امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

شہر قم

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

شہر قم

ماخوذ از کتاب: چھل حدیثِ قم و حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا

شہر«قم» نفيس، مقدس اور مذهبى شہروں کے مجموعے میں گوهرنگین کی مانند چمکتا ہے
یہ ایک ایسا شہر ہے جہاں  فضیلت، فقہ و فقاهت اورولايت وحاکمیت کا جلوه اورمظہر ہےجس کی نشانی جہاد، جرات اور شہادت ہے ۔
یہ ایک ایسا شہر ہےجو پاکیزگی، شرافت اور تشيّع کا مرکز ہے، جہاں کے شہری صدیوں سے اپنے دلوں میں داغ ِعشق و محبّت اهل بيت عليهم السلام منور ہے اور اس سے آشنا اور مأنوس ہے۔
یہ ایک ایسا شہر ہے جس کی زیارت سےانسانی روح پاک و صاف ہوتی ہے، اس کا دائرہ عقل و فکر کو ثمر آور بناتا ہے،

اور اس  شہرکی سابقہ تاریخ مكتب ناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورمحبّ اهل بيت عليهم السلام کی یاد دلاتی ہے۔
شہر قم ایسا شہر ہے جس کا نام سینکڑوں سالوں سے ہر انسان کی زبان زد عام آم تھا اور ہے اور رہے گا۔
شہر قم ایک ایسا شہر ہے جوحدّاقل آخری پيغمبر عظيم الشأن کے آسمان پر معراج کے بعد سے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کےاهل بيت عليهم السلام کی توجّه کا مرکز تھا، وہ شہر جو اميرالمؤمنين عليه السلام کے فرمان کے مطابق شہروں میں سےشہر قم سالم ترین شہر ہیں،
شہر قم ایسا شہر ہے جو ولايت على عليه السلام اور آپ عليه السلام کی اور آپ کی اولاد کی ولایت کو قبول کرتا ہے، شہر قم ایسا شہر ہے جس نے آگے بڑھ کر اپنے لئے بے شمار افتخارات اور اعزازات حاصل کئے ہےایک ایسا شہر جس نے زکریا بن آدم، اشعری، قمیوں، صدوقیوں، حائریوں، علی بن بابویہ،  ملا صدرا ، بروجردی اور مختصراً رہبر کبیر انقلاب بت شکن خمینی(رحمۃ اللہ علیہم) جیسے شخصیات اور رہبروں کو اپنے دامن میں  پرورش کی۔

وہ شہر جس میں بہت ساری مقدس مساجد اور عبادت گاہین موجود ہیں جیسے مسجد مقدس امام حسن عسکری علیہ السلام جو خود امام عسکری علیہ کے فرمان کے مطابق ان کے دو عظیم المرتبت صحابیوں کے دست مبارک سے بنی اسی طرح مسجد صاحب الزمان عليه السلام، یعنی مسجد مقدسِ جمکران، جہاں دنیا بھر سے ہزاروں عاشقان امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف ہر ہفتے اپنے مہدی موعود عجل اللہ فرجہ الشریف سے اظہارِ عقیدت و ارادت کےلئے اس مقدس مسجد میں حاضری دینے آتے ہیں۔
بالآخره وہ شهرجس میں حضرت معصومه عليهاالسلام  اور حوزه علميّه ہے۔ ایک ایسا شہر اور میدان ہے جو حضرت حجة بن الحسن العسكرى عليه السلام کی توجہ اور مرحوم آيه اللّه العظمى حاج شيخ عبدالكريم حائرى يزدى کے دست مبارک سے سال ۱۳۰۱ هجرى قمرى میں تأسيس اور قائم ہوا۔ ایسا شہر جہاں ایسی شخصیات نے پرورش پائی جن کی توسط سے اسلام کا پرچم پوری دنیا میں منور کیا، اور ڈھائی ہزار سال پرانی ظالم  وجابرحکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر خالص ناب محمدى صلي الله عليه و آله وسلم اور اسلامی حکومت اوراسلامی انقلاب کا آغاز ہوا۔
ہاں وہی شہر جس میں حوزه علميّه کے علاوہ حضرت  فاطمہ معصومه عليهاالسلام دختر امام موسى بن جعفر عليهماالسلام اور خواهر امام هشتم عليه السلام بھی مقیم تھیں۔ وہ خاتون جو روزِ اوّل ماه ذى القعده سال ۱۷۳ هجرى قمری  کو شیعوں کے ساتویں امام کے بیت الشرف میں پیدا ہوئے

[ مستدرك سفينة البحار، ج 8، ص257]

اور آپ کی اٹھائیس سال کی عمر میں یعنی سنہ 201 هجرى قمرى میں پرورش اپنی والدہ کی دامن پرمهر و محبت مادری  اور والد کے سایہ امامت اورپدر ی  میں تربيت ہوئی (اپنے برادر ارجمند حضرت امام رضا عليه السلام کی  تبعيد  اورجلاوطنی کے بعد سنہ 200 ہجری قمرى میں مأمون عباسی مدینہ سے خراسان یعنی  ایران میں لایا گیا)۔
جب حضرت معصومه عليهاالسلام ساوه گاؤں  پہنچیں تو  آپ کو زہر دی گی یا دوسری روایت کےمطابق آپ علیہا السلام بیمار پڑ گئیں۔ اس وقت آپ علیہا السلام نے ساوه  گاؤں اور شہر قم  کےدرمیان فاصلے کے بارے میں سؤال کیا، اور حضرت معصومه عليهاالسلام ایسی بافضیلت خاتون تھی آپ مستقبل کے بارے میں نظر آنے والی دینی امور اور معلومات اپنے آباء و اجداد سے حاصل کی تھی، اور یہ جانتی تھی کہ مستقبل میں اس سرزمین کے لئے ایک مرکز اورمحورکی ضرورت ہوگی۔ ایک مرکز جہاں آپ  کی آرامگاه اور ایک  مرکز بنے گی اس لئےآپ علیہا السلام نے شہر مقدس قم لےجانے کا حکم اور دستور دیا۔
اس وقت سعد کےخاندان والوں کو اس صورتحال  سےمطلع ہوئی  تو آپ علیہا السلام کی  استقبال کے لئے گئے اور اسے اپنےمنزل  مشرف ہونے کی دعوت دی۔ موسى بن خزرج زمام شتر (اونٹ )کی لگام اٹھا کر اپنے گھر لے گئے۔ یہ وہی جگہ  ہےجہاں  آپ علیہا السلام کی محراب و محل نماز کی جگہ ہے اور اسی جگہ ایک مدرسه علميه(ستيه)بنایا گیا تھا۔جہاں پر آپ علیہا السلام  سولہ یا سترہ  دن کی مختصرعلالت کے بعد 12 ربیع الثانی 2011ء کو اس دارفانى کو وداع کر گئی۔

[مستدرك سفينة البحار، ج 8، ص257]
مرحوم محدث قمى اپنی کتاب سفينة البحار میں نقل کرتے ہیں: جب حضرت فاطمه معصومه عليهاالسلام اس دارفانى کو وداع کر گئی توانہیں غسل  و کفن دیاگیا تو سعد خاندان میں اختلاف ہوا کہ انہیں قبر میں کون اتارے گا، اسی دوران دو گھوڑے سواراتریں اور حضرت معصومه سلام اللہ علیہا کے پاکیزہ جنازه اور بدن مطهر پر نماز پڑھی اور سرداب میں اس بانوں محترمہ کوسپردِخاک کیا اور پھر قبرمطہر سے نکل کر دوبارہ  گھوڑے پر سوار ہو کر واپس چلے گئے مگر معلوم نہیں ہوسکے کہ یہ حضرات کون تھے۔
البتہ معاصر کے مصنفین نے احتمال دیتے ہوئےلکھاہے کہ یہ دونوں سوار امام هفتم و امام هشتم عليهماالسلام تھے۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ: یہ اس  خاتون  کی نهايت جلالت قدر اورعظمت پر دلالت کرتی ہے۔ کیونکہ  معصوم اورامام  ہی کسی معصوم اور امام ہی سپردخاک کیا جاتا ہے۔
"حضرت معصومہ اور قم"، تحریر محمد حکیمی، صفحہ 46۔ .

معصومین علیہم السلام کے نظریات اور باتوں کو سمجھنے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خالص اسلام کو اس شہر سے پوری دنیا تک پھیلانے اور پھیلانے کی امید میں۔
[کتاب"حضرت معصومہ اور قم"، تحریر محمد حکیمی، صفحہ 46] ۔ چهل درّ گرانبها
یہ ایسا شہر ہے جس میں مدفن ، خاتون ،خاندان عصمت و طهارتاور عظمت و بافضيلت خاتون اورمعصومین علیہم السلام کےگفتار، نورانی کلمات اور چالیس درّ گرانبها کو سمجھنے اور نشر اسلام ناب محمدى صلي الله عليه و آله وسلم کو اس شہر سے پوری دنیا تک پھیلانے  اور اس باعظمت خاتون کی زیارت کی امیدیں  "شَرمِنْدَۂ تَعْبِیر ہو ان شاءاللہ ۔

«حضرت معصومه و قم»، تحریر محمد حكيمى، ص 46]


شَرمِنْدَۂ تَعْبِیر


خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا
دل مکمل کبھی تسخیر نہیں ہو سکتا
آج روٹھے ہوئے ساجن نے بلایا ہے مجھے
آج تو کچھ بھی عناں گیر نہیں ہو سکتا
ہو نہ ہو یہ کوئی اپنا ہی کھلا ہے مجھ پر
میرے دشمن کا تو یہ تیر نہیں ہو سکتا
باندھ لے دوست گرہ میں یہ مرا فرمایا
کچھ بھی کر لے تو مگر میرؔ نہیں ہو سکتا
کربلا کے لئے مخصوص ہے بس ایک ہی شخص
دوسرا کوئی بھی شبیرؔ نہیں ہو سکتا

(شبیر نازش)

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک