امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

حضرت معصومہ عليهاالسلام اور قم المقدس کی فضیلت

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

Ziyarat Bibi Fatima Masooma As - Karwan e Sadiq Travels & Tours  (SMC-Private) Limited

حضرت معصومہ عليهاالسلام اور قم المقدس

ماخوذ از کتاب" چهل حدیث « قم و حضرت معصومه عليهاالسلام »"

مترجم: یوسف حسین عاقلی


قم کے لوگ اور امام هفتم عليه‌السلام

حديث-۱۰
عَنْ صَفْوانِ بْنِ يَحْيى(بَيّاعِ السّابِرىّ) قالَ: كُنْتُ يَوْما عِنْدَ أَبِى الْحَسَنِ عليه السلام فَجَرى ذِكْرُ قُم وَ أَهْلِهِ وَمَيْلِهِمْ اِلىَ الْمَهدىِّ عليه السلام فَتَرَحَّمَ عَلَيهِمْ
وَ قالَ: رَضِىَ اللّهُ عَنْهُم. [ بحار الانوار60/216]

صَفْوانِ بْنِ يَحْيى( بَيّاعِ السّابِرىّ) سے مروی ہے:

میں ایک دن ساتویں امام ابی الحسن موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھا، اس دوران شہر قم اور اہل قم کے حضرت مہدی علیہ السلام کے ساتھ تمائل و ثابت قدمی سے متعلق گفتگو ہوئی تو اس وقت امام علیہ السلام نے لطف، شفقت اور مہربانی کا اظہار فرمایا۔
اور فرمایا: پروردگارا!

( اہل قم ) سے راضی ہو۔


(بَيّاعِ السّابِرىّ : کون تھا؟

آپ کا اصل نام "صفوان بن یحیی بجلی كوفی (متوفا ۲۱۰ق) کنیت: أبو محمد ہے۔ وہ سابری نام کا کپڑا بیچنے کا کام کرتے تھے۔ اسی مناسبت سے وہ" بیاع سابری" کے نام سے مشہور تھے ۔

 "بَيّاعِ السّابِرىّ" امام کاظم (ع) کے اصحاب، امام رضا (ع) اور امام جواد (ع) کے وکلاء اور اصحاب اجماع میں شمار ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ روایات کی اسناد میں ان کا نام آیا ہے۔ تین آئمہ سے کسی واسطے کے بغیر اور امام جعفر صادق ؑ سے واسطے کا ساتھ روایت نقل کرتے ہیں۔ بہت سی روایات ائمہ میں انکی ستائش بیان ہوئی ہے۔  ان کے والد امام صادق کے اصحاب اور امام کاظم ، امام رضا اور امام جواد (ع) کے راویوں اور حضرت رضا (ع) اور امام جواد (ع) کے وکیل تھے ۔ وہ ۲۱۰ ق کو مدینہ میں فوت ہوئے ۔)
(ہماری کتب احادیث میں دوسری شخصیت بھی "بَيّاعِ السّابِرىّ " کے نام سے مشہور ہےلیکن  ان کا اصل نام"  عبدالرحمان بن حجّاج بجلی کوفی" جو" بَيّاعِ السّابُرىّ" کے نام سے مشہور ہیں اور یہ بھی امام صادق علیہ السلام، امام کاظم علیہ السلام کے اصحاب اور وکیلوں میں سے تھےاور  امام رضا (ع) کے زمانے تک زندہ رہے اور امام علیہ السلام کی حیات میں ہی یہ راوی انتقال کرگئے تھے)

 

اہل قم کو آفرین!

حديث-۱۱
عَنْ أَبِى الحَسَنِ الرِّضاء عليه السلامقالَ: اِنَّ لِلْجَنَّةِ ثَمانِيَةَ أَبْوابٍ، وَ لاِهْلِ قُم واحِدٌ مِنْها، فَطُوبى لَهُمْ، ثُمَّ طُوبى لَهُمْ ثُمَّ طُوبى لَهُمْ. [ بحارالانوار:60/215]
امام رضا عليه السلام نے فرمایا:

جنت کے آٹھ دروازے ہیں، ان میں سے ایک روازہ اہل  قم کے لئے ہے، پس ان کےلئے مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو۔

 

اہل قم کو خوش آمدید
حديث-۱۲
رُوِىَ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَهْلِ الْرَّىْ : أَنَّهُمْ دَخَلُوا عَلى أَبى عَبْدِ اللّهِ عليه السلام
وَ قالُوا: نَحْنُ مِنْ أَهْلِ الْرَّىْ. فَقالَ: مَرْحَبا بِاِخْوانِنا مِنْ أَهْلِ قُم!
فَقالُوا: نَحْنٌ مِنْ أَهْلِ الْرَّىْ فَأَعادَ الْكَلامُ، قالُوا ذلِكَ مِرارا وَ أَجابَهُمْ بِهِ أَوَّلاً. [بحارالانوار:60/216]

شہر"رے "کے لوگوں کی ایک جماعت سے روایت ہے کہ: وہ امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم "رے" کے رہنے والے ہیں!۔
پس امام علیہ السلام نےفرمایا: اہل قم ہمارے بھائیوں ہیں  سلام ہو!
پھر انہوں نے دوبارہ یہی بات کرنے لگےکہ ہم شہر"رے "سے ہیں۔ امام علیہ السلام نے وہی جملہ دہرایا۔ انہوں نے اس جملے کو کئی  دفعہ دہرایا، لیکن امام علیہ السلام نے پہلے جملے کا جواب دیا یعنی کئی دفعہ امام علیہ السلام نےاہل قم پر سلام و درود بھیجا۔

اہل قم پر سلام ہو
حديث-۱۳
قالَ الصّادِقُ عليه السلام: سَلامُ اللّهِ عَلى أَهْلِ قُم. يَسْقِى اللّهُ بِلادَهُمُ الغَيْثَ، وَ يُنَزِّلُ اللّهُ عَلَيْهِمُ الْبَرَكاتِ، وَ يُبَدِّلُ اللّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ، هُمْ أَهْلُ رُكُوعٍ وَ سُجُودٍ وَ قيامٍ وَ قُعُودٍ، هُمُ الْفُقَهاءُ الْعُلَماءُ، هُمْ أَهْلُ الدِرايَةِ وَ الرِوايَةِ وَ حُسْنِ الْعِبادَةِ. [ بحارالانوار: 60/217]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:خدا کی سلام ہو اہل قم پر، پروردگارا!ان کے خطّےکو باران رحمت،بارش سے سیراب  فرماتاہے، ان پرپروردگار اپنی  رحمتوں کا نزول  فرماتاہے اور پروردگار عالم ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔یہی اہل قیام و رکوع اور سجود ہیں  وہ فقہاء ،علماء  ودانشمندہیں۔ اور یہی اہل درایہ، اہل روایت اور یہی لوگ اچھی عبادت اور نیکوکار کرنےوالے ہیں۔

اہل قم کی برتری
حديث-۱۴
قالَ أَبُوالْحَسَنِ عليه السلام: اِنَّ لِلْجَنَّةِ ثَمانِيَةَ أَبْوابٍ وَ واحِدٍ مِنْها لاِهْلِ قُم، وَ هُمْ خِيارُ شيعَتِنا مِنْ بَيْنِ سائِرِ البِلادِ، خَمَّرَاللّهُ تَعالى وَلايَتَنا فطينَتِهِمْ. [ بحارالانوار:60/216]
امام هفتم  ابوالحسن موسی کاظم عليه السلام نے فرمایا: بہشت اور جنت کے آٹھ دروازے ہیں اور ان میں سے ایک دروازہ اہل قم کے لئے ہیں اور اہل قم دنیا کےدوسرے خطّہ کے لوگوں میں ہمارے منتخب شیعہ ہیں،  پروردگار عالم نے ہماری ولایت کو ان کی طینت میں رکھی ہے۔

طاقتور جنگجو کون لوگ ؟
حديث-۱۵
رَوى بَعْضُ أَصْحابِنا قالَ : كُنْتُ عِنْدَ أَبى عَبْدِاللّهِ عليه السلام جالِسا اِذْ قَرَأَ هذِهِ الاْيَةَ
« فَإذا جاءَ وَعْدُ أُوليهُما بَعَثْنا عَلَيْهِمْ عِبادا لَنا أُوْلى بَأسٍ شَديدٍ فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ وَ كانَ وَعْدا مَفْعُولاً»
فَقُلْنا: جُعِلْنا فِداكَ، مَنْ هؤُلاءِ؟
فَقالَ ثَلاثَ مَرّاتٍ: همْ وَاللّهِ أَهْلُ قُم. [ بحارالانوار: 60/216]

ہمارے بعض اصحاب نے روایت کی ہیں:

میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت  میں  بیٹھا ہوا تھا۔ امام علیہ السلام نےاس آیت مجیدہ کی تلاوت فرمائی:
«فَإذا جاءَ وَعْدُ أُوليهُما بَعَثْنا عَلَيْهِمْ عِبادا لَنا أُوْلى بَأسٍ شَديدٍ فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ وَ كانَ وَعْدا مَفْعُولاً»
"پس جب دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے زبردست طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا پھر وہ گھر گھر گھس گئے اور یہ پورا ہونے والا وعدہ تھا"(اسراء/5)
تو ہم نے کہا: مولای آپ پر قربان جائیں!

یہ لوگ کون ہیں؟
پس  امام علیہ السلام نے تین بار فرمایا: خدا کی قسم یہ قم کے لوگ ہیں۔
(یہ طاقتور جنگجو کون لوگ تھے؟

اس میں بہت اختلاف ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد بابل کا بادشاہ بخت نصر ہو جس نے یروشلم اور ہیکل سلیمانی تک کو زمین کے برابر کر دیا تھا۔ یعنی جب پہلا وعدہ آئے گا تو ہم تمہارے (اسرائیلیوں) کے خلاف لڑنے والے آدمی بھیجیں گے (تمہیں سختی سے کچل کر یہاں تک کہ مجرموں کو پکڑیں گے) اور وہ گھروں کی تلاشی لیں گے، اور یہ ایک یقینی وعدہ ہے۔)

تربتِ قم اور اہل قم
حديث-۱۶
قالَ الصّادِقُ عليه السلام: تُرْبَةُ قُم مُقَدَّسَةٌ، وَ أَهْلُها مِنّا وَ نَحْنُ مِنْهُمْ لايُريدُهُمْ جَبّارٌ بِسُوءٍ اِلاّ عُجِّلَتْ عُقُوبَتُهُ مالَمْ يَخُونُوا اِخْوانَهُمْ فَاِذا فَعَلُوا ذلِكَ سَلَّطَ اللّهُ عَلَيْهِمْ جَبابِرَةَ سُوءٍ!.
أَما اِنُّهمْ أَنْصارُ قائِمِنا وَ دُعاةُ حَقِّنا، ثُم رَفَعَ رَأْسَهُ اِلَى السَّماءِ
وَقالَ: أَللّهُمَّ اعْصِمْهُمْ مِنْ كُلِّ فِتْنَةٍ وَ نَجِّهِمْ مِنْ كُلِّ هَلَكَةٍ. [بحارالانوار:60/219]

 امام صادق عليه السلام نے فرمایا:

سرزمین" قم "کی مٹی مقدّس ہے اوراس سرزمین کےلوگ ہم میں سے ہیں اور ہم بھی ان میں سے ہیں، کوئی بھی ظالم وجابر اہل قم کے خلاف برا ارادہ نہیں کرسکتا مگر یہ کہ اس کی سزاء اور عذاب میں تاخیر ہوتی ہے۔ہاں جب تک  یہ  لوگ اپنے بھائیوں کے ساتھ خیانت نہیں کرتا لیکن جب وہ خیانت کرنے لگیں تو پروردگار عالم ان پر ستمگران  ،ظالم و جابر کی حکومت مسلّط فرمائے گا۔
وہ ہمارے قائم (عج) کے اعوان وا نصار( ساتھی) اور ہمارےحق کے داعی ہیں، پھر امام نے اپنا سرمبارک آسمان کی طرف اٹھایا اور فرمایا:  پروردگارا! ان کو ہرنافرمانی، آفت و بلیات اور فتنے سے محفوظ رکھنا اور انہیں تمام تباہی و بربادی سے بچا۔


اهل قم اور زيارت امام رضا عليه‌السلام
حديث-۱۷
عَنْ عَبْدِ العَظيمِ بْنِ عَبْدِاللّهِ الْحَسنىّ قالَ : عَلىُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَسْكَرىّ عليه السلام يَقُولُ: اَهْلُ قُم وَأَهْلُ آبَةِ مَغْفُورٌ لَهُمْ لِزيارَتِهِمْ لِجَدّى عَلىِّ بْنِ مُوسَى الرِّضا عليه السلام بِطُوسٍ ألا وَمَنْ زارَهُ فَاَصابَهُ في طَريقِهِ قَطْرَةٌ مِنَ السَّماءِ حَرَّمَ اللّهُ جَسَدَهُ عَلَى النّارِ.
[بحارالانوار:60/231- عيون أخبار الرّضا-عليه السلام-جلد2،ص،260، حدیث22]

حضرت عبدالعظيم کہتے ہیں:

میں نے امام عسکری علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے: شہر «قم»اور شہر«آبه» کے شہری [شہر«آبه»شهرمقدس قم اور ساوه  گاؤں کے درمیان  واقع ہے] کو ہمارےجدّامجد امام رضا علیہ السلام  شہر مقدس طوس کی زیارت کی وجہ سے معاف کر دیا ہے۔ آگاہ ہوجاؤ!( شہرطوس میں)جو شخص ان کی زیارت کریں اور راستے میں آسمان سے بارش کا ایک  قطرہ بھی  اس تک پہنچ جائے، تو پروردگار عالم اس (زائر)کے جسم پرجہنم کی آگ کو حرام قرار دیتا ہے۔


اهل قم پر لطف پروردگار
حديث-۱۸
قالَ الصادِقُ عليه السلام: مَحْشَرُ النّاسِ كُلُّهُمْ اِلى بَيْتِ الْمُقَدَّسِ اِلاّبُقْعَةٌ بِأَرْضِ الْجَبَلِ يُقالُ لَها قُم، فَاِنَّهُّمْ يُحاسَبُونَ فحُفَرِهِمْ وَ يُحْشَرُونَ مِنْ حُفَرِهِمْ اِلَى الْجَنَّةِ ثُمَ قالَ: أَهْلُ قُم مَغْفُورٌ لَهُمْ.
 [ بحارالانوار:60/218]

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:کائینات کے تمام لوگوں کو بیت المقدس کی طرف محشور کرےگا
 سوائے سرزمين جبل کی ایک جگہ کے جسے" قم "کہتے ہیں۔ ان لوگوں  کی اپنے قبروں میں حساب چکانا  ہوں گے اور وہی  سے جنت اور بہشت میں محشور ہو جائیں گے، پھر آپ (ع)نے فرمایا:اہل "قم "کو بخش دیا گیا ہے۔


اہل قم  سےپریشانیوں کا دفع ہونا
حديث-۱۹
قالَ الرِّضا عليه السلام لِزَكَريَّا ابْنَ آدَمَ بْنِ عَبْدِاللّهِ بنِ سَعْدِ الاَشْعَرىّ: اِنَّ اللّهَ يَدْفَعُ البَلاءَ بِكَ عَنْ أَهْلِ قُم كَما يَدْفَعُ البَلاءَ عَنْ أَهْلِ بَغْدادَ بِقَبْرِ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ عليهماالسلام. [ بحارالانوار: 60/220]
امام رضا عليه السلام نے زکریا بن آدم اشعری سے فرمایا:

پروردگار عالم نےتمہارے ذریعے اہل قم کی بلاء اور  پریشانیوں کو دور کرے گا جس طرح  اہل بغداد سےساتویں امام  موسی کاظم علیہ السلام  کی قبر مطہر کی وجہ سے وہاں کےلوگوں کی پریشانیوں کو دور فرمایا ہے۔


دین کے محافظ
حديث-۲۰
رُوِىَ عَنِ الأئِمَةِ: لَوْلاَ القُميُّونَ لَضاعَ الدّينُ [ سفينة البحار: 2/446]
ائمہ معصومین علیہم السلام سے روایت نقل ہے کہ:

اگر "قم "کے لوگ(مؤمنین) نہ ہوتے تو دین تباہ (ضائع)ہو جاتا۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک