رقیہ بنت حسین
رقیہ بنت حسین
رقیہ بنت حسین کے نام سے امام حسین کی ایک بیٹی مذکور ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کربلا میں موجود تھیں اور واقعہ کربلا کے بعد دیگر اہل بیت کے ساتھ اسیر ہو کر کوفہ و شام گئیں۔ شام میں انتقال ہوا۔ اب شام کے شہر دمشق میں ایک مزار اس نام سے موجود ہے۔ اکثر قدیمی منابع و مآخذ میں ان کی تصریح نہ ہونے کی وجہ سے ان کے نام، وفات اور مزار کے بارے میں تردید و اختلاف پایا جاتا ہے۔
نام و نسب
رُقَیہ بنت الحسین کا نام بعض کتابوں میں امام حسین کی بیٹی کے حوالے سے ذکر ہوا ہے۔ علی بن زید بیہقی معروف ابن فندق (م565ھ) کی کتاب لباب الانساب وہ پہلا مستند ہے جس میں رقیہ بنت حسین کا ذکر آیا ہے اگرچہ ابن فندق نے اولاد امام حسین کے ذیل میں رقیہ کا نام ذکر کئے بغیر فاطمہ، سکینہ، زینب اور ام کلثوم کو امام حسین کی بیٹیاں شمار کیا ہے اور ساتھ ہی زینب اور ام کلثوم کے بچپنے میں فوت ہونے کا ذکر کیا ہے[1] لیکن پھر طبقہ سابعہ کے ذیل میں امام حسین کی باقی رہنے والی اولاد میں زین العابدین، فاطمہ اور سکینہ کے ساتھ رقیہ کا نام ذکر کیا ہے۔[2] محمد بن طلحہ شافعی نے امام حسین کی چار بیٹیاں کہہ کر زینب، سکینہ اور فاطمہ کے نام ذکر کئے اور چوتھی کا نام ذکر نہیں کیا ہے۔[3] ابن فندق اور مطالب السئول کو دیکھتے ہوئے نجم الدین طبسی یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ امام حسین کی ایک چوتھی بیٹی کا نام رقیہ اور کنیت ام کلثوم تھی۔[4]
یہ قابل توجہ ہے کہ لباب الانساب کے علاوہ نسب و تاریخ کے ساتویں صدی تک کے منابع میں امام حسین کی رقیہ نام کی بیٹی مذکور نہیں ہے۔ کیونکہ شیخ مفید (م413ھ) صرف دو سکینہ بنت امام حسین(ع) اور فاطمہ بنت حسین کا نام ذکر کرتے ہیں۔[5] اسی طرح فضل بن حسن طبرسی (م548ھ) نے بھی یہی لکھا ہے [6] ابن شہر آشوب (م588ھ) کی مناقب میں زینب نام کی بیٹی بھی مذکور ہے[7] لہذا تین بیٹیاں ہوئیں۔ نیز اربلی (م692ھ) کی کتاب کشف الغمہ میں ابن خشاب سے زینب، سکینہ اور فاطمہ تین بیٹیاں نقل ہیں۔[8]
خاندان رسالت
خاندان رسالتؐ
حضرت محمد
خدیجہ
ماریہ
امام علی
فاطمہ
قاسم
عبداللہ
رقیہ
امکلثوم
زینب
ابوالعاصابراہیم
امام حسین
امام حسن
ام کلثوم
محسن
زینب
امامہ
زید
قاسم
عبداللہ
فاطمہ
حسن مثنی
محمد
عون
علی
عباسام کلثوم
حسن
سیدہ نفیسہ
حسن
زینب
ابراہیم
عبداللہ محض
امام سجاد
علی اکبر
علی اصغر
فاطمہ
سکینہ
رقیہ
نفس زکیہ
ابراہیم
ادریس
امام باقر
زید
امام صادق
یحیی
امام کاظم
محمد دیباج
علی
اسحاق
ام فروہ
عبداللہ
اسماعیل
امام رضا
معصومہ قم
حمزہ
اسحاق بن موسی
احمد بن موسی
ابراہیم
محمد
امام جواد
امام ہادی
موسی
فاطمہ
امامہ
امام عسکری
حسین
محمد
جعفر
امام مہدی
کربلا میں موجودگی
تاریخی مآخذ میں ان کی کربلا میں موجودگی کی تصریح نہیں ہے۔ سید ابن طاؤوس کی کتاب الملہوف کے بعض نسخوں میں اس واقعہ سے زندہ بچ جانے والوں میں امام حسین کی بیٹی کے ذکر کے بغیر رقیہ نام ذکر ہوا ہے[9][یادداشت 1] ینابیع المودت میں 10 محرم کے دن امام حسین کے خیام سے وداعی کلمات میں زینب ام کلثوم، عاتکہ، سکینہ اور اہل بیت کے ساتھ رقیہ کا نام ذکر ہے۔[10] لہوف اور ینابیع المودت میں یہ احتمال موجود ہے کہ رقیہ سے رقیہ بنت علی مراد ہوں [11] خاص طور پر یہ نام امام حسین کی دوسری بہنوں ام کلثوم اور زینب کے ساتھ مذکور ہے جبکہ لہوف کے دیگر نسخوں میں یہ عبارت موجود نہیں ہے[12]
وفات
کہا گیا ہے کہ شام کے زندان میں اسرا کے ساتھ ایک چار سالہ بچی تھی۔ اس نے رات کو خواب میں اپنے باپ کو دیکھا۔ جب وہ بچی خواب سے بیدار ہوئی تو اس نے بہت گریہ و زاری کیا اور اپنے باپ سے ملنے کیلئے بے چین ہوئی۔ یزید نے یہ سن کر حکم دیا کہ امام حسین کا سر اسے دے دیا جائے۔ جب یہ امام حسین کا سر اسکے پاس لے جایا گیا تو یہ منظر دیکھ کر بچی کی روح پرواز کر گئی۔[13]
ضد و نقیض روایات
حضرت امام حسین(ع) سے منسوب بیٹی کی شام میں وفات کی کیفیت کے بارے میں مختلف روایات منقول ہیں:
سب سے پہلے عماد الدین طبری (700 ھ) نے کامل بہائی میں ایک بچی کا وفات ذکر کیا ہے۔ اس کا سن چار سال لیکن نام ذکر نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی وفات اپنے باپ کا سر دیکھنے کے چند دن بعد ہوئی۔[14]
ملّا حسین واعظ کاشفی سبزواری (متوفی 910 ھ) نے واقعہ کو کوشْک (کاخ) نامی یزید کے محل سے نقل کیا ہے اور کہا جس دن سر کو دیکھا اسی روز وفات ہوئی۔[15]
فخرالدین طُریحی (م 1085 ھ) پہلا شخص ہے جس نے اس کی عمر تین سال ذکر کی ہے اور اس کی باپ سے گفتگو نقل کی ہے۔[16]
محمد حسین ارجستانی نے تیرھویں صدی کے آخر میں اس بچی کا نام زُبیده نقل کیا ہے اور سن تین سال اور مقام وفات خرابۂ شام ذکر کیا ہے۔[17] ارجستانی نے اس واقعہ کے نقل کرنے سے پہلے اس بچی کو امام حسین کی بیٹی کے نام سے ذکر کیا ہے۔[18]
چودھویں صدی کے اوائل کے شیخ محمد جواد یزدی نے اس واقعے کے رونما ہونے کی جگہ شام کا خرابہ ذکر کیا ہے اور اس بچی کا نام زبیدہ، فاطمہ یا سکینہ کہا ہے۔[19]
سید محمد علی شاه عبدالعظیمی (م 1334 ھ) نے پہلی مرتبہ اس بچی کا نام رقیہ اور سن تین سال ذکر کیا ہے۔[20]
مذکورہ بیانات کی روشنی میں یہ کہنا چاہئے کہ ساتویں صدی میں شام کے زندان میں ایک بچی کی وفات کسی نام کے بغیر مذکور ہوئی اور پھر اس کے بعد ہزارویں صدی اور اس کے بعد اس کے نام میں اختلاف اور کیفیت وفات میں اختلافات مذکور ہوئے۔ خاص طور پر قابل توجہ یہ ہے کہ ہزارویں صدی اور اس کے بعد مقتل نویسی کی غیر اہم کتابوں میں اسے بیان کیا گیا ہے۔
شام کے شہر دمشق میں رقیہ بنت حسین کے نام سے مزار منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مزار باب الفرادیس کے مقام پر ہے۔ اس مزار کی عمارت ایرانی اور اسلامی معماری کا نمونہ ہے۔ اس کے متعلق محمدی ری شہری نے لکھا ہے:
دسویں صدی میں اس مزار کے متعلق پہلی مرتبہ محمّد بن ابى طالب حائرى كَرَكى (زنده 955 ھ) نے كتاب تسليت المجالس میں لکھا: پرانی مسجد کے پتھر پر ملکہ بنت حسین بن امیر المومنین لکھا تھا۔[21]
تیرھویں صدی میں شبلنچی کی نور الابصار: رقیہ بنت علی کے مزار کی دیوار کی تعمیر کیلئے جسد باہر نکالا تو وہ ایک نابالغ بچے کا تھا۔[22]
چودھویں صدی کے پہلے پچاس سالوں میں شيخ محمّد ہاشم خراسانى (م 1352 ھ) کی فارسى منتخب التواريخ میں ایک بڑے تفصیلی واقعہ ذکر کیا اور سید کی بیٹی کو خواب میں رقیہ بنت حسین نے قبر کی خرابی کا کہا اور پھر اس کی تعمیر ہوئی۔[23] جبکہ اعیان الشیعہ میں محسن امین عاملی نے ایسا کوئی واقعہ نقل نہیں کیا صرف رقیہ بنت حسین سے منسوب قبر ذکر کیا ہے۔[24] [25]
موافق و مخالف
شام میں امام حسین سے منسوب رقیہ نام کی بیٹی کا فوت ہونا نہایت اختلافی موضوع ہے جس کی بنیادی وجہ لباب الانساب کے علاوہ تاریخی و نسب کے ساتویں صدی تک کے منابع میں رقیہ بنت حسین کے نام کا نہ ہونا۔ پھر اگر ذکر ہوا ہے تو وفات، مقام وفات اور کیفیت وفات میں اختلافات کا پایا جانا ہے۔ ان اسباب کی وجہ سے محققین کی جانب سے اس موضوع کو تنقید کا سامنا ہے جس کی وجہ سے رقیہ بنت حسین کا مزار مورد تردید واقع ہے۔ مرتضی مطہری ان کی شام میں وفات کو تحریفات عاشورا کا حصہ سمجھتے ہیں۔[26] محمدی ری شہری: دانشنامہ امام حسین، سید محسن امین عاملی اعیان الشیعہ[27]، آیت اللہ شہاب الدین مرعشی بحوالہ محمد باقر مدرسی: شخصیت حسین قبل از عاشورا ص 457، شیخ عباس قمی: منتہی الآمال[28] (یاد رہے کہ نفس مہموم اس سے پہلے لکھی گئی ہے) رسول جعفریان: اخبار و احادیث و حکایات در فضائل اہل بیت ع، محمد ہادی یوسفی غروی: موسوعۃ التاریخ الاسلامی[29])، شیخ فارس تبریزیان (حسون) کی تحقیق شدہ لہوف 141[30]
آیت اللہ مرزا جواد تبریزی، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت اللہ صادق روحانی، آیت اللہ علوی گرگانی، نوری ہمدانی ... رقیہ نام کی حضرت امام حسین (ع) کی ایک بیٹی ہے۔[31]
نوٹ
یا اُختاه! یا اُمّ کلثوم! وأنتِ یا زینب! وأنتِ یا رقیة! وأنتِ یا فاطمة! وأنتِ یا رَباب! انظرن إذا أنا قُتِلتُ فلاتشققنَ عَلَی جَیباً، و لاتُخمِشنَ عَلَی وَجهاً، و لاتَقُلنَ عَلَی هَجراًاے میری بہنو!امّ کلثوم، اے زینب، رُقَیہ ،اے فاطمہ!اور اے رباب! دیکھو جب میں مارا جاؤں تو تم گریبان چاک نہ کرنا اپنی چہرے مت پیٹنا اور آہ و شیون نہ کرنا۔(سید بن طاووس، الملہوف، ترجمہ میرطالبی، ص۱۲۳.)
حوالہ جات
1. ابن فندق، لباب الانساب، ۱۳۸۵، ص۳۵۰.
2. ابن فندق، لباب الانساب، ۱۳۸۵، ص۳۵۵.
3. شافعی، مطالب السئول، ۱۴۱۹ق، ص۲۵۷.
4. طبسی، رقیہ بنت الحسین، ص ۸-۹.
5. شیخ مفید، الارشاد، ج۲، ۱۴۱۳ق، ص۱۳۵.
6. طبرسی، تاج الموالید ص88 اور اعلام الوری ص478
7. ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب،3/77 طبع دار الاضوا بیروت لبنان۔
8. اربلی، کشف الغمہ، 2/248، دار الاضواء، بیروت لبنان۔
9. سید بن طاووس، الملہوف، ص۱۴۱.
10. قندوزی، ینابیع المودّه، ۱۴۲۲ق، ج۳، ص۷۹.
11. طبسی، رقیہ بنت الحسین، ص۲۵
12. سید بن طاووس، لہوف، ۱۳۴۸ش.
13. طبری، کامل بہائی، ۱۳۸۳ش، ص۵۲۳.
14. طبری، کامل بہائی، ۱۳۸۳ش، ص۵۲۳.
15. واعظ کاشفی، روضۃ الشہدا، ۱۳۸۲ش، ص۴۸۴.
16. طریحی، المنتخب فی جمع المراثی والخطب، صد و سی و شش.
17. محمد حسین ارجستانی، اَنوار المجالس، ص۱۶۱
18. محمد حسین ارجستانی، اَنوار المجالس، ص۱۶۰
19. شیخ محمد جواد یزدی، شعشعۃ الحسینی، ج۲، ص۱۷۱-۱۷۳.
20. شاه عبدالعظیمی، الإیقاد، ص۱۷۹؛ یہ حصہ دانشنامہ امام حسین کا تلخیص شدہ حصہ ہے رک: ری شہری، دانشنامہ امام حسین، ج۱، ص۳۸۹.
21. تسليۃ المجالس : ج 2 ص 93
22. نور الأبصار : ص 195 .
23. منتخب التواريخ : ص 388.
24. سید محس امین عاملی ،اعیان الشیعہ 7/34
25. گزيده دانشنامہ امام حسين عليہ السلام، محمد محمدی ری شہری جلد : 1 صفحہ 106 تا 111
26. مطہری، مجموعہ آثار، ج۱۷، ص۵۸۶.
27. سید محسن أمین، أعیان الشیعہ ج7 ص 34
28. شیخ عباس قمی، منتہی الامال ج1 ص 458
29. محمد ہادی یوسفی غروی ،موسوعۃ التاریخ الاسلامی (ج6ص 210
30. رقیہ بنت حسین
31. مراجع عظام کا جواب
مآخذ
ابن فندق بیہقی، علی بن زید، لباب الانساب و الالقاب و الاعقاب، تحقق: مہدی رجائی، مکتبہ آیت اللہ المرعشی، قم، ۱۳۸۵.
ارجستانی، محمد حسین، اَنوار المجالس
سید بن طاووس، علی بن موسی بن جعفر، اللہوف على قتلى الطفوف، جہان، تہران، ۱۳۴۸ش.
سید بن طاووس، علی بن موسی بن جعفر، اللہوف علی قتلی الطفوف،ترجمہ: سید ابوالحسن میرطالبی.
شافعی، محمد بن طلحہ، مطالب السؤول فی مناقب آل الرسول، بیروت، البلاغ، ۱۴۱۹ق.
شاه عبدالعظیمی، سید محمد علی، الإیقاد
طبری، عمادالدین حسن بن علی، کامل بہائی، مرتضوی، تہران، ۱۳۸۳ش.
طبسی، نجم الدین، رقیہ بنت الحسین، تنظیم: عباس جہانشاہی.
طریحی، فخرالدین، المنتخب فی جمع المراثی والخطب، معروف منتخب طریحی
قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع الموده لذوالقربی، اسوه، قم، ۱۴۲۲ق.
کاشفی سبزواری، ملا حسین، روضۃ الشہدا، نوید اسلام، قم، ۱۳۸۲ش.
محمدی ری شہری، مہدی، دانشنامہ امام حسین، دارالحدیث، قم، ۱۴۳۰ق.
مطہری، مرتضی، مجموعہ آثار .
مفید، محمد بن نعمان، الارشاد، کنگره شیخ مفید، قم، ۱۴۱۳ق.
یزدی، محمد جواد، شعشعۃ الحسینی