جشن میلاد النبی سنت یا بدعت؟-قسط-8
- شائع
-
- مؤلف:
- حجۃ الاسلام سید عبدالرحیم موسوی۔ تحقیقی کمیٹی_ مترجم :حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
بسم اللهِ الرحمن الرحیم
جشن میلاد النبی سنت یا بدعت-قسط-8؟
-----
یوم ِمیلادِ نبی کا تاریخی جائزہ :
مورخین کہتے ہیں کہ نیک اور متقی لوگوں کی طرف سے نبی کی تعظیم و تکریم اس قدر زیادہ ہوگئی کہ سنۂ ۳۰۰ ھ میں آپﷺ کی ولادت کا جشن منایا گیا ۔
(دیکھئے سید مرتضی عاملی کی المواسم و المراسم ،ص ۴۱۔)
مطلب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی میلاد منائی جاتی تھی لیکن اس سال انفرادی مراسم اجتماعی رسم میں تبدیل ہوگئے ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ امت مسلمہ کے نیک اور متقی لوگوں کے ہاں اس دن کی اہمیت میں روز بروز اضافہ ہورہا تھا ۔ اسی بناپر جناب کرجی (متوفی ۳۴۳ ھ) جو بہت بڑے زاہد و عابد تھے کے بارے میں مروی ہے:
وہ عیدین اور ولادت رسول کے دن کے علاوہ کبھی اپنا روزہ نہیں کھولتے تھے ۔
(دیکھئے الحضارۃ الاسلامیہ فی القرن الرابع الہجری ،ج۲،ص ۲۹۸ ۔)
قسطلانی کہتے ہیں :
مسلمانوں کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ رسول ﷺکی ولادت کے مہینے میں جشن اور محافل بپا کرتے ہیں ، لوگوں کی دعوت کرتے ہیں ، اس ماہ کی راتوں کو مختلف قسم کے صدقات دیتے ہیں ، خوشی کا اظہار کرتے ہیں ، خوب فیاضی کرتے ہیں اور ذکر تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں ۔ پس اللہ ان لوگوں کو اپنی برکتوں ،فضل و کرم اور لطف عام سے نوازتا ہے ۔
آگے چل کر قسطلانی لکھتے ہیں :
اللہ کی رحمت ہو اس شخص پر جو ماہ میلاد کی مبارک راتوں کو عید قرار دے ۔
(دیکھئے المواہب اللدنیہ ،ج۱،ص ۲۷ نیز دحلانی کی السیرۃ النبویہ ،ج۱،ص ۲۴ اور السیرۃ الحلبیہ ،ج۱،ص ۸۳ ۔ ۸۴ ۔)
اس کے بعد قسطلانی ابن الحاج کے موقف کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
ابن الحاج نے المدخل میں عید میلاد شریف کے موقعے پر لوگوں کی پیدا کردہ بدعتوں ، ہوس پرستیوں اور حرام آلات موسیقی کے استعمال کی مذمت میں تفصیلی گفتگو کی ہے ۔اللہ تعالی موصوف کے نیک ارادے پر انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ۔
(دیکھئے المواہب اللدنیہ ،ج۱،ص ۲۷ ، نیز دحلانی کی السیرۃ النبویہ ،ج۱،ص ۲۴ اور السیرۃ الحلبیہ ،ج۱،ص ۸۳ ۔ ۸۴ ۔)
سخاوی کہتے ہیں :
تمام بڑے شہروں اور علاقوں کے مسلمان میلاد مناتے ہیں ،میلاد کی راتوں کو مختلف قسم کے صدقات دیتے ہیں اور ذکرِ میلاد کا اہتمام کرتے ہیں ۔ا س دن کی برکت سے اللہ انہیں ہر قسم کے فضل و کرم سے نوازتا ہے ۔( دیکھئے : السیرۃ الحلبیہ ،ج۱،ص ۸۳ ۔ ۸۴ نیز دحلانی کی السیرۃ النبویہ ،ج۱،ص ۲۴ اور تاریخ الخمیس ،ج۱،ص ۲۲۳ ۔)
ابن عباد اپنی کتاب وسائل کبری میں لکھتے ہیں :
میری نظر میں میلاد نبی مسلمانوں کی عیدوں میں سے ایک عید اور ان کی تہواروں میں سے ایک تہوار ہے ۔عید میلاد کے مبارک موقعے پر خوشی اور سرور کے اظہار کی خاطر لوگ جو کچھ کرتے ہیں مثلا ان کا شمعیں روشن کرنا ،سماعت و بصارت کی لذت کا سامان فراہم کرنا ،عمدہ لباس زیب تن کرنا اور عمدہ سواریوں پر سوار ہونا وغیرہ تو یہ سب مباح اور جائز ہیں جس سے کسی کو انکار نہیں ۔
(دیکھئے القول الفصل فی حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل ،ص ۱۷۵ ۔)
ابن حجر کہتے ہیں :
اس موقعے پر وہی اعمال انجام دینے چاہئیں جن سے اللہ تعالی کے شکر کی بو آتی ہو مثلا تلاوت کرنا ،کھانا کھلانا ، صدقہ دینا ،نبی کی شان میں مدح وثنا اور دنیا سے بے رغبتی پر مبنی اشعار کہنا وغیرہ ۔
ان کے علاوہ وہ جو دیگر امور انجام دیے جاتے ہیں مثلا محفل سماع اور لہو لعب ، وغیرہ تو ان ے جو امور مباح ہو ں اور اس دن کی خوشیوں کے منافی نہ ہو ں ان کی انجام دہی میں کوئی حرج نہیں ۔
رہے حرام اور مکروہ افعال تو وہ ممنوع ہیں ۔
اسی طرح ان امور سے بھی اجتناب برتنا چاہیے جن میں بہتری کاپہلو نہ ہو ۔
(دیکھئے : سیوطی کی کتاب رسالۃ حسن المقصد کی تلخیص جو کتاب النعمۃ الکبری علی العالم کے ساتھ ہی چھپی ہے ،ص ۱۰ ۔)