امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

صحابہ شیعوں کی نظر میں

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

صحابہ شیعوں کی نظر میں
جب ہم غیر جانب دار ہوکر صحابہ کے موضوع پر بحث کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ انھیں وہی حیثیت دیتے ہیں جو قرآن و حدیث اور عقل دیتی ہے
یعنی شیعہ تمام اصحاب کو کافر نہیں کہتے ہیں جیسا کہ غالی کہتے ہیں اور نہ ہی تمام صحابہ کو عادل تسلیم جیسا کہ اہل عامہ (سنت والجماعت)  کا مسلک ہے۔
اس سلسلہ میں امام شرف الدین موسوی فرماتے ہیں۔ :
جس نے صحابہ کے متعلق سنجیدگی سے ہمارے نظر یہ کا مطالعہ کیا وہ اس بات کو سمجھ گیا کہ یہی معتدل راستہ ہے۔ کیونکہ ہم اس سلسلہ میں نہ تو غالیوں کی طرح تفریط کے شکار ہیں کیوں کہ وہ تمام صحابہ کو کافر کہتے ہیں اور نہ ہی جمہوری اور عامہ(سنیوں) کی طر ح افراط کا شکار ہیں جو کہ تمام صحابہ کو معتبر وموثق کہتے ہیں،
بے شک کاملیہ اور غلو میں  ان کا شریک تمام صحابہ کو  کافر کہتا ہے عامہ(سنی) ہر اس مسلمان کو عادل کہتے ہیں جس نے نبی(ص) کو دیکھا یا ان سے کچھ سنا ہے۔
اگر چہ صرف صحبت ہمارے نزدیک بہت بڑی فضیلت ہے لیکن صحبت بغیر کسی قید و

 شرط کے معصوم عن الخطا نہیں ہے۔
 اس اعتبار سے صحابہ بھی ایسے ہی ہیں جیسے دیگر افراد، ان میں عادل بھی ہیں۔ سربرآوردہ بھی ہیں اورعلما بھی ہیں چنانچہ ان ہی میں باغی بھی ہیں، جرائم پیشہ بھی ہیں، منافقین بھی ہیں اور جاہل بھی ہیں پس ہم ان میں سے عادلوں کو تسلیم کرتے ہیں اور دنیا و آخرت میں ان سے محبت کرتے ہیں۔
لیکن نبی(ص) کے وصی اور علی(ع)  سے بغاوت کرنے والے اور دیگر جرائم پیشہ کی جیسے ہند کے بیٹے ابن زرقا، ابن عقبہ اور ارطاہ کے خلف نا سلف ہیں۔
 پس ان کی کوئی عزت نہیں ہے اور نہ ان کی حدیث کا کوئی و زن ہے اور  جن کے حالات معلوم نہیں ہیں ان کے سلسلہ میں حالات معلوم ہونے تک توقف کریں گے۔
صحابہ کے سلسلہ میں یہ ہے ہمارا نظریہ اور قرآن و حدیث بھی ہمارے اس نظریہ کی تائید کررہی ہیں جیسا کہ اصول فقہ میں مفصل طور پر یہ بحث موجود ہے لیکن عامہ(سنی)  نے صحابہ کی تقدیس میں اتنا مبالغہ سے کام لیا کہ میانہ روی سے نکل گئے اور اس سلسلہ میں ہر ضعیف و جعلی حدیث سے استدلال کرنے لگے اور ہر اس مسلمان شخص کی اقتداء کرنے لگے جس نے نبی(ص)  سنا ہو یا آپ(ص)  کو دیکھا ہو۔
 بالکل اندھی تقلید اور جن لوگوں نے اس غلو کی مخالفت کی اس پر  انھوں نے سبّ وشتم کی بوجھار کی ۔
وہ ہمیں(شیعوں کو) اس وقت بہت برا بھلا کہتے ہیں جب ہم دینی حقائق کی تحقیق اور نبی(ص) کے صحیح آثار کی تلاش میں واجب شرعی پر عمل کرتے ہوئے مجہول الحال صحابہ کی بیان کردہ حدیث کو  رد کردیتے ہیں۔
ان ہی باتوں کی بنا پر وہ ہم سے بدگمان ہیں چنانچہ جہالت و نادانی کی بنا پر وہ ہم پر رکیک قسم کی تہمتیں لگاتے ہیں، اگر وہ عقل سے کام لیتے اور قواعد علم کی طرف رجوع کرتے تو انھیں معلوم ہوجاتا کہ صحابہ کی عدالت والے مقولہ پر کوئی دلیل نہیں ہے
اگر وہ عامہ(اہل سنت) قرآن میں غور و فکر کریں گے تو  معلوم ہوگا کہ منافق صحابہ کے ذکر سے قرآن بھرا پڑا ہے۔ اس کے لئے
سورہ احزاب و توبہ کا مطالعہ کافی ہے۔۔۔۔
جامعہ عین الشمس " قاہرہ" کے شعبہ عربی ادب کے پروفیسر ڈاکٹر  حامد حنفی داؤد کہتے ہیں، لیکن شیعہ صحابہ کو بھی ایسا سمجھتے ہیں جیسے عام افراد ہیں ، ان ( صحابہ) کے اور قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے درمیان کسی فرق و فضیلت کے قائل نہیں ہیں۔
اصل میں وہ (شیعہ) صرف عدل کو پیمانہ سمجھتے ہیں چنانچہ اسی صحابہ کے افعال کو ناپنتے ہیں اور اسی طرح صحابہ کے بعد آنے والوں کے افعال کو بھی اسی کسوٹی پر کستے ہیں اور پھر صحبت، کوئی فضیلت نہیں ہے مگر  یہ کہ کوئی یہ کہ انسان فضلیت کا اہل ہو اور  اس کے اندر رسالتمآب(ص)  کے پاس ٹھہرنے کی استعداد ہو ، صحابہ میں سے معصوم بھی ہیں جیسے وہ ائمہ ہیں جو کہ رسول(ص) کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں مثلا علی ابن ابی طالب(ع)  اور  ان کے فرزند، ان میں ایسے عادل بھی ہیں جنہوں نے رسول (ص) کی وفات کے بعد علی(ع) کی صحبت اختیار کی۔
ان میں ، ایسے مجتہد بھی ہیں جو مصیب( الی الواقع یعنی حقیقت کے عین مطابق) ہیں۔ ان میں ایسے بھی ہیں جن کا اجتہاد غلط ہے ان میں فاسق بھی ہیں، زندیق بھی ہیں جو کہ فاسقوں سے بھی گئے گزرے ہیں اور زندیق ہی لیں جن کے دائرہ میں منافق اور وہ لوگ داخل ہیں، جو کہ صرف ظاہری طور پر خدا کی عبادت کرتے تھے۔
 جیسا کہ ان میں و ہ کفار بھی ہیں جنھوں نے نفاق کے بعد توبہ نہیں کی ہے اور وہ بھی ہیں جو اسلام لانے کے بعد  مرتد ہوگئے تھے۔
شیعہ ۔جو کہ اہل قبلہ میں سے بڑا گروہ ہے ۔ تمام مسلمانوں کو ایک ترازو میں تو لتے ہیں اس سلسلہ میں ان کے یہاں صحابی ، تابعین اور متاخرین کا امتیاز نہیں ہے پھر صحبت انھیں معصوم نہیں بناسکتی ہے اور نہ اعتقادی مسائل انھیں کجی سے بچاسکتے ہیں اور اسی مستحکم  بنیاد کی وجہ  سےانھوں نے اپنے لئے ۔ اجتہاد  سے ۔ صحابہ پر تنقید کرنا اور ان کی عدالت کی تحقیق کو مباح سمجھ لیا ہے۔
 جیسا کہ وہ ان صحابہ پر سب و شتم کرنے کو بھی مباح سمجھتے ہیں۔ جنھوں نے صحبت کے شرائط کو پس پشت ڈالدیا تھا اور آلِ محمد(ص)سے محبت کو چھوڑ دیا تھا۔

اور کیوں نہ ہو، جبکہ رسول اعظم (ص) نے فرمایا ہے:


 " إِنِّي‌ تَارِكٌ‌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَ عِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي [مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَبَداً] وَ لَنْ يَفْتَرِقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ.وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونَنِي فِيهِمَا."


" میں تمھارے درمیان کتاب خدا اور اپنے اہل بیت(ع) عترت کوچھوڑے جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض ( کوثر) پروارد ہوں گے دیکھو : میرے بعد ان دونوں کے ساتھ سلوک کرتے ہو۔"


یہ اور اس جیسی دوسری حدیثوں سے یہ معلوم  ہوتا ہے کہ اکثر صحابہ نے آل محمد(ص) پر ظلم ڈھائے اور ان پر منبروں سے لعنت کرنے کی بناء پر اس حدیث کی مخالفت کی تو ان مخالفوں کو صحبت  سے کیا شرف حاصل ہوا اور انہیں کیسے عدالت سے متصف کیا جاسکتا ہے؟
صحابہ کی عدالت کی نفی کےسلسلہ میں یہ ہے شیعوں کے نظریے کا خلاصہ
 در حقیقت یہ وہ علمی اور واقعی اسباب ہیں جن پر شیعوں کے حجج کے بنیاد استوار ہے۔
یہی ڈاکٹر حامد حضنی داؤد دوسری جگہ اس بات کا اعتراف کرتےہیں کہ:
 صحابہ پر تنقید کرنا اور ان میں عیب نکالنا صرف شیعوں کی بدعت نہیں ہے کیوںکہ زمانہ قدیم میں اس بدعت کے لئے معتزلہ نے بھی اعتقادی مسائل میں وہی چیز بیان کی ہے جو کہ شیعہ بیان کرتے ہیں اور انھوں نے اسی پر  اکتفا نہیں کی ہے کہ عام صحابہ پر تنقید کرتے ہیں بلکہ اپنے خلفاء پر بھی تنقید کی ہے اور جب انھوں نے تنقید کی تھی تو اس وقت ان میں صحابہ کے موافق بھی تھے اور مخالف بھی تھے۔
یہ مسئلہ "صحابہ" پر تنقید فقط صاحبان علم سے مخصوص ہے اور اس راستہ کو ان شیعہ علماء نے اورانکے سربرآوردہ افراد نے طے کیا ہے جو کہ محبت آلِ محمد(ص)  میں سخت تھے۔
میں پہلے بھی اس بات کی طرف اشارہ کرچکا ہوں کہ معتزلہ کے علمائے کلام اور بزرگ افراد نے  پہلی ہی صدی سے ہی علمائے شیعہ کی فکر کو اختیار کیا ہے ۔ اس بنا پر صحابہ پر تنقید کرنا شیعیانِ آلِ محمد(ص) کی ایجاد ہے
 لیکن وہ تشیع کی ایجاد ہے  خود تشیع و شیعیت نہیں ہے جیسا کہ شیعیان آل محمد(ص) اپنے عقائدی تبحر علمی سے پہچانے جاتے تھے اور یہ شہرت اس لئے تھی کہ انھوں نے درِ اہلِ بیت(ع) سے علم حاصل کیا تھا
 اور یہ وہ معین واصل مصدر ہےجس  سے اسلامی ثقافت، صدر اسلام سے آج تک فیض حاصل کررہی ہے یہ تھا ڈاکٹر حامد داؤد کا نظریہ۔
میرا نظریہ تو یہ ہے کہ ہر حقیقت کے متلاشی انسان کو نقد و تبصرہ سے کام لینا پڑے گا ورنہ حقیقت کا ادراک نہیں کرسکے گا بالکل اسی طرح جیسے اہلِ عامہ( سنیوں) نے صحابہ کی عدالت کے سلسلہ میں مبالغہ کیا اور ان کے حالات کی تحقیق نہ کی لہذا آج تک حق سے نا  آشنا اور دور ہیں۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک