جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی
سلفی مولوی بن عثیمین کا جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی۔
وہابی عالم {بن عثیمین }خلفاء کے ساتھ نزاع کے مسئلے میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں گستاخی کا مرتکب ہوا ہے ۔
حضرت صدیقه شهیده سلام اللہ علیہا کی شہادت، راتوں رات ان کا دفن ہونا اور ابوبکر اور عمر پر ان کی ناراضگی کا مسئلہ، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی حقانیت کی دلیل ہونے کے ساتھ ساتھ یہی مسئلہ سقیفه بنیساعده اور خلفاء کے مکتب پر مہر بطلان بھی ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ناراضگی رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ناراضگی ہے اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ناراضگی سے اللہ ناراض ہوتا ہے۔ دوسری طرف اسی «صحیح بخاری» میں آیا ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا ان دونوں پر ناراض ہوئیں اور آخری عمر تک ناراض رہیں۔
اسی لئے ہمیشہ سقیفے کے پیروکار خاص کر وہابی اور ابن تیمیہ کے ہم فکر لوگوں نے اس منطقی نتیجہ گیری{منطقی اعتبار سے کبری صغری اور نتیجہ} کا جواب دینے اور اس نتیجے کو قبول کرنے کے بجائے اس سے فرار کرنے کی کوشش کی ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں مقدمے
{ الف:جناب فاطمہ(ع) کی ناراضگی سے رسول اللہ (ع) اور اللہ تعالیٰ کا ناراض ہونا۔
ب: جناب فاطمہ (ع) کا جناب ابوبکر اور عمر پر ناراض ہونے کا تذکرہ۔}ان کی صحیح ترین کتابوں میں ہے۔
لہذا یہ لوگ اس سلسلے میں سرگرداں ہیں اور ۱۴صدیوں سے اس کا صحیح جواب دینے سے عاجز ہیں ۔
ان لوگوں کو اس چیز کا علم بھی ہے کہ اگر اس مسئلے میں ذرا بھی غور کیا جائے تو وہ لو گ ایک دوراہے پر ایک سخت مشکل سے دوچار ہوجائیں گے۔ یا انہیں جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا {کہ جو صحیح بخاری کی حدیث کے مطابق جنت کی عورتوں کی سردار ہیں} کو حق پر ماننا ہوگا۔ یا ابوبکر کو حق پر ماننا ہوگا۔
جیساکہ بہت سے مستبصرین اور مکتب اہل بیت کی طرف ہدایت پانے والوں نے اس چیز کا اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اسی دوراہے پر پہنچ اسی مسئلہ میں غور و فکر کیا اور وہ اس کے نتیجے میں ہدایت پاگئے ہیں۔
شیخ محمد بن صالح بن محمد العثیمین کہ جو وہابیوں کا ایک مشہور و معروف مفتی ہے اور سعودی عرب کے سابق بادشاہ ملک عبد اللہ سے اس کے خاص تعلقات بھی تھا ، اس نے انتہائی جسارت ، گستاخی اور نہایت ہی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مشکل سے اپنے اور اپنے مذہب کے لئے فرار کا راستہ ڈھونڈے کی کوشش کی ہے۔
وہ اس روایت
«فَوَجَدَتْ فَاطِمَهُ على أبی بَکْرٍ فی ذلک قال فَهَجَرَتْهُ فلم تُکَلِّمْهُ حتى تُوُفِّیَتْ»
کی تشریح میں یہ دعوی کرتا ہے کہ اس نزاع میں ابوبکر حق پر تھا اور جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا {نعوذ باللہ} کو اپنی عقل کھونے کی وجہ سے، اس نزاع میں یہ پتہ نہیں چل رہی تھیں کہ وہ کام کر رہی ہیں۔
ابنعثیمین لکھتا ہے:
نسأل الله أن يعفو عنها. وإلا فأبوبكر ما استند إلي رأي، وإنما استند إلي نص، وكان عليها رضي الله عنها أن تقبل قول النبي صلي الله عليه وسلم «لا نورث ما تركنا صدقه» ولكن كما قلت لكم قبل قليل: عند المخاصمه لا يبقي للإنسان عقل يدرك به ما يقول أو ما يفعل، او ما هو الصواب فيه؛ فنسأ الله أن يعفو عنها، وعن هجره خليفه رسول الله.
التعليق علىٰ صحيح مسلم، جلد ٩، صفحه ٧۸، شرح صحيح مسلم، جلد ۶، صفحه ۷۴
ہم اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ وہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو معاف کرے۔ کیونکہ ابوبکر نے اپنی رائے اور نظر کو دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا تھا۔اس نے تو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کلام اور نص کو دلیل کے طور پر پیش کیا تھا، لہذا فاطمہ زہرا کو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس حدیث{ ہم انبیاء ارث چھوڑ کر نہیں جاتے جو بھی چھوڑ جائے وہ صدقہ ہے} کو قبول کرنی چاہئے تھیں۔ لیکن جیساکہ پہلے ہم نے بیان کیا کہ نزاع اور جھگڑے کے دوران انسان کا عقل کام نہیں کرتی اور اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسے اس وقت کیا کہنا اور کیا کرنا چاہئے۔اسی لئے ہم اللہ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان سے درگزر کرے کیونکہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جانشین ابوبکر کی بات نہیں مانیں اور ان پر ناراض ہوگئیں۔
جی ہاں !
ابوبکر کی بات { کہ جو رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف غلط نسبت تھی} کو قبول کرنے کا نتیجہ یہی ہوگا کہ وہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شان میں توھین اور گستاخی کا مرتکب ہوا ۔
اب اس تاریخی دو راہے پر یا ہمیں ابوبکر کی بات کو قبول کرنا ہوگا اور نعوذ باللہ حضرت فاطمہ سلام علیہا کو حق بات قبول نہ کرنے کی وجہ سے بے عقل اور عذاب الہی کا مستحق جاننا ہوگا۔ یا ہمیں جنت کی عورتوں کی سردار جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی باتوں پر ایمان لانا ہوگا اور اس بات کو قبول کرنا ہوگا کہ ابوبکر نے یہ جھوٹی حدیث بنائی تھی یا حدیث تو تھی لیکن حدیث کا یہ معنی نہیں تھا