نبی (ص) کی نظر میں علی کی منزلت
- شائع
-
- مؤلف:
- سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب: منارۂ ہدایت،جلد-۱(سیرت رسول خدا(ص))
نبی (ص) کی نظر میں علی کی منزلت
جب منافقین او ردل کے کھوٹے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب مدینہ میں ہی رہیں گے تو انہوں نے بہت سی افواہیں پھیلائیں کہنے لگے رسول (ص) انہیں اپنے لئے درد سر سمجھتے ہیں اس لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ خالی ہو جائے تاکہ پھر وہ حسب منشا جوچاہیں سو کریں ان کی یہ باتیں سن کر حضرت علی نے رسول(ص) سے ملحق ہونے کے لئے جلدی کی چنانچہ مدینہ کے قریب ہی آنحضرت (ص) کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کی :
اے اللہ کے رسول(ص) منافقین کا یہ گمان ہے کہ آپ(ص) مجھے اپنے لئے وبال جان سمجھتے ہیں اسی لئے مجھے آپ (ص) نے مدینہ میں چھوڑا ہے ۔
فرمایا:
''کذبوا ولکننی خلفتک لما ترکت ورائ فاخلفنی فی اهلی و اهلک افلا ترضیٰ یا علی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبی بعدی''
(امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۴۹، صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۵، حدیث۳۵۰۳، صحیح مسلم ج۵ ص ۲۳، حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۴۲، حدیث ۱۱۵، مسند احمد ج۱ ص ۲۸۴، حدیث ۱۵۰۸۔)
وہ جھوٹے ہیں ،میں نے تمہیں اپنا جانشین بنایا ہے تاکہ تم اپنے اور میرے اہل خانہ میں میرے جانشین رہو،
اے علی ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
مسلمانوں کی فوج دشوار و طویل راستہ طے کرتی چلی جا رہی تھی اس جنگ میں رسول(ص) نے گذشتہ جنگوں کے بر خلاف مقصد و ہدف کی وضاحت فرمادی تھی ، جو لوگ مدینہ سے آپ(ص) کے ساتھ چلے تھے ان کی ایک جماعت نے راستہ کے بارے میں آپ(ص) سے اختلاف کیا تو آپ(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:
''دعوه فان یکن به خیر سیلحقه اللّه بکم و ان یکن غیر ذالک فقد اراحکم اللّٰه منه''
انہیں جانے دو اگر ان کا ارادہ نیک ہے تو خدا انہیں تم سے ملحق کر دے گا اور اگر کوئی دوسرا ارادہ ہے توخدا نے تمہیں ان سے نجات دیدی۔
رسول(ص) تیزی سے منزل مقصود کی طرف بڑھ رہے تھے جب آپ(ص) حضرت صالح کی قوم کے ٹیلوں کے پاس سے گذرے تو اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
''لا تدخلوا بیوت الذین ظلموا اِلّا و انتم باکون خوفاً ان یصیبکم ما اصابهم' '
ظلم کرنے والوں کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر روتے ہوئے اور اس خوف کے ساتھ(داخل ہونا)کہ جو افتاد ان پر پڑی تھی وہ تم پرنہ پڑے'' اور انہیں اس علاقہ کا پانی استعمال کرنے سے منع کیا اور انہیں سخت موسم سے آگاہ کیا نیزاس جنگ میں کھانے پانی اور دیگر اشیاء کی قلت سے متنبہ کیا، اسی لئے اس لشکر کو ''جیش العسرة'' کہتے ہیں۔
مسلمانوں کو روم کی فوج نہیں ملی کیونکہ وہ پراگندہ ہو چکی تھی۔ اس موقعہ پر رسول(ص) نے اصحاب سے یہ مشورہ کیا کہ دشمن کا تعاقب کیا جائے یا مدینہ واپس چلا جائے اصحاب نے عرض کی: اگر آپ کو چلنے کا حکم دیاگیا ہے تو چلئے رسول(ص) نے فرمایا:
''لو امرت به ما استشرتکم فیه''
اگر مجھے حکم دیا گیا ہوتا تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا
(المغازی ج۳ ص۱۰۱۹ ۔)
پھر آپ(ص) نے مدینہ لوٹنے کا فیصلہ کیا۔
رسول(ص) جزیرہ عرب کے شمالی علاقہ کے سرداروں کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے یہ معاہدہ کیا کہ طرفین میں سے کوئی بھی کسی پر حملہ و زیادتی نہیں کرے گا ۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خالد بن ولید کو دومة الجندل کی طرف بھیجا کیونکہ وہاں کے سرداروں سے یہ خوف تھا کہ وہ دوسرے حملہ میں کہیں روم کا ساتھ نہ دیں مختصر یہ کہ مسلمانوں نے وہاں کے حاکم کو گرفتار کر لیا اور بہت سا مال غنیمت ساتھ لائے۔
( طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۶۶ بحار الانوارج۲۱ص۲۴۶۔)