اعضائے بدن کے کام ؟ قسط- ۱
- شائع
-
- مؤلف:
- علّامہ ملّا محمّد باقر مجلسی (رح) ترجمہ علامہ ڈاکٹرنسیم زیدی
- ذرائع:
- کتاب"توحید مفضل" سے ماخوذ
انسان کے اعضاءِ بدن کے کام ؟ قسط - 1
مفضل کو امام صادق علیہ السلام کا جواب
اے مفضل غور کرو!
بدن کے اعضاء اور ان کے حسن انتخاب پر کہ دو ہاتھ کام کاج کرنے، دو پاؤں راہ چلنے ، آنکھیں راہ کو تشخیض دینے، منہ غذا کو کھانے، معدہ غذا کے ہضم کرنے، جگر خون کا تصفیہ کرنے مختلف سوراخ فضلات کے خارخ ہونے، فرج نسل کو باقی رکھنے گویا جسم کو ہر عضو کسی نہ کسی کا کے لئے خلق کیا گیا ہے، اگر تم غور وفکر اور دقت سے کام لو تو تم دیکھو گے کہ ہر چیز صحیح اور حکمت کے تحت بنائی گئی ہے۔
کائنات کے اُمور طبیعت کا نتیجہ نہیں ہیں
مفضل کہتے ہیں:
کہ میں نے عرض کی مولا بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ تمام کام طبیعت انجام دیتی ہے
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:
کہ ان لوگوں سے یہ سوال کیا جائے کہ یہ طبیعت کیا ہے؟
کیا وہ ان کاموں کو بغیر علم و قدرت کے انجام دیتی ہے یا نہیں، پس اگر وہ اس کے علم و قدرت کو ثابت کرتے ہیں تو پھر کیونکر خدا کے اثبات سے انکار کرتے ہیں باجود اس کے کہ یہ تمام کام خداوند عالم کی تدبیر کے تحت انجام پاتے ہیں اور اگر وہ کہیں کہ طبیعت ان کاموں کو بغیر علم و قدرت کے انجام دیتی ہے،
تو یہ کہنا بھی ان کا غلط ہوگا اس لئے کہ تم اس کائنات میں علم و قدرت کے آثار کا مشاہدہ کرتے ہو، اور خدائے بزرگ اپنے تمام امور کو اس طبیعت کے تحت انجام دیتا ہے کہ جس سے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طبیعت خود مستقل طور سے ان کاموں کو انجام دیتی ہے، اور اس طرح وہ لوگ خدائے حکیم سے غافل ہوجاتے ہیں لیکن ذرا سے غور فکر کہ بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام کام خدا ہی کی طرف سے ہیں۔
غذا کے جسم میں پہنچنے پر معدہ اور جگر کا حیرت انگیز عمل
اے مفضل!
غذا کے بدن میں پہنچنے اور اس کی تجویز پر غور کرو، جب غذا معدہ میں داخل ہوتی ہے ، تو معدہ اس غذا کو پکا کر بہت ہی باریک پردہ دار سوراخوں کے ذریعہ صاف غذا کو جگر تک پہنچاتا ہے اس لئے کہ اگر گندھی غذا جگر تک پہنچ جاتی ہے تو انسان مریض ہوجاتا ہے،کیونکہ جگر بہت ہی زیادہ نازک اور لطیف ہے،جو فضولات کو اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اب جگر کا کام یہ ہے کہ اس صاف غذا کو قبول کرنے کے بعد اس کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کردے جو باریک نالیوں کے ذریعہ جسم کے تمام حصوں میں پھیل جاتاہے، بالکل اسی طرح جس طرح پانی زمین پر پھیل جاتا ہے اور باقی کثافتیں ایک خاص تھیلی میں جمع ہو جاتی ہیں ، جو جنس صفراء میں سے ہے وہ پتے ّکی طرف اور جو جنس سودا میں سے ہے وہ تلی کی طرف روانہ ہو جاتی ہے، اور جو رطوبت باقی بچتی ہے ، وہ مثانہ کی طرف حرکت کرتی ہے ، بدن کی تدبیر و حکمت اور اس کے اعضاء کی مناسبت پر فکر کرو، جو اس کے عین مطابق ہے، اب ذرا دیکھو ان تھیلیوں کی طرف کہ انہیں کس طرح تیار کیا گیا ہے،جو اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتی ہیں کہ کثافتیں بدن میں منتشر ہو کر بدن کو مریض اور اسے ہلاکت تک پہنچادیں۔کس قدر مبارک ہے وہ ذات کہ جو محکم اور قوی ارادہ رکھتی ہے، تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیںجن کا وہ لائق ہے۔
مفضل کہتے ہیں میں نے عرض کی!
اے میرے آقا و مولا اب آپ میرے لئے بدن کی نشوونما اور یہ کہ وہ کس طرح حد کمال تک پہنچتا ہے، بیان فرمائیں ؟
آپ نے فرمایا:
اے مفضل !
حیات انسانی کا پہلا مرحلہ تصویر جنین ہے جہاں نہ اسے کوئی آنکھ دیکھ پاتی ہے اور نہ ہی کوئی ہاتھ اس تک پہنچ سکتا ہے، ایسی حالت میں اس کی تربیت خالق حکیم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ تمام اعضاء جیسے عضلات ، ہڈیاں، گوشت ، چربی، پٹھے ، رگیں اور نرم ہڈیوں سے مرکب و مجہّز ہو کر باہر آتا ہے، اور جیسے ہی وہ باہر آتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ کس طرح اس کے اعضاء اپنی شکل و صورت پر باقی رہ کر بغیر کسی کمی و بیشی کے رشد کرتے ہیں ، اور پھر ایک خاص حد پر پہنچ کر رک جاتے ہیں، اور رشد نہیں کرتے چاہے اس شخص کی زندگی کوتاہ ہو یا طویل کیا یہ سب کام تدبیر و حکمت کے تحت نہیں ہیں؟
انسان کی ایک خاص فضیلت
اے مفضل!
اس صفت و فضیلت پر غور کرو، جو خداوند عالم نے اپنی تمام مخلوق میں فقط انسان کو عطا کی وہ یہ ہے کہ وہ سیدھا کھڑا ہوسکتا ہے، صحیح طریقے سے بیٹھ سکتا ہے، اور اسے ہاتھوں جیسی نعمت سے نوازا ہے، جن کے ذریعے وہ اپنے امور انجام دیتا ہے، لیکن اگر اس کے ہاتھ بھی چوپاؤں کی طرح ہوتے تو وہ ان کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا۔
اے مفضل!
اب ذرا غور و فکر کرو ان حواس پر جو خداوند عالم نے انسان کو عطا کئے اور اسے اپنی تمام مخلوق میں فضیلت عطا کی، ذرا دیکھو، خداوند عالم نے آنکھوں کو سر پر کس طرح قرار دیا جیسے کوئی چراغ مینارہ پر ہو، تاکہ اشیاء کی اطلاع ممکن ہو سکے، اور انہیں نچلے اعضاء مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ میں نہ رکھا تاکہ معرض آفات قرار نہ پائیں جب ہاتھ پاؤں کام میں مشغول ہوں تو یہ ہر قسم کی ضرر اور خطرہ سے محفوظ ہوں، اور نہ ہی آنکھوں کو درمیانی اعضاء جیسے شکم یا کمر پر قرار دیا کہ یہاں آنکھ کے لئے گردش کرنا دشوار ہوجاتا اور کیوں کہ اعضاء میں سر سے بہتر کوئی دوسرا عضو نہیں، لہٰذا خداوند عالم نے اسے حواس کا مرکز بنایا ہے، اور وہ ان حواس پر
صومعہ ( یعنی: خانقاہ، یا پہاڑ کی چوٹی پر راہب کی عبادت گاہ)
کے مانند ہے۔
خدا وند عالم نے انسان کیلئے پانچ مختلف حواس کو بنایا، تاکہ پانچ مختلف چیزوں کا ادراک کرسکے، آنکھیں دیکھنے کیلئے بنائی گئیں ہیں تاکہ رنگوں کو درک کرسکیں، اس لئے کہ اگر رنگ ہوتے لیکن انہیں دیکھنے کیلئے آنکھیں نہ ہوتیں تو رنگوں کا ہونا
بے فائدہ ہوتا، کان آواز سننے کیلئے بنائے گئے ہیں، اگر آواز ہوتی مگر انہیں سننے کیلئے کان نہ ہوتے تو آواز کا ہونا بے جا ہوتا، اور اسی طرح تمام حواس اور اس کے برعکس اگر دیکھنے کے لئے آنکھیں تو ہوتیں، لیکن رنگ نہ ہوتے تو ایسی صورت میں آنکھوں کا ہونا کوئی اہمیت نہ رکھتا، اسی طرح اگر کان ہوتے لیکن آواز نہ ہوتی تو کانوں کا ہونا بے محل ہوتا ، ذرا دیکھو تو کس طرح سے بعض چیزیں بعض دوسری چیزوں کو درک کرتی ہیں، اور ہر قوت ِ حس کے لئے ایک محسوس مختص ہے، کہ وہ فقط اسے درک کرے، اور ان محسوسات کیلئے دو چیزیں اور بھی ہیں جو قوت حس اور محسوس کے درمیان رابطہ ہیں، کہ اگر یہ دو چیزیں نہ ہوں تو قوت حس ہرگز محسوس کو درک نہیں کرسکتی، اور وہ دو چیزیں ، روشنی اور ہواہے۔ اس لئے کہ اگر روشنی رنگ کوآشکار نہ کرے تو آنکھ انہیں ہرگز درک نہیں کرسکتی، اسی طرح ہوا اگر آواز کو کان تک نہ پہنچاتی تو کان کبھی بھی آواز کو نہیں سن سکتے تھے کیا اب بھی صاحبان فکر کے لیے قوتِ حس ، محسوس اور ان کے روابط کے بارے میں کوئی بات پوشیدہ رہ جاتی ہے، کہ جن کے بغیر ادراک ممکن نہیں ہوتا اور یہ کہ وہ کس طرح بعض بعض کو درک کرتے ہیں ، یہ وہ تمام چیزیں ہیں کہ جو خداوند لطیف و خبیر کے قصد و ارادہ اور اس کی اندازہ گیری کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔
عقل ، آنکھ اور کان کی عدم موجودگی اختلال کا سبب
اے مفضل غور و فکر کرو!
اس شخص کے بارے میں کہ جو اپنی آنکھ سے محتاج ہے، کہ اس کے کاموں میں کسی قدر خلل ایجاد ہوتا ہے، کہ اپنے پاؤں کی جگہ اور اپنے آگے کی اشیاء کو نہیں دیکھ پاتا نہ وہ رنگوں کے درمیان فرق کرسکتا ہے اور نہ اچھے برے کی پہچان کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ اس گڑھے کو دیکھ سکتا ہے کہ جس میں غفلت سے گرجاتا ہے ، اور نہ اس دشمن کو دیکھ سکتا ہے کہ جو اس پر تلوار کھینچے ہوئے ہے، اور وہ خط و کتابت لکڑی کا کام، سونے وغیرہ کا کام اور اس قسم کے دوسرے کام سے بھی محتاج ہے، ایسا شخص اگر چست نہ ہو تو اپنی جگہ پر پڑے ہوئے پتھر کی مانند ہے۔ اور اسی طرح وہ شخص جو بہرا ہو توا س کے کاموں میں بھی بہت زیادہ خلل ایجاد ہوتا ہے، ایسا شخص گفتگو کی لذت سے محروم رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف مجالس میں جانے سے اجتناب کرتا ہے ، اس لئے کہ ان میں شرکت اس کے لئے رنجش کاباعث ہوتی ہے ، کیونکہ وہ کسی بھی بات کو نہیں سن پاتا، اس طرح کہ جیسے وہ موجود ہی نہیں، جبکہ باوجود اس کے کہ وہ موجود ہے ، یاپھر ایسے کہ جیسے وہ مردہ ہے جب کہ وہ زندہ ہے اور اگر کوئی اپنی عقل کھو بیٹھے تو وہ چوپاؤں کی مثل ہے یا ان سے بھی بدتر، اس لے کہ چوپائے اشیاء کی تشخیص کرتے ہیں جبکہ وہ بالکل نہیں کرپاتا ، اے مفضل کیا تم نہیں دیکھتے جو اعضاء و جوارح انسان کیلئے بنائے گئے ہیں ان میں اس کے لیے کس طرح بھلائی ہے کہ اگر ان سے میں ایک بھی نہ ہوتا تو انسان کیلئے کتنی زیادہ پریشانی ہوتی ، لہٰذا اسے کامل پیدا کیا گیا اور اس کی پیدائش میں کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی نہیں ہے، ایسا ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ ان کی خلقت میں علم وحکمت اور قدرت سے کام لیا گیا ہے،
مفضل کہتے ہیں میں نے عرض کی !
اے میرے مولا ، پھر کیوں بہت سے لوگ بعض اعضاء و جوارح سے محتاج ہیں، اور انہیں مختلف قسم کی تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،
آپ علیہ السلام نے فرمایا:
اے مفضل !
جو شخص اس قسم کی حالت سے دوچار ہے ، یہ حالت خود اس کے لئے اور اس کے علاوہ دوسروں کے لئے اسی طرح نصیحت ہے جس طرح کوئی بادشاہ کسی کو اس کے غیر مودّب ہونے پر سزا دے تاکہ وہ سزا خود اس کے اور دوسروں کیلئے عبرت ہو ، ایسی صورت میں کوئی بادشاہ کو برا نہیں کہتا بلکہ اسے اس کام کے سلسلے میں داد و تحسین سے نوازتے ہیں ، اور اس کے اس کام کو صحیح قرار دیتے ہیں، خداوند عالم اس گروہ کو جو ان مصیبتوں میں گرفتار ہو اور ان مصیبتوں پر صبر کرے اور خدا کی اطاعت کرتا رہے تو اس قدر ثواب عطا کرے گا جس کی نتیجے میں وہ گروہ دنیا کی تمام مصیبتوں اور آفتوں کو حقیر سمجھے گا، کہ اگر اسے اس بات کا اختیار دے دیا جائے ، کہ اسے دوبارہ دنیا میں واپس پلٹایا جائے کہ یہ صحیح و سالم حالت کو قبول کرے یا اپنی سابقہ حالت کو ، تو وہ یقینا اپنی سابقہ حالت قبول کرے گا، تاکہ اس کے اجرو ثواب میں مزید اضافہ ہو۔
طاق اور جفت اعضاء
اے مفضل!
طاق اور جفت اعضاء کی بناوٹ پر غور وفکر کرو۔
سر :
ان اعضاء میں سے ہے کہ جنہیں طاق پیدا کیا گیا ہے ، کہ اگر ایک سے زیادہ پیدا کیا جاتا تو اس میں انسان کیلئے کسی بھی صورت بھلائی نہ تھی، اس لئے کہ اگر انسان کے لئے ایک اور سر کا اضافہ کردیا جائے، توا س کے لئے یہ سنگینی بے فائدہ ہوگی، کیونکہ حواس کو جمع ہونے کے لئے جس مکان کی ضرورت تھی وہ ایک سر میں موجود ہے اس کے علاوہ اگر انسان دو سر رکھتا تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ جاتا کہ اگر ایک سے کلام کرتا تو دوسرا یقیناخاموش رہتا ، اور اگر دونوں سے ایک ہی کلام کرتا تو دوسرا زائد اور بے فائدہ ہوتا، اور اگر ہر ایک سے جدا جدا کلام کرتا توایسی صورت میں سننے والے کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس کے کلام کی طرف توجہ دے، خلاصہ یہ کہ دو سر ہونے کی صورت میں انسان کے لئے مختلف قسم کے شبہات پیش آتے۔
ہاتھ :
ان اعضاء میں سے ہے کہ جنہیںجفت پیدا کیا گیا، اگر ایک ہاتھ ہوتا تو یہ انسان کیلئے کسی بھی صورت میں بہتر نہ ہوتا جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ انسان کے لئے فقط ایک ہاتھ کا ہونا اس کے کاموں میں کس طرح خلل کا باعث بنتا ہے، مگر کیا تم نے نہیں دیکھا کہ، اگر بڑھئی ، مستری یا مزدورکا ایک ہاتھ شل ہوجائے تو وہ اپنے کام کو جاری نہیں رکھ سکتے ، اور اگر وہ اپنے آپ کو زحمت و مشقت میں ڈال کر اپنے کام کو جاری رکھیں تو پھر بھی وہ اپنے کام میں اس حد تک استحکام پیدا نہیں کر پاتے جیسا کہ دونوں ہاتھوں کی موجودگی میں تھا۔
بقیہ اعضاء کے بارے اس لنک پر موجد ہے