جشن میلاد النبی سنت یا بدعت؟ -قسط-10
- شائع
-
- مؤلف:
- حجۃ الاسلام سید عبدالرحیم موسوی ۔ تحقیقی کمیٹی_
- ذرائع:
- مترجم : حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
بسم اللهِ الرحمن الرحیم
جشن میلاد النبی سنت یا بدعت -قسط-10
-----
چھٹی فصل :
میلاد النبی کی محافل کو حرام جاننے والوں کے نظریات کا تجزیہ
اگرچہ میلاد النبی کی محافل کے انعقاد کا جائز ہونا واضح ہے اور یہ دین کے اصولوں سے مربوط ہے اس کے باوجود سلفی حضرات اسے بدعت قرار دیتے ہیں ۔
ابن تیمیہ کہتے ہیں :
یہی حال ہے ان نئے کاموں کا جنہیں بعض لوگوں نے تراشا ہے ۔
وہ یا تو عیسی علیہ السلام کی ولادت پر عیسائیوں کے طرز عمل کی نقل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں یا نبی کی محبت کے باعث ایسا کرتے ہیں ۔
اللہ اس محبت اور جانفشانی پر انہیں جزائے خیر عطا کرے گا لیکن رسول اللہﷺ کی ولادت پر عید منانے کی بدعت پر ثواب نہیں دے گا جبکہ آپ کی میلاد منانے میں لوگوں کے درمیان اختلاف بھی موجود ہے کیونکہ اسلاف نے ایسا نہیں کیا حالانکہ وہ ایسا کرسکتے تھے اور کوئی رکاوٹ بھی نہیں تھی ۔
اگر یہ کام ہر لحاظ سے اچھا یا بہتر ہوتا تو اسلاف ہم سے زیادہ اس کی انجام دہی کے سزاوار تھے کیونکہ وہ ہم سے زیادہ رسول اللہ سے محبت اور آپ کی تعظیم کرتے تھے ۔
ابن تیمیہ اس کے بعد لکھتے ہیں :
ابن الحاج نے بھی نبی کے روز ولادت کی فضیلت کا اعتراف کرنے کے باوجود میلاد کی محفل منانے کی حمایت نہیں کی کیونکہ ان محافل میں ناپسندیدہ امور انجام دئے جاتے ہیں
نیز نبی اپنی امت کے لئے آسانی اور سہولت کے خواہان تھے ۔علاوہ ازیں اس بارے میں کوئی خاص چیز (حدیث) مروی نہیں ہے ۔
پس یہ عمل بدعت ہے ۔
(دیکھئے : ابن الحاج کی المدخل ،ج۲،ص ۳۔)
مذکورہ بالا عرائض سے واضح ہوتا ہے کہ جو حضرات لوگوں کو میلاد نبی اور دیگر اسلامی مراسم پر محافل منعقد کرنے سے منع کرتے ہیں اور اسے حرام گردانتے ہیں وہ بدعت کے بارے میں ایک غلط اور مغالطہ آمیز مفہوم کی بنیاد پر استدلال کرتے ہیں ۔
یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ دین سے کسی چیز کے غیر مربوط ہونے سے مراد یہ ہے کہ صدر اول کے دور تشریع میں ا س کے بارے میں کوئی حکم موجود نہ ہو یا
اس بارے میں کوئی ایسی خاص دلیل پائی نہ جاتی ہو جس میں اس چیز کے عنوان کے ساتھ اس کا خاص طور سے ذکر ہوا ہو جبکہ کسی چیز کے دین سے مربوط ہونے سے مراد یہ ہے کہ صدر اول کے دور تشریع میں اس کا حکم موجود رہا ہو یا اس کے بارے میں خاص امر پایا جاتا ہو ۔
تبصرہ :
بدعت کا معیار صرف یہ نہیں کہ کسی چیز کے بارے میں خاص دلیل مذکور ہو یا نہ ہو ۔ بلکہ شریعت کے ان عمومی افکار اور کلی دلائل کا جائزہ لینا ہوگا جو ا عمل کو بدعت کے دائرے سے خارج کریں ۔
اسی طرح اگر نزول شریعت کے عصر میں کسی چیز پر عمل نہ کیا جاتا ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ شریعت میں وہ عمل پسندیدہ اور مطلوب نہ ہو ۔
اسی طرح اس دور میں کسی چیز کا وجود اس کی مطلوبیت کی دلیل نہیں کیونکہ کسی عمل کے بدعت ہونے یا نہ ہونے کا معیار عصر تشریع میں اس چیز کا وجود یا عدم نہیں ہیں ۔
کچھ لوگوں نے میلاد نبی کی محافل کو حرام قرار دینے کے لئے ایک اور دلیل کا اضافہ کیا ہے ۔
وہ دلیل یہ ہے کہ ان محافل میں عام طور پر محرمات مثلا ساز و آواز اور مرد و زن کے اختلاط وغیرہ کا ارتکاب عمل میں آتا ہے ۔
تبصرہ:
ہم ایک طرف سے اس بات کو سختی کے ساتھ رد کرتے ہیں کہ مکتب اہل بیت کے پیروکار میلاد النبی کی جو محافل مناتے ہیں ان میں کسی قسم کے محرمات کا ارتکاب عمل میں آتا ہو ۔ہم مذکورہ دعوے کو ایک بے بنیاد تہمت سمجھتے ہیں ۔
دوسری طرف سے ہم یہ کہتے ہیں :
کہ کسی جائز عمل کے ساتھ کسی حرام عمل کا ایک ہی وقت میں واقع ہونا اس جائز عمل کو محذوف یا ممنوع قرار دینے کا موجب نہیں بنتا ۔
اس اقتران ( باہم واقع ہونے ) کی وجہ سے جائز عمل حرام نہیں کہلایا جا سکتا کیونکہ اگر یہ نظریہ درست تسلیم کر لیا جائے تو دین کے مسلمہ اور بنیادی عبادات کو حرام اور باطل قرار دینا پڑے گا ۔
یعنی اگر کسی عبادت کے ساتھ کوئی بھی حرام کام انجام دیا جائے تو اس عبادت کو سرے سے حذف کرنا اور ممنوع سمجھنا ہوگا ۔
ظاہر ہے کہ اس بات کو کوئی بھی قبول نہیں کرسکتا ۔
بطور مثال اگر واجب نماز کے دوران کسی نامحرم پر نظر کی جائے جو قطعا حرام ہے تو کیا یہ کہنا معقول ہے کہ (نعوذ باللہ ) یہ واجب نماز بدعت اور حرام میں تبدیل ہوجائے گی ؟
پھر کیا حرام کے ساتھ مقرون ہونے کی وجہ سے یہ حرمت نماز سے بھی آگے بڑھ کر نماز کی اصل تشریع اور اسے واجب قرار دینے کے شرعی حکم میں بھی سرایت کر جائے گی ؟؟
یہاں اس بات کا ذکر اہم ہے کہ جن شرعی نصوص اور بیانات میں رسول اکرم ﷺکی زندگی میں اور آپ کی رحلت کے بعد آپ کی تعظیم ،تکریم ،توقیر اور آپ کے احترام کو بطور عام ضروری قرار دیا گیا ہے ان نصوص سے نہ کوئی شخص انکار کرسکتا ہے اور نہ ہی کوئی ان میں شک کرسکتا ہے کیونکہ یہ نصوص کثرت اور تواتر کے ساتھ مروی ہیں ۔
یہ نصوص اور فرمودات جشن میلاد کے جواز کو ثابت کرنے اور اسے شرعی عمل قرار دینے نیز اسے شریعت کے نمایاں ،واضح اور جلی مصادیق میں شامل کرنے کے لئے کافی ہیں ۔
اسی لئے اہل سنت کے بعض علماء نے مسلمہ کلی دلائل کی روشنی میں شریعت کے ساتھ اس امر کی گہری نسبت کا ادراک کر لیا ہے
چنانچہ بعض حضرات نے اسے بدعت حسنہ (اچھی بدعت) کے نام سے یاد کیا ہے ۔
اس سلسلے میں ابن حجر کہتے ہیں :
میلاد منانا بدعت ہے ۔یہ پہلی تین صدیوں کے سلف صالح میں سے کسی سے مروی نہیں ہے ۔
اس کے باوجود یہ خوبیوں پربھی مشتمل ہے اور خامیوں پر بھی ۔
پس اگر کوئی میلاد مناتے وقت اچھے امور کا انتخاب کرے اور برے کاموں سے احتراز کرے تو یہ کام اچھی بدعت ہے و گرنہ نہیں ۔
(دیکھئے : سید جعفر مرتضی عاملی کی المواسم والمراسم ،ص ۶۲ از رسالۃ المقصد، جو النعمۃ الکبری علی العالم کے ہمراہ چھپی ہے ، نیز دیکھئے :التوسل بالنبی و جہلۃ الوہابیین ،ص ۱۱۴ ۔)
امام ابو شامہ کہتے ہیں :
ہمارے دور کی بہترین بدعتوں میں سے ایک ہر سال میلاد النبی کے دن انجام دئے جانے والے اعمال ہیں جو صدقہ دینے اور نیکی کرنے نیز زیب و زینت اور خوشی کا اظہار کرنے سے عبارت ہیں کیونکہ یہ ایک طرف سے محتاجوں کے ساتھ نیکی کا موجب ہیں اور دوسری طرف سے عید کے مراسم میں شرکت کرنے والوں کے دلوں میں رسول ﷺ کی محبت اور آپ کی تعظیم کا آئینہ دار ہیں ۔
علاوہ ازیں یہ امر اس بات پر اللہ کےشکر کا اظہار ہے کہ اس نے اپنے رسول (جسے اس نے عالمین کے لئے رحمت بناکر بھیجا ) کی تخلیق کے ذریعے (بندوں پر ) لطف و کرم فرمایا ۔
(دیکھئے : السیرۃ الحلبیہ ،ج۱،ص ۸۳ ۔ ۸۴ ۔)
سیوطی اپنے رسالے ’’حسن المقصد فی عمل المولد ‘‘ میں لکھتے ہیں :
میرے خیال میں میلاد منانے کا اصل عمل لوگوں کے اکٹھے ہونے ، قرآن کی تلاوت کرنے ، نبی کے ابتدائی حالات اور آپ کی ولادت کے وقت واقع ہونے والے معجزات کا ذکر کرنے پھر دسترخوان بچھاکر ضیافت کھانے اور مزید کسی کام کے بغیر متفرق ہونے سے عبارت ہے۔
یہ ایک اچھی بدعت ہے جس کا ثواب اسے انجام دینے والے کو ملےگا کیونکہ یہ نبی کی تعظیم و تکریم کا موجب ہے ۔
علاوہ ازیں اس کے ذریعے نبی کی مبارک ولادت پر خوشی و سرور کا اظہار عمل میں آتا ہے ۔
(دیکھئے سعید حوّی کی لانمضی بعیداًً عن احتیاجات العصر ،ص ۶ نیز السیرۃ بلغۃ الحبّ والشعر ،ص ۴۲ ۔)
ابن تیمیہ نے متعدد اقوال نقل کیے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نبی کی ولادت کے دن جمع ہونا اور محفل برپا کرنا جائز ہیں حالانکہ ابن تیمیہ اس دن عید منانے والوں کے بارے میں بہت شدت پسند واقع ہوا ہے ۔
ابن تیمیہ نے مروزی کا قول نقل کرتے ہوئے کہا ہے :
مروزی کہتا ہے :
میں نے ابو عبد اللہ سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا جو رات کو جمع ہوکر بیدار رہتے ہیں اور ایک قاری قرائت کرتا ہے ۔
پھر وہ لوگ دعا کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ صبح ہوجائے ۔ابو عبد اللہ نے کہا :
امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہوگا ۔
ابو سری حربی کہتا ہے کہ ابو عبد اللہ نے کہا :
اس سے اچھی بات اور کیا ہوگی کہ لوگ جمع ہوکر نماز پڑھیں اور اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو یاد کریں جیساکہ انصار نے کیا ہے ۔
وہ مزید کہتے ہیں :
یہ احمد کی اس روایت کی طرف اشارہ ہے : اسماعیل نے ہم سے کہا :
ایوب نے ہمیں خبر دی کہ محمد بن سیرین نے کہا :
مجھے خبر دی گئی ہے کہ رسول اللہ کی مدینہ آمد سے پہلے انصاریوں نے کہا :
ہمیں کوئی دن مقرر کرنا چاہیے جس دن ہم جمع ہوکر اس امر (رسول کی آمد ) کے بارے میں گفتگو کریں کیونکہ یہ وہ نعمت ہے جس سے اللہ نے ہمیں نوازا ہے ۔
(پہلے ) انہوں نے کہا :
سنیچر کے دن (جمع ہوں گے ) ۔
پھر انہوں نے کہا :
ہم یہودیوں کے ساتھ ان کے دن( سنیچر ) میں یکجا نہیں ہوں گے ۔
پھر اتوار کے دن کی بات ہوئی تو بولے :
ہم نصاری ٰ کے (قومی )دن ان کے ساتھ یکجہتی نہیں دکھائیں گے ۔
پھر انہوں نے عروبہ کے دن کی بات کی ۔وہ جمعہ کے دن کو عروبہ کہتے تھے ۔
پس وہ ابو امامہ اسعد بن زرارہ کے گھر میں جمع ہوئے ۔
ان کے لئے ایک بکری ذبح کی گئی جو ان سب کے لئے کافی ثابت ہوئی ۔
(دیکھئے : ابن تیمیہ کی اقتضا ء الصراط المستقیم ،ص ۳۰۴ ۔ یہ در اصل ابن ہشام کی السیرۃ النبویہ میں مذکور ہے جس سے موسوعۃ التاریخ الاسلامی ،ج۱،ص۷۰۷ میں نقل ہوا ہے ۔علاوہ ازین علی بن ابراہیم سے اعلام الوری میں بھی منقول ہے ۔یہ مجمع البیان مین ابن سیرین سے مروی ہے ۔)
بنابریں اہم دینی امور کی یاد منانے ،خوشی وسرور کا اظہار کرنے اور محفل جشن منعقد کرنے کے لئے جمع ہونا انسانی جبلّت اور باطنی میلان کا حصہ ہے جو فطرت انسانی سے مکمل طور پر ہماہنگ ہے ۔ جب تک آدمی انسانی معاشرے کی فضا میں زندگی گزارتا ہے اس باطنی جذبے یا میلان کا اظہار ہوتا ہی رہتا ہے ۔
اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان مختلف دینی رسوم کو منانے اور اس انسانی روش پر عمل کرنے میں کبھی پیچھے نہیں رہے ۔
ابن تیمیہ نے جس چیز کا ذکر کیا ہے وہ اس حقیقت کی ترجمانی کرنے اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں اے منعکس کرنے والے دسیوں مظاہر میں سے ایک ہے ۔
مسلمان ہر دور کے معاشرتی تقاضوں ،معاشرتی مزاج ،عرف اور رسوم سے ہماہنگی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس روش پر عمل کرتے رہے ہیں ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی وقائع سے مربوط یادوں کو زندہ کرنے کے لئے جمع ہوکر محافل سجانے اور جشن منانے کی جڑیں ظہور اسلام کے ابتدائی دور تک پھیلی ہوئی ہیں یعنی یہ سلسلہ وہیں سے چلا آرہا ہے ۔
اس مسئلے کے بارے میں جناب سعید حوّی کا نقطہ نظر دوسرے دانشوروں کے مقابلے میں زیادہ بے لاگ اور معتدل ہے ۔
سیوطی نے مضبوط دلیلوں سے ا س قول کی تقویت کی ہے کہ اسلامی واقعات کی یاد تازہ کرنا بطور عام اور ولادت رسول کی یاد منانا خاص طور پر جائز ہیں ۔
حوّی نے ان انتہا پسندوں پر تنقید کی ہے جو بدعت کے مفہوم کو درست طریقے سے نہیں سمجھ سکے حالانکہ موصوف کا ہمیشہ یہ عقیدہ رہا ہے کہ بدعت کی دوقسمیں ہیں ۔بدعت کی ایک قسم ممدوح ہے اور دوسری قسم مذموم ۔
حوّی کہتے ہیں :
اگر میلاد نبوی کے مہینے (ربیع الاول ) کو اس طرح منایا جائے کہ مسلمان اس مہینے میں رسول اللہ کی سیرت اور شمائل کا تذکرہ کریں تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اسی طرح اگر اس مہینے کو اس طرح منایا جائے کہ رسول اللہ کے ساتھ لوگوں کے محبت آمیز جذبات اور عواطف کو فروغ دیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے ۔ اگر اس مہینے کو ایک ایسے مہینے کے طور پر منایا جائے جس میں رسول اللہ کی شریعت کے بارے میں کثرت سے گفتگو کی جائے ( یا احادیث سنائی جائیں ) تو اس میں بھی حرج نہیں ہے ۔
بعض علاقوں میں یہ رسم چلی ہے کہ ماہ میلاد کی مناسبت ے لوگ تقریر یا اشعار سننے کے لئے کسی مسجد یا گھر میں جمع ہوتے ہیں ۔ میری نظر میں اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ جو بات کہی جائے وہ صحیح اور درست ہو ۔ رسول کی سیرت کے کچھ تذکرے یا رسول کی مدح میں قصیدہ خوانی کی خاطر جمع ہونا جائز ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ ایسا کرنے والے ( اللہ کی طرف سے ) اجر پائیں گے ۔اگر سیرت بیان کرنے کے لئے ایک مہینے کو مختص کیا جائے جس میں شعر اور محبت کی زبان میں سیرت کا تذکرہ کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
آپ کے خیال میں اگر کوئی سکول مختلف قسم کی ثقافتی سرگرمیوں کے لئے ایک خاص مہینے کو معین کرے تو کیا وہ سکول مجرم اور گناہگار کہلائے گا ؟ میرے خیال میں عید میلاد کا مسئلہ بھی اسی نوعیت کا ہے اور اس زمرے سے خارج نہیں ہے ۔
اس کے بعد وہ لکھتے ہیں :
بہ تحقیق استاد حسن البنا ایک سچے اور تیز بین انسان نیز متبحر عالم تھے ۔ وہ اس بات کے حق میں تھے کہ اس تاریک اور پر آشوب دور میں جس کے اندر مسلمان غفلت کے شکار ہیں اور اپنے دین کے بہت سے مسائل سے لاعلم ہیں اسلامی ایام اور مراسم کو زندہ کرنا اور منانا چاہیے ۔
وہ اپنی یاداشتوں میں لکھتے ہیں : مسلمانوں کے درمیان جن راتوں کو جشن منانا بطور لازم مرسوم ہے ان تمام راتوں کو قرآن حکیم کی تلاوت یا خطبوں اور مناسب تقریروں کے ذریعے جاگ کر کاٹنا چاہیے ۔۔۔۔۔
اس کے بعد وہ شدت پسندوں پر یوں حملہ کرتے ہیں :
اس قسم کے امور میں شدت پسندوں کی انتہا پسندی بے جا اور غیر معقول ہے کیونکہ بنیادی اصول یا قاعدہ ہر چیز کی حرمت نہیں بلکہ بنیادی قاعدہ یہ ہے کہ ہر چیز مباح اور جائز ہے جب تک اس کی حرمت صریح نص ّ سے ثابت نہ ہو ۔
حدیث شریف :
کلّ مالیس علیه امرنا ف هو ردٌّ ‘‘
(ہر وہ چیز جس کے بارے میں ہمارا امرموجود نہ ہو وہ مردود ہے ) کے بارے میں ان لوگوں کا فہم غلط ہے ۔۔۔
(دیکھئے سعید حوّی کی لانمضی بعیداًً عن احتیاجات العصر ،ص ۶ نیز السیرۃ بلغۃ الحبّ والشعر ،ص ۳۶ ۔۳۹۔)
درحقیقت مسلمانوں کے باطن میں مخزون دینی جذبات و احساسات کا اجتماعی و معاشرتی اظہار لوگوں کے ہاں رائج عرف ،مختلف معاشرتی اسالیب اور مخصوص اجتماعی عادات پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔
اس کی مثال اکثر ممالک کی سرکاری تقریبات ہیں جو وہ اپنے یوم آزادی پر مناتے ہیں ۔
البتہ ایک طرف سے ان عام تقریبات اور دوسری طرف سے میلاد نبی کی تقریبات یا دیگر اہم اسلامی تقریبات میں یہ فرق ہے کہ مذکورہ عام سرکاری تقریبات لوگوں کی معاشرتی زندگی کے آداب و رسوم اور عرف عام کی تابع ہوتی ہیں ۔ان کا شریعت کی عمومی تعلیمات سے کوئی ربط نہیں ہوتا ۔
یاد رہے!
کہ شریعت کی یہ تعلیمات کسی چیز کو استحباب اور خدا کے ہاں مطلوبیت کے دائرے میں داخل کرتی ہیں ۔
ان کے برعکس اسلامی وقائع و ایام کی یاد منانے کے لئے منعقد ہونے والی محافل اور تقریبات خاص کر میلاد نبوی کا جشن اسلامی شریعت کے اوامر کے دائرے میں شامل ہوتے ہیں اور احادیث و روایات کی صورت میں مروی ہوتے ہیں ۔
آخر میں یہ عرض کرتے چلیں کہ جب ہم ان اسباب و عوامل کا جائزہ لیتے ہیں جن کے باعث مکتب اہل بیت کے پیروکار اس قسم کی سرگرمیوں کو شور و شغف کے ساتھ جاری رکھتے ہیں اور مختلف مسرّت آمیز یا غم انگیز اسلامی وقائع و ایام خاص کر میلاد نبی کی محافل کو بھر پور انداز سے مناتے ہیں تو اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ یہ طبقہ فکر رسول اکرم ﷺ کی شخصیت کے مختلف پہلؤوں کو مسلمانوں کے قلوب و اذہان میں مسلسل زندہ و تابندہ رکھنے کی شدید خواہش کے تحت ایساکرتے ہیں ۔
ان کوششوں کے پیچھے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات سے سر؛افراز ہوں ،اس کی طرف دعوت کا سلسلہ جاری رکھیں اور اس سے متمسک رہیں ۔
جو شخص ان محافل کے پروگراموں سے آگاہی رکھتا ہو وہ دیکھتا ہے کہ ان پروگراموں کا اولین مقصد یہ ہوتا کہ گفتگو ،قصائد ، تقریروں ،یاد داشتوں اور باہدف اسلامی مقالات کے ذریعے رسول اکرم ﷺکے مقام و مرتبے کو نمایاں تر کیا جائے اور آپ کی عظمت کے دائمی آثار و برکات کو اُجاگر کیا جائے بلکہ بعض محافل میں تو آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ اور روئے زمین پر توحید کا پرچم بلند کرنے کے لیے آنحضرت ﷺ کے عظیم جہاد کے مختلف پہلوؤں اور گوشوں کے بارے میں مختلف قسم کی تحقیقی کاوشیں بھی پیش کی جاتی ہیں ۔
علاوہ ازیں ان امور کا تحقیقی جائزہ پیش کیا جاتا ہے جو رسول اکرم ﷺسے مربوط ہوں ،مسلمانوں کو آنحضرت کی سیرت سے وابستہ کریں اور انہیں آپ کی پیروی اور آپ کی رہنمائیوں کے سائے تلے چلنے کی ترغیب دیں ۔
سید محسن امین عاملی(رح) کا بیان
اس بات کی مزید وضاحت کے لئے ہم سید محسن امین عاملی کے بیان پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
وہ فرماتے ہیں :
انبیاء و اولیا ء کی ولادت اللہ کی مخلوق پر اللہ کا کرم اور اس کی نعمت ہے ۔ ان کی ولادت کی یاد منانا وہ عمل ہے جسے وہابی عید اور تہوار کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
ان ہستیوں کی ولادت کے دن خوشی منانا اور زیب و زینت کرنا ، ان کی ولادت کے واقعات پڑھنا (جیساکہ ہمارے نبی کی ولادت کے واقعات پڑھنے کی رسم موجود ہے )، اللہ سے ان کے مقام و مرتبے کی بلندی کے لئے دعا کرنا ،انبیا ءعلیہم السلام پر بار بار درود و سلام بھیجنا اور صالح بندوں کے لئے رحمت طلب کرنا وہ امور ہیں جن میں عقلی اور شرعی لحاظ سے کوئی مضائقہ یا رکاوٹ نہیں ہے بشرطیکہ یہ اعمال کسی حرام کام (مثلا گانے بجانے ،خرابکاری اور لہو لعب کے آلات کے استعمال وغیرہ ) سے مخلوط نہ ہوں ۔
دنیا کے عقلاء اور مختلف اقوام کے لوگ اپنی عظیم شخصیات اور انبیاء کی ولادت کے ایام نیز اپنے باد شاہوں اور حکمرانوں کی تخت نشینی کی سالگرہ کے ایام مناتے ہیں ،یہ سب ایک قسم کی تعظیم ہے ۔
پس اگر وہ شخصیت تعظیم کی حقدار ہوتو یہ عمل اللہ کی اطاعت اور عبادت محسوب ہوگا ۔
یاد رہے!
کہ ہر تعظیم معظّم (وہ جس کی تعظیم کی جائے ) کی عبادت محسوب نہیں ہوتی ۔
بنابریں (انبیاء و اولیا کی ) تعظیم کو مشرکین کے ان اعمال کی طرح قرار دینا جنہیں وہ اپنے بتوں کے لئے انجام دیتے ہیں ایک باطل اور غلط قیاس ہے ۔
(دیکھئے سید محسن امین عاملی کی کشف الارتیاب ،ص۰ ۴۵۔)
خلاصہ بحث
مسلمانوں کے درمیان میلاد النبی کا جشن منانے کی رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے اور اب تک جاری وساری ہے۔
جو لوگ محافلِ میلاد کو بدعت اور دینی تعلیمات کے منافی قرار دیتے ہیں ان کا دعوی درست نہیں ہے کیونکہ اس دعوے کی دلیل بدعت کے بارے میں ان کے مغالطہ آمیز اور غلط فہم پر مبنی ہے ۔
ان لوگوں کے زعم میں ہر وہ چیز بدعت ہے جو اسلام کے صدر اول میں موجود نہ رہی ہو یا اس کے بارے میں کوئی خاص دلیل موجود نہ ہو ۔اس زعم باطل کے برخلاف درست نظریہ یہ ہے کہ کوئی فعل یا چیز دین کے اندر دو صورتوں میں جائز قرار پاتی ہے :
پہلی صورت یہ کہ اس چیز کے بارے میں خاص نصّ موجود ہو جس طرح عید فطر اور عید قربان کے جشن کے بارے میں خاص نصّ موجود ہے ۔
دوسری صورت یہ کہ وہ عمل یا چیز کسی عام نصّ یا کلی حکم کے دائرے میں شامل ہو اور اس کو عملی جامہ پہنانے کا طریقہ لوگوں پر چھوڑدیا گیا ہو , جس طرح اسلام نے جہاد کے سازو سامان کی کیفیت اور جہاد کے اسالیب کو جو ہر دم ترقی کی جانب گامزن رہتے ہیں لوگوں پر چھوڑ دیا ہے ۔
جشن میلاد نبی کے سلسلے میں محافل برپا کرنے کا مسئلہ بھی اسی نوعیت کا ہے کیونکہ شریعت نے رسول کی تعظیم و تکریم کا عام حکم دیا ہے لیکن اس حکم پر عملدرآمد کے طریقوں کو مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے ۔
اسی بنیاد پر مکتب اہل بیت کے پیروکار وں کے بشمول مسلمانان ِ عالم میلاد النبی کا جشن مناتے ہیں اور اسی جائز شرعی نقطہ نظر کی روشنی میں میلاد کی محافل برپا کرتے ہیں۔