تفکر اور تدبر کی اہمیت
- شائع
-
- مؤلف:
- آیۃ اللہ جوادی آملی (دام ظلہ) - مترجم: ایڈوکیٹ شیخ توحیدی
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب: مفاتیح الحیات
تفکر اور تدبر کی اہمیت
قرآن کریم اور احادیث نے انسانوں کو تفکر اور غور و فکر کرنے کی دعوت دی ہے۔ قرآن کریم کے اندر غور و فکر اور تدبر کو عقل مندوں کے اوصاف میں شمار کیا گیا ہے۔
(إِنَّ فى خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ اخْتِلافِ اللَّيْلِ وَ النَّهارِ لَآياتٍ لأُولِى الْأَلْبابِ ٭ الَّذينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِياماً وَ قُعُوداً وَ عَلىٰ جُنُوبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ فى خَلْقِ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ رَبَّنا ما خَلَقْتَ هذا باطِلاً سُبْحانَكَ فَقِنا عَذابَ النَّارِ (سورهٔ آل عمران؍آىات 190 ـ 191))
رسول خدا ﷺنے فرمایا ہے: اے بن مسعود! جب تو کوئی کام کرنا چاہے تو اسے علم اور عقل و خرد کی روشنی میں انجام دے۔ علم و دانش اور تدبیر کے بغیر کوئی عمل انجام نہ دےکیونکہ اللہ جل و جلالہ (قسم کھا کر)فرماتا ہے:اس عورت کی طرح نہ بنو جس نے مضبوطی سے سوت کاتنے کے بعد اسے تارتار کردیا۔
(ىَا ابْنَ مَسْعُودٍ! إِذَا عَمِلْتَ عَمَلاً فَاعْمَلْ بِعِلْمٍ وَ عَقْلٍ وَ إِىَّاكَ وَ أَنْ تَعْمَلَ عَمَلاً بِغَىْرِ تَدَبُّرٍ وَ عِلْمٍ، فَإِنَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ ىَقُولُ: و لا تكونوا كالَّتى نَقَضَت غَزلَها مِن بَعدِ قُوَّةٍ اَنكـٰثًا [سورهٔ نحل؍ 92] (مكارم الأخلاق، ص458))
اسی طرح ارشاد فرمایا: تدبر کے ساتھ دو آسان رکعتوں کی بجا آوری پوری رات نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔
(رَكْعَتَانِ خَفِىفَتَانِ فِي تَدَبُّرٍ خَىْرٌ مِنْ قِىَامِ لَىْلةٍ (مكارم الأخلاق، ص300).)
نیز ارشاد ہوتا ہے: عاقل کی نشانی یہ ہے کہ وہ بات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو تدبر کرتا ہے۔ پس اگر مفید معلوم ہو تو بات کرتا ہے اور فائدہ اٹھاتا ہے۔ لیکن اگر نقصان دہ معلوم ہو تو وہ خاموش رہتا ہے جس کے باعث وہ محفوظ و مامون رہتا ہے۔
(و صِفَةُ الْعَاقِلِ... إِذَا أَرَادَ أَنْ ىَتَكَلَّمَ تَدَبَّرَ، فَإِنْ كَانَ خَىْراً تَكَلَّمَ فَغَنِمَ وَ إِنْ كَانَ شَرّاً سَكَتَ فَسَلِمَ... (تحف العقول، ص28ـ 29).)
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ ایک شخص رسول اکرم ﷺکے پاس آیا اور عر ض پرداز ہوا: اے اللہ کے رسول! میرے لئے کوئی نصیحت فرمائیے ۔ آپ نے اس سے تین بار پوچھا: اگر میں تمہیں نصیحت کروں تو کیا اس پر عمل کرو گے ؟
اس شخص نے تینوں بارجواب دیا: جی ہاں اے اللہ کے رسول!
آنحضرت ﷺنے فرمایا: میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم جب بھی کوئی کام کرنا چاہو تو اس کے انجام پر غور کرو۔ اگر وہ موجبِ ہدایت ہو تو اسے انجام دولیکن اگر وہ گمراہی کا موجب ہو تو اس سے اجتناب کرو۔
(إِنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ، فَقَالَ لَهُ: ىَا رَسُولَ اللهِ! أَوْصِنِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ: فَهَلْ أَنْتَ مُسْتَوْصٍ إِنْ أَنَا أَوْصَىْتُكَ؟ حَتَّى قَالَ لَهُ ذَلِكَ ثَلاثاً وَ فِي كُلِّهَا ىَقُولُ لَهُ الرَّجُلُ: نَعَمْ ىَا رَسُولَ اللهِ! فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ: فَإِنِّي أُوصِىكَ إِذَا أَنْتَ هَمَمْتَ بِأَمْرٍ فَتَدَبَّرْ عَاقِبَتَهُ، فَإِنْ ىَكُ رُشْداً فَامْضِهِ وَ إِنْ ىَكُ غَىّاً فَانْتَهِ عَنْهُ (الكافي، ج8، ص150).)
امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: آگاہ رہو کہ اگر عبادت میں تدبر نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
(... أَلا لا خَىْرَ فِي عِبَادَةٍ لَىْسَ فِىهَا تَفَكُّرٌ (الكافي، ج1، ص36).)
نیز فرمایا: آگاہ رہو کہ اگر قرآن کی تلاوت تدبر سے خالی ہو تو وہ بے فائدہ ہے۔
(... أَلا لا خَىْرَ فِي قِرَاءَةٍ لَىْسَ فِىهَا تَدَبُّرٌ... (الكافي، ج1، ص36).)
آپ نے اپنے بیٹے محمد حنفیہ کے نام اپنی وصیت میں فرمایا: جو شخص کاموں کے عواقب پر توجہ دیے بغیر ان میں مشغول ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو بہت ہی ناپسندیدہ اور برے عواقب کی نذر کر دیتا ہے۔ عمل سے پہلے تدبیر تجھے ندامت سے بچائے گی۔
(... وَ مَنْ تَوَرَّطَ فِي الأُمُورِ غَىْرَ نَاظِرٍ فِي الْعَوَاقِبِ فَقَدْ تَعَرَّضَ لِمُفْظِعَاتِ النَّوَائِبِ وَ التَّدْبِىرُ قَبْلَ الْعَمَلِ ىُؤْمِنُكَ مِنَ النَّدَمِ... (وسائل الشىعة، ج15، ص281 ـ 282).)
ابن کواءنے امیرالمومنین علیہ السلام سے اسلام کی خصوصیات کے بارے میں پوچھا تو آپ نے جواب دیا: اللہ تعالی نے اسلام کو بطور قانون وضع کیا اور اسے تدبر کرنے والوں کا لباس نیز تیز بین لوگوں کےلئے فہم (کا ذریعہ) قرار دیا۔
(أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ اللهَ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى شَرَعَ الإِسْلامَ... وَ جَعَلَه... لِبَاساً لِمَنْ تَدَبَّرَ وَ فَهْماً لِمَنْ تَفَطَّنَ... (الكافي، ج2، ص49).)
آپ کا ہی فرمان ہے : سب سے برتر عبادت خدا اور اس کی قدرت کے بارے میں مسلسل غور و فکر کرنے سے عبارت ہے۔
(أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ إِدْمَانُ التَّفَكُّرِ فِي اللهِ وَ فِي قُدْرَتِهِ (الكافي، ج2، ص55).)
امام رضا علیہ السلام کا فرمان ہے :
عبادت نماز اور روزے کی کثرت کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی عبادت اللہ تعالی کے کاموں میں غور و فکر کرنے سے عبارت ہے۔
(لَىْسَ الْعِبَادَةُ كَثْرَةَ الصَّلاةِ وَ الصَّوْمِ، إِنَّمَا الْعِبَادَةُ التَّفَكُّرُ فِي أَمْرِ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ (الكافي، ج2، ص55).)
تدبر اور تدبیر
رسول خدا ﷺ نے کسی سے فرمایا :
میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ جب تو کسی کام کا ارادہ کرے تو اس کے انجام کے بارے میں غوروفکر کر۔ اگر وہ ہدایت کاباعث ہو تو اسے انجام دے لیکن اگر خرابی اور تباہی کا موجب ہو تو اس سے اجتناب کر۔
(... فَإِنِّي أُوصِىكَ إِذَا أَنْتَ هَمَمْتَ بِأَمْرٍ فَتَدَبَّرْ عَاقِبَتَهُ، فَإِنْ ىَكُن رُشْداً فَامْضِهِ وَ إِنْ ىَكُن غَىّاً فَانْتَهِ عَنْهُ (قرب الإسناد، ص32).)
آپ ہی کا فرمان ہے: اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کوئی عمل انجام دے تو اسے مضبوط اور درست طریقے سے انجام دے۔
(إِنَّ اللهَ تَعَالَى ىُحِبُّ إِذَا عَمِلَ أَحَدُكُمْ عَمَلاً أَنْ ىُتْقِنَهُ (الجامع الصغىر، ج1، ص284).)
حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نےفرمایا:
استوار زندگی وہ ہے جو منصوبہ بندی پر مبنی ہو اور اس کا معیار اچھی تدبیر ہے۔
(قِوَامُ الْعَىْشِ حُسْنُ التَّقْدِىرِ وَ مِلاكُهُ حُسْنُ التَّدْبِىرِ (غرر الحكم، ص354).)
حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
تین چیزیں انسان کو اعلی مقامات تک رسائی سے روکتی ہیں۔ (وہ یہ ہیں):عزم و ہمت کی کمی، تدبیر کی کمزوری اور فکر و نظر کی ناتوانی۔
(ثَلاثٌ ىَحْجُزْنَ الْمَرْءَ عَنْ طَلَبِ الْمَعَالِي: قَصْرُ الْهِمَّةِ وَ قِلَّةُ الْحِىلَةِ وَ ضَعْفُ الرَّأْيِ (تحف العقول، ص315).)
سلمان فارسی کی تدبیر اور دوراندیشی کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنی آمدنی میں سے ایک سال کے مخارج کو الگ کرتے تھے یہاں تک کہ دوسرے سال کی آمدنی کا وقت آجا تا تھا ۔
(... فَأَمَّا سَلْمَانُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَكَانَ إِذَا أَخَذَ عَطَاءَهُ رَفَعَ مِنْهُ قُوتَهُ لِسَنَتِهِ حَتَّى ىَحْضُرَهُ عَطَاؤُهُ مِنْ قَابِلٍ (تحف العقول، ص351))
امام جوادعلیہ السلام کا فرمان ہے:
کسی کام کے بننے سے پہلے اس کا اظہار اسے بگاڑ دیتا ہے۔
(إِظْهَارُ الشَّيْءِ قَبْلَ أَنْ ىُسْتَحْكَمَ مَفْسَدَةٌ لَهُ (تحف العقول، ص457)