جشن میلاد النبی سنت یا بدعت؟ -قسط-2
- شائع
-
- مؤلف:
- حجۃ الاسلام سید عبدالرحیم موسوی-تحقیقی کمیٹی_ مترجم :حجۃ الاسلام شیخ محمد علی توحیدی
بسم اللهِ الرحمن الرحیم
جشن میلاد النبی سنت یا بدعت؟ -قسط-2
-----
پہلی فصل :
مقدس واقعات کا تقدس ان کے اوقات میں بھی سرایت کر جاتا ہے
کیا وہ ایام اور اوقات جن میں مقدس خدائی واقعات و امور رونما ہوتے ہیں ان واقعات و امور کی وجہ سے تقدس کے حامل بن جاتے ہیں ؟ کیا کسی واقعے کا تقدس اس کے وقت میں سرایت کرجاتا ہے ؟
کیا ماہ رمضان کی راتوں ، اس کے ایام اور قدر کی راتوں نیز عید فطر ،عید قربان اور عید مبعث کے ایام میں رونما ہونے والے واقعات کے باعث ان دنوں اور راتوں نے برکت ،تقدس اور خیر کسب نہیں کیا ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم اس بارے میں مذکور احادیث کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ بسا اوقات عظیم اور مبارک واقعات اپنے اوقات و ازمان پر بھی اپنی عظمت کے نقوش مرتب کرتے ہیں ۔
چنانچہ صحیح مسلم میں جمعہ کے دن کی فضیلت کے بارے میں مروی ہے :
ان الله خلق آدم یوم الجمعة وادخله الجنّة یوم الجمعة ۔
(صحیح مسلم ،ج۳،ص ۶ ،کتاب الصلاۃ ،باب فضل یوم الجمعۃ ۔)
اللہ تعالی نے جمعہ کے دن آدم کو خلق فرمایا اور جمعہ کے دن ہی انہیں جنت میں داخل کیا ۔
یہی حال ماہ رمضان کی برکت کا ہے جیساکہ ارشاد الہی ہے :
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۔ بقرہ /۱۸۵
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا ۔ یہ لوگوں کے لئے باعث ہدایت ہے ۔یہ ایسے دلائل کا حامل ہے جو ہدایت اور (حق و باطل میں ) امتیاز کا موجب ہے ۔
اسی طرح لیلۃ القدر کی برکت کے بارے میں ارشاد خدا وندی ہے :
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ، وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ، لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ۔ قدر /۱۔۳
بے شک ہم نے اسے (قرآن کو ) قدر کی رات میں نازل کیا ۔ آپ کیا جانیں کہ شب قدر کیا ہے ؟ قدر کی رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔
بنابریں ان اوقات و ایام کی دائمی برکت کی اصل وجہ ان کے اندر رونما ہونے والے اہم خدائی امور اور واقعات (مثلا قرآن کا نزول وغیرہ) ہیں ۔
پس جب ایام کے تقدس کی وجہ ان میں رونما ہونے والے مبارک واقعات ہیں تو پھر نبی ﷺ کایوم ولادت بھی مبارک اور مقدس کیوں نہ ہو اور اس دن آنحضرت کی یاد منانا برکت اور تقدس کا باعث کیوں نہ ہو ؟
اس اصول کا اطلاق ان مراسم و تقریبات پر بطور خاص ہوتا ہے جن کے بارے میں صریح نص موجود ہے یا جنہیں مسلمانوں نے نبی ﷺکے دور میں منایا ہے مثلا عید فطر ،عید اضحی ،عید غدیر اور یوم عرفہ وغیرہ ۔
ادھر بعض لوگ ان مراسم کو خراج عقیدت پیش کرنے میں حد اعتدال سے آگے بڑھ کر افراط و غلو کا شکار ہوگئے ہیں ۔ یہ اُن لوگوں کے نظریات کے بالکل برعکس ہے جو رسول ﷺ،آل رسول علیہم السلام اور اسلام سے مربوط کسی بھی رسم کے تقدس کا سرے سے انکار کرتے ہیں ۔
ان کے خیال میں اس قسم کا خاص احترام اور اس نوع کی خصوصی تعظیم و تکریم دین کے اندر بدعت محسوب ہوتی ہیں جس کے آگے خاموشی کی گنجائش نہیں۔ یوں ان عناصر نے میلاد رسول کے سلسلے میں برپا ہونے والی محافل کے بارے میں مسلمانوں کے اندر شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس سلسلے میں وہ نہ عام نصوص کو تسلیم کرتے ہیں نہ خاص نصوص کو ۔ وہ اپنے موقف کے حق میں توحید کا نعرہ بلند کرتے ہیں تاکہ توحید کے بہانے اولیائے الہی سے مربوط ہر چیز کو مٹا دیں حالانکہ یہ اولیاء ہدایت کے روشن مصادیق اور معنویت کے درخشان چراغ ہیں جو معبودِ برحق کی جانب بندوں کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں ۔
ہمارے دور میں زیر بحث انہی مسائل میں سے ایک رسول کریمﷺ اور آپ کے پاک و پاکیزہ اہل بیت صلوات اللہ علیہم اجمعین کی ولادت کی محافل برپا کرنے کا مسئلہ ہے ۔