امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

کیا شیعہ اصحاب کو عادل نہیں سمجھتے ؟

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

کیا شیعہ اصحاب کو عادل نہیں سمجھتے ؟
 اعتراض:
قرآن نے صحابہ کی مدح کی ہے اور انہیں عظمت سے یاد کیا ہے اورتمام صحابہ کی نسبت اپنی رضایت کا اعلان کیا ہے۔

لیکن شیعہ ان آیات کو نظرانداز کرکے صحابہ کے لیے کسی قسم کی حرمت کے قائل نہیں ہیں۔ان کی روایات کو قبول نہیں کرتے اور ان کی عدالت کے قائل نہیں ہیں۔
 تحلیل اور جائزہ:
موضوع صحابہ بعض دوسرے بنیادی موضوعات  کی طرح مختلف  ذیلی موضوعات میں  تقسیم ہوا ہے اور  ان میں سے ہرموضوع  کی جدا تحلیل و جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ اس موضوع سے متعلق اہم سوالات مندرجہ ذیل ہیں:
1)    صحابہ کن لوگوں کو کہا جاتا ہے؟
2)   کیا تمام صحابہ عادل ہیں؟ اس بارے میں شیعوں کی کیا رائے ہے؟
3)   وہ آیات جن میں صحابہ کی تعریف ہوئی ہے ان کے جواب میں شیعہ کیا کہتے ہیں؟
4)   "اصحابی کالنجوم"
جیسی روایات کے بارے مین شیعہ کیا کہتے ہیں؟
5)   شیعہ روایات صحابہ کو قبول کیوں نہیں کرتے؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا چند نکتوں کی شکل میں  جواب دینے کی اس تحریر میں کوشش ہوئی ہے:


پہلا نکتہ: 

لغت میں"صحابہ"  ہمراہ اور ساتھی کے معنی میں آیا ہے۔ لیکن اصطلاح میں صحابہ کے لیے ایک معنی بیان نہیں ہوا ہےاکثر اہل سنت علماء کا  عقیدہ یہ ہے : وہ مسلمان جس نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو دیکھا چاہے ایک دن یا ایک گھنٹہ کے لیے ہی کیوں نہ ہو "صحابہ" کہا جائے گا۔
بخاری اس بارے میں لکھتے ہیں:
(من صحب رسول الله او رآه من المسلمین فهو من اصحابه؛(
کوئی بھی مسلمان جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ رہا یا انہیں دیکھا  اسےآپ  کاصحابی کہا جائے گا))۔[1]
احمد بن حنبل مزید تشریح کے ساتھ اس بارے میں لکھتے ہیں:
(اصحاب رسول الله کل من صحبه شهراً او یوماً او ساعۃ او رآه ؛(
 پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابہ وہ ہیں جنہوں نے ایک مہینہ، ایک دن یا ایک گھنٹہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ گذارا ہو یا آپؐ کو دیکھا ہو۔)[2]
عسقلانی اس بارے میں لکھتے ہیں:
(انّ الصحابی هو کلّ من لقی النبی مؤمناً و لو ساعة من نهار و مات علی الاسلام؛(
 جو کوئی ایمان کی حالت میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے ملاقات کرے، اگرچہ دن میں ایک گھنٹہ اور مسلمان مرے توصحابہ میں شمار ہوگا۔)[3]
اس نظریے کے مقابل اہل سنت علماء کی ایک قلیل تعداد ایسی ہیں جو قائل ہیں کہ صرف دیکھنا یا تھوڑی مصاحبت کافی نہیں ہے بلکہ کچھ وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ  گذارنا چاہیے۔
قاضی ابوبکرمحمد بن طیب کا یہ نظریہ ہے وہ کہتے ہیں:
 ((صحابہ کا معنی لغت میں عام ہے لیکن عرف امت اس معنی کو ان لوگوں کے لیےاستعمال کرتے ہیں جنہوں نے قابل توجہ وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ساتھ گذارا ہو۔))[4]
عینی(عمدۃ القاری کے مؤلف) سعید بن مسیّب سے نقل کرتا ہے

(پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا صحابہ وہ ہے جو کم سے کم ایک یا دو سال آپؐ کے ساتھ رہے ہو نیز کم سے کم ایک یا دو غزوں میں آپ کے ساتھی رہے ہو۔))[5]
ان کے علاوہ بعض شیعہ دانشور جیسے آیت اللہ معرفت، مصاحبت کی مدت کے علاوہ ایک اور شرط کو لازمی سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ مصاحبت اس قدر طویل ہو کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا اخلاق صحابی پر اثر گذار ہو اور صحابی کا کردار و رفتارپیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اخلاق سے مزین ہوجائے)[6]
دوسرا نکتہ:
 پہلی تعریف کے مطابق اہل سنت کے نزدیک صحابی کی اس قدر اہمیت ہے کہ ان پر معمولی اعتراض کرنے کو وہ روا نہیں سمجھتے یہاں تک کہ ان کی عدالت کے بارے میں گفتگو کو قرآنی نصّ کے برخلاف سمجھتے ہیں۔
ایک گروہ نے یہاں تک کہہ دیا  ہےکہ جو کوئی بھی صحابہ پر اعتراض کرنے کے لیے لب کشائی کرے گا اور علم رجال کے معیار پر ان کو پرکھے گا وہ دین سے خارج ہے اور اس کا خون بہانا حلال ہے۔
عسقلانی اس بارے میں لکھتے ہیں :
 (( فانّ جمیع الصحابه عدول لایتطرّق الیهم الجرح؛(
 تمام صحابہ عادل ہیں اور ان پر کوئی اعتراض  نہیں کیا جاسکتا))۔[7]
 وہ اس بارے میں افراط کا شکار ہوئے  ہیں  یہاں  تک کہ کہتے ہیں، جو کوئی بھی صحابہ پر اعتراض کرے گا وہ زندیق ہوگا۔[8]
تنقید اور جائزہ:
آیات کا مختصر جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ معنا کے لحاظ سے "صحابہ" کا عنوان اس قدر وسیع نہیں ہوسکتا اور صحابہ کو جرح و تعدیل سے مبرا سمجھنا قرآنی آیات سے متصادم ہے۔
 کیونکہ قرآن کی  تدریجی نزول کی یہ  حکمت تھی کہ مختلف قسم کے گناہوں میں مبتلا لوگ  آہستہ آہستہ ان گناہوں کو ترک کر سکے، تربیت پاسکے اور روحی کمال تک پہنچنے کے لیے راہ ہموار ہوجائے۔
قرآن اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے: ہم نے قرآن کو ایک دفعہ آپؐ پر نازل نہیں کیا، تا کہ آپ آہستہ آہستہ لوگوں پر اس کی تلاوت کریں(تاکہ وہ تربیت پائے):
(لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلى‏ مُكْثٍ؛(
تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو پڑھ کر سنائیں))۔[9]
 یہ اس لیے ہے کہ تربیت کے کام میں کافی وقت لگتا ہے۔
قرآنی نصّ کے مطابق رسالت کے آخری سالوں میں، لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئےَ
) يَدْخُلُونَ في‏ دينِ اللَّهِ أَفْواجاً؛َ (
اور آپ لوگوں کو فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے دیکھ لیں))[10]
جنہوں نے حجّۃ الوداع میں شرکت کی تاریخی سند کے مطابق ، ان کی تعداد80 ہزار سے 120 ہزار اندازہ لگایا گیا ہے۔
ان حاجیوں کی زیادہ تعداد دور دراز کے قبائل سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے شاید زندگی میں ایک بار وہ بھی دور سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو دیکھنے کی سعادت حاصل کی ہوگی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اس بات کو کیسے قبول کرے کہ ایکبار حضورؐ کودیکھنے سے وہ افراد اس قدر پاک و پاکیزہ ہوگئے  کہ عدالت کی صفت ان کی جان میں رسوخ کرگئی ؟
 اگرایسی بات ممکن تھی تو قرآن کو بتدریج نازل کرنے کی حکمت کیا تھی؟
اور اگر ایک لمحے کی دیدار یا مصاحبت اس قدر عظیم خاصیت رکھتی ہے تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی ازواج  تو مصاحبت اور ہمراہی کے بہترین نمونے ہیں، ان کے بارے  میں یہ خصوصیت بیان کیوں نہیں ہوئی ہے؟ جبکہ اس کے برخلاف واضح طور پر قرآن پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی بیویوں کے بارے میں فرماتا ہے :
)يَانِسَاءَ النَّبىِ‏ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَين‏،(
اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دگنا عذاب دیا جائے گا))[11]
 ( فَخانَتاهُما فَلَمْ يُغْنِيا عَنْهُما مِنَ اللَّهِ شَيْئا؛(
گر ان دونوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آئے۔))[12]

اگر پیغمبر کی مصاحبت کی  یہ خاصیت ہے تو  یہ صفت پیغمبر کے فرزند میں بطریق اولیٰ  ہونی چاہیے جبکہ قرآن حضرت نوح کے فرزند کے بارے میں فرماتا ہے ))
) إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صالِحٍ؛(
 یہ غیر صالح عمل ہے))۔[13]

یہاں تک کہ اللہ نے حضرت نوح کو ہوشیار کیا کہ اپنے بیٹے کی شفاعت نہ کریں اور اس کی نجات کی درخواست نہ کریں
 (ٍ فَلا تَسْئَلْنِ ما لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْم؛ (
لہٰذا جس چیز کا آپ کو علم نہیں اس کی مجھ سے درخواست نہ کریں))۔[14]

قرآنی نصوص کے بعد ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ جس شخص نے زندگی میں صرف ایکبار پیغمبرؐ کو دیکھا ہے اسے آپ کا صحابی کہا جائے یہاں تک کہ اس کے خلاف لب کشائی تک نہیں کر سکتے؟؟

تیسرا نکتہ:
  شیعہ اور بعض روشن خیال اہل سنت دانشور، صحابہ کو دوسرے راویوں کی طرح جانتے ہیں ایسے لوگ جن کے درمیان نیک   اور باتقوا لوگ بھی تھے تو ایسے منافقین جو بظاہر خود کو مسلمان کہلاتے ہیں وہ بھی مسلمانوں کے درمیان  موجود تھے  یہاں تک کہ قرآن کے بیان کے مطابق پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی انہیں نہیں پہچانتے تھے۔

قرآن اس بارے میں خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے :

(وَ مِنْ أَهْلِ الْمَدينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ)،
 اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں۔))[15]

 اسی دلیل کی بنیاد پرتمام صحابہ کو علم رجال کے معیار کے مطابق پرکھنا چاہیے تاکہ دینی مسائل کو صحابہ کی جگہ منافقین سے اخذ نہ کر لیں کہ ایسی صورت میں اسلام اور دینی ثقافت کو بہت بڑا نقصان پہنچے گا۔

درحقیقت صحابہ کے بارے میں شیعہ نظریہ وہی قرآنی نظریہ ہے۔

 

قرآن نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابہ کو تین گروہ میں تقسیم کیا ہے:


1 :۔  صالح اور نیک شخصیات

صحابہ کا پہلا گروہ مؤمن اور جانثار لوگوں پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالی نے ان کی تعریف میں فرمایا:

 (وَ السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهاجِرينَ وَ الْأَنْصارِ وَ الَّذينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْه،)
 اور مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی اور جو نیک چال چلن میں ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے))[16]
 ( وَ الَّذينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسان)
 کی عبارت سے سمجھ آتا ہے کہ تابعین ایسی صورت حال میں اہل نجات ہونگے جب وہ نیکی میں صحابہ کی پیروی کریں۔ اس کا مطلب  یہ ہے:
 پہلا یہ کہ:
 یہ ممکن ہے کہ صحابہ غیرشائستہ اعمال کے مرتکب ہوں۔
دوسرا یہ کہ:
 ان کے ناصالح اعمال کی پیروی باعث نجات نہیں ہے۔ در حقیقت ((احسان)) کا لفظ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن نے مکمل طور پرصحابہ کی تائید نہیں کی بلکہ  بشرط احسان ان کی پیروی پر تائید کا مہر لگا دیا ہے۔دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ ((احسان)) ان کاموں  کی صفت ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے۔اس صورت میں ((باحسان)) میں حرف "باء" "فی" کا معنی دیتا ہے۔[17]

قرآن پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے سچے صحابہ کی تعریف میں بیان فرماتا ہے:
( أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ تَراهُمْ رُكَّعاً سُجَّداً يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِنَ اللَّهِ وَ رِضْواناً سيماهُمْ في‏ وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُود)
اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت گیر اور آپس میں مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع، سجود میں دیکھتے ہیں، وہ اللہ کی طرف سے فضل اور خوشنودی کے طلبگار ہیں سجدوں کے اثرات سے ان کے چہروں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔) [18]

اس آیت میں ان صفتوں کو اس طرح سے بیان کیا  ہے کہ سارے صحابہ اس میں شامل ہوجائے لیکن آیت کے آخر میں جب مغفرت اور ثواب آخرت کا ذکر ہوا تو صرف ان صحابہ کو ذکر کیا ہے جن کے صالح اعمال ہوں،
(وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظيما)۔[19]
(وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُم)
 میں "من "تبعیضیہ ہے اس پر توجہ کرتے ہوئے "منھم" کی عبارت، اس بات کو بیان کرتی ہے کہ ثواب کا وعدہ صحابہ کے ایک گروہ سے مخصوص ہے۔
 در حقیقت آیت کا یہ معنی ہوگا کہ تمام صحابہ اعمال صالح والے  نہیں ہیں بلکہ ان میں سے صرف  کچھ لوگ ہی عمل صالح والے ہیں۔

بہرحال اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں بعض افراد ایسے ہیں جوپاک اور نیک ہیں اور اپنے اس مقام کی پاسداری کرتے ہوئے
(رضی الله عنهم)
 کا ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں، جیسا کہ دوسری آیات میں
(ا وَ مِنْكُمْ مَنْ يُريدُ الْآخِرَة، )
اور کچھ آخرت کے خواہاںَ [20]
 کے عنوان سے تعریف کی گئی ہے۔
شیعہ نظریے کے مطابق تمام آیات اور روایات جو صحابہ کی تعریف میں بیان ہوئی ہیں اسی گروہ  سے متعلق ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے زمانے میں اپنے ایمان کے وعدے پر قائم رہے اور ایمان کی حالت میں وفات پائے یا حضورؐ کی رکاب میں جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے بعدحضرت علیؑ سے وعدہ وفا کیا یا اسی عقیدے پر قائم رہے یا حضرت علیؑ کی رکاب میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔
ان صحابیوں کی تعداد کم نہیں جو  شروع ہی سے یا بعد میں حضرت علی کے ساتھ مل گئے اور جنگ میں آپ کے ساتھ  رہے۔

ذہبی  نےسعید بن جبیر سے نقل کیا:  جنگ جمل میں 800انصاری صحابی شریک تھے ان میں سے 400  وہ لوگ تھےجنہوں نے بیعت رضوان میں پیغمبر ؐکے  ساتھ بیعت کیےتھے۔[21]

وہ لکھتے ہیں: جنگ جمل میں 130 اصحاب نے شرکت کی جو جنگ احد میں شریک تھے۔اس کے علاوہ1500 دوسرے اصحاب اس جنگ میں حضرت علی کے ساتھی تھے۔[22]
مسعودی جنگ صفین میں شرکت کرنے والے صحابہ کی تعداد کو 2800 جن میں سے87 جنگ بدر کے صحابہ اور900 بیعت رضوان کے اصحاب تھے۔[23]
شیعہ صحابہ کے اس عظیم گروہ کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاک ترین صحابیوں میں شمار کرتے ہیں جنہوں نے
(رضی الله عنهم و رضوا عنه [24])
 کا ایوارڈ حاصل کر لیا ہے۔

ب) خطاکار اور فاسق مومن
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے  صحابیوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو کبھی کبھی گناہ و خطا کے مرتکب ہوتے ہیں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ
(رضی الله عنهم و رضوا عنه [25])
 کے دو آیتوں کے بعد گناہ گار صحابہ کا ذکر کیا ہے
(و آخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلاً صالِحاً وَ آخَرَ سَيِّئاً، )
اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا انہوں نے نیک عمل کے ساتھ دوسرے برے عمل کو مخلوط کیا [26])
قرآن نے ان میں سے بعض افراد کو"فاسق" کہا ہے:
(يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ؛)
 اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تم تحقیق کر لیا کرو…)[27]
مفسرین کی رائے کے مطابق یہ آیت "ولید بن عقبہ" کے بارے میں ہے جن کا شمار پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے صحابیوں میں ہوتے ہیں ۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بنی المصطلق سے زکات کی جمع آوری ان کے سپرد کی لیکن انہوں نے پرانی دشمنی کی وجہ سے خبر دی کہ وہ قبیلہ زکات دینا نہیں چاہتے ہیں لہذا اس خبر کو سن کر مسلمان ان سے جنگ کے لیے تیار ہوئے۔ قرآن نے اس آیت کے نزول سے(( ولید بن عقبہ)) کو فاسق کہا ہے۔[28]

 ج) منافقین
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اردگرد کے لوگوں میں تیسرا گروہ ایسے لوگوں کا ہے جنہوں نے اپنا حقیقی چہرہ چھپایا اور صحابہ بن گئے ، لیکن اسلام کی ترقی کو روکنے کے لیے ہمیشہ سازشیں کرتے رہے۔
قرآن نے
(رضی الله عنهم و رضوا عنه [29])
  کے فورا بعد  اس گروہ کے بارے میں  فرمایا:
(وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرابِ مُنافِقُونَ وَ مِنْ أَهْلِ الْمَدينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُم، )
اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں))۔[30]

مفسرین کی رائے کے مطابق سورہ توبہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر نازل ہونے والی سب سے آخری سورت ہے، اس سورت کے نزول کے وقت عبداللہ بن ابیّ جیسا مشہورمنافق زندہ نہیں تھا لہذا آیت میں منافقین سے مراد دوسرے منافقین ہیں جو آخری ایام تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ارد گرد موجود تھے لیکن انہوں نے  ایسےظاہری خول  چڑھائے ہوئے تھے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  بھی انہیں پہچان نہیں پائے۔

جب نزول قرآن کے آخری ایام میں ایسے پنہاں چہرے مسلمانوں کے درمیان موجود تھے تو کیا یہ طریقہ درست ہے کہ ہم اس حقیقت سے چشم پوشی کریں اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے ارد گرد رہنے والے تمام لوگوں کو جرح اور تعدیل سے بالاتر مان لیں؟

 شیعوں کا عقیدہ اسی حقیقت کی بنا پر ہے لہذا شیعہ  ان تین گروہ میں سے صرف پہلے گروہ  کوعادل سمجھتے ہیں ۔ اور صرف یہی وہ لوگ ہیں جو
(رضی الله عنهم و رضوا عنه ([31])
 کے مستحق ہیں۔ اور دوسرے دو گروہ اس مقام کے لائق نہیں ہیں۔

لہذا صحابہ کو علم رجال کے معیار کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے تاکہ  کہیں ناخواستہ(اخذ دین کےسلسے میں) جہل و نادانی سے دوچار نہ ہوجائیں۔

چوتھا نکتہ:  
 وہ لوگ جو تمام صحابہ کی عدالت کے قائل ہیں وہ اپنے دعوے کوثابت کرنے کےلیے قرآن کی بعض آیات سے استناد کرتے ہیں، یہ آیات ان کے دعوے کوثابت نہیں کرتیں بلکہ اس کے دعوے کے برخلاف دلالت کرتی ہیں۔
صحابہ کی عدالت کو ثابت کرنے کے لیے جن آیات سے استناد کیا گیا ہے سب سے اہم آیات وہی دو آیتیں تھیں جنہیں پچھلے صفحات پر ہم نے ذکر کردیا ہے۔ یعنی سورہ توبہ آیت نمبر 100 جس میں صحابہ کو
(رضی الله عنهم و رضوا عنه)
 یاد کیا گیا تھا۔ اور سورہ فتح آیت 29 جس میں صحابہ کو اس توصیفی جملے
(ُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَماءُ بَيْنَهُمْ )
سے یاد کیا گیا تھا۔
لیکن جیسا کہ بیان ہوچکا ہے کہ اس جملے
( وَ الَّذينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسانٍ ) [32]
 میں ((باحسان)) کی شرط اور آیت
(وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُمْ)[33]
میں((من تبعیضیہ)) اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ
(رضی الله عنهم و رضوا عنه)
 کی خصوصیت بعض صحابہ کے لیے ہے تمام اصحاب کے لیے نہیں۔
اس کے باوجود اگران آیات سے عام صحابہ مراد ہوں تو بھی تمام صحابہ کی عدالت کو ان آیات سے ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ قرآن کی روش  یہ نہیں کہ تمام باتوں کو اکھٹے ایک جگہ بیان کر دے بلکہ کبھی اطلاقات اور عمومات کو ایک جگہ، اس کے قیود اور استثنائات کو دوسری جگہ بیان کرتا ہے۔

دوسری آیات کے مختصر مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ سے اللہ راضی نہ تھا۔ اس کا معنی یہ ہے کہ
(رضی الله عنهم و رضوا عنه)
 کا جملہ تمام صحابہ کے لیے نہیں ہے۔
بہرحال اس موضوع سے متعلق آیات کو تین  گروہ میں بیان کر سکتے ہیں:
الف) صحابہ کے اصناف کو بیان کرنے والی آیات

صحابہ سے متعلق آیات کا جائزہ لینے سے پتا چلتا ہے کہ نیک اور صالح صحابہ کے علاوہ بھی کئی دوسرے گروہ مسلم سوسائٹی میں رہتے تھے ذیل میں انہیں گروہوں  کا جائزہ لیں گے:
1۔ منافقین: قرآن نے اس گروہ کا مکرراً ذکرکیا ہے، ایسا گروہ جو مسلمانوں کے درمیان رہتے تھے لیکن پیغمبر  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور مسلمان انہیں نہیں پہچانتے تھے۔
(وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرابِ مُنافِقُونَ وَ مِنْ أَهْلِ الْمَدينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ لا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ،)
 اور تمہارے گرد و پیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں))۔[34]

2۔ بیمار دل لوگ: ( ضعیف الایمان افراد) قرآن اس بارے میں فرماتا ہے:
(وَ إِذْ يَقُولُ الْمُنافِقُونَ وَ الَّذينَ في‏ قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ ما وَعَدَنَا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ إِلاَّ غُرُوراً، )
اور جب منافقین اور دلوں میں بیماری رکھنے والے کہ رہے تھے: اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔))[35]

3۔ وہ مسلمان جن کے دلوں میں ایمان رسوخ نہیں کرچکا تھا: قرآن فرماتا ہے:
(قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَ لكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْإيمانُ في‏ قُلُوبِكُمْ ،)
 بدوی لوگ کہتے ہیں: ہم ایمان لائے ہیں۔ کہدیجئے: تم ایمان نہیں لائے بلکہ تم یوں کہو: ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ابھی تک تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔))[36]

4۔ منفعت طلب لوگ جو زکات کی خاطر ایمان لے آئے تھے: قرآن فرماتا ہے:
( إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ وَ الْمَساكينِ وَ الْعامِلينَ عَلَيْها وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ،)
 یہ صدقات تو صرف فقیروں، مساکین اور صدقات کے کام کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کی تالیف قلب مقصود ہو)[37]

5۔ موقع پرست لوگ جو کفر پر لوٹنے کے لیے موقع کی تلاش میں تھے: قرآن فرماتا ہے :
( وَ مِنَ الْأَعْرابِ مَنْ يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً وَ يَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوائِرَه؛)
 اور ان بدوؤں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ تم پر گردش ایام آئے))[38]

ان گروہ اور اصناف کوقرآن میں  بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کو ایک معیار سے دیکھنا اور سب کو جرح و تعدیل سے بالاتر سمجھنا درست نہیں ہے۔

ب) عام توبیخی آیات:
بعض آیات میں خطا اور غلطی عام اور جمع کی صورت میں صحابہ سے نسبت دی گئی ہے۔ منجملہ آیات:

1۔گناہ اور خطا: قرآن اس بارے میں فرماتا ہے:
(وَ آخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلاً صالِحاً وَ آخَرَ سَيِّئا،)
 اور کچھ دوسرے لوگ جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا انہوں نے نیک عمل کے ساتھ دوسرے برے عمل کو مخلوط کیا))[39]

2۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے حکم کی نافرمانی:
( وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ وَ تَنازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَ عَصَيْتُمْ)
اور بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا جب تم اللہ کے حکم سے کفار کو قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ تم خود کمزور پڑ گئے اور امر (رسول) میں تم نے باہم اختلاف کیا اور اس کی نافرمانی کی))[40]
 جیساکہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں خدا نے جنگ احد کے سپاہیوں سے گناہ اور خطا کی نسبت دی ہے، اس کے باوجود کیا ہم صحابہ کی تعریف میں کہہ سکتے ہیں کہ جس کسی نے بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو  دیکھا ہو اگرچہ قلیل مدت کے لیے ہی کیوں نہ ہو وہ جرح و تعدیل سے بالاتر ہے اور کسی کو ان کی عدالت کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا حق نہیں ہے؟

3۔ جنگ سے فرار: قرآن اس بارے میں، جنگ حنین میں مسلمانوں کے فرار کی جانب اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے:
( وَ ضاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرينَ،)
 اور زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے) [41]

1-    ترک جہاد کے لیے بہانہ: قرآن اس بارے میں ہجرت کے نویں سال میں پیش آئی جنگ تبوک، کی جانب اشارہ کرکے فرماتا ہے
(وَ إِذْ قالَتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ يا أَهْلَ يَثْرِبَ لا مُقامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا وَ يَسْتَأْذِنُ فَريقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنا عَوْرَةٌ وَ ما هِيَ بِعَوْرَةٍ إِنْ يُريدُونَ إِلاَّ فِراراً ..۔)
 اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت طلب کر رہا تھا یہ کہتے ہوئے: ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے، وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے۔))[42]  

5-رمضان کے مہینے میں موضوع جماع میں خیانت:
قرآن اس بارے میں بعض صحابہ کے خیانت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ شب ماہ رمضان میں بعض محرمات کے مرتکب ہوئے تھے اللہ نے اسے ظاہر کیا اور فرمایا:
(عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تخَتَانُونَ أَنفُسَكُمْ ،)
 اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے((۔[43]

6-جنگ احد میں دنیا طلبی:
اس بارے میں قرآن نے بعض صحابہ کے دنیاطلبی کے موضوع کو بیان فرمایاہے:
(مِنكُم مَّن يُرِيدُ الدُّنْيَا،)
 تم میں سے کچھ طالب دنیا تھے۔[44]

۷-پیغمبر کو جمعہ کا خطبہ پڑھتے ہوئے اکیلے چھوڑ کے تجارت کے لیےچلے جانا:
 قرآن اس بارے میں فرماتا ہے:
(وَ إِذَا رَأَوْاْ تجِارَةً أَوْ لهَوًا انفَضُّواْ إِلَيهْا وَ تَرَكُوكَ قَائمًا،)
 اور جب انہوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھ لیا تو اس کی طرف دوڑ پڑے اور آپ کو کھڑے چھوڑ دیا۔[45]

۸- قلبی اور زبانی تضاد:
(سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَ أَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا  يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِم مَّا لَيْسَ فىِ قُلُوبِهِمْ، )
صحرا نشین جو پیچھے رہ گئے ہیں وہ جلد ہی آپ سے کہیں گے: ہمیں ہمارے اموال اور اہل و عیال نے مشغول رکھا لہٰذا ہمارے لیے مغفرت طلب کیجیے، یہ اپنی زبانوں سے وہ بات کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے۔[46]

۹- گفتار اور کردار میں تضاد:
قرآن اس بارے مسلمانوں کو خطاب کر کے فرماتا ہے:
(يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُون،)
 اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو؟[47]

۱۰-اسلام لانے کے لیے احسان جتانا:
قرآن اس بارے میں فرماتا ہے:
( يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُواْ  قُل لَّا تَمُنُّواْ عَلىَ إِسْلَامَكمُ  بَلِ اللَّهُ يَمُنُّ عَلَيْكمُ‏ أَنْ هَدَئكمُ‏ لِلْايمَانِ إِن كُنتُمْ صَادِقِين،)
یہ لوگ آپ پر احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کیا، کہدیجئے: مجھ پر اپنے مسلمان ہونے احسان نہ جتاؤ بلکہ اگر تم سچے ہو تو اللہ کاتم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی۔[48]

11-نماز جماعت میں آنکھ مارنا:
بعض مفسرین نے اس آیت کی
(وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمينَ مِنْكُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرين،)
 اور بتحقیق ہم تم میں سے اگلوں کو بھی جانتے ہیں اور پچھلوں کو بھی جانتے ہیں۔}[49]
شان نزول میں بیان کیا ہے کہ:
ایک خوبصورت عورت، پیغمبر کی جماعت میں  نماز کے لیےحاضر ہوتی تھی، بعض  صحابہ اس لیے کہ ان کی اس عورت پر نگاہ نہ پڑے، پہلی صف میں جا کر کھڑے ہوجاتے تھے، اس کے برخلاف کچھ صحابہ آخری صف میں کھڑے ہوجاتے تھے تاکہ رکوع کے دوران اس عورت کو دیکھ سکے۔ ان  کی تنبیہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔[50]

ج: توبیخی خاص آیات:
قرآنی آیات کی کچھ تعداد خاص کر بعض صحابہ کی توبیخ کے لیے نازل ہوئیں ہیں۔ منجملہ:

۱-ولید بن عقبہ:
وہی جو عثمان کی دور حکومت میں کوفہ کا والی بنا اور مستی کی حالت میں صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی۔
انہوں نے پیغمبرؐ کے زمانے میں کسی قبیلے کے بارے میں جھوٹی رپورٹ دی، اللہ نے اس آیت میں
(يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا إِنْ جاءَكُمْ فاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصيبُوا قَوْماً بِجَهالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلى‏ ما فَعَلْتُمْ نادِمينَ)[51]
 اسے فاسق کہہ دیا۔[52]

۲-عبداللہ بن ابی سرح:
مصر میں عثمان کا والی، رسول خدا نے اس کے خون کو مباح فرمایا تھا۔سورہ انعام کی آیت ۹۳ اس کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
 اس آیت میں بیان ہوئِی ہے:
(وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى‏ عَلَى اللَّهِ كَذِباً أَوْ قالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَ لَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْ‏ء،)
 اور اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھے یا یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی ہوئی ہے حالانکہ اس پر کوئی وحی نہیں ہوئی۔}

3-ثعلبہ بن حاطب:
وہ صحابی جو ہمیشہ، پیغمبر کی جماعت میں حاضر ہوتا تھا، لیکن اصرار کر کے پیغمبر سے درخواست کی کہ اللہ اسے بہت سارا مال عطا کرے، جب اللہ نے اسے بہت زیادہ مال عطا کیا تو اس نے سب کچھ بھلا دیا یہاں تک کہ زکات دینے سے بھی انکار کیا ۔ ذیل کی آیت اس کے بارے میں نازل ہوئی:
(وَ مِنهْم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئنِ‏ءَاتَئنَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ، فَلَمَّا ءَاتَئهُم مِّن فَضْلِهِ بخَلواْ بِهِ وَ تَوَلَّواْ وَّ هُم مُّعْرِضُونَ،)
ہمیں اپنے فضل سے نوازا تو ہم ضرور خیرات کیا کریں گے اور ضرور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے۔لیکن جب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نوازا تو وہ اس میں بخل کرنے لگے اور (عہد سے) روگردانی کرتے ہوئے پھر گئے۔} [53]

4-جنگ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین افراد، مسلمانوں نے رسول خدا کے حکم پران سے قطع تعلق کیا تھا اور یہ آیت ان کی  شان میں نازل ہوئی تھی۔
(وَ عَلَى الثَّلاثَةِ الَّذينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذا ضاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ وَ ضاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ ،)
اور ان تینوں کو بھی(معاف کر دیا) جو (تبوک میں) پیچھے رہ گئے تھے، جب اپنی وسعت کے باوجود زمین ان پر تنگ ہو گئی تھی اور اپنی جانیں خود ان پر دوبھر ہو گئی تھیں}۔[54]

یہ ان آیات کا صرف ایک حصہ ہے جو صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔اگر کسی اور موضوع کے بارے میں صرف ایک خاص آیت نازل ہوتی تو عام کی عمومیت کو خاص کرنے کے لیے کافی تھا لیکن چونکہ موضوع صحابہ ہے لہذا کچھ لوگوں کی نگاہ میں
)رضی الله عنهم)
 کی عمومیت باقی ہے۔

پانچواں نکتہ:
عدالت مطلق صحابہ کے دعوےداروں نے  ان آیات کے علاوہ روایات سے بھی استناد کیے ہیں۔
 منجملہ پیغمبرؐسے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

{اصحابی کالنجوم فبایّهم اقتدیتم اهتدیتم،)
 میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پاوگے}[55]

اسی طرح فرمایا:
(الله الله فی اصحابی لاتتخذوهم غرضا من بعدی، من احبهم ومن ابغضهم فببغضی ابغضهم،)
خدارا خدارا میرے بعد میرے اصحاب پر حملہ مت کرو، جو کوئی بھی ان کو دوست رکھے گا خدا اس کو دوست رکھے گا جو کوئی بھی ان کو دشمن رکھے گا مجھے دشمن رکھے گا۔}[56]

اسی طرح فرمایا:
(لاتسبّوا اصحابی فلو انّ احدکم انفق مثل احد ذهبا مابلغ مدّ احدهم ولانصفه، )
میرے اصحاب کو گالی مت دو، اگر تم احد کے پہاڑ کے برابر سونا انفاق کرو تو بھی ان ایک مدّ یا نصف مدّ  انفاق کے برابر نہیں ہوگا}[57]

ان احادیث کے جواب میں چند نکات بیان کریں گے:
پہلا نکتہ:
 ان احادیث کے سند کی جانچ پڑتال نہیں کرتے۔
 یہ احادیث پیغمبرؐ کے اصحاب کے خاص گروہ کے متعلق ہیں وہ لوگ جن کے دل و جان میں عدالت کی صفت راسخ ہوچکی ہے اور
(رضی االی عنهم و رضوا عنه)
 کا اعزار اپنے نام کرچکے ہیں۔ لیکن صحابہ کا وہ گروہ جن کا ہم نے ذکر کیا ہے ان احادیث میں وہ شامل نہیں ہونگے۔
دوسرا نکتہ:
جس طرح پیغمبر ؐنےان احادیث میں خطاب کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ مخاطب صحابہ نہیں ہیں کیونکہ ان احادیث میں حضور نے ایک گروہ کو مخاطب کرکے صحابہ کی سفارش کی ہے یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے مخاطب صحابہ نہیں تھے کیونکہ اگر مخاطب صحابہ ہی تھے تو کوئی اور باقی نہ رہتا جس سے صحابہ کی سفارش کرتے۔ اس سے یہ نکتہ استفادہ ہوتا ہے کہ آپ کے سامعین  عام لوگ تھے جن سے پیغمبر ؐنےصحابہ کی سفارش کی۔
 دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ انہیں احادیث میں توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ مخاطبین میں سے نہیں تھے اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وہ لوگ جو اس دن آپ کے حضور حاضر تھے، انہیں آپ نے اصحاب میں شمار نہیں کیا بلکہ صرف ان سے صحابہ کی سفارش کی۔

تیسرا نکتہ:
 اگر مذکورہ احادیث کا معنی تمام اصحاب کی عدالت ہو تو دوسری بہت سے احادیث سے متعارض ہے۔
معتبر اہل سنت مصادر میں بہت زیادہ تعداد میں احادیث نقل ہوئی ہیں کہ آنحضرتؐکے بعد بعض صحابہ اپنی روش  میں تبدیلی لے آئے  بلکہ کچھ لوگ آپ کی رحلت کے بعد مرتد ہوگئے تھے۔

مثال کے لیے یہاں چند نمونے بیان کریں گے:
۱۔ بخاری نے ابی بن وائل سے اس نے عبداللہ اور اس نے پیغمبرؐ سےنقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
(انافرطکم  علی الحوض و لیعرفنّ رجال منکم ثمّ لختلجنّ دونی فاقول: یا ربّ اصحابی، فیقال: انک لاتدری مااحدثوا بعدک،)
 میں حوض کے کنارے تمہارا انتظار کروں گا، تم میں سے ایک گروہ کو میرے پاس لے آئیں  گے لیکن ان کو میرے قریب ہونے سے روکا جائے گا، میں کہوں گا:
 اے اللہ یہ میرے اصحاب ہیں، اللہ تعالی فرمائے گا آپ کو نہیں معلوم کہ آپ کے بعد انہوں نے کیا کیاہے۔}[58]

یہ حدیث متن میں تھوڑے اختلاف کے ساتھ صحیح بخاری اور مسلم میں مکرر نقل ہوئی ہے۔[59]

2- بخاری نے ابوہریرہ سے روایت نقل کیا ہے کہ پیغمبرؐنے فرمایا:
("یردعلیّ  یوم القیامة  رهط من اصحابی فیجلون علی الحوض فاقول: یاربّ، اصحابی ، یقول: لاعلم لک بمااحدثوا بعدک انهم ارتدّوا علی ادبارهم القهقری،)
 قیامت کے دن میرے  صحابہ کا ایک گروہ  کو میرے پاس لایا جائے گا لیکن انہیں حوض کے قریب ہونے سے روکا جائے گا، میں کہوں گا بارالہا یہ میرے اصحاب ہیں۔ اس وقت خدا جواب دے گا کہ آپ کو نہیں معلوم کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا ہے، یہ جاہلیت کے ایام میں لوٹ چکے ہیں۔"[60]

3-  مزے کی بات یہ ہے کہ کچھ احادیث کے مطابق، بعض صحابہ نے روش کی  تبدیلی کا خو د ہی اعتراف کیاہے۔ بخاری نے علابن مسیب اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ اس نے براء بن عازب  سے کہا:
("طوبی لک صحبت  النبیؐ و بایتعه تحت الشجرة،)
 خوش نصیب ہو تم کہ پیغمبر کے ساتھ رہے اور درخت کے نیچے{بیعت رضوان کے وقت}  ان کی بیعت کی۔ اس نے جواب  دیا:
("یابن اخی انّک لم تدری مااحدثنا بعده،)
  اے بیٹے تمہیں نہیں معلوم ہم نے ان کے بعد کیا کیاہے۔"[61]

ام المومنین حضرت عائشہ  کے سامنے پیغمبرؐ اور حضرت ابوبکر کے پاس ان کے دفن کرنے کی بات چھڑ گئی تو انہوں  نے کہا:
("انیّ احدثت بعد رسول الله  حدثا ادفنونی مع ازواجه فدفنت بالبقیع،)
  میں نے پیغمبرؐکے بعد {برے} کام کیے ہیں  لہذا مجھے دوسرے ازواج کے ساتھ بقیع میں دفن کردو، اس لیے وہ بقیع میں دفن ہوئیں۔"[62]
یہ  احادیث اور اسی طرح   تاریخی  سند  اور متون  اس بات کو بیان کرتے ہیں  صحابہ  کی تعریف  میں  نقل ہوئی احادیث:
  پہلا یہ کہ:
 تمام صحابہ کو شامل نہیں ہوتیں۔
 دوسرا یہ کہ:
 اگر تمام صحابہ ا ن میں شامل ہیں تو بھی اس شرط پر کہ آیندہ  وہ اپنے رفتار وکردارمیں تبدیلی نہیں لائیں  گے۔
 تیسرا یہ کہ:
خود صحابہ بھی ان آیات اور روایات کو مطلق نہیں سمجھتے تھے بلکہ {ایمان و عمل صالح} پر استمرار اور ثابت قدمی کے ساتھ مشروط جانتے تھے۔

چھٹا نکتہ:
ایک خاص گروہ کی جانب سے تمام صحابہ کی عدالت کا نظریہ تاریخی حقائق کے  موافق نہیں ہے کیونکہ تاریخ واضح طور سے گواہی دیتی ہے کہ  بعض صحابہ  مختلف فساد اور تباہی کے مرتکب ہوچکے تھے۔ یہاں تک کہ خود صحابہ بھی ایک دوسرے کی عدالت کے قائل نہیں تھے وہ ایک دوسرے کے مقابل میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے کے خون کو مباح سمجھتے تھے اور ان میں سے سینکڑوں کی تعداد ایک دوسرے کے ہاتھوں  خاک و خوں میں غلطاں ہوچکے تھے۔ تمام صحابہ کے عادل نہ ہونے کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہیں یہاں  مثال کے لیے چند نمونے پیش کریں گے:

۱-پیغمبر ؐکے توسط حد ود کا اجرا، تمام صحابہ سے عدالت کو نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر تمام صحابہ عادل تھے اور ان سے کوئی گناہ سرزد نہ  ہوئےہوتے تو  پیغمبرؐکے زمانے میں ان پر حدود الہی کو کس طرح جاری کیا جاتا تھا؟

پیغمبرؐکا صحابہ نعیمان  نےشراب حرام ہونے کے بعد شراب پی لیا پیغمبرؐنے اسے نعال سے مارنے کا حکم دیا۔[63]

بخاری نے ایسے افراد کے بارے میں روایات نقل کیا ہے جو زنا کے مرتکب ہونے کے بعدحدود الہی کی نفاذ کے لیے پیغمبر ؐکے پاس آئے، منجملہ زنائے محصنہ کا مرتکب ہونے والا قبیلہ بنی اسلم  کاایک شخص ،پیغمبرؐکے حکم سے سنگسار  ہوا ۔[64]

سورہ نور میں بیان شدہ  افک کے واقعے کےبعد،پیغمبرؐکے بعض ساتھیوں پر قذف کا حد جاری کیا گیا۔[65]

واقعات کے ان نمونوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عدالت صحابہ کا نظریہ بے بنیاد ہے۔

۲۔ ولید بن عقبہ { خلیفہ سوم کا والی کوفہ} نے تیسرے خلیفہ کےدور خلافت میں شراب پی لیا اور مست ہوکر صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی ۔ اس کے بعد اسے مدینہ بلایا گیا اور اس پر شراب کی حد جاری  ہوئی۔[66]

   ۳- خالد بن ولید-صحابہ کا یہی گروہ- بے بنیاد بہانے  پر مالک بن نویرہ -صحابی - کو قتل کیا اور اسی رات اس کی بیوی سے ہم بستری کی۔[67]

۴- مغیرۃ بن شعبہ نے زنا کیا اور کافی لوگوں نےاس کے اس فعل کی گواہی دی جبکہ وہ بیعت رضوان میں شریک ہونے  پر مفتخر تھا ۔[68]

5- ابوذر- صحابی- کا تیسرے خلیفہ سے جھگڑا اور ربذہ [69]
میں جلا وطنی ایک اور تاریخی گواہ ہے کہ صحابہ ایک دوسرے  کو لعن طن کرتے اور ایک دوسرے کی عدالت کے قائل نہ تھے۔

6-پیغمبرؐکے بزرگ صحابہ جیسے ابن مسعود،  ابودرداء، حذیفہ، عمار یاسر،  اور دوسرے صحابہ [70]
سے دوسرے اور تیسرے خلیفہ  کا برا سلوک  اس بات کی دلیل ہے کہ  عدالت صحابہ  کا نظریہ اور صحابہ کے  کردارمیں  کوئی  ربط نہیں ہے۔

۷- وہ لوگ جنہوں نے تیسرے  خلیفہ کے قتل میں شرکت کی اکثر صحابہ تھے۔[71]

۸- طلحہ و زبیر جنہوں نے امام علی کے خلاف جنگ  لڑی اور اس جنگ میں ہزاروں کی تعدا د میں لوگ مارے گئے، وہ پیغمبرؐکے صحابہ تھے۔[72]

۹- معاویۃ بن ابی سفیان-خال المومنین- پیغمبرؐکے صحابہ تھے جن کے ہاتھ ہزاروں بے گناہ کے خون سے آلودہ ہے۔ حجر بن عدی  - پیغمبرؐ کے قریبی صحابی- اور ان کے چھے ساتھی معاویہ کے حکم پر مارے گئے۔[73]
معاویہ نے مسلمانوں کے برحق خلیفہ کی پیروی نہیں کی اور جنگ صفین  میں ہزاروں  کی تعداد میں لوگ مارے گئے اور زخمی ہوگئےاور اس جنگ میں عمار یاسر جیسے بزرگ صحابی شہید ہوئے۔[74]

قرآن مجید صحابہ کی خصوصیت کو  بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
)' ِ رُحَماءُ بَيْنَهُم،(
 اور آپس میں مہربان ہیں".[75]
 لہذا اگر صحابہ کے دوگروہ میں جنگ پیش آئے  تو کم سےکم کسی ایک گروہ کو صحابہ کی لسٹ سے نکال لیں، کیونکہ جو علامت قرآن نے بیان کیا ہے اگر دونوں گروہ صحابہ ہوتے تو ان کے درمیان لڑائی نہیں ہوتی لیکن جب ان کے درمیان جنگ پیش  آیا تو دونوں گروہ میں سے ایک گروہ  کو صحابہ نہیں کہا جائے گا۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جنگ جمل اور جنگ صفین کے بارے میں کیا رائے دیں گے؟
خدا کی تکذیب کریں یا ان میں سے ایک گروہ کو صحابہ نہ سمجھیں۔

نادرست تاویلات
وہابی اور وہابی ہمفکروں نے جب عدالت صحابہ کے نطریے اور صحابہ کے عمل  کو ایک دوسرے کے برخلاف دیکھا تو عجیب غریب قسم کی تاویلات کرنے لگے ہیں۔

بعض دفعہ وہ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ مجتہد تھے اور ان کی خطا اجتہادی غلطی تھی۔

ڈاکٹر ذہبی جنگ جمل کی توجیہ میں لکھتے ہیں:

)"انها{عائشة}مافعلت الا متاولة قاصدة للخیر کما اجتهد طلحه بن عبید الله والزبیربن عوام و جماعة من الکبار،(
 انہوں{عائشہ} نےجنگ جمل برپا نہیں کیا مگر یہ کہ یہ ان کا اجتہاد تھا۔ ان کی نیت خیر تھی، جیسا کہ طلحہ و زبیر اور دوسرے بزرگوں کی اجتہادی رائے یہی تھی۔[76]

ان لوگوں نے اس قسم کی تاویل پیش کرکے ان کے ہر جرم اور خیانت کو اجتہادی خطا تسلیم کرکے انہیں  نہ صرف ہر قسم کی گناہ سے مبرا سمجھتے ہیں بلکہ اس قاعدہ
) ' 'للمخطیء اجر واحد،(
 جس مجتھد نے اجتہاد میں خطا کی اس کو ایک ثواب ملے گا"۔
 کی بنیاد پرپروردگار کے پاس اجر و ثواب کےقائل ہیں۔

وہابی صحابہ کے کردار سے بحث نہ کرنے کے لیے موضوع کو تبدیل کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ  ہمیں صحابہ اور ان کے کردار کے بارے میں گفتگو کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے:

)" تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَها ما كَسَبَتْ وَ لَكُمْ ما كَسَبْتُمْ وَ لا تُسْئَلُونَ عَمَّا كانُوا يَعْمَلُون،(
 یہ گزشتہ امت کی بات ہے، ان کے اعمال ان کے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم لوگوں سے (گزشتہ امتوں کے بارے میں) نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے"۔[77]

لیکن یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اگر صحابہ کے اعمال، گفتار اور رفتار دوسروں کی ہدایت کے لیے کوئی تاثیر نہ رکھتے اور دین و اخلاق کو ان سے نہیں سیکھتے تو یہ بات قابل قبول تھی ۔
اب جبکہ وہ پیغمبرؐکے صحابہ ہیں اور آنے والی نسلیں ان کو نمونہ عمل قرار دے کر اپنے دین کو ان سے سیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے اعمال کو کیسے نظر انداز کریں؟

تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف سے وہابی صحابہ کی ہر غلطی اور گناہ کو اجتہادی غلطی اور علمی فتوا فرض کرتے ہیں لیکن دوسری جانب سے چودہ قرائات کے مطابق صبح و شام قرآنی آیات کی تلاوت کرتے ہیں جن میں یہ ایسے پیغمبروں  کاذکر ہے جنہیں ایک "ترک اولی" کی وجہ سے سزا ملی۔

 حضرت یونس ؑایک ترک اولی کی خاطر شکم ماہی میں گرفتار ہوگئے،[78] نوح کی شفاعت ان کے بیٹے کے حق میں قبول نہ ہوئی،[79] اور حضرت آدم  کو  ان کی غفلت کی خاطر جنت سے نکالے گئے۔[80]

کیا وہابی نظریے کے مطابق یہ انبیا مجتہد نہ تھے؟
ان کے ترک اولی اللہ کے نزدیک اجتہادی خطا کیوں محسوب نہ ہوئے؟  
برفرض اگر خطا بھی کیے تو عتاب کے بجائے ثواب کے مستحق کیوں نہیں ہوئے؟
وہابی، صحابہ کے لیے جس فرق کے قائل ہوئے ہیں اگر پیغمبر ؐکے صحابی ہونے کی وجہ سے اسقدر فرق رکھتے ہیں تو  اہل بیت ؑکے لیے اس مقام کے قائل کیوں نہیں  ہیں؟
وہ جن کے بارے میں تطہیر کی آیت  نازل ہوئی ان سے بغض و کینہ رکھتے ہیں؟
 وہابیوں کی نگاہ میں اہل بیت کا مقام صحابہ کے برابر بھی نہیں ہے؟

ساتواں نکتہ:
)"اصحابی کالنجوم" (
والی حدیث کا اجمالی جائزہ لے چکے ہیں لیکن دوسری احادیث سے زیادہ اس حدیث سے وہابیوں نے استناد کیا ہے لہذا یہاں مستقل طور پر اس کا جائزہ لیں گے۔

پیغمبرؐ نے فرمایا:
)"مثل اصحابی، مثل النجوم یهتدی بها فبایّهم اخذتم بقوله اهتدیتم،(
 میرے اصحاب کی مثال ستاروں کی طرح ہے جس کے بھی قول کو اخذ کروگے ہدایت پاوگے۔"[81]

یہ حدیث پیغمبرؐ سے نقل ہوئی بھی ہے یا نہیں؟
 پیغمبر  ؐسے اس قسم کے متن کے صادر ہونے پر بعض محققین، سخت  تردید کا شکار ہیں۔[82]

اگر برفرض یہ متن پیغمبرؐ سے صادر ہوا بھی ہے تو اس کے لحن سے معلوم ہوتا کہ سامعین{مخاطبین} صحابہ نہ تھے کیونکہ پیغمبرؐ کے مخاطب وہ لوگ تھے جنہیں آپؐ  نے صحابہ کی سفارش کی۔

یہ بات واضح ہے کہ اگر آپ ؐ کے تمام مخاطبین صحابہ میں شمار ہوتے تو کوئی فرد باقی نہیں بچتا جسے آپ ؐ صحابہ کی سفارش کرتے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے اپنی اس حدیث میں صحابہ کو سفارش نہیں کی بلکہ صحابہ کے بارے میں سفارش کی۔ اور ان دونوں باتوں میں کافی فرق ہے۔
)"لاتسبّوا اصحابی"(
 اس عبارت کی جانچ پڑتال میں بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے اس حدیث میں ایک گروہ کو مخاطب قرار دے کر صحابہ کی سفارش کی۔
ان  مخاطبین سے  یقینا عصر پیغمبرؐ کے لوگ مراد ہے یہاں فرضی مخاطب فرض کرنا درست نہیں ہے۔
سقیفہ کے بارے میں امام علی ؑ کی احادیث میں اس قسم کی تحلیل  موجودہے۔ جب آپؑ نےانصار کو مہاجرین سے کہتے سنا
)"منّا امیر و منکم امیر"(
 تو فرمایا: " مہاجرین نے پیغمبرؐ کی اس حدیث سے استناد کیوں نہیں کیا جو آپؐ نے انصار کے بارے میں فرمایا تھا: "ان کے نیک افراد سے نیکی سے پیش آو اور بروں کو معاف کردو"[83]

حاضرین نے عرض کیا:  رسول خداؐکی حدیث  سےکس طرح انصار کو جواب  دیا جاسکتاہے؟ تو آپ نے فرمایا:
)"لوکانت الامامة فیهم لم تکن الوصیّه بهم،(
 کیونکہ اگر امامت و حکومت انصار میں ہوتی تو اس بارے ان کو سفارش کرنے کی ضرورت  ہی نہ تھی"۔[84]

اس حدیث میں جو باریک نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ آپؑ  نےپیغمبرؐ کی انصار کو سفارش سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سفارش ہونے والاگروہ کوئی اور ہےکیونکہ جب کسی کے بارے میں سفارش کی جاتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ امورکی باگ دوڑ اس گروہ کے ہاتھ میں ہے جس کے بارے میں سفارش کی جارہی ہےاور جن سے سفارش کی جارہی ہے ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔
لہذا
)"لاتسبّوا اصحابی" یا"اصحابی کالنجوم بایّهم اقتدیتم اهتدیتم"  (
  جن کو سفارش کی گئی ہے اور جن کے بارے میں سفارش کی گئی ہے دو الگ گروہ ہیں۔ اس نکتے کو ثابت کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ پیغمبرؐکے صحابہ آپ ؐ کے  معاصر کچھ افراد  ہیں نہ وہ سارے لوگ جنہوں نے آپؐ کو دیکھا ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ حدیث تمام صحابہ کی عدالت پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ دلیل مدعی سے خاص ہے۔

یادآوری کی جاتی ہے کہ یہ تحلیل ان احادیث کی صحت صدور کی بنیاد پر ہے ورنہ بعض ماہرین حدیث
)"اصحابی کالنجوم"(
 کو جعلی سمجھتےہیں[85]یا بعض لوگ احادیث کی سند کو مشکوک جانتے ہیں۔
البتہ سند کی مشکل حل ہوجائے تو اس حدیث کے متن میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں صحابہ سے مراد وہی خاص افراد ہے جنہیں خدا نے قرآن میں جنت کا وعدہ دیا ہے اور پیغمبرؐ کے معاصر تمام افراد مراد نہیں ہے۔

اگر اس حدیث کے مخاطب حقیقی صحابہ کے ندا پر لبیک کہتے اور ان کی اقتدا کرتے تو یقنیا منزل تک پہنچ جاتے کیونکہ صحابہ کا یہ گروہ امیرالمومنین علی ؑکے گھر کے علاوہ کسی دوسری جگہ ان کی  رہنمائی نہیں کرتے۔

تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کا یہ خاص گروہ اپنے مظلوم مولا کی طرح، پیغمبرؐکی رحلت کے بعد خانہ نشین ہوگئے اور کسی نے ان کی آواز نہ سنی۔

آٹھواں نکتہ:
  اگر تمام صحابہ اس قدر عظیم مقام کے حامل ہیں اور سب گناہ و خطا سے پاک ہیں تو وہابی حضرات پیغمبرؐ کی اسی قدر عصمت کے کیوں قائل نہیں ہیں؟
 ان کا یہ عقیدہ کیوں ہے کہ آپؐصرف ابلاغ وحی کے وقت معصوم ہیں؟
 یہ کیسے ممکن ہے جو لوگ پیغمبرؐکے بارے میں خطا، فراموشی یہاں تک کہ گناہ کے قائل ہیں بعض لوگ صرف ایکبار پیغمبرؐ کو دیکھنے سے ان کے وجود کو عدالت اس طرح لپیٹ لیتی ہے کہ ہر قسم کی خطا اور غلطی سے مبّرا ہوجاتے ہیں۔

ایک اور سوال یہ ہے کہ:
  اگر صحابہ عادل ہیں یہاں تک کہ کسی کو ان کے بارے میں گفتگو کرنے کا بھی حق نہیں تو اہل بیتؑ  کے لیے اسی مقدار عدالت کے وہابی قائل کیوں نہیں ؟

نواں نکتہ:
 صحابہ کی احادیث کی حجیت کے بارے میں شیعہ مذہب کا نظریہ یہ ہے کہ صحابہ عام راوی حدیث کی طرح ہے ان میں اور عام لوگوں میں کوئی فرق نہیں کیونکہ ان کی عدالت اور وثاقت ثابت نہیں ہے لہذا ان کی احادیث دوسری احادیث کی طرح سند اور دلالت کے لحاظ سے جانچ پڑتال کی جائے گی۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ راوی کا صحابہ ہونا حدیث کو خاص اعتبار نہیں بخشتی بلکہ  اگر ان کی عدالت اور وثاقت ثابت ہوجائے تو حدیث کو اخذ کیاجائے گا ورنہ دوسری صورت میں اس حدیث کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
یہ قانون وہاں لاگو ہوگا جب صحابہ راوی حدیث کے اعتبار سے پیغمبرؐ یا کسی معصوم سے روایت نقل کرے گا لیکن ان کی ذاتی رائے اور اجتہاد جنہیں بعض لوگ حدیث مسند سمجھتے ہیں[86] ، شیعوں کی نگاہ میں  اس کے معتبر ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
کیونکہ حجیت قول صحابہ پر نہ قرآنی دلیل ہے اور نہ ہی  پیغمبرؐکی احادیث سے قابل اثبات ہے جو کچھ پیغمبرؐ کی احادیث سے قابل اثبات ہے وہ قول پیغمبرؐ اور اہل بیتؑ ہے۔
علامہ طباطبائی اس آیت
)"وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِم،(
 آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں"[87]  کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

"یہ آیت قرآن کی تفسیر میں قول پیغمبرؐ کی حجیت پر دلالت کرتی ہے اور اہل بیتؑ کی تشریح  کی دلیل حدیث ثقلین اور دوسرے دلائل ہیں۔
لیکن امت کے دوسرے افراد جیسے: اصحاب، تابعین، علما  کی تشریح حجیت نہیں رکھتی کیونکہ آیت ان کو شامل نہیں ہوتی ہے اورقابل اعتماد نص اس بارے میں نہیں ہے۔"[88]

یہ نکتہ اس قدر واضح اور روشن ہے  کہ بعض اہل سنت دانشوروں نے بھی اعتراف کیا ہے منجملہ ابوزہرہ اہل سنت دانشور اس بارے میں لکھتے ہیں:
"حق بات یہ ہے کہ قول صحابی حجت نہیں ہے اللہ نے اس امت کے لیے ہمارے پیغمبرؐحضرت محمد کے علاوہ کسی کو نہیں بھیجا اور ہمارے لیے صرف ایک پیامبرؐ ہیں۔ کتاب اورپیغمبرؐ کی اتباع   پرصحابہ مکلف ہیں اور اگر کوئی کتاب اور سنت پیغمبرؐکے علاوہ کسی اور چیز کو حجت مانے تو دین خدا کے بارے میں ایسی بات کی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے"[89]
ایک اور اہل سنت دانشور غزالی،  شیعہ عقیدہ کے ہمصدا ہو کر صحابہ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
" کوئی شخص جس کے لیے ممکن ہے کہ وہ سہو اور غلطی کرے تو  وہ معصوم نہیں ہوسکتا لہذا ان کا قول حجت نہیں ہے اس صورت میں ان کے قول سے کیسے استناد کیا جاسکتا ہے؟
 یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گروہ کی عصمت کے قائل ہوجائیں جبکہ ان کےدرمیان بہت زیادہ اختلاف موجود ہے؟
یہ کیسے ممکن ہے جبکہ خود صحابہ ا س بات پر متفق ہیں کہ صحابی کے قول اور رفتار سے مخالفت کیا  جاسکتا ہے۔"[90]

نتیجہ:
شیعوں نے قرآنی تعلیمات کے مطابق لوگوں  کی صلاحیت کو جانچنے کے لیے صرف قرآن کو بنیاد قرار دیا ہے اور کسی کے لیے بھی تقوا کے علاوہ کسی اور معیار کو قبول نہیں کیا لہذا ان کے نزدیک صحابی اور غیر صحابی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
 صحابیوں کے درمیان بلند مقام کے حامل لوگ تھے جو کبھی بھی حق سے منحرف نہیں ہوئے جبکہ دوسری طرف سے صحابیوں میں ایسے افراد بھی  تھے جو رحلت رسول ؐ کے بعد عہدجاہلیت پر لوٹ گئے لہذا یہ سب برابر نہیں ہیں۔

مزید مطالعہ کے لیے کتب
۱۵۰ جعلی صحابی ۔۔،  علامہ عسکری    
  الغدیر جلد ۷، علامہ امینی
جناب عائشہ کا  اسلام میں کردار، علامہ عسکری
   شیعہ جواب دیتے ہیں ، آیت اللہ مکارم شیرازی
راہنمائے حقیقت، آیت اللہ سبحانی
      شبہات فاطمیہ، سید مجتبی عصیری  
  تحریر: استاد رستمی نژاد۔۔۔     ترجمہ اعجاز حیدر

 

حوالہ جات:

[1] ۔عمدۃ القاری ج16 ص169، اسد الغابہ ج1ص12
[2] ۔ اسد الغابہ ج1ص12
[3] ۔الاصابہ ج1ص157
[4] ۔ اسد الغابہ ج1ص12
[5] ۔ عمدۃ القاری ج16 ص169
[6] ۔ملاحظہ کیجیے: تفسیر الاثری ج1 صفحہ 98-105
[7] ۔ الاصابہ ج1 ص3
[8] ۔ ایضاص22
[9] ۔اسراء/106
[10] ۔نصر/2
[11] ۔ احزاب/30
[12] ۔ تحریم/10
[13] ۔ ھود/ 46
[14] ۔ھود/46
[15] ۔ توبہ/101
[16] ۔توبہ/100
[17] ۔ملاحظہ کیجیے تفسیر نمونہ ج8ص100
[18] ۔ فتح/29
[19] ۔فتح/29
[20] .آل عمران/152
[21] ۔ تاریخ الاسلام جلد 3صفحہ 484،
(کان مع علیّ یوم وقعة الجمل ثمانماة من الانصار و اربعماة ممن شهدوا بیعة الرضوان)
[22] ۔ تاریخ الاسلام جلد 3صفحہ 484
[23] ۔مروجلد الذھب ج1 ص314
[24] ۔ توبہ/100
[25] ۔ توبہ/100
[26] ۔توبہ/102
[27] حجرات/6
[28] ۔ تفسیر عبدالرزّاق ج3 ص231
[29] ۔ توبہ/100
[30] ۔ توبہ/101
[31] ۔ توبہ/100
[32] ۔توبہ/100
[33] ۔فتح/ 20
[34] ۔توبہ/101
[35] ۔احزاب/12
[36] ۔حجرات/14
[37] ۔توبہ/60
[38] ۔توبہ/98
[39] ۔ توبہ/102
[40] ۔ آل عمران/102
[41] ۔توبہ/25
[42] ۔احزاب/۱۳
[43] ۔بقرہ/۱۷۸
[44] ۔آل عمران /۱۵۲
[45] ۔جمعہ/۱۱
[46] ۔فتح/۱۱
[47] ۔صف/۲
[48] ۔حجرات/۱۷
[49] ۔حجر/۲۴
[50] ۔المستدرک علی الصحیحین ج۲ص۳۵۳، سنن الکبری ج۳ص۹۸، عن ابن عباس قال:کانت تصلی خلف رسول الله امراءه حسناء من احسن الناس وکان بعض القوم یستقدم فی الصف الاول لان لایراها و یستاخر بعضهم حتی یکون فی الصف الموخر فاذا رکع ، قال: هکذا، و نظر من تحت ابطه و جافی یدیه، فانزل الله عزوجل فی شانهما: {وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمينَ مِنْكُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرين}
اس کو نقل کرنے کے بعد حاکم کہتے ہیں: هذا حدیث صحیح الاسناد و لم یخرجاه۔
[51] ۔حجرات/۶
[52] ۔ تفسیر عبدالرزاق ج۳ ص۲۳۱
[53] ۔ توبہ/ 75، 76
[54] ۔توبہ/۱۱۸
[55] ۔عمدہ الباری ج۳ص۲۰۲، مسند عبد بن حمیدص۲۵۱
[56] ۔مسند احمدج۵ص۵۴، سنن ترمذی ج۵ص۳۸۵
[57] ۔صحیح بخاری ج۴ص۱۹۵
[58] ۔ صحیح بخاری ج۷ص۲۰۶
[59] ۔ صحیح بخاری ج۷صفحہ ۲۴۰، ج۷ص۱۹۵، ّ۲۰۶
[60] ۔ صحیح بخاری ج۷ص۲۰7
[61] ۔ صحیح بخاری ج۵صفحہ ۶۵
[62] ۔المستدرک علی الصحیحین ج۴ص۶،  مسند ابن راہویہ جلد ۲ص۴۳
[63] ۔ صحیح بخاری ج۸ص۱۲۔"عن عقبہ بن الحرث:
 ان النبی اتی بنعیمان او بابن نعیمان و هو سکران فشقّ علیه وامر من فی البیت ان یضربوه فضربوه بالجرید والنعال"۔
[64] صحیح بخاری جلد ۸ص۲۲۔
"۔۔۔ فقال النبی: اذهبوا به فارجموه، قال ابن شهاب: فاخبرنی من  سمع جابر بن عبدالله قال:فکنت من فی رجمه فرجمناه بالمصلی"۔
[65] ۔المعجم الکبیرجلد ۲۳ص۱۲۸
[66] ۔صحیح مسلم جلد ۵ ص۱۲۶
[67] ۔تاریخ الامم و الملوک ج۲ص۵۰۲، المواقف ج۳ص۶۱۱
[68] ۔فتح الباری ج۵ص۱۸۷
[69] ۔فتح الباری ج۱ص۱۴۸
[70] ۔ملاحظہ کیجیے تذکرۃ الحفاظ جلد ۱۷
[71] ملاحظہ کیجیے ، نقش عائشہ در تاریخ اسلام ۲۴۱-۲۷۵
[72] ۔ الطبقات الکبری ج۳ص۳۲
[73] ۔تاریخ مدینہ دمشق جلد ۸ص۲۷
[74] ۔ الطبقات الکبری ج۳ص۳۲
[75] .فتح/۲۹
[76] ۔سیر اعلام النبلاءجلد ۲ص۱۹۳
[77] ۔بقرہ/۱۳۴
[78] ۔صافات/۱۴۲
[79] ۔ھود/۴۶
[80] .بقرہ/۳۶
[81]۔منتخب مسند عبد بن حمید ص۲۵۰
[82]۔ملاحظہ فرمائیں مقالہ"بازخوانی حدیث اقتدا و اھتدا" از محمد فاکر میبیدی، دو فصلنامہ حدیث پژوہی، سال اول شمارہ اول بہار وتابستان ۱۳۸۸۔
[83] ۔یہ روایت صحیح مسلم مین نقل ہوئی ہے کہ پیغمبرJ نے انصار کے بارے میں فرمایا:
"فاقبلوا من محسنهم  واعفوا عن مسیئهم" صحیح مسلم ج۷ص۱۷۴
[84] ۔نہجلد البلاغہ خطبہ ۶۶
[85] ۔ملاحظہ کیجیے: راہنمائے حقیقت ص۶۴۱ و۶۴۲
[86] ۔،عرفۃ علوم الحدیث ص۲۰
[87] ۔نحل/۴۴
[88] ۔المیزان ج۱۲ص۲۷۸
[89] ۔الحدیث و المحدثون ص۱۰۲
[90] ۔المستصفی ج۱ص۱۶۱

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک