امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اعضائے بدن کے کام ؟ قسط- 2

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

انسان کے اعضاءِ بدن کے کام ؟-قسط -2

امام صادق علیہ السلام کا صحابی مفضّل بن عمر،کے مختلف سوالوں کے جوابات:

کلام کس طرح وجود میں آتا ہے

اے مفضل!
 آواز، کلام اور اس کی بناوٹ پر غور کرو، یہ حنجرہ جو نلی کے مانند ہے اس کے وسیلہ سے آواز منہ سے باہر آتی ہے اور زبان، ہونٹوں اور دانتوں کی مدد سے حروف و کلام کی صورت اختیار کرتی ہے ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس شخص کے دانت نہ ہوں وہ" سین" کو ادا نہیں کرسکتا اور اگر کسی کے ہونٹ کٹ جائیں تو وہ "فاء" کا تلفظ نہیں کر پاتا، اور اگر کسی کی زبان میں سنگینی ہوتو وہ" راء "کو خوب ادا نہیں کرسکتا،
 اے مفضل!
 یہ پورا نظام بانسری سے شباہت رکھتا ہے، کہ حنجرہ بانسری کی نلی، پھیپھڑے مثل زق(چمڑے کا تھیلا۔ مشک وغیرہ) کے ہیں جو ہوا کو حنجرہ تک پہنچانے کا عمل انجام دیتے ہیں، اور وہ عضلات جو پھیپھڑوں کو ہوا پیدا کرنے پر مجبور کرتے ہیں وہ ان انگلیوں کے مانند ہیں کہ جو بانسری کے سوراخوں پر رکھی ہوئی ہیں، تاکہ ہوا بانسری میں جاری رہے، اور ہونٹ اور دانت اسی طرح حروف بنانے کے عمل کو انجام دیتے ہیں جس طرح سے بانسری کے اوپر رکھی ہوئی انگلیوں کو حرکت دینے سے قصد و ارادہ کے مطابق آواز کلام میں تبدیل ہوجاتی ہے ، یہ جو میں نے صداء مخرج کو بانسری سے شباہت دی یہ محض ا س کی تعریف بیان کرنے کے لئے  ہے ورنہ یہ بانسری ہے کہ جو صداء مخرج سے شباہت رکھتی ہے یہ اعضاء کہ جن کا ذکر کیا گیا کلام کی تخلیق کے علاوہ دوسرے کام بھی انجام دیتے ہیں ، جیسے حنجرہ اس کے وسیلہ سے صاف ہوا پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے، اورعمل تنفس کے ذریعہ جگر کو مسلسل راحت و نشاط حاصل ہوتا ہے، کہ اگر ذرا سا بھی سانس گھٹ جائے تو انسان کی ہلاکت یقینی ہے۔

زبان:


 جس کے ذریعے مختلف ذائقوں کو چکھا جاتا ہے ، اور ان میں سے ہر ایک کو تلخ و شیرین، کھٹےاور پھیکے ہونے کے لحاظ سے پہچانا جاتا ہے اس کے علاوہ زبان لقمہ اور پانی کے نگلنے میں مدد دیتی ہے۔

دانت :


 یہ غذا کو چباتے ہیں ، تاکہ وہ نرم ہوجائے اور اس کا نگلنا آسان ہو، اس کے علاوہ دانت ہونٹوں کے لئے تکیہ گاہ ہیں،جو ہونٹوں کو لٹکنے اور حالت اضطراب سے محفوظ رکھتے ہیں ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جن کے دانت گر جاتے ہیں اورہونٹ لٹک جاتے ہیں۔

ہونٹ :


جن کی مدد سے پانی کو منھ میں لیا جاتا ہے تاکہ اندازہ کے مطابق پانی گلے تک پہنچے اور گھٹلی کی صورت میں نیچے اترنے کی وجہ سے انسان کیلئے درد کا باعث نہ بنے، اس کے علاوہ منھ پر دو ہونٹ مثل بند دروازے کے ہیں کہ انسان جب چاہتا ہے کھول لیتا ہے ، اور جب چاہتا ہے انہیں بند کرلیتا ہے ، ان تمام باتوں سے یہ چیز روشن ہوجاتی ہے کہ ہر عضو چند کاموں کے لئے استعمال ہوتا ہے، جس طرح سے کلہاڑی ان آلات میں سے ہے کہ جو بڑھئی کے بھی کام آتا ہے اور کھدائی کرنے والے کے بھی اور اس کے علاوہ بھی بہت سے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔


 دماغ کاسہ سر کے محکم حصار میں

اے مفضل!
اگر دماغ کو تمہارے سامنے کھولا جائے تو تم مشاہدہ کرو گے کہ وہ کئی تہہ بہ تہہ پردوں میں لپٹا ہو اہے، تاکہ یہ پردے دماغ کو ان آفات اور صدمات سے محفوظ رکھیںکہ جو اس میں خلل کا باعث بنتے ہیں اور کھوپڑی دماغ پر خول کی مانند ہے ، تاکہ اگر سر پر کوئی ضرب یا تکلیف پہنچے تو وہ دماغ تک رسائی نہ کرسکے اور پھر خدا نے کھوپڑی کو بالوں کے لباس سے آراستہ کیا، تاکہ وہ اسے سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھیں، آیا وہ کون ہے کہ جس نے دماغ کو اس قسم کے حصار میں رکھا ؟
 سوائے اس کے اور کوئی نہیں جس نے اس کو پیدا کیا اور اسے منبع احساسات اور لائق حفاظت قرار دیا اس لئے کہ اس کا مرتبہ دوسرے اعضاء کی نسبت بلند ہے۔

آنکھوں پر غلاف چشم کا خوبصورت پردہ

اے مفضل !
 غورو فکر کرو، کہ کس طرح سے پپوٹوں کو آنکھوں پر پردہ کے مانند قرار دیا، اور یہ کہ کس طرح سے آنکھوں کو گہرائی میں رکھا، اور خوبصورت پلکوں کا اس پر سایہ کیا۔

وہ کون ہے؟

اے مفضل!
 وہ کون ہے؟
 جس نے دل کو قفسہ سینہ میں محفوظ کیا ، اور پھراسے لباس محکم یعنی پردہ دل سے آراستہ کیا، اور مضبوط ،ہڈیوں ، گوشت اور اعصاب کے ذریعے سے اس کی حفاظت کی، تاکہ کوئی ضرر اس تک نہ پہنچ پائے، وہ کون ہے جس نے گلوئے انسان میں دو راستے بنائے، ایک راستہ وہ جس سے آواز باہر آتی ہے کہ جسے حلقوم کہتے ہیں جو پھیپھڑوں سے ملا ہواہے، اور دوسرا راستہ غذا کے جاری ہونے کیلئے ہے ، یہ ایک گول نلی ہے جو معدہ سے ملی ہوئی ہے، یہی نلی غذا کو معدہ تک پہنچاتی ہے پھر اُس نے حلقوم کو طبقوں کی صورت میں ترتیب دیا تاکہ غذا پھیپھڑوں تک نہ پہنچے کہ اگر غذا انسان کے پھیپھڑوں تک پہنچ جائے تو انسان ہلاک ہوجائے، وہ کون ہے؟ جس نے پھیپھڑوں کو دل کے لئے نشاط و راحت کا سبب قرار دیا جو ہمیشہ حرکت میں ہیں اور اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتے کہ حرارت دل میں جمع ہوکر انسان کو ہلاک کردے، وہ کون ہے؟
جس نے مجری غائط و بول میں بند قرار دیئے تاکہ یہ بند انہیں ہر وقت کے جاری ہونے سے محفوظ رکھیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کی زندگی آلودہ ہو کررہ جاتی، اور اس قسم کے دوسرے اس قدر فائدہ ہیں کہ جنہیں اگر کوئی شمار کرنے والا شمار کرنا چاہیے تو وہ انہیں ہرگز شمار نہیں کرسکتا، اور اے مفضل ، ان فائدوں میں سے بہت سے فائدے تو ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں لوگ اطلاع نہیں رکھتے،

وہ کون ہے؟
 جس نے معدہ کو محکم اعصاب سے مجہز کیا، اور اسے سخت غذا کے ہضم کرنے کے قابل بنایا ، وہ کون ہے؟
جس نے جگر کی بناوٹ ، نازک اور باریک نالیوں سے انجام دی تاکہ صاف اور لطیف غذا کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کرے، اور معدہ سے زیادہ نازک و لطیف کام انجام دے ، سوائے اُس خداوند متعال کے اور کوئی نہیں کہ جو قادر اور قوی ہے، کیا تم اس بات کو کہہ سکتے ہو کہ محض اتفاقات نے ان میں سے کسی ایک کام کو بھی انجام دیا ہے ؟
 ہرگز نہیں، بلکہ یہ تمام کام اُس مدبر کی حکمت و تدبیر کے تحت ہیں، جس نے اپنی تدبیر سے انہیں پیدا کیا ،اور کوئی بھی چیز اُسے عاجز نہیں کرتی ، وہ لطیف و آگاہ ہے۔

اعضاء بدن بغیر علت کے نہیں ہیں

اے مفضل!
 ذرا غور کرو،
 آخر کیوں خداوند عالم نے نازک مغز کو محکم و مضبوط ہڈیوں کے درمیان رکھا؟ سوائے اس کے کہ وہ محکم ہڈیاں اُسے محفوظ رکھیں، آخر کیوں خون کو رگوں کے حصار میں قرار دیا، جیسے کہ پانی برتن میں ہو، کیا رگوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہے کہ جواُسے جسم میں منتشر ہونے سے بچائے، آخر کیوں؟ ناخنوں کو سر انگشت پر جگہ عطا کی؟
 سوائے اس کے کہ وہ انگلیوں کو محفوظ رکھیں اور انگلیوں کے کام کرنے میں ان کی مدد کریں ، آخر کیوں؟
کان کا اندرونی حصہ پیچیدگی صورت اختیار کئے ہوئے ہے؟
سوائے اس کے کہ آواز اس کے ذریعہ وارد ہوکر کان کے اندر ختم ہوجائے (اور کان کے پردے کو کسی بھی قسم کے ضرر کا سامنا کرنا نہ پڑے) کیونکہ اس پیچیدگی ہی کہ وجہ سے ہوا کا زور ٹوٹ جاتا ہے ، اور کان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، آخر کس مقصد کے تحت ران اور کولھوں کو گوشت کا لباس پہنایا؟
 سوائے اس کے کہ زمین پر بیٹھتے وقت انہیں تکلیف کا سامنا کرنا نہ پڑے،اور زمین کی سختی ان پر اثر انداز نہ ہو، جیسا کہ اگر کوئی لاغر و کمزور آدمی زمین پر بیٹھتے وقت اپنے نیچے کوئی چیز نہ رکھے، تو اُسے درد محسوس ہوتاہے، وہ کون ہے؟
 جس نے انسان کو نر و مادہ کی صورت میں پیدا کیا؟
 کیا اس کے علاوہ کوئی اور ہے ، جو یہ چاہتا ہے کہ نسل انسانی باقی رہے، کون ہے جس نے انسان کو صاحب نسل قرار دیا ہے، سوائے اس کے کہ جس نے اسے صاحب آرزو خلق کیا، کون ہے جس نے اُسے اپنی حاجت کو پورا کرنے والا بنایا، کون ہے جس نے اُسے حاجت بنایا؟ سوائے اس کے کہ جس نے اس بات کہ ذمہ داری اپنے سر لی، کہ اِسے پورا کریگا، کون ہے، جس نے اُسے کام کاج کے لئے أعضاء و جوارح عطا کئے، کون ہے، جس نے اسے کام کے لئے قدرت و طاقت عطاکی، کون ہے ، جس نے درک و فہم کو فقط اس کے ساتھ مخصوص کیا، کون ہے، جس نے انسان پر شکر کو واجب قرار دیا، کون ہے جس نے اُسے فکر و اندیشہ گری سیکھائی؟ سوائے اس کے کہ جس نے اُسے اُس کی قوت عطاکی، کون ہے جس نے انسان کو قدرت ، طاقت وتوانائی جیسی نعمت سے نوازا؟
 کون ہے جس نے انسانوں پر اپنی حجت تمام کی، کہ جو ناچارگی و بے کسی کے عالم میں کفایت أمر کرتاہے، کون ہے، کہ جس کا جتنا شکر ادا کیا جائے ، ادا نہیں ہوتا،اے مفضل ذارا غور کرو، کہ کیا تم اس بیان شدہ نظام میں اتفاقات کا مشاہدہ کرتے ہو؟ خداوند متعال بلند و برتر ہے، ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

دل کا نظام

اے مفضل !
 اب میں تمہارے لئے دل کی تعریف بیان کرتا ہوں ، جان لو کہ دل میں ایک سوراخ ہے جو اُس سوراخ کے سامنے ہے جو پھیپھڑوں میں مشاہدہ کیا جاتا ے، جس کے وسیلہ سے دل کو ہوا اور سکون ملتا ہے، اگر یہ سوراخ ایک دوسرے سے دو ر یا جابجا ہوجائیں اور دل تک ہوا نے پہنچے تو انسان ہلاک ہوجائے، کیا کسی صاحب عقل کے لئے یہ کہنا زیب دیتا ہے کہ یہ عمل محض اتفاق کا نتیجہ ہے ، اس کے باوجود کہ وہ ایسے شواہد کا مشاہدہ کرتا ہے ، کہ جو اسے اس گفتار سے روکتے ہیں، اگر تم دو دروازوں میں سے ایک کو دیکھو کہ اُس میں کُنڈی لٹکی ہوئی ہے ، تو کیا تم یہ کہو گے کہ اس کے بنانے والے نے اسے بے فائدہ اور بے مقصد بنایا ہے، ہرگز نہیں ، بلکہ تم سوچوگے کہ یہ دروازے آپس میں ملنے کے لئے ہیں ، اور یہ کنڈی ہے کہ جو انہیں ملانے کا کام انجام دیتی ہے ، اور ان کے ملنے ہی میں مصلحت ہے، تو بس تم حیوانات میں نر کو بھی اسی طرح پاؤگے کہ اسے ایک ایسا ہی آلہ عطا کیا گیا ہے ، تاکہ وہ اپنی مادہ کے ساتھ نزدیکی کرے کہ جس میں اس کی نسل کی بقاء ہے، اب ان فلسفیوں پر نفرین کی جائے کہ جن کے دل سیاہ ہوچکے ہیں ، کہ وہ اس عجیب و غریب خلقت میں تدبیر و ارادہ کا انکار کرتے ہیں، اگر مرد کا آلہ تناسل ہمیشہ آویزاں ہوتا، تو کس طرح نطفہ رحم تک پہنچتا، اور اگر ہر وقت کھڑا ہوتا ، تو کس طرح سے بستر پر کروٹ لے سکتا تھا، اور اس حالت میں وہ کس طرح سے لوگوں کے درمیا ن راہ چلتا، اس کے علاوہ اگر ایسا ہوتا تو یہ منظر قباحت پر مشتمل ہوتا، اور مرد وزن کی شہوت کو ہر وقت متحرک کرتا، لہٰذا خداوند متعال نے اُسے اس طرح قرار دیا کہ وہ اکثر اوقات مردوں کی نگاہ سے پوشیدہ رہے، اور ان کے لئے زحمت ومشقت کا باعث نہ ہو، لیکن اس میں ایک ایسی قوت عطا کی کہ ضرورت کے وقت کھڑا ہوجائے، اس لئے کہ اس میں بقاء نسل پوشیدہ ہے۔

مقام مخرج

اے مفضل!
 اب ذرا غور کرو،بڑی نعمتوں میں سے کھانے، پینے اور فضلات کے بدن سے بآسانی خارج ہونے پر، مگر کیا مقام مخرج کی بناوٹ وساخت کے لئے اس سے بہتر کوئی طریقہ تھا کہ اُسے پوشیدہ ترین اور مخفی جگہ پر قرار دیا جائے، کہ جو نہ انسان کی پشت پر ہو اور نہ آگے لٹکی ہوئی، بلکہ اُسے ایسی پوشیدہ اور مناسب جگہ قرار دیا ، جسے رانوں اور کولھوں کاگوشت چھپائے ہوئے ہے، اور جب انسان خلاء کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور ایک خاص انداز میں بیٹھتا ہے تو اس کی جائے مخرج مہیا ہے ، اور ہمیشہ فضولات کا رخ نیچے کی طرف ہے، کس قدر مبارک ہے وہ ذات جس کی نعمتیں مسلسل اور بے شمار ہیں۔

دندان کی وضعیّت

اے مفضل!
 فکر کرو، اُن دانتوں پر جو غذا کو پیستے اور ٹکڑے ٹکڑے کردیتے ہیں، کہ جنہیں خدا وند متعال نے انسانوں کی سہولت کے لئے پیدا کیاہے، اُن میں سے بعض تیز اور نوکیلے ہیں، جو غذا کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ اور بعض پھیلے ہوئے ہیں کہ جو غذا کو چبانے اور نرم بنانے کا کام انجام دیتے ہیں، یہ صفت اُن میں تاحد ضرورت موجود ہے۔

بالوں اور ناخنوں میں حسن تدبیر

اے مفضل !
 بالوں اور ناخنوں کے حسن صناعت پر غور کرو، یہ مسلسل بڑھتے ہیں، اور انسان انہیں تراشنے پر مجبور ہوتا ہے، لہٰذا انہیں بے حس قرار دیا گیا ہے ، تاکہ ان کے تراشنے سے انسان کو درد کا سامنا کرنا نہ پڑے، اگر ان کے تراشنے سے انسان درد کا احساس کرتا تو اس کی زندگی مشکلات سے دوچار ہوجاتی اور اگر درد کی وجہ سے انہیں نہ تراشتا اور بڑھتا ہوا چھوڑ دیتا تو ایسی صورت میں یہ اس کے لئے باعث زحمت و مشقت بنتے، یا پھر یہ کہ انسان درد کو برداشت کرے۔

مفضل کا بیان ہے میں نے عرض کی اے میرے آقا و مولا!
 ان کی خلقت اس طرح کیوں نہیں ہوئی کہ یہ بڑے ہی نہ ہوں، اور انسان ان کے تراشنے پر مجبور نہ ہو؟ امام ـنے ارشاد فرمایا: اے مفضل ، خداوند عالم کی اس عظیم نعمت پر شکر کرو کہ جس کی حکمت اس کے بندے نہیں جانتے ، جان لو کہ بدن کے جراثیم و فضلات انہی کے ذریعے جسم سے خارج ہوتے ہیں، لہٰذا انسان کو ہر ہفتے نورہ لگانے، بال کٹوانے، اور ناخن تراشنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ بال اور ناخن تیزی سے بڑھیں اور ان کے ذریعےانسان کے بدن سے جراثیم اور مختلف فضلات دور ہوں، اگر انہیں تراشا نہ جائے تو ان کے بڑھنے کی رفتار بھی سست پڑ جاتی ہے، جس سے بدن میں جراثیم اور فضلات باقی رہ جاتے ہیں اور انسان مریض ہوجاتا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے بھی فائدے ہیں اور بعض ان مقامات پر کہ جہاں بالوں کا اُگنا خلل اور نقصان کا باعث بنتا، وہاں انہیں اُگنے سے روکا گیا ہے (اب ذرا دیکھو کہ ) اگر بال آنکھوں کے اندر اُگتے تو کیا آنکھوں کو اندھا نہیں کردیتے؟
 اور اگر منھ میں اُگتے تو کیا کھانے ، پینے وغیرہ کے لئے ناگوار معلوم نہ ہوتے اور اگر ہتھیلی پر اُگتے تو کیا لمس کے لئے مانع نہ ہوتے؟
 اور اسی طرح اگر عورت کی شرمگاہ یا مرد کے آلہ تناسل پر بال اگتے تو کیا لذت جماع کو ختم نہ کردیتے، غور کرو کہ کس طرح بال بعض مقامات پر نہیں اُگتے اس لئے کہ اسی میں انسان کی بھلائی ہے،
اور یہ أمر فقط انسانوں کے اندر ہی نہیں، بلکہ چوپاؤں اور درندوں میں بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہو کہ ان کی تمام جلد تو بالوں سے ڈھکی ہوتی ہے، مگر وہ مقامات کہ جن کا ذکر پہلے بیان کیا جا چکا ہے بالوں سے خالی ہوتے ہیں ،
 حاصل مطلب یہ کہ !
ذرا غور کرو!
 کس طرح سے فائدہ اور نقصان کو مدنظر رکھا گیا ہے اور جن چیزوں میں انسان کے لئے فائدہ اور اس کی بھلائی ہے، انہیں فراہم کیا گیا ہے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک