امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

جشن میلاد النبی سنت یا بدعت؟-قسط-9

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

بسم اللهِ الرحمن الرحیم

جشن میلاد النبی سنت یا بدعت-قسط-9؟

-----

جشن  میلاد  النبی حکمرانوں  اور  سیاسی شخصیات کے ہاں  :

مذکور ہے کہ حکمرانوں  میں سے  جس حاکم  نے   سب سے پہلے میلاد کا جشن  منایا  وہ امیر ابو سعید مظفرالدین اربلی   ( متوفی ۶۳۰ ھ) تھے ۔

(دیکھئے :  زرقاوی  کی  الحضارۃ الاسلامیہ  فی القرن الرابع  الہجری  ،ج۲،ص ۲۹۹ نیز دیکھئے   التوسل بالنبی  و جہلۃ الوہابیین  ،ص  ۱۱۵  نیز سیوطی کی  کتاب  رسالۃ حسن  المقصد   جو  النعمۃ الکبری علی العالم  کے ساتھ چھپی  ہے ،ص  ۷۵ ، ۸۰ ، ۴۷۷  نیز البدیۃ  والنہایۃ  ،ج۱۳،ص ۱۳۷)

اس عید  میں  شرکت کے لئے بغداد  ،موصل ،الجزیرہ ،سنجار  اور نصیبین  یہاں  تک  کہ ایران سے بھی  مختلف وفود شرکت کے لئے آتے تھے  ۔

ان میں علماء ،صوفیا ،واعظین  ، قراء اور شعراء بھی  ہوتے تھے ۔

 یہ لوگ محرم سے لے کر  ربیع الاول  کے اوائل تک اربلاء میں ٹھہرتے تھے ۔

امیر (ابو سعید )  بڑی شاہراہ پر لکڑی کی بڑی بڑی میزیں  رکھواتے تھے ۔

 یہ  میزیں  متعدد طبقات پر مشتمل ہوتی تھیں  اور   ایک  دوسری پر رکھی  جاتی  تھیں  ۔

 یہ  چار پانچ کی تعداد میں  ہوتی تھیں  ۔

امیر ان کی سجاوٹ کا اہتمام کرتا تھا ۔

ان  میزوں پر  ساز و آواز کا مظاہرہ کرنے والے اور شعبدہ باز اوپر تک بیٹھتے تھے ۔ ۔۔الخ  ۔

(دیکھئے :وفیات الاعیان ،ج۱،ص ۴۳۶ ۔۴۳۷ ، شذرات الذہب  ،ج۵،ص ۱۳۶ ۔ ۱۴۰  نیز دحلان کی السیرۃ النبویہ  ،ج۱،ص ۲۴ ۔۲۵  اور  البدایۃ  والنہایۃ ،ص ۲۳ ،۱۳۷۔)

سید رشید رضا  رقمطراز ہیں  :  جس شخص نے سب سے پہلے میلاد  نبوی  کا واقعہ پڑھنے کے لئے  اجتماعی محفل سجانے کی ابتداء کی  وہ مصر کے شرکسی  حکمرانوں  میں سے ایک حکمران تھا ۔

(دیکھئے  القول الفصل فی حکم الاحتفال بمولد  خیر الرسل ،ص ۳۰۵  از  الفتاوی ،ص ۴ ۔)

جشن میلاد  النبی  اور دیگر تہواروں  کے جائز ہونے کے بارے میں  متعدد کتابیں  اور رسالے  لکھے گئے  ہیں  اور کثیر تعداد   میں تحقیقی مواد  اور مقالے  منظر عام پر  آچکے  ہیں  ۔

یہ  ان تحقیقی تحریروں  کے علاوہ  ہیں  جو دیگر موضوعات پر لکھی گئی کتابوں   کے اندر پھیلی  ہوئی ہیں  ۔

ان کتب اور رسالوں میں سے  بعض درج ذیل ہیں :

۱۔ ’’التنویرفی مولد السراج المنیر‘‘ یہ الدحیہ کی  تالف   ہے۔ الدحیہ  نے امیر مظفر  الدین کے لئے اس کتاب کی تالیف  کا اہتمام  کیا تھا  ۔امیر  نے مولف کو  ایک ہزار دینار عطا کیے ۔اس  کے علاوہ مولف کے قیام کے جملہ اخراجات بھی ادا کیے ۔

( دیکھئے وفیات الاعیان،ج۱،ص ۳۸۱ ،۴۳۷  نیز  سیوطی کی رسالۃ حسن المقصد  ،ص ۷۵ ، ۷۷ ، البدایۃ  والنہایہ ،۱۳ /۱۳۷  اور السیرۃ الحلبیہ ،ج۱،ص ۸۳ ۔ ۸۴)

۲۔   سیوطی کا رسالہ ’’ حسن المقصد ‘‘ ۔

۳۔ ابن ربیع  کی کتاب  ’’المولد ‘‘

۴۔ ’’الصواعق المحرقۃ‘‘کے مصنف شہاب الدین  احمد بن حجر ہیثمی شافعی کی کتاب  ’’ النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سید ولدآدم ‘‘ (دیکھئے  جعفر مرتضی عاملی  کی المواسم  والمراسم  ،ص ۲۵ ۔)

میلاد النبی کے خواص  اور احکام

روز میلاد  کے بعض  مخصوص  شرعی احکام ہیں  ۔

علاوہ ازیں   اس دن کے طفیل  اللہ سبحانہ وتعالی  اپنے بندوں  کو بعض  نعمتوں  اور برکات سے  بھی نوازتا ہے ۔

۱۔سابق الذکر علماء مثلا قسطلانی ،ابن الحاج ،ابن عباد  اورابن حجر وغیرہ  کے اقوال ے  پتہ چلتا ہے کہ روزِ میلاد  نبی بھی دیگر اعیاد  کی  طرح  عید کا دن ہے ۔

(دیکھئے المواہب اللدنیہ  ،ج۱،ص ۲۷  نیز دحلان کی السیرۃ النبویہ ،ج۱،ص ۲۴  اور السیرۃ الحلبیہ  ،ج۱،ص ۸۳ ۔۸۴ ۔)

۲۔ ابن جوزی  کہتے ہیں :

 اس عید کے خواص  میں  سے ایک یہ ہے کہ یہ اس سال کے لئے امان کا باعث ہے

 نیز یہ مقاصد  و اہداف کے حصول کی  پیشگی  خوشخبری ہے ۔

(دیکھئے : المواہب اللدنیہ ،ج۱،ص ۲۷ ، تاریخ الخمیس  ،ج۱،ص ۲۲۳ ، جواہر البحار  ،ج۳،ص ۳۴۰ ، از احمد عابدین ، اور دحلان کی السیرۃ النبویہ  ،ج۱،ص ۲۴ ۔)

۳۔ رسول کے احترام  میں  کھڑا ہونا  مستحب ہے اور  آپ پر  درود بھیجنا واجب ہے ۔

مذکور ہے کہ  لوگ آنحضرت ﷺکے احترام اور آپ کی تعظیم  کے لئے  کھڑے ہوتے تھے  ۔ علماء نے اس  قیام کی  شرعی جہت کے بارے میں  بحث کی ہے ۔

صفوری شافعی کہتے ہیں  : میلاد  مناتے وقت کھڑا ہونے (کے جواز )میں کوئی اختلاف  نہیں   ہے کیونکہ یہ پسندیدہ  بدعتوں میں  ے ایک ہے ۔ بعض علماء نے فتوی  دیا ہے  کہ ذکر ولادت  کے وقت کھڑا ہونا  مستحب ہے ۔بعض علماء کہتے ہیں  کہ آنحضرت ﷺکے ذکر کے وقت آپ پر درود  بھیجنا واجب ہے کیونکہ یہ آپ کی تعظیم و تکریم  کا تقاضا  ہے ۔

( دیکھئے : نزہۃ المجالس  ،ج۲،ص ۸۰ ۔)

 

عید کے دن ساز و آواز:

 ابن تیمیہ  کی نظر میں

ابن تیمیہ واضح طور پر بتاتے ہیں  :  عید  صرف  عبادات اور صدقات وغیرہ سے مختص  نہیں بلکہ  ان کے علاوہ کھیل اور خوشی کے اظہار کو بھی شامل ہے ۔

ابن تیمیہ  کا خیال ہے کہ سنت کے اندر اس کی دلیل موجود ہے ۔

اس سے  مراد  وہ روایت ہے جو کہتی ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس  بعض  لونڈیاں  گار ہی  تھیں۔

اتنے میں  ابوبکر آگئے ۔انہیں  یہ کام پسند نہیں آیا،

  چنانچہ  وہ بولے :  رسول اللہ کے گھر میں  شیطانی  بنسری  کا استعمال  ؟

 نبیﷺ نے فرمایا : ہر قوم  کی ایک عید ہوتی ہے اور ہماری عید آج  کے دن ہے ۔

(دیکھئے : اقتضاء الصراط المستقیم ،ص ۱۹۴ ۔ ۱۹۵  ۔ص ۱۹۳  میں یہ روایت صحیحین سے  منقول ہے ۔نیز دیکھئے  صحیح بخاری ،ج۱،ص ۱۱۱ ، مطبوعہ المیمنۃ  اور صحیح مسلم  ،ج۲،ص ۲۲ ، السیرۃ الحلبیہ ،ج۲،ص ۶۱۔ ۶۲ ، نووی کی   شرح مسلم  حاشیہ  ارشاد الساری    ،ج۴،ص ۱۹۵ ۔ ۱۹۷ ، دلائل الصدق  ،۱،ص ۳۸۹ ، سنن بیہقی ،ج۱۰ ،ص  ۲۲۴ ،  ابی نصر کی اللمع  ،ص ۲۷۴ ، البدایۃ والنہایۃ  ،ج۱،ص ۲۷۶ ،  ابن الحاج کی المدخل ،ج۳،ص ۱۰۹ ، المصنف ،ج۱۱،ص ۱۰۴  نیز  مجمع الزوائد ،ج۲،ص  ۲۰۶ ، طبرانی  کی الکبیر سے ماخوذ ۔)

ابن تیمیہ  مزیدلکھتے ہیں :

عید کے دن  جو افعال  بجالائے جاتے ہیں   مثلا کھانا  پینا، عمدہ لباس  پہننا ،زیب و زینت کا اہتمام  کرنا  ،  کھیلنا  اور خوشی منانا  وغیرہ  انہیں سب لوگ خاص کر  بچے ،عورتیں  اور اکثر  فارغ البال لوگ  باطنی  اور قلبی طور  پر پسند کرتے ہیں  ( بشرطیکہ کوئی شرعی   مانع  موجود نہ ہو )

(دیکھئے : اقتضاء الصراط المستقیم ،ص ۱۹۵ ۔اگر مذکورہ روایت درست ہے اور عید  صرف  عبادات و صدقات سے مختص نہیں ہے بلکہ اور چیزوں کو بھی شامل ہے  نیز عید کے اعمال و افعال انسانی باطن  اور دل کے تقاضے  ہیں  تو پھرعید  میلاد  منانے کے لئے محافل کا انعقاد   اور ان میں  خوشی  و سرور کا اظہار  کس لئے جائز قرار نہ پائیں  ؟)

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک