ایمان
ایمان
ایمان، پیغمبر اسلامؐ اور ائمہ معصومینؑ کے تعلیمات پر دل سے اعتقاد رکھنے کو کہا جاتا ہے۔
شیعہ فقہاء مرجعیت، نماز جماعت کی امامت، قاضی اور زکات لینے والوں میں ایمان کو لازمی شرط قرار دیتے ہیں۔ اکثر شیعہ مراجع کے مطابق ایمان اور اعتقادات میں تقلید جائز نہیں ہے۔
شیعہ متکلمین ایمان کی تکمیل کیلئے توحید، پیغمبر اکرمؐ کی نبوت، خدا کی عدالت اور معاد پر اعتقاد رکھنے کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرمؐ کے بعد ائمہ معصومین کی امامت پر بھی اعتقاد رکھنے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ قرآن کریم کے مطابق ایمان اور اسلام ایک دوسرے سے متفاوت ہیں اور ایمان اسلام سے ایک درجہ بلند ہے اسی طرح ایمان میں کمی اور زیادتی کا امکان پایا جاتا ہے اور کسی کو ایمان لانے میں مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔
اکثر شیعہ علماء اس بات پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ اسلام ایمان سے عام مفہوم کا حامل ہے اس بنا پر ہر مؤمن کو مسلمان تو کہا جا سکتا ہے لیکن ہر مسلمان کو مؤمن نہیں کہا جا سکتا۔ البتہ بعض شیعہ علماء مانند خواجہ نصیرالدین طوسی اور شہید ثانی اس بات کے معتقد ہیں کہ حقیقی اسلام اور ایمان میں کوئی فرق نہیں لیکن ظاہری اسلام ایمان سے ایک درجہ نیچے ہے۔
مفہوم شناسی
احادیث اور شیعہ فقہی آثار میں ایمان کو دو قسموں؛ عام و خاص میں تقسیم کیا جاتا ہے: ایمان عام کا معنا پیغمبر اسلام کے تمام تعلیمات پر اعتقاد رکھنے کو کہا جاتا ہے جبکہ ایمان خاص پہلے معنی کے علاوہ ائمہ معصومین کی امامت و ولایت پر بھی اعتقاد رکھنے کو کہا جاتا ہے۔[1] ایمان کے دوسرے معنی کے مطابق صرف شیعہ اثنا عشریہ مؤمن ہونگے۔[2]
فقہ کے بہت سارے ابواب جیسے اجتہاد و تقلید، طہارت، نماز، زکات، خمس، روزہ، اعتکاف، حج، وقف، نذر، قضاء اور گواہی دینے میں ایمان خاص سے بحث ہوتی ہے[3] اور تمام عبادتوں کی شرط صحت اور قبولی کا دار و مدار ایمان کی اسی قسم کو قرار دیتے ہیں۔[4]مرجع تقلید، امام جماعت، مستحقّ زکات و خمس، قاضی، گواہ اور حاکم شرع کی جانب سے بیت المال تقسیم کرنے کیلئے نصب شدہ فرد میں بھی ایمان کو شرط قرار دیا جاتا ہے۔[5] کہا جاتا ہے کہ بہت سارے فقہاء نماز جماعت میں اذان دینے والے اور حج میں نائب ہونے والے شخص میں بھی ایمان کو لازمی قرار دیتے ہیں۔[6]
شیخ مفید[7] کے مطابق ایمان دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اقرار کرنا اور عبادات پر عمل کرنے کو کہتے ہیں؛ اہل سنت عالم دین شافعی[8] بھی اسی نظریے کے قائل ہیں۔ لیکن بعض شیعہ علماء مانند سید مرتضی، شیخ طوسی، ابن میثم بحرانی، فاضل مقداد اور عبدالرزاق لاہیجی[9] اس بات کے معتقد ہیں کہ ایمان دل کا کام ہے اس بنا پر خدا، پیغمبر اکرمؐ اور وحی پر قلبی اعتقاد رکھنے کو ایمان کہا جاتا ہے پس مؤمن اسے کہا جات ہے جو دل سے معتقد ہو زبان پر اقرار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مصادیق
قرآن کریم میں ایمان کے بعض مصادیق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے من جملہ ان میں خدا،[10] تمام انبیاء،[11] اور ان پر نازل ہونے والی تمام چیزوں جیسے آسمانی کتابیں،[12] روز قیامت،[13] فرشتے [14] اور غیب پر ایمان لانا شامل ہے۔[15]
شیعہ متکلمین ایمان کی تکمیل کیئلے توحید، خدا کی عدالت، معاد اور انبیاء کی نبوت پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرمؑ کی بعد ائمہ معصومین کی امامت پر بھی ایمان لانے کو ضروری سمجھتے ہیں۔[16] لیکن اس کے مقابلے میں معتزلہ اس بات کے معتقد ہیں کہ ایمان کی تکمیل کیلئے توحید، عدل، پیغمبر اکرمؐ کی نبوت اور وعد و وعید پر اعتقاد رکھنا اور امر بہ معروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرنا ضروری ہے۔[17] اشاعرہ پیغمبر اکرم اور آپ کے لائے ہوئے یقینی تعلیمات جیسے خدا کی وحدانیت اور وجوب نماز وغیره کی تصدیق کرنے کو ایمان قرار دیتے ہیں۔[18]
آثار اور خصوصیات
قرآن کریم کی بہت ساری آیات میں ایمان اور اس کے آثار اور خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ اس سلسلے میں پہلی بات یہ کہ ایمان اور اسلام کے درمیان فرق ہے اور ایمان اسلام سے ایک درجہ آگے ہے،[19] ایمان ایک ایسی حقیقت ہے جس میں خدا کے ساتھ شدید محبت پائی جاتی ہے،[20] خدا نے مؤمنین کو "ظلمات" سے باہر نکال کر عالم "نور" میں داخل فرماتا ہے۔[21]
قرآن کریم کی رو سے ایمان میں زیادتی اور کمی کا امکان پایا جاتا ہے،[22] اور مؤمنین کے قلوب ایمان کی نور سے اطمینان اور سکون کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔[23] اسی طرح قرآن کریم میں آیا ہے کہ کسی بھی انسان کو اس کے ارادے اور اختیار کے بغیر ایمان لانے اور مؤمن بننے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ہے۔[24]
قرآن کریم کی بعض آیتوں میں مؤمن کو اس کے خطاؤوں، کمزوریوں اور گناہوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ان کی اصلاح کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔[25]
ایمان میں تقلید
مشہور شیعہ علماء اس بات کے قائل ہیں کہ ایمان اور اعتقاد میں تقلید کافی نہیں ہے۔[26] معتزلہ اور اشاعرہ کی اکثریت بھی اس نظریے میں شیعوں کے ساتھ ہیں۔[27] اس کے مقابلے میں اہل سنت فقہاء[28]، حشویہ اور تعلیمیہ ایمان میں بھی تقلید کو کافی اور جائز سمجھتے ہیں۔[29]
اسلام اور ایمان کا رابطہ
بہت سارے شیعہ علماء معتقد ہیں کہ اسلام اور ایمان دو مختلف مفہوم رکھتے ہیں اس بنا پر اسلام ایمان سے وسیع مفہوم رکھتا ہے؛ یعنی ہر مؤمن کو مسلمان تو کہا جا سکتا ہے لیکن ہر مسلمان کو مؤمن نہیں کہا جا سکتا۔[30] اشاعرہ کی اکثریت بھی اسی نظریے کے قائل ہیں۔[31]
لیکن معتزلہ،[32] خوارج کی اکثریت، زیدیہ،[33] ابوحنیفہ اور اسکے پیروکار[34] اور شیعہ علماء میں سے شیخ طوسی[35] اسلام اور ایمان کے درمیان کسی تمیز کے قائل نہیں بلکہ ان دونوں کو ایک سمجھتے ہیں۔
ساتویں صدی ہجری کے شیعہ متکلم خواجہ نصیرالدین طوسی،[36] دسویں صدی ہجری کے مشہور شیعہ فقیہ شہید ثانی،[37] اور آٹھویں صدی ہجری کے اہل سنت متکلم تفتازانی[38] اس بات کے قائل ہیں کہ ایمان اور حقیقی اسلام میں کوئی فرق نہیں لیکن ظاہری اسلام ایمان سے محتلف اور وسیع مفہوم کا حامل ہے، اس بنا پر جو شخص ظاہرا مسلمان ہے اسے مؤمن نہیں کہلائے گا لیکن ہر مؤمن کا مسلمان ہونا ضروری اور لازمی ہے۔
معروف شیعہ معاصر فلسفی اور مفسر، علامہ طباطبایی(1281-1360ش) کے مطابق اسلام اور ایمان دونوں کے مختلف درجات ہیں اور اسلام کا ہر درجہ مؤمن کے اگلے درجے تک پہنچنے کیلئے شرط ہے؛ چنانچہ اسلام کا پہلا مرتبہ ظاہری طور پر خدا کے اوامر اور نواہی کو قبول کرنا ہے جس کے بعد ایمان کا پہلا درجہ شروع ہوتا ہے جو شہادتین کے مفہوم اور معنا پر دل سے اعتقاد رکھنا اور اسلام کے فرعی اور عملی احکام پر عمل کرنا ہے۔[39]
حوالہ جات
↑ فرہنگ فقہ فارسی، «ایمان»، ج۱، ص۷۸۷۔
↑ شہید ثانی، مسالک الافہام، ۱۴۱۴ق، ج۵، ص۳۳۷-۳۳۸۔
↑ فرہنگ فقہ فارسی، ج۱، ص۷۸۷۔
↑ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۱۵، ص۶۳۔
↑ فرہنگ فقہ فارسی، «ایمان»، ج۱، ص۷۸۷۔
↑ فرہنگ فقہ فارسی، «ایمان»، ج۱، ص۷۸۷۔
↑ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۴۴۰؛ شبّر، حق الیقین، ۱۴۱۸ق، ص۵۵۸، ۵۵۹۔
↑ خمیس، اصول الدین عند الإمام ابوحنیفۃ، ۱۴۱۶ق، ص۴۱۔
↑ سید مرتضی، الذخیرۃ فی علم الکلام، ۱۴۱۱ق، ص۵۳۶، ۵۳۷؛ بحرانی، قواعد المرام فی علم الکلام، ۱۴۰۶ق، ص۱۷۰؛ فاضل مقداد، ارشاد الطالبین، ۱۴۰۵ق، ص۴۴۲؛ فاضل مقداد، اللوامع الإلہیۃ فی المباحث الکلامیۃ، ۱۳۸۰ش، ص۴۴۰؛ لاہیجی، سرمایہ ایمان، ۱۳۶۴ش، ص۱۶۵۔
↑ سورہ بقرہ، آیت ۲۵۶ و ۱۸۶؛ سورہ آل عمران، آیت ۵۲، ۱۱۰، ۱۹۳؛ سورہ نساء، آیت ۱۷۵و۔۔۔
↑ سورہ آل عمران، آیت ۱۷۹؛ سورہ حدید، آیت ۱۹؛ سورہ بقرہ، آیت ۱۷۷؛ سورہ نساء، آیت ۱۳۶۔
↑ سورہ بقرہ، آیت ۱۳۶؛ سورہ نساء، آیت ۱۶۲۔
↑ سورہ بقرہ، آیت ۶۲، ۸، ۱۲۶، ۲۲۸، ۲۳۲، ۲۶۴۔
↑ سورہ بقرہ، آیہ ۲۸۵ و ۱۷۷۔
↑ سورہ بقرہ: آیہ ۴۔
↑ غزالی، قواعد العقائد، ۱۴۰۵ق، ص۱۴۵؛ شہید ثانی، حقایق الإیمان، ۱۴۰۹ق، ص۱۴۴ و ۱۶۴۔
↑ غزالی، قواعد العقائد، ۱۴۰۵ق، ص۱۴۵۔
↑ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۱۷۷؛ ایجی، کتاب مواقف، ۱۴۱۷ق، ج۳، ص۵۲۷۔
↑ سورہ حجرات، آیہ ۱۴۔
↑ سورہ بقرہ، آیہ ۱۶۵۔
↑ سورہ بقرہ، آیہ ۲۵۷۔
↑ سورہ توبہ، آیہ ۹ و ۱۲۴۔
↑ سورہ رعد، آیہ ۱۳ و ۲۸۔
↑ سورہ بقرہ، آیہ ۲۵۶۔
↑ سورہ صف، آیہ ۲؛ سورہ منافقون، آیہ ۹؛ سورہ ممتحنہ، آیہ ۱؛ سورہ حجرات، آیہ ۱-۱۲؛ سورہ مجادلہ، آیہ ۹۔
↑ شہید ثانی، حقایق الإیمان، ۱۴۰۹ق، ص۵۹۔
↑ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۸۸۔
↑ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۱۸۔
↑ شہید ثانی، حقایق الإیمان، ۱۴۰۹ق، ص۵۹۔
↑ شیخ مفید، اوائل المقالات، انتشارات داوری، ص۵۴۔
↑ باقلانی، تمہید الاوائل و تلخیص الدلایل، ۱۴۱۴ق، ص۳۹۱۔
↑ معتزلی، شرح الاصول الخمسۃ، ۱۴۰۸ق، ص۷۰۵۔
↑ شیخ مفید، اوائل المقالات، انتشارات داوری، ص۵۴۔
↑ خمیس، اصول الدین عند الإمام ابوحنیفۃ، ۱۴۱۶ق، ص۴۳۵، ۴۳۶۔
↑ شیخ طوسی، التبیان، دار احیاء التراث العربی، ج۲، ص۴۱۸۔
↑ خواجہ نصیرالدین طوسی، قواعد العقائد، ۱۴۱۶ق، ص۱۴۳، ۱۴۲۔
↑ شہید ثانی، حقایق الإیمان، ۱۴۰۹ق، ص۱۲۰، ۱۲۱۔
↑ تفتازانی، شرح المقاصد، ۱۴۰۹ق، ج۵، ص۲۰۷۔
↑ طباطبائی، المیزان، ۱۳۹۳ق، ج۱، ص۳۰۱، ۳۰۳۔
مآخذ
ایجی، عضد الدین، کتاب المواقف، تحقیق عبدالرحمن عمیرۃ، بیروت، دارالجیل، ۱۴۱۷ق۔
باقلانی، محمد بن طبیب، تمہید الأوائل و تلخیص الدلایل، تحقیق عماد الدین احمد حیدر، بیروت، مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، ۱۴۱۴ق۔
بحرانی، میثم بن علی، قواعد المرام فی علم الکلام، تحقیق سید احمد حسینی، قم، مکتبۃ آیۃ اللّہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۶ق۔
تفتازانی، مسعود، شرح المقاصد، تحقیق دکتر عبد الرحمن عمیرۃ، قم، منشورات الرضی، ۱۴۰۹ق۔
خمیس، محمد عبد الرحمن،اصول الدین عند الإمام ابوحنیفۃ، ریاض، دار الصمیعی للنشر و التوزیع، ۱۴۱۶ق۔
خواجہ نصیرالدین طوسی، محمد بن محمد، قواعد العقائد، تحقیق علی ربانی گلپایگانی، قم، مرکز مدیریت حوزہ علمیہ قم، ۱۴۱۶ق۔
سید مرتضی، علی بن الحسین، الذخیرۃ فی علم الکلام، تحقیق سید احمد حسینی، قم، مؤسسہ نشر اسلامی، ۱۴۱۱ق۔
شبّر، سید عبداللہ، حق الیقین فی معرفۃ اصول الدین، بیروت، الأعلمی، ۱۴۱۸ق۔
شہید ثانی، زین الدین بن علی، مسالک الافہام الی تنقیح شرائع الاسلام، قم، مؤسسۃالمعارف الاسلامی، ۱۴۱۴ق۔
شہید ثانی، زین الدین علی، حقایق الایمان، تحقیق سید مہدی رجایی، قم، مکتبۃ آیۃ اللّہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۹ق۔
شیخ طوسی، محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی، بیتا۔
طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، بیروت، الاعلمی، ۱۳۹۳ق۔
غزالی، محمد بن محمد، قواعد العقائد، تحقیق و تعلیق موسی محمد علی، بیروت، عالم الکتب، ۱۴۰۵ق۔
فاضل مقداد، ارشاد الطالبین إلی نہج المسترشدین، تحقیق سید مہدی رجایی، قم، کتابخانہ آیۃ اللّہ العظمی مرعشی نجفی، ۱۴۰۵ق۔
فاضل مقداد، اللوامع الإلہیۃ فی المباحث الکلامیۃ، تحقیق سید محمدعلی قاضی طباطبایی، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، ۱۳۸۰ش۔
لاہیجی، عبد الرزاق، سرمایہ ایمان، تصحیح صادق لاریجانی، تہران، الزہراء، ۱۳۶۴ش۔
معتزلی، عبد الجبار، شرح الاصول الخمسۃ، تعلیق احمد بن حسین بن ابوہاشم، تحقیق عبدالکریم عثمان، قاہرہ، مکتبۃ وہبۃ، ۱۴۰۸ق۔
نجفی، محمدحسن، جواہر الکلام فی شرح شرائع الاسلام، تصحیح: عباس قوچانی و علی آخوندی، بیروت، دار احیاء التراث العربی، ۱۴۰۴ق۔
ہاشمی شاہرودی، سید محمود، مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، مدخل ایمان۔