی شَرحِ الصَّحیفه" ہے جسے ابراہیم بن علی عاملی کفعمی نے لکھی ہے۔[74] کچھ دیگر شروحات درج ذیل ہیں:
• "ترجمہ و شرح صحیفہ کاملہ سجادیہ"؛ جسے سید علی نقی فیض الاسلام نے لکھا ہے؛[75]
• "تفسیر و شرح صحیفہ سجادیہ"؛ جسے حسین انصاریان نے تحریر کیا ہے؛[76]
• "شہود و شناخت"؛ یہ حسن ممدوحی کرمانشاہی کا قلمی اثر ہے؛[77]
• "ریاضُ العارفین فی شَرحِ صحیفةِ سیدِ السّاجدین"؛ جسے محمد بن محمد دارابی نے لکھا ہے؛[78]
• "شرحُ الصَّحیفةِ السَّجادیه"؛ جسے سید محمد حسین حسینی جلالی نے لکھا ہے۔[79]
امام زین العابدینؑ سے منقول دعائیں صحیفہ سجادیہ میں موجود دعاؤں سے کہیں زیادہ ہیں۔[80] بعض علما کی کوششوں کے بدولت امامؑ کی صحیفہ سجادیہ میں غیر موجود دعاؤں کو دیگر منابع و مآخذ سے نکال کر ایک مستقل کتاب کی صورت میں شائع کیا ہے۔[81] یہ کتابیں "الصَّحیفةُ السَّجادیةُ الثَّانیه" (مصنف:شیخ حر عاملی)، "الصَّحیفةُ السَّجادیةُ الثّالثه" (مولف: عبد الله بن عیسی افندی)، "الصَّحیفةُ السَّجادیةُ الرَّابعه" (بہ کوشش: میرزا حسین نوری)، "الصَّحیفةُ السَّجادیة الخامسه" (تالیف: سید محسن امین) اور "الصَّحیفةُ السَّجادیةُ السّادسه" (مصنف: محمد صالح حائری مازندرانی) کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔[82] سید محمد باقر موحد ابطحی نے "صحیفہ سجادیہ کاملہ" کے نام سے ایک کتاب تحریر کی ہے جس میں امام سجادؑ کی 272 دعاؤں کو جمع کیا ہے۔[83] محمد باقر مجلسی نے امامؑ کی چند دعاؤں کو صحیفہ سجادیہ کے آخر میں "مُلحَقات صحیفہ" کے عنوان سے اضافہ کیا ہے، یہ اسی نام سے مشہور ہوگئی۔[84] صحیفہ سجادیہ کے اکثر خطی نسخہ جات میں یہ "ملحقات" کا ضمیمہ موجود ہے۔[85]
متعلقہ آثار
صحیفہ سجادیہ کی کتابیات کے سلسلے میں بعض کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں سے مجید غلامی جلیسہ کی کتاب "پژوہشنامہ صحیفہ سجادیہ" اور سلمان حبیبی و مختار شمسالدینی کی لکھی گئی کتاب "کتابشناسی امام سجاد، صحیفہ سجادیہ و رسالہ حقوق" کا نام لیا جاسکتا ہے۔[86] نیز صحیفہ سجادیہ کی موضوعاتی فہرست نگاری کے سلسلے میں بھی بعض کتابیں تحریر کی گئی ہیں:
• الدَّلیلُ اِلی موضوعاتِ الصَّحیفۃ السَّجادیہ؛ مولف: محمدحسین مظفر: اس کتاب میں صحیفہ سجادیہ میں بیان شدہ موضوعات کو 19 کلی ابواب میں تقسیم کیا ہے اور ان کلی موضوعات کے مزید جزئی موضوعات بنائے ہیں۔ [87] اس کتاب کو سنہ1403ھ میں "دفتر انتشارات اسلامی قم" نے شائع کیا ہے۔[88]
• "فرہنگنامہ موضوعی صحیفہ سجادیہ"؛ تألیف: سیداحمد سجادی و دیگران: اس کتاب میں صحیفہ میں بیان شدہ موضوعات کو حروف تہجی کی ترتیب سے بیان کیا ہے، "مؤسسہ فرہنگی مطالعاتی الزهرای قم" نے اسے سنہ 2006ء میں 3جلدوں میں شائع کیا ہے۔[89]
• نمایہ نامہ موضوعی صحیفہ سجادیہ؛ مصنفین: مصطفی درایتی و دیگران: یہ کتاب سنہ1998ء میں "مرکز اطلاعات و مدارک علمی ایران" نے 2 جلدوں میں شائع کیا ہے۔[90]
• حدیث بندگی؛ مصنف: سید کاظم ارفع: اس کتاب میں مصنف نے صحیفہممی بیان شدہ مطالب کو حروج تہجی کی ترتیب سے تشریح کی ہے۔[91] این اثر را انتشارات فیض کاشانی در تهران، در سال 1388ش منتشر کرده است.[92]
• المُعجَمُ الْمُفَهرَسُ لِاَلفاظِ الصَّحیفةِ الْکاملہ؛ مولف:سید علیاکبر قرشی: اس کتاب کو "انتشارات دار التبلیغ اسلامی قم" نے سنہ1964ء میں شائع کیا ہے۔[93]
• المُعجَمُ الْمُفَهرَسُ لِاَلفاظِ الصَّحیفةِ السَّجادیہ؛ مصنفہ: فاطمہ احمدی: اس کتاب کو سنہ 2015ء میں "انتشارات اسوه" نے شائع کیا ہے۔[94]
حوالہ جات
1. ↑ پیشوایی، سیره پیشوایان، 1397ہجری شمسی، ص281.
2. ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعه، 1403ھ، ج15، ص18-19.
3. ↑ ابنشهرآشوب، معالم العلما، 1380ھ، ص2.
4. ↑ مطهری، فلسفه اخلاھ، 1390ہجری شمسی، ص36.
5. ↑ مطهری، فلسفه اخلاھ، 1390ہجری شمسی، ص36.
6. ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعه، 1403ھ، ج15، ص18-19.
7. ↑ جزائری، شرح الصحیفة السجادیه، 1402ھ، ص19.
8. ↑ مدنی، ریاض السالکین، 1409ھ، ج1، ص100.
9. ↑ حکیم، اعلام الهدایة، 1425ھ، ج6، ص211.
10. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص134.
11. ↑ صحیفه سجادیه، مقدمه.
12. ↑ صحیفه سجادیه، مقدمه.
13. ↑ صحیفه سجادیه، مقدمه.
14. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص134.
15. ↑ عمادی حائری، «صحیفه سجادیه»، ص394-395.
16. ↑ صدرایی خویی، فهرستگان نسخههای خطی حدیث، 1382ہجری شمسی، ج9، ص456.
17. ↑ خبرگزاری ایکنا، «صحیفه سجادیه کفعمی در مشهد رونمایی شد».
18. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص136.
19. ↑ مجلسی، روضة المتقین، 1406ھ، ج14، ص421.
20. ↑ مجلسی، روضة المتقین، 1406ھ، ج14، ص421-422.
21. ↑ زکی مبارک، التصوف الاسلامی و الادب و الاخلاھ، 2004ء، ج2، ص65.
22. ↑ منقول از: مقدمه مرعشی بر صحیفه، ص43-45.
23. ↑ ملاحظہ کریں: قندوزی، ینابیع الموده، 1422ھ، ج3، ص411-430.
24. ↑ بلاغی، ترجمه صحیفه سجادیه، 1369ھ، ص249-252، به نقل از: حسینی طهرانی، امامشناسی، 1425ھ، ج15، ص41.
25. ↑ چیتیک، «مقدمهای بر صحیفه سجادیه»، ص85-86.
26. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص134.
27. ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج107، ص59.
28. ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعه، 1403ھ، ج15، ص18–19.
29. ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج107، ص50.
30. ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج107، ص59.
31. ↑ مجلسی، بحار الانوار، 1403ھ، ج107، ص59.
32. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص137.
33. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص137.
34. ↑ خویی، معجم رجال الحدیث، مؤسسة الخوئی الاسلامیة، ج15، ص185.
35. ↑ خمینی، المکاسب المحرمه، 1415ھ، ج1، ص481.
36. ↑ ملاحظہ کریں: شهید ثانی، الروضة البهیّه، 1410ھ، ج2، ص273؛ بحرانی، حدائق الناضره، 1405ھ، ج16، ص390؛ نجفی، جواهر الکلام، دار احیاء التراث العربی، ج11، ص158؛ انصاری، کتاب المکاسب، 1415ھ، ج1، ص338؛ مشهدی، تفسیر کنز الدقائھ، 1368ہجری شمسی، ج2، ص237؛ طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج1، ص409.
37. ↑ کلباسی، الرسائل الرجالیة، 1422ھ، ص559-624.
38. ↑ نگاه کنید: کلباسی، الرسائل الرجالیة، 1422ھ، ص559-624.
39. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص136.
40. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص136.
41. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص136.
42. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص136.
43. ↑ حسینی طهرانی، امامشناسی، 1425ھ، ج15، ص110.
44. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص137.
45. ↑ فهری زنجانی، شرح و ترجمه صحیفه سجادیه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص20.
46. ↑ فهری زنجانی، شرح و ترجمه صحیفه سجادیه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص20.
47. ↑ جلیسه، «نگاهی اجمالی بر چاپهای صحیفه سجادیه در دوره قاجار و پهلوی»، ص307.
48. ↑ جلیسه، «نگاهی اجمالی بر چاپهای صحیفه سجادیه در دوره قاجار و پهلوی»، ص307-308.
49. ↑ جلیسه، «نگاهی اجمالی بر چاپهای صحیفه سجادیه در دوره قاجار و پهلوی»، ص308.
50. ↑ عمادی حائری، «صحیفه سجادیه»، ص392.
51. ↑ سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، 1395ہجری شمسی، ج6، ص406.
52. ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1387ہجری شمسی، ص274.
53. ↑ انصاری، اهل البیت(ع)، 1428ھ، ص279.
54. ↑ خلجی، اسرار خاموشان، 1383ہجری شمسی، ج1، ص127.
55. ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1387ہجری شمسی، ص274.
56. ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1387ہجری شمسی، ص274.
57. ↑ جعفریان، حیات فکری و سیاسی امامان شیعه، 1387ہجری شمسی، ص275.
58. ↑ ملاحظہ کریں: صحیفه سجادیه، دعای 47، فقره 56؛ دعای 48، فقره 9-10؛ و دعای 34.
59. ↑ ترابی، امام سجاد(ع) جمال نیایشگران، 1373ہجری شمسی، ص286-287.
60. ↑ سبحانی، فرهنگ عقاید و مذاهب اسلامی، 1395ہجری شمسی، ج6، ص407.
61. ↑ صحیفه سجادیه، دعای بیست و هفتم.
62. ↑ عمادی حائری، «صحیفه سجادیه»، ص392.
63. ↑ حبیبی و شمسالدینی، کتابشناسی امام سجاد، صحیفه سجادیه و رساله حقوھ، 1394ہجری شمسی، ص273-293.
64. ↑ کرمانی و روزبه، آینه آثار: کارنامه ترجمه مجمع جهانی اهلبیت، 1401ہجری شمسی، ص17.
65. ↑ صحیفہ کاملہ سجادیہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام۔
66. ↑ شعرانی، صحیفه سجادیه، 1393ش.
67. ↑ آیتی، صحیفه سجادیه، 1375ش.
68. ↑ الهی قمشهای، صحیفه سجادیه، 1389ش.
69. ↑ فولادوند، پیشوای چهره بر خاکسایندگان، 1379ش.
70. ↑ مهدوی دامغانی، Les Psaumes De L'islam، الهدی.
71. ↑ حبیبی و شمسالدینی، کتابشناسی امام سجاد، صحیفه سجادیه و رساله حقوھ، 1394ہجری شمسی، ص289.
72. ↑ حبیبی و شمسالدینی، کتابشناسی امام سجاد، صحیفه سجادیه و رساله حقوھ، 1394ہجری شمسی، ص290.
73. ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعه، 1403ھ، ج3، ص345-359.
74. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص138.
75. ↑ فیض الاسلام، ترجمه و شرح صحیفه کامله سجادیه، 1376ش.
76. ↑ انصاریان، تفسیر و شرح صحیفه سجادیه، 1383ش.
77. ↑ ممدوحی، شهود و شناخت، 1388ش.
78. ↑ دارابی، ریاض العارفین فی شرح صحیفه سید الساجدین، 1421ق.
79. ↑ حسینی جلالی، شرح الصحیفة السجادیه، 1436ق.
80. ↑ طباطبایی، تاریخ حدیث شیعه، 1388ہجری شمسی، ج1، ص134.
81. ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعه، 1403ھ، ج15، ص19-21.
82. ↑ آقابزرگ تهرانی، الذریعه، 1403ھ، ج15، ص19-21.
83. ↑ موحد ابطحی، الصحیفة السجادیة الکاملة، 1413ق.
84. ↑ صدرایی خویی، فهرستگان نسخههای خطی حدیث، 1382ہجری شمسی، ج9، ص456.
85. ↑ صدرایی خویی، فهرستگان نسخههای خطی حدیث، 1382ہجری شمسی، ج9، ص456.
86. ↑ ملاحظہ کریں: غلامی جلیسه، پژوهشنامه صحیفه سجادیه، 1390ش؛ حبیبی و شمسالدینی، کتابشناسی امام سجاد، صحیفه سجادیه و رساله حقوھ، 1394ش.
87. ↑ ملاحظہ کریں: مظفر، الدلیل إلی موضوعات الصحیفة السجادیه، 1403ق.
88. ↑ مظفر، الدلیل إلی موضوعات الصحیفة السجادیه، 1403ق.
89. ↑ سجادی و دیگران، فرهنگنامه موضوعی صحیفه سجادیه، 1385ش.
90. ↑ درایتی و دیگران، نمایهنامه موضوعی صحیفه سجادیه، 1377ش.
91. ↑ ارفع، حدیث بندگی، 1388ش.
92. ↑ ارفع، حدیث بندگی، 1388ش.
93. ↑ قرشی، المعجم المفهرس لألفاظ الصحیفة الکامله، 1343ش.
94. ↑ احمدی، المعجم المفهرس لالفاظ الصحیفة السجادیه، 1394ش.
مآخذ
o صحیفہ سجادیہ.
o آقابزرگ تہرانی، محمدمحسن، الذریعة الی تصانیف الشیعہ، بیروت، دارالاضواء، 1403 ھ۔
o آیتی، عبدالمحمد، ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، سروہجری شمسی، 1375ہجری شمسی۔
o ابنشہرآشوب، محمد بن علی، معالم العلماء فی فہرست کتب الشیعة و أسماء المصنفین منہم قدیما و حدیثا، نجف، المطبعة الحیدریہ، 1380ھ۔
o احمدی، فاطمہ، المعجم المفہرس لالفاظ الصحیفة السجادیہ، تہران، نشر اسوہ، 1394ہجری شمسی۔
o ارفع، سید کاظم، حدیث بندگی، تہران، فیض کاشانی، 1388ہجری شمسی۔
o الہی قمشہای، مہدی، ترجمہ صحیفہ سجادیہ، قم، طوبای محبت، 1389ہجری شمسی۔
o امام خمینی، سید روحاللہ، صحیفہ امام، تہران، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، 1389ہجری شمسی۔
o انصاری، محمد، اہل البیت(ع)، قم، مجمع الفکر الاسلامی، 1428ھ۔
o انصاری، مرتضی، کتاب المکاسب، قم، کنگرہ جہانی بزرگداشت شیخ اعظم انصاری، 1415ھ۔
o انصاریان، حسین، تفسیر و شرح صحیفہ سجادیہ، قم، دار العرفان،1383ہجری شمسی۔
o بحرانی، یوسف بن احمد، حدائق الناضرة فی احکام العترة الطاہرة، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1405ھ۔
o پیشوایی، مہدی، سیرہ پیشوایان، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، 1397ہجری شمسی۔
o ترابی، احمد، امام سجاد(ع) جمال نیایشگران، مشہد، بنیاد پژوہشہای اسلامی،1373ہجری شمسی۔
o جزائری، عزالدین، شرح الصحیفة السجادیہ، بیروت، دارالتعارف للمطبوعات، 1402ھ۔
o جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، قم، انصاریان، 1387ہجری شمسی۔
o جلیسہ، مجید، «نگاہی اجمالی بر چاپہای صحیفہ سجادیہ در دورہ قاجار و پہلوی»، نشریہ آینہ پژوہہجری شمسی، دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، ش187، فروردین و اردیبہشت 1400ہجری شمسی۔
o چیتیک، ویلیام، «مقدمہای بر صحیفہ سجادیہ»، ترجمہ: صفری، وحید، در مجلہ علوم حدیث، شمارہ 41، پاییز 1385ہجری شمسی۔
o حبیبی، سلمان و مختار شمسالدینی مطلھ، کتابشناسی امام سجاد(ع)، صحیفہ سجادیہ و رسالہ حقوھ، قم، مجمع جہانی اہل بیت، 1394ہجری شمسی۔
o حسینی جلالی، محمدحسین، شرح الصحیفة السجادیہ، کربلا، العتبة الحسینیة المقدسہ، 1436ھ۔
o حسینی طہرانی، سید محمدحسین، امامشناسی، مشہد، انتشارات علامہ طباطبایی، 1425ھ۔
o حکیم، سید منذر، و دیگران، اعلام الہدایة، قم، مجمع جہانی اہل بیت(ع)، 1425ھ۔
o خلجی، محمدتقی، اسرار خاموشان، پرتو خورشید، قم، 1383ہجری شمسی۔
o خمینی، سید روحاللہ، المکاسب المحرمہ، مؤسسہ تنظیم و نشر آثار امام خمینی(رہ)، 1415ھ۔
o خویی، سید ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواة، قم، مؤسسة الخوئی الاسلامیة، بیتا.
o دارابی، محمد، ریاض العارفین فی شرح صحیفہ سید الساجدین، تہران، نشر اسوہ، 1421ھ۔
o درایتی، مصطفی، و دیگران، نمایہنامہ موضوعی صحیفہ سجادیہ، تہران، مرکز اطلاعات و مدارک علمی ایران، 1377ہجری شمسی۔
o زکی مبارک، محمد، التصوف الاسلامی و الادب و الاخلاھ، قاہرہ، المکتبة الثقافیة الدینیة، 2004ء۔
o سبحانی، جعفر، فرہنگ عقاید و مذاہب اسلامی، قم، توحید، 1395ہجری شمسی۔
o سجادی، سیداحمد، و دیگران، فرہنگنامہ موضوعی صحیفہ سجادیہ، قم، مؤسسہ فرہنگی مطالعاتی الزہرا، 1385ہجری شمسی۔
o شعرانی، ابوالحسن، ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، شرکت چاپ و نشر بینالملل، 1393ہجری شمسی۔
o شہید ثانی، زینالدین بن علی، الروضة البہیّة فی شرح اللمعة الدمشقیة، حاشیہ: کلانتر، سید محمد، قم، انتشارات داوری، 1410ھ۔
o صدرایی خویی، علی، فہرستگان نسخہہای خطی حدیث و علوم حدیث شیعہ، قم، دار الحدیث 1382ہجری شمسی۔
o طباطبایی، سید محمدکاظم، تاریخ حدیث شیعہ، تہران، سمت، 1388ہجری شمسی۔
o طباطبایی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، قم، مؤسسة النشر الاسلامی، 1417ھ۔
o عمادی حائری، سید محمد، «صحیفہ سجادیہ»، در دانشنامہ جہان اسلام، ج29، تہران، بنیاد دایرة المعارف اسلامی، 1400ہجری شمسی۔
o غلامی جلیسہ، مجید، پژوہشنامہ صحیفہ سجادیہ، قم، دلیل ما، 1390ہجری شمسی۔
o فولادوند، محمدمہدی، پیشوای چہرہ بر خاکسایندگان، تہران، سورہ مہر، 1379ہجری شمسی۔
o فہری زنجانی، احمد، شرح و ترجمہ صحیفہ سجادیہ، تہران، نشر اسوہ، 1388ہجری شمسی۔
o فیض الاسلام، سید علینقی، ترجمہ و شرح صحیفہ کاملہ سجادیہ، تہران، فقیہ، 1376ہجری شمسی۔
o قرشی، سید علیاکبر، المعجم المفہرس لألفاظ الصحیفة الکاملہ، قم، دار التبلیغ اسلامی، 1343ہجری شمسی۔
o قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودہ، تحقیق: علی جمال اشرف، تہران، نشر اسوہ، 1422ھ۔
o کرمانی، عبدالکریم و سید علی روزبہ، آینہ آثار: کارنامہ ترجمہ مجمع جہانی اہلبیت، قم، مجمع جہانی اہلبیت، 1401ہجری شمسی۔
o کلباسی، محمد بن محمدابراہیم، الرسائل الرجالیة، قم، دار الحدیث، 1422ھ۔
o مجلسی، محمدباقر، بحار الأنوار لدرر اخبار الأئمة الأطہار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، 1403ھ۔
o مجلسی، محمدتقی، روضة المتقین، قم، مؤسسہ فرہنگی اسلامی کوشانپور، 1406ھ۔
o مدنی، علیخان بن احمد، ریاض السالکین فی شرح صحیفة سید الساجدین، مؤسسة النشر الاسلامی، تحقیق محسن حسینی امینی. 1409ھ۔
o مشہدی، محمد بن محمدرضا، تفسیر کنز الدقائھ، تہران، سازمان چاپ و انتشارات وزارت ارشاد اسلامی، 1368ہجری شمسی۔
o مطہری، مرتضی، فلسفہ اخلاھ، تہران، صدرا، 1390ہجری شمسی۔
o مظفر، محمدحسین، الدلیل إلی موضوعات الصحیفة السجادیہ، قم، دفتر انتشارات اسلامی، 1403ھ۔
o ممدوحی، حسن، شہود و شناخت، قم، بوستان کتاب، 1388ہجری شمسی۔
o موحد ابطحی، سید محمدباقر، الصحیفة السجادیة الکاملہ، قم، مؤسسہ امام مہدی(ع)، 1413ھ۔
o مہدوی دامغانی، فریدہ، Les Psaumes De L'islam، تہران، الہدی، 2009ء۔
o نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرایع الاسلام، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا