علی (ع) کی نماز نبی (ص) کی نماز
علی (ع) کی نماز نبی (ص) کی نماز
اصحاب نماز کی بھی پاسداری نہیں کرسکے ۔۔۔۔
شیعہ کہتے ہیں ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہی دین کے حقیقی محافظ اور وارث ہیں۔انہوں نے دین کو اس کے اصلی سرچشمے سے لیا اور اس کی حفاظت کی ۔
ان کی تربیت ایسے دامنوں میں ہوئی ہے کہ جو انحرافی افکار ،بدعتوں اور جاہلی سنتوں سے پاک تھے ۔ خالص اسلامی ماحول میں ان کی پروش ہوئی ۔ انہوں نے دین کے سائے میں آنکھیں کھولیں اور معلم انسانیت اور اللہ کے سب سے افضل مخلوق نے ان کی تربیت کی ۔
لہذا
ان کا ہر گفتار، رفتار اور افکار دین کا عملی مجسمہ اور دین کی تفسیر اور دین کا بیان ہیں ۔
اسی لئے حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے بعد ان کی پیروی کا حکم دیا ،ان کو اپنے علوم کا دروازہ قرار دیا ، ان کی اطاعت اور ان کے دامن تھامے رہنے کی صورت میں گمراہی سے نجات کی ضمانت دی ۔
مکتب تشیع کا امتیاز بھی یہی ہے کہ یہ دین کو ائمہ اہل بیت علیہم السلام سے لیتے ہیں کہ جو سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی زیر تربیت رہے اور انہوں نے آپ کے سب سے ممتاز شاگرد ہونے کا شرف حاصل کیا ۔
جبکہ اصحاب کے دور میں ہی سنت اور دینی امور میں رد و بدل اور خرابی پیدا ہوئی۔ یہاں تک کہ نماز کہ جو دین کا ستون ہے اس کو بھی اسی طریقے پر نہیں پڑھتے تھے جس طریقے سے آنحضرت پڑھتے تھے ۔۔
امام شافعی اور دوسروں نے مہشور تابعی ، وھب بن کیسان [1] سے نقل کرتے ہیں:
عَنْ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ الزُّبَيْرِ يَبْدَأُ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ، ثُمَّ قَالَ: «كُلُّ سُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُيِّرَتْ، حَتَّى الصَّلَاةُ»[2].
معرفة السنن والآثار (5/ 83): كتاب الام:1/208.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تمام سنتیں تبدیل ہوچکی تھیں، یہاں تک کہ نماز بھی۔
صحابی جناب انس سے اس سلسلے میں کئی روایتیں نقل ہوئی ہیں ،
امام مالک نے اپنے جد مالک سے نقل کیا ہے ۔
189 - وَحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَمِّهِ أبِي سُهَيْلِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ, أَنَّهُ قَالَ : مَا أَعْرِفُ شَيْئاً مِمَّا أَدْرَكْتُ عَلَيْهِ النَّاسَ، إِلاَّ النِّدَاءَ بِالصَّلاَةِ.[3]. الموطّأ: 1/93 وشرحه: 1/122.
لوگوں کو نماز کی دعوت کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں دیکھتا ہوں۔
صحيح البخارى میں نقل ہوا ہے ؛
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا مَهْدِىٌّ عَنْ غَيْلاَنَ عَنْ أَنَسٍ قَالَ مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا كَانَ عَلَى عَهْدِ النَّبِىِّ - صلى الله عليه وسلم - . قِيلَ الصَّلاَةُ . قَالَ أَلَيْسَ ضَيَّعْتُمْ مَا ضَيَّعْتُمْ فِيهَا
صحیح بخاری ، مواقيت الصلاة ، 7 - باب تَضْيِيعِ الصَّلاَةِ عَنْ وَقْتِهَا .
رسول اللہ [ص] کے دور کی کوئی بھی چیز باقی نہیں ،،کہا : نماز ؟ جواب دیا اس کو بھی تم لوگوں نے ضائع کیا ۔۔۔۔
یہاں تک کہ جناب انس کہتے تھے : قبلہ رخ ہونے کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں ہے ۔۔
4149 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الشَّيْبَانِيِّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: «مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِنْ أُمُورِ النَّاسِ غَيْرَ الْقِبْلَةِ»
قال حسين سليم أسد : إسناده حسن۔۔ مسند أبي يعلى (7/ 172):
۔۔یہ سب اصحاب کے دور کی باتیں ہیں ،بعد کے دور کی تو بات ہی اور ہے ۔
عجیب بات یہ ہے کہ دوسرے اصحاب یہ اعتراف کرتے ہیں جنگ جمل اور جنگ صفین کے موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سے ممتاز شاگرد کی امامت میں نماز پڑھنے کی توفیق ہوئی تو انہوں نے ایسی نماز ادا کی کہ جس سے اصحاب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز یاد آگی ۔۔۔۔
یعنی امیر المومنین علیہ السلام اسی طریقے سے نماز پڑھتے تھے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز پڑھتے تھے ۔
دیکھیں کچھ نموبے :
بخاری کی روایت کے مطابق صحابی پیغمبر عمران بن حصین نے جب بصرہ میں حضرت علي بن ابي طالب عليه السلام کے پیچھے نماز پڑھی تو کہا :علی کی نماز نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز یاد دلائی ۔
عن عمران بن حُصين قال : صلّي مع علي بالبصرة فقال: ذَكَّرنا هذا الرجل صلاة كنّا نصلّيها مع رسول اللّه صلي اللّه عليه وسلم.
صحيح البخاري: كتاب الأذان.. باب إتمام التكبير في الركوع من كتاب الأذان.
اسی کی مانند ایک روایت مطرف بن عبد اللّه نے نقل کیا ہے :
حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ قَالَ حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ صَلَّيْتُ أَنَا وَعِمْرَانُ صَلَاةً خَلْفَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَكَانَ إِذَا سَجَدَ كَبَّرَ وَإِذَا رَفَعَ كَبَّرَ وَإِذَا نَهَضَ مِنْ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ فَلَمَّا سَلَّمَ أَخَذَ عِمْرَانُ بِيَدِي فَقَالَ لَقَدْ صَلَّى بِنَا هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ قَالَ لَقَدْ ذَكَّرَنِي هَذَا صَلَاةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
صحيح البخاري: كتاب الأذان.. باب إتمام التكبير في الركوع من كتاب الأذان.
مُطَرِّف کہتے ہیں : میں نے اور عمران بن حُصين نے علي بن أبي طالب کے پیچھے نماز پڑھی۔۔۔۔ عمران نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا : حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم والی نماز پڑھی ۔۔۔۔
جنگ صفین کے موقع پر ابو موسی اشعری کا بھی یہی اعتراف موجود ہے
19737 - حدثنا عبد الله حدثني أبي ثنا حسن ثنا زهير عن أبي إسحاق عن بريد بن أبي مريم عن رجل من بنى تميم عن أبي موسى الأشعري قال : لقد صلى بنا علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه صلاة ذكرنا بها صلاة كنا نصليها مع رسول الله صلى الله عليه و سلم فأما ان نكون نسيناها واما أن نكون تركناها عمدا يكبر في كل رفع ووضع وقيام وقعود
تعليق شعيب الأرنؤوط : حديث صحيح.. ۔۔ مسند أحمد بن حنبل (4/ 415):
2506- حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ بُرَيد بْنِ أَبِي مَرْيَمَ ، عْن أَبِي مُوسَى ، قَالَ : صَلَّى بِنَا عَلِيٌّ يَوْمَ الْجَمَلِ صَلاَةً ، ذَكَّرَنَا بِهَا صَلاَةَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم ، فَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَسِينَاهَا ، وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ تَرَكْنَاهَا عَمْدًا ، يُكَبِّرُ فِي كُلِّ رَفْعٍ وَخَفْضٍ ، وَقِيَامٍ وَقُعُودٍ ، وَيُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَيَسَارِهِ…
مصنف ابن أبي شيبة (1/ 217):
ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ علی علیہ السلام نے ہمیں جنگ جمل کے دن ایسی نماز پڑھائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نماز کی یاد تازہ ہو گئی، جسے یا تو ہم بھول چکے تھے یا چھوڑ چکے تھے، تو انہوں نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیر۔۔۔۔۔
اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی جانشین کو چھوڑنے اور ایسے لوگوں کے حاکم بننے کی وجہ سے جو جانیشنی کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے، کیا کیا بگاڑ اسلامی معاشرے میں وجود آیے تھے اور شریعت پر کیا گزری تھی ۔
علي (ع) نے یہ دیکھا کہ جو بدعتیں اور بگاڑ پہلے والوں کے دور میں وجود میں آئے ہیں اگر ان کی اصلاح کرنا چاہئے تو لوگ اس اصلاح کو تحمل نہیں کرسکے گیں ۔
نمونے کے طور پر : تراويح کی نماز کہ جو خليفه دوم کی ایجاد کردہ بدعت تھی جیساکہ بخاری میں ہے کہ خلیفہ دوم نے ہی کہا:
نعم البدعة اچھی بدعت ہے۔ صحيح بخاري ج 1 ص 342 .
حضرت علي عليه السلام نے اپنے دور حکومت میں امام حسن کو حکم دیا کہ وہ مستحب نماز کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے لوگوں کو روکے ۔لیکن لوگوں نے فریاد بلند کیا :
وا عمراه ، وا عمراه ،
اس وجہ سے حضرت امير عليه السلام نے فرمایا:
قل لهم صلوا
ان لوگوں سے کہو جس طرح پڑھنا چاہو ،پڑھ لو ۔۔۔
امام نے ایک خطبے میں واضح طور پر فرمایا : گزشتہ حکومتوں کے دور میں ایسی بہت ساری بدعتیں انجام پائی ہیں۔
قَدْ عَمِلَتِ الْوُلَاةُ قَبْلِي أَعْمَالًا خَالَفُوا فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلِهِ، مُتَعَمِّدِينَ لِخِلَافِهِ، نَاقِضِينَ لِعَهْدِهِ، مُغَيِّرِينَ لِسُنَّتِهِ، وَ لَوْ حَمَلْتُ النَّاسَ عَلَى تَرْكِهَا وَ حَوَّلْتُهَا إِلَى مَوَاضِعِهَا وَ إِلَى مَا كَانَتْ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ۔
کہ اگر میں ان کی اصلاح کرنا چاہوں تو :
لَتَفَرَّقَ عَنِّي جُنْدِي، حَتَّی أَبْقَی وَحْدِی أَوْ قَلِیلٌ مِنْ شِیعَتِی الَّذِینَ عَرَفُوا فَضْلِی وَ فَرْضَ إِمَامَتِی مِنْ کتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ »
میرے لشکر والے تتر بتر ہو جائیں گے اور میں تنہا رہ جاؤں گا یا میں اپنے ان تھوڑے سے شیعوں کے ساتھ تنہا رہ جاؤں گا کہ جو میرِی فضیلت کو جانتے ہیں اور میری امامت کو اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سنت کے مطابق اپنے اوپر فرض ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔
«أَ رَأَیتُمْ لَوْ أَمَرْتُ بِمَقَامِ إِبْرَاهِیمَ ع فَرَدَدْتُهُ إِلَی الْمَوْضِعِ الَّذِی وَضَعَهُ فِیهِ رَسُولُ اللَّهِ »
اگر مقام ابراہیم کو اسی جگہ قرار دوں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قرار دیا تھا.
«وَ رَدَدْتُ فَدَکاً إِلَی وَرَثَةِ فَاطِمَةَ ع»
اگر میں فدک کو فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی اولاد کو واپس پلٹا دوں۔
یا متعة النساء اور متعة الحج کو حلال کردوں اور لوگوں کو بلند آواز سے بسم اللہ پڑھنے پر مجبور کروں۔ یا نماز تروایح ۔….{گزشتہ خلفاء کے دور کے دسیوں مورد بدعتوں کو ذکر کرتے ہیں} اگر میں ان کو اصل حالت کی طرف پلٹا دوں تو
«إِذاً لَتَفَرَّقُوا عَنِّی»
تو لوگ مجھ سے دور ہوجائیں گے.
«امام ایک شاہد پیش کرتے ہیں
وَ اللَّهِ لَقَدْ أَمَرْتُ النَّاسَ أَنْ لَا یجْتَمِعُوا فِی شَهْرِ رَمَضَانَ إِلَّا فِی فَرِین مضَة»
اللہ کی قسم! میں نے لوگوں کو حکم دیا کہ مسجد میں رمضان کے مہینے میں نماز تراویح نہ پڑھیں اور صرف فریضہ نمازوں کے علاوہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں جمع نہ ہوجائیں۔ «فَتَنَادَی بَعْضُ أَهْلِ عَسْکرِی مِمَّنْ یقَاتِلُ مَعِی یا أَهْلَ الْإِسْلَامِ غُیرَتْ سُنَّةُ عُمَر ینْهَانَا عَنِ الصَّلَاةِ فِی شَهْرِ رَمَضَانَ تَطَوُّعا»
تو میرے لشکر میں سے بعض کہنے لگے : اے مسلمانو! عمر کی سنت کو تبدیل کیا ہے اور ہمیں رمضان میں {تروایح کی} نماز پڑھنے سے روکا گیا ہے۔
«وَ لَقَدْ خِفْتُ أَنْ یثُورُوا فِی نَاحِیةِ جَانِبِ عَسْکرِی»
مجھے یہ خوف لاحق ہوا کہ اب میرے ہی لشکر والے میرے خلاف اٹھ کھڑے ہو جائیں گے اور مجھ پر ہی حملہ کریں گے ۔
التماس دعا ۔۔۔۔
[1] ۔۔۔ سير أعلام النبلاء ط الرسالة (5/ 226):
وَهْبُ بنُ كَيْسَانَ أَبُو نُعَيْمٍ الأَسَدِيُّ * (ع)الفَقِيْهُ، أَبُو نُعَيْمٍ الأَسَدِيُّ، المَدَنِيُّ، المُؤَدِّبُ، مِنْ مَوَالِي آلِ الزُّبَيْرِ بنِ العَوَّامِ.
رَأَى أَبَا هُرَيْرَةَ. وَحَدَّثَ عَنِ: ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي سَعِيْدٍ الخُدْرِيِّ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ، وَعُمَرَ بنِ أَبِي سَلَمَةَ.
رَوَى عَنْهُ: عُبَيْدُ اللهِ بنُ عُمَرَ، وَهِشَامُ بنُ عُرْوَةَ، وَابْنُ إِسْحَاقَ، وَمَالِكٌ، وَآخَرُوْنَ، وَثَّقُوْهُ.
مَاتَ: فِي سَنَةِ سَبْعٍ وَعِشْرِيْنَ وَمائَةٍ
2398 - أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسَدٍ، نا أَحْمَدُ بْنُ الْمَكِّيِّ ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَمِّهِ أَبِي سُهَيْلِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ قَالَ: «مَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا أَدْرَكْتُ النَّاسَ عَلَيْهِ إِلَّا النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ»
[3] جامع بيان العلم وفضله (2/ 1221):