صحابہ، صحابہ کی زبانی-۱
صحابہ کے بارے میں صحابہ کے نظریات-۱
سنت رسول کے بدلنے پر خود صحابہ کی گواہی
جناب اوب سعید خدری کا بیان ہے :
جناب رسو ل خدا نماز عید الفطر یا عیدالاضحی کے لئےجب بھی نکلتے تھے تو پہلے نماز پڑھاتے تھے پھر ان لوگوں کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوجاتے تھے اورلوگ بیٹھے ہی رہتے تھے ۔ اور وعظ ونصیحت فرماتے تھے ۔امرونہی کرتے تھے ۔ اگر کسی بحث کو قطع کرنا چاہتے تھے یا کسی چیز کے لئے حکم دینا چاہتے تھے تو حکم دیتے تھے پھر واپس تشریف لاتے تھے ۔ابو سعید کہتے ہیں یہی صورت آنحضرت کے بعد بھی رہی لیکن ایک مرتبہ جب مروان مدینہ کا گورنرتھا میں بھی اس کے ساتھ عیدالاضحی یا عیدالفطر کی نماز کے لئے چلا جب ہم لوگ مصلی (نماز پڑھنے کی جگہ) پر پہونچے تو دیکھا کہ کثیرین صلت نے ایک منبر بنا رکھا ہے اور مروان نماز سے پہلے ممبر پر جانا چاہتا تھا کہ میں نے اس کا کپڑا پکڑ کر کھینچا لیکن اس نے کھینچ کراپنے کو چھڑا لیا اور منبر پر جاکر نماز سے پہلے خطبہ دیا ۔میں نے مروان سے کہا ۔
خدا کی قسم تم (طریقہ رسول کو) بدل دیا مروان نے کہا :-
ابو سعید جو تم جانتے ہو وہ دور چلا گیا ۔ میں نے کہا ۔ خدا کی قسم جو میں جانتا ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو نہیں جانتا ۔اس پر مروان نے کہا ۔نماز کے بعد لوگ ہمارے لئے بٹیھے رہیں گے اس لئے میں نے خطبہ کو مقدم کردیا ۔
(صحیح بخاری ج 1 ص 122 کتاب العیدین باب الخروج الی المصلی بغیر منبر)
میں نے ان اسباب کو تلاش کرنے کی بہت کوشش کی جس کی بنا پر انصار سنت رسول کو بدل دیا کرتے تھے آخر میں اس نتجہ پر پہونچا کہ تمام اموی حضرات جن میں اکثریت صحابہ رسول کی تھی اور ان سب (اموی حضرات) کے راس ورئیس معاویہ بن ابی سفیان تھے جن کو اہل سنت والجماعت کا تب وحی کہتے ہیں ۔
لوگوں کو آمادہ ہی نہیں بلکہ مجبور کیا کرتے تھے کہ لوگ تمام مسجدوں کے منبروں سے حضرت علی ابن ابی طالب پر لعن اور سب وشتم کیا کریں جیسا کہ مورخین نے لکھا بھی ہے ار صحیح مسلم میں باب فضائل علی ابن ابی طالب میں ایسا ہی لکھا ہے اور معاویہ نے اپنے تمام گورنروں کو یہ احکام جاری کر دئیے تھے علی پر لعنت کرنے کو ہر خطیب اپنے منبر سے اپنا فریضہ قرار دے لئے اور جب صحابہ نے اس کو ناپسند کیا تو معاویہ نے ان کو قتل کرنے اور ان کے گھر بار کو جلانے کا حکم دیدیا ۔مشہور ترین صحابی جنا ب حجر بن عدی اون ان اصحاب کو معاویہ نے صرف اس جرم میں قتل کرادیا ۔
اور بعضوں کوزندہ دفن کرادیا کہ انھوں نے حضرت علی پر لعنت کرنے سے انکار کردیا تھا ۔
مولانا مودودی اپنی کتاب "خلافت وملوکیت " میں حسن بصری کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں ۔ چار باتیں معاویہ میں ایسی تھیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی ہوتی تو معاویہ کی ہلاکت کے لئے کافی ہوتی ۔اور وہ یہ ہیں ۔
1:- صحابہ کے ہوتے ہوئے کسی سے مشورہ کئے بغیر حکومت پر قبضہ کرنا ۔
2:- اپنے بعد شرابی کبابی بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کرنا جو ریشمی لباس پہنتا اور طنبور بجایا کرتا تھا ۔
3:- زیاد کو اپنا بھائی قراردے دینا ۔حالانکہ رسول کی حدیث ہے
"الولد للفراش وللعاھر الجھر "
( لڑکا شوہر کا ہے زانی کے لئے پتھر ہے )۔
4:- حجر واصحاب حجر کو قتل کرنا ۔ وائے ہو معاویہ پر حجر کے قتل پر وائے ہو وائے معاویہ پر حجر واصحاب حجر کے قتل کرنے پر۔
(خلافت وملوکیت ص 106)
بعض ایماندار صحابہ نماز کے بعد مسجد سے فورا چلے جاتے تھے تاکہ ان کو وہ خطبہ نہ سننا پڑے جو علی واہلبیت کی لعنت پر ختم ہوتا تھا جب بنی امیہ کو اس کا احساس ہوا کہ لوگ نماز کے بعداسی لئے چلے جاتے ہیں تو انھون نے سنت رسول کو بدل دیا اور خطبہ کو نماز کے مقدم کردیا تاکہ لوگ مجبورا سنیں ۔
اسی طرح پورا ایک دوران صحابہ کو گزر گیا جو اپنے ذلیل وپست مقاصد کے لئے ۔اپنے چھپے ہوئے کینہ کا بدلہ لینے کے لئے سنت رسول تو درکنار احکام الہی کو بدل دیا کرتے تھے اور ایسے شخص پر لعنت بھیجتے تھے جس کو خدا نے پاک وپاکیزہ قرار دیا ہے جس پر درود وسلام اسی طرح واجب قرار دیا ہے جس طرح اپنے رسول پر جس کی محبت ومودت اس نے اور اس کے رسول نے واجب قراردیا ہے ۔
نبی اکرم فرماتے ہیں ۔
علی کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے۔
(صحیح مسلم ج 1 ص 61)
لیکن یہ صحابہ سنت رسول بدلتے رہے ۔اس میں تغیر وتبدل کرتے رہے اور زبان حال سے کہتے رہے ۔
ہم نے آپ کی بات سنی وار نافرمانی کی ۔علی سے محبت کرنے ان پر درود بھیجنے اور ان کی اطاعت کرنے کے بجائے ساٹھ(60) سال تک ان پر سب و شتم کرتے رہے ۔منبروں سے لعنت کرتے رہے ۔
اگر موسی کرے اصحاب نے مشورہ کرکے ہاروں کو قتل کردینا چاہا تھا تو اصحاب محمد نے محمد کے ہارون کو قتل کردیا ۔اس کی اولاد کو اس کے شیعوں کو پتھروں کے نیچے سے نکال نکال کر قتل کیا ،ان کو دیس نکالادیا دفتروں سے ان کے نام کاٹ دیئے گئے ۔
لوگوں پر بندی لگادی گئی کہ ان کے نام پر نام نہ رکھیں ۔ اتنے ہی اکتفا نہیں کیا ۔ ان سے خلوص رکھنے والے صحابہ کو مجبور کرکرے ان پر لعنت کرائی ۔اور ظلم وجور سے قتل بھی کیا ۔
خدا کی قسم جب میں اپنی صحاح کو پڑھتاہوں اور اس میں یہ پڑھتا ہوں کہ رسول اکرم اپنے بھائی اور ابن عم علی سے بہت محبت کرتے تھے، علی کو تمام صحابہ پر مقدم کرتے تھے ۔ علی کے بارے میں فرمایا اے علی تمہاری نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون کو موسی سے تھی فرق اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا –
(صحیح بخاری ج 2 ص 305 صحیح مسلم ج 2 ص 360 :مستدرک الحاکم ج 3 ص 109)
اور علی سے فرمایا :- اے علی تم مجھ سے ہو میں تم سے ہوں۔
(صحیح بخاری ج 2 ص 76 ،صحیح ترمذی ج 5 ص 300 سنن ابن ماجہ ج 1 ص 44)
ایک جگہ فرمایا "- علی کی محبت ایمان اور ان سے بغض رکھنا نفاق ہے ۔
( صحیح مسلم جن 1ص 61 ،سنن النسائی ج 6 ص 117 صحیح ترمذی ج 8ص306)
ایک اور جگہ فرمایا :- میں شہر علم ہوں اور علی اس کے دروازہ ہیں ۔
(صحیح ترمذی ج5ص 201 مستدرک الحاکم ج3 ص126)
ایک جگہ اور فرمایا :- میرے بعد علی ہر مومن کے ولی (آقا ومولی) ہیں ۔
(مسند امام احمد ج5 ص25 ،مستدرک الحاکم ج2 ص124، صحیح ترمذی ج5ص296)
ایک اور جگہ فرمایا :
جس کا میں مولی ہوں اس کے علی مولی ہیں ۔خدا وند جو علی کو دوست رکھے تو بھی اس کو دوست رکھ اورجو علی کو دشمن رکھے تو بھی اس کو دشمن رکھ" ۔۔۔۔
تو مبہوت ومتحیر رہ جاتا ہوں اور اگر میں صرف ان فضائل کو ذکر کروں جن کو نبی نے علی کے لئے فرمایا ہے اور ہمارے علماء ن ےان کو صحیح سمجھ کر ارو صحیح ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی اپنی کتابوں میں تحریر فرمایا ہے تو اس کے لئے مستقل ایک کتاب کی ضرورت ہے پھر آپ تھوڑی دیر کے لئے سوچئے کہ کیا صحابہ ان تمام نصوص سے جاہل تھے ؟
اور اگر جانتے تھے تو منبروں سے کیونکر لعنت کرتے تھے ؟
اورکیوں علی وآل علی کے دشمن تھے ؟
اور کیسے ان سے جنگ کرتے تھے اور قتل کر تے تھے ۔؟
میں بلا وجہ ان لوگو کے لئے مجوز تلاش کرتا ہوں ۔سوائے حب دنیا ،طلب دنیا ،نفاق ،ارتداد ،الٹے پاؤں جاہلیت کی طرف پلٹ جانے کے اور کوئی معقول توجیہ ہو ہی نہیں سکتی کہ یہ لوگ کیوں سنت نبی کو بل دیئے تھے ۔ اسی طرح میری یہ کوشش بھی رائگان ہوگئی کہ میں اس الزام کو معمولی اصحاب کے سرتھوپ کر اور منافقین کے سرمنڈھ کر اکابر وافاضل صحابہ کو بچالےجاؤ ں لیکن بڑے افسوس کے ساتھ مجھے اس کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ سب کا رستانیاں انھیں حضرات کی تھیں کیونکہ سب سے پہلے بیت فاطمہ کو تمام ان لوگوں سمیت جو اس میں ہیں جلادینے کی دھمکی عمربن الخطاب ہی نے دی تھی اور سب سے پہلے جنھوں نے علی سے جنگ کی ہے وہ طلحہ وزبیر ، ام المومنین عائشہ بنت ابو بکر ،معاویہ بن ابو سفیان ، عمرو عاص وغیرہ کے ہی لوگ تھے ۔
(صحیح مسلم ج 2 362 ، مستدرک الحاکم ج3 ص109 ،مسندامام احمد ج4 ص281)
مجھے سب سے زیادہ تعجب اس بات پر ہے کہ آخر علمائے اہل سنت والجماعت نے کس طرح تمام صحابہ کے عادل ہونے پر اجماع کرلیا ہے اور سب ہی کے آگے رضی اللہ عنہ کا دم چھلّہ لگاتے ہیں بلکہ سب ہی پر بغیر استثناء کے درود وسلام بھیجتے ہیں اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا
" العن یزید ولا تزید "
(صرف یزید پر لعنت کرو باقی سب کو چھوڑو)
بھلا ان بدعتوں سے یزید کو کیا واسطہ ہے جن کو نہ عقل تسلیم کرتی ہے نہ دین قبول کرتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں میرا تعجب ختم ہونے والا نہیں ہے اور ہر آزاد فکر ومفکر وعاقل شخص میرا ساتھ دے گا ۔
میں اہلسنت والجماعت سے خواہش کرتاہوں کہ اگر وہ واقعا سنت رسول کے پیرو ہیں ۔ تو قرآن وسنت نےجس کے فسق وارتداد وکفر کا حکم دیا ہے وہ بھی انصاف کے ساتھ اس کے فسق وارتداد کا حکم دیں ۔
کیونکہ رسول اعظم نے فرمایا ہے ۔
جس نے علی پر سب وشتم کیا اس نے مجھ پر سب وشتم کیا اور جس نے مجھ پر سب وشتم کیا ، اس نے خدا پر سب وشتم کیا اور جس نے خدا پر سب وشتم کیا خدا اس کو منہ کے بھل جہنم میں ڈال دے گا ۔
(مستدرک الحاکم ج 3 ص 121 ۔خصائص نسائی ص 24 ، مسند امام احمد ج 6 ص 33 ،مناقب خوارزمی ص 81 ، الریاض النفرۃ ، طبری ج 2 ص 219 ،تاریخ سیوطی ص 73)
یہ تو اس شخص کی سزا ہے جو حضرت علی پر سب وشتم کرے اب آپ خود فیصلہ کیجئے جو حضرت علی پر لعنت کرے ان سے قتال ومحاربہ کرے اس کا کیا حشر ہوگا ؟
آخر علمائے اہل سنت ان حقائق سے کیوں غافل ہیں ؟
کیا ان کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہیں؟
رب اعوذ بک من همزات الشیاطین واعوذ بک رب ان یحضرون"