جشن میلاد النبی سنت یا بدعت؟ -قسط-3
- شائع
-
- مؤلف:
- حجۃ الاسلام سید عبدالرحیم موسوی-تحقیقی کمیٹی_ مترجم : حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
بسم اللهِ الرحمن الرحیم
جشن میلاد النبی سنت یا بدعت؟ -قسط-3
-----
دوسری فصل :
جشن میلاد النبی بدعت ہے یا دینداری ؟
ہم سب سے پہلے یہ بتائیں گے کہ دین کے اندر کوئی چیز کب جائز محسوب ہوتی ہے ۔
کوئی بھی چیز دینی نقطہ نظر سے اس وقت جائز ہے جب اس بارے میں خاص نص موجود ہو مثلا عید فطر اور عید اضحی کی محافل نیز یوم عرفہ کا اجتماع وغیرہ ۔ ان موارد میں لوگوں کا جمع ہونا اور محفل منعقد کرنا یقینا جائز ہیں اور بدعت کے دائرے سے قطعاً خارج ہیں ۔
علاوہ ازیں وہ امور بھی دین کی نظر میں جائز ہیں جن کے بارے میں کوئی خاص نص تو موجود نہ ہو لیکن نصِّ عام کے ذریعے ان کی اجازت دی گئی ہو ۔ اس قسم کے موارد میں انسان کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جس انداز میں یا جس طریقے سے چاہے ان امور کو انجام دے بشرطیکہ کوئی حرام راستہ اختیار نہ کرے ۔
اس کی بعض مثالیں درج ذیل ہیں :
پہلی مثال :
شریعت نے اولاد کو علم سکھانے اور خود علم سیکھنے کا حکم دیا ہے اور اس بات میں شک کی گنجائش نہیں کہ اس حکمِ عام پر عملدر آمد کی مختلف صورتیں اور طریقے ممکن ہیں ۔ زمانے کے تغیّر و تبدل کے ہمراہ ان طریقوں اور اسالیب میں بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں ۔مثلا پہلے زمانوں میں کتابت کا کام نرکل ، لکڑی یا پروں کے قلم سے انجام دیا جاتا تھا لیکن آج کل کتابت اور تعلیم کے طریقوں نے ترقی کی ہے اور اس سلسلے میں جدید ترین وسائل سے استفادہ کیا جاتا ہے چنانچہ اب کمپیوٹر ،ٹائپ رائٹر اور آڈیو / ویڈیو کیسٹوں وغیرہ کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے ۔
اس مثال میں شارع مقدس نے علم سکھانے کا بطور مطلق حکم دیا ہے لیکن طریقہ تعلیم کا انتخاب ہمارے اوپر چھوڑ دیا ہے ۔
دوسری مثال
کہتے ہیں کہ صحابہ نے قرآن کی متفرق آیات کو ایک ہی مصحف کی شکل میں جمع کرنے کا کام کیا لیکن کسی نے اس عمل کو بدعت قرار نہیں دیا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کا یہ عمل اللہ کے اس قول کی تعبیر تھا :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (حجر /۹)
(بے شک ہم نے یہ قرآن نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں )
پس صحابہ کا عمل درحقیقت قرآن و سنت کے احکام پر عملدر آمد سے عبارت تھا ۔ اسی طرح مسلمانوں نے قرآن کی کتابت ،قرآنی حروف پر نقطے لگانے ،قرآنی الفاظ اور جملوں پر اعراب لگانے، آیتوں کو شمار کرنے، سرخ نقطوں سے انہیں مشخص کرنے ،جدید طریقوں پر قرآن کی طباعت اور نشر اور اشاعت کرنے ، حافظان قرآن کی عزت و تکریم کرنے ،ان کے لئے محافل و مجالس کا انعقاد کرنے اور اس طرح کے دیگر اقدامات کے ذریعے قرآن کی حفاظت اور بقا کا سامان فراہم کیا حالانکہ رسول اللہ ﷺ ،صحابہ اور تابعین نے یہ امور انجام نہیں دیے تھے ۔ وجہ یہ ہے کہ ان اقدامات کے پیچھے ایک عام حکم یا دلیل کار فرما ہے ۔
تیسری مثال :
اسلام کے وجود ، اس کی خود مختاری اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے قرآن فرماتا ہے :
وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ (انفال /۶۰)
(مجاہدین کو ہر قسم کی ممکنہ طاقت فراہم کرو ۔)
یہ ایک مطلق حکم ہے جس پر عملدر آمد ضروری ہے لیکن دفاع اور حفاظت کے طریقے ، ہتھیاروں کی اقسام اور لازمی عسکری خدمت کے اسالیب مختلف ہوسکتے ہیں ۔
ان میں سے جو بھی اسلوب یا طریقہ اختیار کیا جائے اس کا اصل مقصد مذکورہ قرآنی حکم پر عملدرآمد ہے ۔ اس کے باوجود بعض کوتاہ بین عناصر عوامی فورس کی بھر تی کو بدعت قرار دیتے ہیں ۔
یہ عناصر اس حقیقت سے غافل ہیں کہ اسلام ایک عام اصول وضع کرتا ہے اور اس پر عملدرآمد کی مختلف صورتوں ،طریقوں اور اسالیب کو حالات کے تقاضوں پر چھوڑ دیتا ہے ۔
یہ وہ اصول اور قاعدہ ہے جو بدعت کو حکم کی تعمیل و تطبیق ے جدا کرتا ہے نیز ابتداع (بدعت گزاری ) کو اتباع سے الگ کرتا ہے ۔ یہاں اس موضوع بحث کے بارے میں بعض علماء کی تصریحات پیش کی جاتی ہیں ۔
الف ۔
ابن رجب کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺکی حدیث :
ایاکم و محدثات الامور فان کلّ بدعة ضلالة ۔
(نت نئے امور سے اجتناب کرو کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے )
کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو ان نئے کاموں سے اجتناب کا حکم دیا جائے جو بدعت ہیں ۔
اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا :
" کلّ بدعة ضلالة "۔
بدعت سے مراد وہ نئی چیز ہے
جس کی شریعت نے اجازت نہ دی ہو یا جس کے جواز پر کوئی شرعی قاعدہ موجود نہ ہو لیکن اگر وہ کسی شرعی دلیل کے زمرے میں آئی ہو تو وہ بدعت نہیں ہے اگر چہ لغوی طور پر اسے بدعت کہاجائے ۔
صحیح مسلم میں جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے خطبے میں فرماتے تھے :
انّ خیر الحدیث کتاب الله وخیرالهدی هدی محمد وشرّ الامور محدثاتها وکلّ بدعة ضلالة ۔۔۔
( بے شک بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت محمد کی رہنمائی ہے ۔
بدترین امور وہ ہیں جو بعد میں وجود میں لائے گئے ہوں اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔
آنحضرت ﷺ کا فرمان :
" کلّ بدعة ضلالة "۔
( ہر بدعت گمراہی ہے )
وہ جامع کلام ہے جس سے کوئی چیز خارج نہیں۔
یہ دین کے اصولوں میں سے ایک عظیم اصول ہے ۔
یہ آنحضرتﷺ کے اس قول کے مشابہ ہے :
من احْدثَ فی امرنا هذا مالیس منه فهو ردٌّ۔
جو شخص ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی چیز وجود میں لائے جو اس کا حصہ نہ ہو وہ باطل اور مردود ہے ۔)
پس جو شخص کوئی نئی چیز وجود میں لائے اور اے دین سے منسوب کرے جبکہ وہ کسی دینی قاعدے کے مطابق نہ ہوتو یہ گمراہی ہے اور اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔
(دیکھئے : جوامع العلوم والحکم ،ص ۲۲۳ ۔)
ب۔
ابن حجر نے حدیث نبوی :
انّ احسن الحدیث کتاب الله ۔۔۔الخ
کی تشریح میں کہا ہے : مُحدَثات ( دال پر زبر کے ساتھ ) مُحْدَثٌ کی جمع ہے ۔اس سے مراد بعد میں وجود میں لائی جانے والی چیز ہے جو کسی شرعی قاعدے یا اصول کے مطابق نہ ہو ۔
شریعت کی اصطلاح میں اے بدعت کہا جاتا ہے ۔
اگر شریعت کا کوئی قاعدہ اس پر دلالت کرتا ہو تو وہ بدعت نہیں ہے ۔
پس جو چیز شرعی اصطلاح کے مطابق بدعت کہلائے وہ مذموم اور ممنوع ہے نہ کہ ہر وہ چیز جو لغوی لحاظ سے بدعت ہو کیونکہ لغوی لحاظ سے ہر اس چیز کو بدعت کہا جاتا ہے جس کی نظیر پہلے موجود نہ ہو خواہ وہ ممدوح ہو یا مذموم ۔ یہی حال لفظ ’’مُحدَثۃٌ‘‘ کا ہے ۔
(دیکھئے : فتح الباری ،ج۱۳،ص ۲۵۳ ، شرح حدیث ۷۲۷۷ ۔)
جب ہم قرآن کریم اور سنت شریفہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ دین اسلام نے رسول اللہ ﷺکے بارے میں ایک اہم اصول وضع کیا ہے اور وہ ہے: آنحضرت کی زندگی میں اور آپ کی رحلت کے بعد آپ کی تعظیم و تکریم کا لزوم ۔
یہ وہ حکم ہے جس ے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا ۔
رہی بات اس تعظیم و تکریم کو عملی جامہ پہنانے کے طریقے کی تو وہ مسلمانوں پر چھوڑ دیا گیا ہے بشرطیکہ وہ حرام کا ر استہ نہ اپنائے ۔