خمس آل محمد کا حق تھا لیکن خلفاﺀ نے دینے سے انکار کیا ۔۔۔
خمس آل محمد کا حق تھا لیکن خلفاﺀ نے دینے سے انکار کیا ۔۔۔
فدک واپس نہ لینے کا راز ۔۔۔۔۔۔
الف :
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے خمس میں اپنے حق کا مطالبہ کیا لیکن آپ کو یہ حق نہیں دیا
،4241 - حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَ
۔صحيح البخارى ،کتاب المغازى 38 - باب غَزْوَةُ خَيْبَرَ ،ح 4241 ؎ صحیح مسلم ،كتاب الجهاد والسير ,باب قول النبي لا نورث ماْ
فاطمہ سلام اللہ علیہا نے ابوبکر کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم!
جو صدقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ابوبکر کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی علیہ السلام نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی
3093 - ۔۔۔۔۔۔ ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ ، وَقَالَ لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَعْمَلُ بِهِ إِلاَّ عَمِلْتُ بِهِ ، فَإِنِّى أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ۔۔۔
۔صحيح البخارى ،کتاب المغازى ۔فرض الخمس،1 - باب فَرْضِ الْخُمُسِ
ب : ابوبکر نے رسول اللہ (ص)کے خلاف عمل کیا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ اپنے قربتداروں کو خمس سے حصہ دیتے تھے لیکن ابوبکر نے باقیوں کو خمس دیا لیکن رسول اللہ(ص) کے قربتداروں کو خمس نہیں دیا ۔
16814 قَالَ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ قَالَ حَدَّثَنَا يُونُسُ عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ حَدَّثَنَا جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْسِمْ لِعَبْدِ شَمْسٍ وَلَا لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنْ الْخُمُسِ شَيْئًا كَمَا كَانَ يَقْسِمُ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَانَ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِيهِمْ۔۔
مسند أحمد بن حنبل (4/ 83 ۔المؤلف : أحمد بن حنبل أبو عبدالله الشيباني ۔الناشر : مؤسسة قرطبة – القاهرة ۔عدد الأجزاء : 6
ج :
امیر المومنین علی علیہ السلام خمس کو آل محمد کا حق سمجھتے تھے ۔۔۔۔
جب حسنین کریمین نے خمس کا مطالعہ کیا تو آُپ نے فرمایا وہ آپ لوگوں کا حق ہے چاہئے وہ حق لے لے چاپئے تو اس حق سے ہاتھ اٹھا دیں ۔۔ کیونکہ ہم اس وقت معاویہ کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں ۔۔۔۔
13130 - قَالَ الشَّافِعِيُّ: أُخْبِرْنَا، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ حَسَنًا، وَحُسَيْنًا، وَابْنَ عَبَّاسٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ جَعْفَرٍ سَأَلُوا عَلِيًّا بِقِسْمٍ مِنَ الْخُمُسِ، قَالَ: «هُوَ لَكُمْ حَقٌّ، وَلَكِنِّي مُحَارِبُ مُعَاوِيَةَ، فَإِنْ شِئْتُمْ تَرَكْتُمْ حَقَّكُمْ مِنْهُ» .
معرفة السنن والآثار (9/ 271): المؤلف: أحمد بن الحسين ، أبو بكر البيهقي (المتوفى: 458هـ)المحقق: عبد المعطي أمين قلعجي۔الناشرون: جامعة الدراسات الإسلامية (كراتشي - باكستان) ، دار قتيبة (دمشق -بيروت) ، دار الوعي (حلب - دمشق) ، دار الوفاء (المنصورة - القاهرة)الطبعة: الأولى، 1412هـ - 1991م
د :
جیساکہ یہی ابن عباس کا بھی نظریہ تھا :
َدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ خَمْسِ ۔۔۔۔۔۔۔وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ وَإِنَّا كُنَّا نَقُولُ هُوَ لَنَا فَأَبَى عَلَيْنَا قَوْمُنَا ذَاكَ
یزید بن ہرمز سے روایت ہے، نجدہ نے عبداللہ بن عباس کو لکھا اور خمس کے بارے میں پوچھا ۔۔۔۔۔ ابن عباس نے جواب میں لکھا :اور تو مجھ سے پوچھا ہے خمس کس کا حق ہے؟ تو ہم یہ کہتے تھے کہ خمس ہمارے لیے ہے، پر ہماری قوم نے نہ دینے سے انکار کیا
ابن عباس کا نظریہ ۔۔۔۔
عجیب بات یہ ہے:
کہ جناب ابوبکر اقرار بھی کرتا ہے کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا طریقہ کار تھا ۔۔۔ ساتھ ہی قسم کھاتا ہے کہ میں آُپکے طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لاوں گا لیکین
پھر بھی جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کو کچھ دینے کے لئے تیار نہیں ۔۔۔
اب کیا جناب سیدہ سلام اللہ علیہا خلیفہ سے راضی ہوگیں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
جناب سیدہ سلام اللہ علیہا دربار میں گئی ہیں تو یہی سمجھانے کے لئے گئیں۔۔۔۔۔۔
جناب امیر المومنین علیہ السلام نے فدک واپس نہ لینے کا راز بھی بتایا ۔۔۔۔یہ اس وقت کے حالات کی وجہ سے ان کی مجبوری تھی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
ابن عباس کا نظریہ ۔۔۔۔