سلمان محمدی صلىاللهعليهوآلهوسلم کاقبول اسلام
- شائع
-
- مؤلف:
- حجت الاسلام والمسلمین سید جعفرمرتضی عاملی
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب:الصحیح من سیرة النبی الاعظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جلد ۳
سلمان محمدی صلىاللهعليهوآلهوسلم کاقبول اسلام
پہلی ہجری میں اوربقولے اسی سال کے ماہ جمادی الاولی(تاریخ الخمیس ج/ ۱ ص ۳۵۱_)
میں سلمان محمدی صلىاللهعليهوآلهوسلم المعروف سلمان فارسی
(حشر نا الله معه و فی زمرته )
نے اسلام قبول کیا_ یہی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اہل بیت علیھم السلام نے فرمایا:
''سلمان منا اهل البیت''
(قاموس الرجال ج/۴ ترجمہ سلمان_) _
یہی وہ سلمان ہیں جنہوں نے دین حق کی تلاش میں اپنے علاقے سے ہجرت کی اور اس را ہ میں انہوں نے بہت ساری مصیبتیں اور مشکلات برداشت کیں _ یہاں تک کہ غلام ہوئے اور پھر نبی اکرم صلىاللهعليهوآلهوسلم کے ہاتھوں آزاد ہوئے
(المصنف ج / ۸ ص ۴۱۸ میںان کے اسلام لانے کا واقعہ مذکور ہے
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلمان فارسی کے علاقے میں ایک راہب تھا _ آپ نے بعض خاص قسم کی تعلیمات اس سے سیکھیں اور علاقے کے لوگوں کو بتائیں تو انہوں نے راہب کو اپنے علاقے سے نکال باہر کیا_ آپ اپنے اہل و عیال سے چھپ کر اس کے ساتھ وہاں سے نکلے اور موصل پہنچ گئے _ وہاں انکی ملاقات چالیس۴۰راہبوں سے ہوئی _
چند ماہ بعد ایک راہب کے ہمراہ آپ بیت المقدس گئے وہاں ایک راہب کی سخت عبادت و ریاضت اور انکی بے چینی کو دیکھا لیکن پھر جلد ہی اس کا دل اس سے بھر گیا _ وہاں انصار کے سواروں کے ایک دستے نے ان راہبوں سے حضرت سلمان کے بارے سوال کیا توانہوں نے جواب دیا کہ یہ ایک بھگوڑا غلام ہے _
پس انہوں نے اسے مدینے لے جاکر ایک باغ میں کام پر لگادیا_ اس راہب نے جناب سلمان کو بتایا تھا کہ عرب سے ایک نبیصلىاللهعليهوآلهوسلم نے عنقریب ظہور کرناہے جو صدقہ نہیں کھائے گا، ہدیہ قبول کرے گا اور اسکے شانوں پر نبوت کی مہر ہوگی _ اس راہب نے آپ سے کہا تھا کہ اسکی اتباع کرنا) _
کہتے ہیں کہ مدینہ میں ''قبا'' کے مقام پر حضرت سلمان فارسی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری دی اور آپصلىاللهعليهوآلهوسلم کے سامنے یہ کہہ کہ کھجوریں پیش کیں کہ یہ صدقہ ہے _ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے خودتو کھانے سے انکار فرمایالیکن اصحاب سے امر فرمایا کہ کھالیں تو انہوں نے یہ کھجوریں کھالیں_ حضرت سلمان نے اسے پہلی نشانی شمار کیا _
اگلی مرتبہ پھر جناب سلمان کی ملاقات آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم سے مدینہ میں ہوئی_ اس نے آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں کھجوریں یہ کہہ کر پیش کیں کہ یہ تحفہ ہے _آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے قبول فرمایا اور کھجوریں کھالیں پس حضرت سلمان نے اسے دوسری نشانی شمار کیا
اسکے بعد حضرت سلمان کی ملاقات آپصلىاللهعليهوآلهوسلم سے بقیع کے ایک نشیب میں ہوئی جہاں آپصلىاللهعليهوآلهوسلم اپنے بعض اصحاب کی تشیع جنازہ میں شریک تھے پس قریب آئے ، آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم پر سلام کیا اور پیچھے پیچھے چل دیئے_ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنی پشت مبارک سے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ شانوں پر نبوت کی مہر موجود ہے_ پس اب وہ آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی طرف جھکے ،شانوں پر بوسہ دیا اور گریہ کرنا شروع کیا_
اس کے بعد اسلام قبول کیا اور آپ صلىاللهعليهوآلهوسلم کی خدمت میں اپنا سارا واقعہ بیان کیا _ اسکے بعد حضرت سلمان نے اپنے مالک سے اپنی آزادی کا معاہدہ کیا اور اپنی آزادی کی رقم ادا کرنے کے لئے محنت مزدوری کرنے لگا اور آنحضرت صلىاللهعليهوآلهوسلم نے بھی اس کی مالی امداد فرمائی _ اور پھر حضرت سلمان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غلامی میں اپنی ساری زندگی گذاردی تا کہ اس آزادی کا حق ادا کرسکیں_
اس نے پہلی مرتبہ جنگ خندق میں حصہ لیا اور پھر اس کے بعد کئی جنگوں میں حصہ لیا_ ابن عبدالبر کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے پہل جنگ بدر میں حصہ لیا اور یہ نظریہ رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم خدا کی مالی امداد کے تناظر میں زیادہ مناسب ہے _ اسکے لئے حدیث و تاریخ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے _
( بطور مثال قاموس الرجال ج/۴ ، الاصابہ ج/ ۲ ص ۶۲ ، الاستیعاب اور دیگر کتابیں ہے)
نیز ہماری کتاب''سلمان الفارسی فی مواجهة التحدی'' ( سلمان فارسی چیلنجوںکے مقابلے میں) بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں_
ایک اہم بات :
یہاں قابل ملاحظہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت سلمان نے ذاتی احساسات یا مفادات کی بناء پر اسلام قبول نہیں کیا اور نہ ہی کسی مجبوری یا کسی کے دباؤ یا کسی سے متاثر ہونے کی بنا پر اسلام قبول کیا بلکہ خالصتاً اپنی عقل و فکر اور سوچ و بچار کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے_ دین حق تک پہنچنے کے لئے انہوں نے بہت سعی و کوشش کی اور اس راہ میں بہت سی رکاوٹوں، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا _ اور یہ بات اس دین کے فطری ہونے نیز عقل کے احکامات اور سالم فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہونے کی تائید کرتی