آیہ مباہلہ" کی روشنی میں اہل بیت علیہم السلام کی امامت
اہل بیت علیہم السلام کی امامت کے جواز میں "مباہلہ" کا عظیم واقعہ
بسم الله الرحمن الرحیم
ناظم:
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ الْحَمْدلِلَّهِ رَبِّ العالَمين وَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِينَ
"حضرت ولی عصر گلوبل نیٹ ورک" (عج الله تعالی فرجه الشریف) کے تمام محترم ناظرین آپ سب کو سلام عرض کرتے ہیں۔
الحمدللہ ہمیں توفیق نصیب ہویی ہے کہ ان دنوں میں ہم آپ حضرت کے سامنے علوی اخلاق اور مہدوی طرز زندگی کا پروگرام پیش کریں۔
ان مبارک ایام میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا یہ بہترین موقع ہے، خاص طور پر اس روشن رات میں جو "مباہلہ" کا بابرکت واقعہ تھا اور آیت "تطهیر" کا نزول بھی تھا ہم اس پروگرام کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔
انشاء اللہ ہم کوشش کریں گے کہ اس بابرکت دن کے ساتھ اس پروگرام کو ہم آہنگ کریں جس میں یہ مبارک واقعہ پیش آیا اور ہم استاد آیت اللہ حسینی قزوینی کی موجودگی سے استفادہ کر سکیں خدا کا شکر ہے کہ ہم شب جمعہ ان کی موجودگی میں ہوتے ہیں۔
انشاء اللہ اس عظیم رات میں ہم ان سے "مباہلہ" سے متعلق بحث کے بارے میں سوالات کرنے کی کوشش کریں گے اور اس واقعہ کے بارے میں اہل بیت علیہم السلام کے مقدس جوہر کے بارے میں اپنے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کریں گے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں اور پروگرام سے بخوبی واقف ہیں، ہم حضرت امام زمان علیہ السلام کی امامت کی بحث کے سلسلے میں استاد کے کلام سے استفادہ کریں گے۔
حضرت آیت اللہ حسینی قزوینی:
سلام علیکم ورحمة الله وبرکاته.
السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا بَقِيَّةَ اللَّهِ فِي أَرْضِه، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مِيثَاقَ اللَّهِ الَّذِي أَخَذَهُ وَ وَكَّدَهُ- السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا وَعْدَ اللَّهِ الَّذِي ضَمِنَه، السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا صَاحِبَ الْمَرْأَى وَ الْمَسْمَع فَمَا شَيْءٌ مِنَّا إِلَّا وَ أَنْتُمْ لَهُ السَّبَبُ وَ إِلَيْهِ السَّبِيل السَّلَامُ عَلَيْكَ یَا مَنْ بِيُمْنِهِ رُزِقَ الْوَرَى وَ بِوُجُودِهِ ثَبَتَتِ الْأَرْضُ وَ السَّمَاء
پیارے ناظرین، میں آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کرتا ہوں، خدا سے آپ سب کو مزید کامیابیاں نصیب ہوں۔
"مباہلہ" کے دن اور باطل پر حق کی فتح اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کی حقانیت کے ثبوت کے موقع پر میں اہل بیت عصمت و طہارت سے دلچسپی رکھنے والے تمام لوگوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا امیر المومنین علیہ السلام کے بارے میں ابدی سفارش
صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کی ایک روایت میں ابن ابی الحدید معتزلی نے "شرح نہج البلاغہ" میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
"أَنَّ السَّعِيدَ كُلَّ السَّعِيدِ حَقَّ السَّعِيدِ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً فِي حَيَاتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ"
بے شک تمام سعادت اور تمام نجات کی حقیقت اورواقعیت علی ابن ابی طالب کی دوستی میں ہے، خواہ ان کی زندگی میں ہو یا ان کی زندگی کے بعد!
شرح نهج البلاغة، اسم المؤلف: عز الدين بن هبة الله بن أبي الحديد المدائني، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت / لبنان - 1418هـ - 1998م، الطبعة: الأولى، تحقيق: محمد عبد الكريم النمري، ج9، ص 100
یعنی اگر کوئی سعادت واقعی تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کے پاس امیر المومنین کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ صدیقہ طاہرہ (سلام اللہ علیہا) کا قول ہے کہ امام عسکری (علیہ السلام) نے فرمایا:
"نحن حجّة اللّه على الخلق و فاطمة حجّة علينا"
ہم مخلوق کے لیے حجت ہیں اور فاطمہ ہمارے لیے ائمہ کی حجت ہیں۔
عوالم العلوم و المعارف والأحوال؛ بحرانى اصفهانى، عبد الله بن نور الله، محقق: موحد ابطحى اصفهانى، محمد باقر، ناشر: مؤسسة الإمام المهدى عجّل الله تعالى فرجه الشريف - ج11-قسم-1-فاطمة (سلام الله علیها)، ص 8
تو کیستی تو تمام پیمبری زهرا * تو حجت حجج الله اکبری زهرا
بهشت احمدی و رکن حیدری زهرا * ز چار بانوی باغ و جنان سری زهرا
تو مادر حسنینی نه مادر همه ای * چه بهتر است که بگویم فقط تو فاطمه ای
«صلی الله علیک یا مولاتی یا فاطمة الزهراء»
اس دن کی امید میں جب نبی کی دعا اور خدائے بزرگ و برتر کے دستخط کے ساتھ، فرج کا لباس ہمارے مولا بقیة الله الأعظم (ارواحنا لتراب مقدمه الفداء) کے جسم کو ڈھانپ لے گا، اور اس کے آنے کے ساتھ ہی دنیا سے ظلم، جبر اور استبداد ہمیشہ کے لیے مٹ جائے گی اور خدائی عدل کی حکمرانی پوری دنیا میں پھیل جائے گی، انشاء اللہ۔
ناظم:
الهی آمین، لوگ یہ دعا کو سنتے ہیں تو ان لمحات کو دیکھنے کی خواہش بڑھ جاتی ہے انشاء اللہ ہم اپنی آنکھوں اور کانوں سے دنیائے انسانیت کے نجات دہندہ کو سن سکیں گے اور دیکھیں گے جو آنے والا ہے اور دنیا کو انصاف سے بھر دے گا۔
حضرت استاد اس بابرکت دن جو کہ مباہلہ کا دن ہے، ہم چاہتے ہیں کہ یہ واقعہ کچھ شکوک و شبہات کے جوابات کا کوئی نہ کوئی پہلو ہو۔ ہم نے اصل واقعہ بہت سنی ہے لیکن ہم اس مضمون کے زاویوں کے حوالے سے کچھ وضاحت چاہتے ہیں۔
گویا حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت وجود کی طرح ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجی گئی تھی یہ اچھی تبلیغ کے ساتھ اسلام کی دعوت تھی۔ جیسا کہ آیت:
(ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ)
اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور نصیحت کے ساتھ دعوت دو! سورہ نحل (16): آیت 125
اس بیان کے ساتھ نہایت نرم اور نرمی سے دعوت دی جائے کہ جب پیغمبر "نجران کے عیسائیوں" کے پاس پہنچتے ہیں تو وہ انہیں "مباہلہ" کی دعوت دیتے ہیں عام طور پر "مباہلہ" میں ایک دوسرے کے لیے موت کی خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے، یہ کیسے قابل جمع ہو سکتے ہیں؟
مذہبی مخالفین سے نمٹنے میں قرآن کریم کی انوکھی منطق!
حضرت آیت اللہ حسینی قزوینی:
أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيم، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ وَبِهِ نَسْتَعين وَهُوَ خَيرُ نَاصِرٍ وَ مُعِينْ الْحَمْدُلِلَّه وَ الصَّلَاةِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ وَعلَیٰ آلِهِ آل الله لَا سِيَّمَا علَیٰ مَوْلانَا بَقِيَّةَ اللَّه وَ الّلعنُ الدّائمُ علَیٰ أَعْدائِهِمْ أعداءَ الله إلىٰ يَوم لِقَاءَ اللّه
اگر آپ مباہلہ کی آیت پر توجہ دیں حس میں خدا نے فرمایا:
(فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ)
اگر آپ کے پاس (مسیح کے بارے میں) علم پہنچنے کے بعد لوگ آپ سے جھگڑنے لگیں تو ان سے کہیے: چلو ہم اپنے بچوں کو بھی بلاتے ہیں اور آپ اپنے بچوں کو بلائیں ہم اپنی عورتوں کو دعوت دیتے ہیں، تم بھی اپنی عورتوں کو بلاؤ؛ آئیے ہم اپنے نفس کو دعوت دیتے ہیں اور آپ اپنے نفس کو دعوت دیں؛ پھر ہم مباهله کریں گے؛ اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں گے۔ سورہ آل عمران (3): آیت 61
(فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ)
یہاں جو فا ہے وہ فاء تفریع ہے۔
یعنی ان مقدمات کے بعد جو لوگ آپ سے جھگڑتے ہیں، جب آپ اپنے مشن اور راستبازی پر پختہ ہو جائیں تو ان سے کہیے کہ آئیں اور آپس میں مباهله کریں۔ لفظ (فمن) سابقہ آیات کی طرف اشاره ہے۔
آپ نے جو ذکر کیا اس سے زیادہ اہم آیت 64 کے بعد کی تین آیات ہیں:
(قُلْ يا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَينَنَا وَبَينَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيئًا وَلَا يتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ)
کہو: اے اہل کتاب! اس بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان ایک جیسا ہے۔ کہ ہم خدائے واحد کے سوا کسی چیز کی عبادت نہیں کرتے اور کسی چیز کو اس کے ساتھ برابر نہیں کرتے؛ اور ہم میں سے بعض ایک خدا کے علاوہ دوسروں کو معبود نہیں مانتے۔ اگر وہ (اس دعوت) سے انکار کریں تو کہو: گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔ سوره آل عمران (3): آیه 64
اس آیت میں وہ ہمدردی اور اتحاد کا مطالبہ کرتا ہے، تاکہ ہم ان مشترکہ چیزوں میں متحد ہو سکیں جو ہمارے پاس ہیں۔ دوسری چیز پچھلی آیات آیه مباهله ہے:
(إِذْ قَالَ اللَّهُ يا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَي وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يوْمِ الْقِيامَةِ ثُمَّ إِلَي مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَينَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ)
(یاد کرو) جب خدا نے عیسیٰ سے کہا کہ میں تمہیں اپنے پاس لے لوں گا اور تمہیں کافروں سے پاک کروں گا اور جن لوگوں نے آپ کی پیروی کی ان کو میں قیامت تک کافروں سے بہتر بناؤں گا؛ پھر تمہاری واپسی میری طرف ہے اور میں تمہارے درمیان فیصلہ کروں گا جس میں تم اختلاف کرتے تھے۔ سورہ آل عمران (3): آیت 55
ان کے پاس حضرت عیسی کے بارے میں کئی دعوے تھے۔ عیسی خدا کا بیٹا ہے، اور خدا اور روح القدس، اس کا کیا مطلب ہے؟
"أب"، "ابن" اور "روح القدس" نے "مسیحی علماء، پادریوں اور نجران کے عیسائیوں سے" سوال کیا اور وہ کہتے ہیں، "تم نہیں سمجھے، وہ اب بھی وہی کہہ رہے ہیں" " باپ، بیٹا، روح مقدس" باپ ہے بیٹا نہیں ہے۔ وہ بیٹا ہے باپ نہیں۔ روح القدس باپ بیٹا نہیں ہے!!
ہم کہتے ہیں کہ اس کا کیا مطلب ہے؟
وہ کہتا ہے کہ تم یہ نہیں سمجھوگے فقط تم اس کو تعبدی کے طور پر قبول کرو۔
خدا کہتا ہے کہ حضرت عیسی نہ باپ ہے نہ بیٹا اور نہ ہی روح القدس۔ خدا نےحضرت عیسی سے کہا: (إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَي) "میں تمہیں واپس لے جاؤں گا۔"
(مُتَوَفِّیکَ) سے مراد یہاں موت نہیں ہے بعض ناخواندہ وہابی کہتے ہیں کہ (مُتَوَفِّیکَ) سے مراد موت ہے جب کہ ایسا نہیں ہے اس سلسلے میں دوسری آیات موجود ہے۔
(وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ * بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيهِ)
لیکن معاملہ ان کے لیے مشکوک ہو گیا۔ بلکہ خدا نے اسے اپنے پاس بلایا ہے۔ سورہ نساء (4): آیات 157 اور 158
اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ چوتھے آسمان پر لے گئے (مُتَوَفِّيكَ) یعنی آپ کا کام ختم ہو گیا اور ہم آپ کے لیے جتنا ہو سکے اچھا کریں گے۔
«تَوفی» مثال کے طور پر، ایک کارکن شام کو کام پر آتا ہے اور وہ اسے وہ دیتے ہیں جو مزدور کا حق ہے۔
کوئی کسی کے لیے عمارت بناتا ہے اور جب وہ کام ختم ہو جاتا ہے تو اس کے تمام حقوق ادا کردیا جاتا ہے تو اس وقت کہا جاتا ہے کہ اس کے تمام حقوق ادا کر دیا گیا ہے، یعنی اس نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔
’’مستوفات‘‘ کا مطلب ہے چھوٹا اور بڑا ہر وہ چیز دینا جو اس کا حق تھا۔ لہٰذا (إِنِّي مُتَوَفِّيكَ) کا مطلب ہے ہر وہ چھوٹا و بڑا چیز جو تمہارا حق ہے ہم ادا کرتے ہیں۔
یا آیت 59 میں فرماتا ہے:
(إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيكُونُ)
خدا کی نظر میں عيسی کی طرح، وہ آدم بھی ہے؛ جس کو اس نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس سے کہا کہ ہو جا! وہ فوراً وجود میں آجاتا ہے۔
(اس لیے بغیر باپ کے مسیح کی پیدائش اس کی الوہیت کا ثبوت نہیں ہے۔) سورہ آل عمران (3): آیت 59
انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کوئی اور ہے جو بغیر باپ کے پیدا ہوا ہو؟ یہ فضیلت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہے کسی اور کی فضیلت نہیں ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تو آدم کا نہ باپ تھا نہ ماں۔ پھر آیت 60 میں فرماتے ہیں:
(الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلَا تَكُنْ مِنَ الْمُمْتَرِينَ)
یہ تمہارے رب کی طرف سے سچائیاں ہیں۔ اس لیے شک کرنے والوں میں سے نہ بنو! سورہ آل عمران (3): آیت 60
یہ آیات مذکور ہیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور "نصارای نجران" کے درمیان یہ گفتگو کسی نتیجے پر نہیں پہنچتی۔ کیونکہ اہل کتاب اور تمام معاندین کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کا طریقہ منطق ہے۔
مناظره اور اج کے دور میں جسے میز آزاد اندیشی کہا جاتا ہے۔
"یہودی" اور "عیسائی" کہتے ہیں کہ جنت میں صرف یہودی اور عیسائی ہی جاءیں گے یہود و نصاریٰ کے علاوہ کوئی جنت میں نہیں جائے گا؛ قرآن بھی کہتا ہے:
(قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ)
کہہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو (اس معاملے میں) اپنی دلیل پیش کرو۔ سورہ بقرہ (2): آیت 111
آپ کی دلیل اور مدرک کیا ہے؟
اپنی وجہ بتائیں تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ آیا آپ کے پاس اپنے بیان کی کوئی وجہ ہے یا دعویٰ بے بنیاد ہے۔ یا میں کہوں کہ میں وہ ہوں جو رستم تھا پهلوان ہنر نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تمہارے ایسا کہنے کی کیا وجہ ہے؟
جنت میں یہودیوں اور عیسائیوں کے سوا کوئی نہیں جائے گا کیا تمہارے پاس کوئی وجہ ہے؟
سورہ انبیاء کی آیت نمبر 24 میں بھی ارشاد ہے:
(أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ)
کیا انہوں نے خدا کے علاوہ دوسرے معبودوں کو چنا؟! کہو: اپنی دلیل لاؤ! سورہ انبیاء (21): آیت 24
جو لوگ مشرک ہیں وہ دوسرا خدا بناتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اوپر ایک عظیم خدا ہے اور نیچے حبل وغیرہ بت ہے۔ آپ کی دلیل کیا ہے
کیا آپ کے پاس کوئی دلیل ہے کہ یہ بھی خدا ہیں؟
کیا وہ تخلیقی ہیں؟
کیا وہ روزی دینے والے ہیں؟
کیا حاجت کو پورا کرسکتا ہے؟
سورہ نمل آیت نمبر 64 میں پھر فرماتے ہیں:
(أَمَّنْ يبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يعِيدُهُ وَمَنْ يرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ)
یا وہ جس نے تخلیق کی ابتدا کی پھر اس کی تجدید کی اور وہ جو تمہیں آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے؛ کیا خدا کے ساتھ کوئی معبود ہے؟!
کہو: اگر تم سچے ہو تو دلیل لاؤ!
سورہ نمل (27): آیت 64
اس نے پھر کہا کہ دلیل لاؤ۔ "نحنُ ابناء الدلیل" ہم فرزند دلیل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ہے:
(وَنَزَعْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا فَقُلْنَا هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ)
(اس دن) ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لیں گے اور (مشرکوں سے) کہیں گے کہ اپنی دلیل لاؤ۔سوره قصص (28): آیه 75
ان تمام صورتوں میں جو میں نے نوٹ کیں، قرآن اہل کتاب کے بارے میں، بت پرستوں کے بارے میں، مشرکین کے بارے میں، قیامت کے منکروں کے بارے میں کہتا ہے، اگر آپ کے پاس کوئی دلیل ہے تو بتائیں، ہمیں قانع کریں، ہم بلاوجہ باتوں کو نہیں مانتے کتنی خوبصورت بات ہے۔
سورہ سبا کی آیت نمبر 24 میں یہ نبی مکرم کی بلند تواضع ہے اور وہ بحث و مباحثہ اور جسے آج کے دورمیں میز آزاد اندیشی کہا جاتا ہے اس کے بانی ہیں۔ فرماتے ہیں:
(قُلْ مَنْ يرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ وَإِنَّا أَوْ إِياكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ)
کہو کہ تم کو آسمانوں اور زمین سے کون رزق دیتا ہے؟
کہو: "اللہ! اور ہم میں سے کون ہدایت پریا کھلی گمراہی میں ہیں۔ سورہ سبا (34): آیت 24
تم جو اتنا دعویٰ کرتے ہو، اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہو، آؤ مل کر بات کریں، بیٹھ کر بات کریں، اگر تم صحیح اور ہم جھوٹے ہیں تو ہماری رہنمائی کریں۔ اگر ہم صحیح ہیں اور آپ غلط ہیں تو ہم آپ کی رہنمائی کریں گے۔
یہ نبی مکرم کی بلند تواضع کی پہچان ہے۔ حالانکہ وہ اپنے آپ کو مطلق حق سمجھتا ہے، رسول قطعی طور پر جانتا ہے، نبی یقینی طور پر جانتا ہے، اس کا تمام قول و فعل سب وحی سے لیا گیا ہے، وہ اپنے آپ کو اس حد سے نیچا لایا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اگر تم صحیح ہو اور ہم باطل پر ہیں تمہاری حقانیت پر دلیل کیا ہے؟ ہمارے باطل ہونے کا وجہ کیا ہے؟ آئیے مل کر بحث کرتے ہیں۔ یہ طریقہ قرآنی طریقہ ہے۔
اہل سنت علماء کو مباہلہ کے لیے استاد حسینی قزوینی کی باضابطہ دعوت!
25- 30 سالوں کے دوران ہم بین الاقوامی میڈیا میں ہیں، ہم نے وہابی حضرات اور سنی علماء سے کہا کہ آؤ مل بیٹھ کر بات کریں۔
میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ میں 74 میں مدینہ منورہ میں حج پر گیا تھا، میں وہابی ثقافتی مرکز گیا وہاں مدینہ یونیورسٹی کے تقریباً 12 پروفیسر موجود تھے اور ہماری بہت سی گفتگو ہوئی۔
میں نے دیکھا کہ ہم مسلسل بات کر رہے ہیں اور میں نے ان سے کہا کہ میرا مذہب شیعہ ہے، میں امیر المومنین اور ان کے گیارہ فرزند کی امامت پر یقین رکھتا ہوں، میں تیار ہوں اگر آپ بارہ پروفیسر مجھے سنی مذہب کے صحیح ہونے کا ثبوت دیں تو میں یہی پر«أشهدوا الله وملائکتَهُ» شیعہ مذہب چھوڑ کر سنی بن جاؤں گا۔
ثبوت دیں وہابی فرقہ صحیح ہے، "والله العلی الأعلاء" میں شیعہ مذہب چھوڑ کر وہابی بن جاؤں گا۔ میری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ آپ میرا انٹرویو لینے کے لیے اپنے اخبارات اور میڈیا بلائیں میں کہوں گا ان حضرات نے میرے سامنے ٹھوس ثبوت پیش کیا اورمیں اپنا مذہب چھوڑدیا۔
یعنی سعودی عرب میں ہمارا مباحثہ کا آغاز اور تشکیل یہیں سے شروع ہوا۔ ان بارہ افراد نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کیونکہ وہ پہلے بحث کرچکے ہیں ہم ان کے عقیدے کو باطل کرنے کے لیے شیعوں کی طرف سے ثبوت پیش کیا تھا وہ ہمارے بارے میں جانتے ہیں۔
یہ ملاقات تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہی اور کہا کہ ہم آپ سے بات نہیں کر سکتے لیکن ایک استاد ہے جو اس وقت مدینہ منورہ یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں مغرب بعد آپ تشریف لاہیں ان سے بات کریں۔
میں نے کہا کہ آپ بارہ مفتی ہیں عام انسان نہیں، یعنی آپ افتاء کے درجے پر پہنچ گئے ہیں اور افتاء کی ڈگری حاصل کی ہیں۔ جب آپ اپنے مذہب کو درست ثابت نہیں کر سکتے تو اس افتاء کا کیا فائدہ؟ اس دین کا کیا فائدہ؟
اب ہم یہ بھی اعلان کر رہے ہیں کہ جو علماء حضرت سلفی اور وہابی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور ابن تیمیہ، محمد ابن عبد الوہاب، ابن قیم وغیرہ کے تابع ہیں وہ آئیں اور بیٹھیں اور لائیو مناظره کریں گے واٹساپ کے ذریعے یا دیگر ایپلیکیشنز کے ذریعے آن لائن آئیں۔
اگر وہ ثابت کر دیں کہ شیعہ مذہب باطل ہے اور وہابی فرقہ صحیح ہے، لوگو! میں آپ کے سامنے اقرار کرتا ہوں کہ میرا کسی سے کوئی تعلق نہیں۔ میں اپنا مالک ہوں تمام لوگوں کے سامنے اگر یہ ثابت ہو جائے کہ وہابی سچا مذہب ہے تو میں شیعہ مذہب چھوڑ کر وہابی ہو جاؤں گا۔
یا وہ کہے کہ میں سنی ہوں سنی مذہب صحیح ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے بلافصل خلیفہ جناب ابوبکر، پھر جناب عمر، پھر جناب عثمان، پھر امیر المومنین ہیں۔ اس بات کو میرے سامنے ایک قابل یقین دلیل سے ثابت کرو، لوگو! گواہ رہو خدا گواہ رہو، آقا ولی عصر گواہ رہنا، میں اپبا دین چھوڑ کر سنی ہو جاءوں گا۔
سورہ سبا کی آیت نمبر 24 کے مطابق
(وَإِنَّا أَوْ إِياكُمْ لَعَلَى هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ)
یا ہم حق پر ہیں آپ باطل پر آپ آءیں ہم آپ کی رہنمایی کریں گے اور اگر آپ صحیح ہیں حق پر ہیں ہم غلط ہیں آپ ہماری رہنمائی فرمائیں۔
اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ آپ منبر پر، تقریر میں، سیٹلائٹ پر اور فضای مجازی میں ایسے نعرے لگائیں کہ میں وہی ہوں جو رستم پهلوان تھا۔
ایک ایسا مذہب جسے آپ بین الاقوامی میڈیا میں ثابت نہیں کر سکتے، یہ مذہب بچی کلثوم کو کام آسکتی ہے۔ نہ یہ آپ کے دنیا میں کام آسکتی ہے اور نہ ہی آخرت میں اور نہ ہی آپ کے قبر میں۔
ہمیں آپ سے محبت ہے کہ آپ آئیں اور اس پر بات کریں۔ اگر انشاء اللہ ہم "مباہلہ" تک پہونچیں اگر ہم ایک دوسرے کی بات کو قبول نہ کر سکیں نہ آپ ہماری باتوں سے مطمئن ہوں اور نہ میں آپ کی باتوں پر قانع ہوں تو آخر میں یہ "مباہلہ" ہے۔
میں وعدہ کرتا ہوں میں اپنے بچوں اور نواسوں کو یہاں لاؤں گا، آپ اور آپ کے خاندان اور آپ کے بچے کسی بھی لیں آئیں اور چلیں ایک دوسرے کے ساتھ مباہلہ کریں۔ "مباہلہ" اسلام کا ایک معجزہ ہے۔
’’سپریم لیڈر‘‘ نے گزشتہ روز اپنے پروگرام میں ایک نہایت لطیف بات کی، ان کا کہنا تھا کہ ثبوت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی سچائی کو بھی ثابت کرنا چاہیے اور مقابل کی طرف هجمه اور حملہ کرنا چاہیے۔
ہم حق پر ہیں اس دلیل کے بنیاد پر اور آپ باطل ہیں اس دلیل کے بنیاد پر۔ لعن طعن، طعن و تشنیع اورجسارت نہ کی جائے اور دوسرے فریق کے جذبات کو مشتعل نہ کیا جائے بلکہ یہ ایک علمی بحث ہے، شہید مطہری کے مطابق علمی بحثیں عقل، منطق اور حکمت سے ہوتی ہیں۔
ناظم:
بہت عمدہ، تو معاملہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ ہر قسم کی دعوتیں کی گئیں اور ان سے شواہد فراہم کرنے کو کہا گیا لیکن اس کے بعد جب ان لوگوں نے قبول نہیں کیا تو پھر موقع آیا ’’مباہلہ‘‘ کا۔
"یابن الحسن روحی فدک" آپ سب محترم ناظرین خدمت میں حضرت ولی عصر علیہ السلام عالمی نیٹ ورک ایک بار پھر سلام پیش کرتا ہے۔
الحمدللہ ہمیں یہ کامیابی ملی اور ہم "مباہلہ" کے دن آپ کی خدمت میں حاضر ہیں اور ہم نے "مباہلہ" کے اصول کے حوالے سے کچھ نکات کا جائزہ لیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ پہلے تو "مباہلہ" نہیں تھا لیکن جیسا کہ اس سے پہلے آقا نے فرمایا، بحث کی دعوتیں تفصیل سے دی گئیں اور جب دوسرے فریق نے حق کو قبول نہ کیا تو انہیں مباہلہ کی دعوت دی گئی۔
حضرت استاد، ایک اور سوال جو اٹھایا جاتا ہے، بہت سے محترم ناظرین انتظار کر رہے ہیں کہ کیا "مباہلہ" واقعہ صرف وہ چیز ہے جس کا ذکر شیعہ کتب میں موجود ہے یا یہ سنیوں نے بھی لایا ہے؟!
اہل بیت علیہم السلام کی فضیلت میں "مباہلہ" کا واقعہ معتبر سنی منابع میں موجود ہے!
حضرت آیت اللہ حسینی قزوینی:
مباہلہ کے سلسلے میں اگر کوئی مباہلہ کا انکار کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ قرآن کا انکار کیا ہے۔ مباہلہ کا تذکرہ قرآن میں ہے اور جو لوگ مباہلہ میں شریک ہوئے اس کا انکار کرنا چاہتے ہیں اس کا انکار کرنا گوا اسلامی ضروریات میں سے ایک یقینی اور ایک قطعی چیز کا انکار کیا ہے۔
کتاب "صحیح مسلم" میں مذکور ہے کہ معاویہ نے سعد ابن ابی وقاص سے کہا کہ تم امیر المومنین کی توہین کیوں نہیں کرتے؟ ایسا لگتا ہے کہ اس نے ایک فرض چھوڑ دیا ہے۔ "سعد" کہتے ہیں کہ میں تین دلیل کی بنیاد پر ناسزا نہیں کہونگا، ان میں سے ایک یہ ہے کہ:
"وَلَمَّا نَزَلَتْ هذه الْآيَةُ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ... دَعَا رسول اللَّهِ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا"
پیغمبر کی نفس و جان علی بن گئے؛ (نساءنا) حضرت زہرا بنی ۔ (ابنانا) حسن اور حسین بن گئے، پھر فرمایا: "اللهم هَؤُلَاءِ أَهْلِي" یہ میرے اهل بیت ہیں۔
صحيح مسلم؛ اسم المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسين القشيري النيسابوري الوفاة: 261، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، ج4، ص1871، ح2404
ابن کثیر دمشقیه سلفی، ابن تیمیہ کے شاگرد "تفسیر القرآن العظیم" کے نام سے یک ہے۔ یہ بھی کہتا ہے کہ جب وہ "نجران کے عیسائیوں" کے ساتھ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگلے دن وہ ایک دوسرے پر لعنت بھیجیں گے اور "مباہلہ" کریں گے:
"فأخذ بيد علي وفاطمة والحسن الحسين ثم أرسل إليهما فأبيا أن يجيبا وأقرا له بالخراج"
اس نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین کا ہاتھ پکڑا اور کہا کہ ہم اپنے بچوں کو لے کر آئے ہیں، تم بھی آجاؤ، لیکن نجران کے عیسائی نہیں آئے اور وہ جزیہ دینے پر تیار ہوگئے۔
تفسير القرآن العظيم؛ اسم المؤلف: إسماعيل بن عمر بن كثير الدمشقي أبو الفداء الوفاة: 774، دار النشر: دار الفكر - بيروت – 1401، ج1، ص371
اس روایت میں جابر کہتے ہیں: "أنفسنا وأنفسکم" خدا کے رسول اور علی ابن ابی طالب ہیں، "أبنائَنا" حسن و حسین اور "نسائَنا" فاطمہ زہرا ہیں۔
روایت کے آخر میں "ابن کثیر دمشقی" کہتے ہیں: "حکیم نیشابوری" اس روایت کو زکر کیا اور کہا کہ یہ روایت صحیح ہے اور "صحیح مسلم" کی شرائط پر مشتمل ہے۔ "حکیم نیشابوری" خود کتاب "علم الحدیث" میں کہتے ہیں: "وقد تواترت الأخبار" ہمارے پاس متواتر روایات ہیں۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ "ابن تیمیہ" کہتے ہیں:
"من أنكر ما ثبت بالتواتر والإجماع فهو كافر" جو متواتر حدیث کا انکار کرے وہ کافر ہے۔
كتب ورسائل وفتاوى شيخ الإسلام ابن تيمية؛ اسم المؤلف: أحمد عبد الحليم بن تيمية الحراني أبو العباس الوفاة: 728، دار النشر: مكتبة ابن تيمية، الطبعة: الثانية، تحقيق: عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي، ج1، ص109
حکیم نیشابوری کہتے ہیں:
"وقد تواترت الأخبار في التفاسير عن عبد الله بن عباس وغيره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أخذ يوم المباهلة بيد علي وحسن وحسين وجعلوا فاطمة وراءهم"
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس متواتر روایات ہیں کہ مباہلہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر المومنین، امام حسن، اور امام حسین کا ہاتھ پکڑا اور فاطمہ ان کے پیچھے تھیں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"هؤلاء أبناءنا وأنفسنا ونساؤنا فهلموا أنفسكم وأبناءكم ونساءكم ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين"۔
یہ ہمارے بچے اور ہماری جانیں اور ہماری بیویاں ہیں۔ اپنی جان، اپنے بچے اور بیویاں لاؤ، آؤ مل کر "مباهله" کریں پھر جھوٹے پر لعنت بھیجیں گے۔
معرفة علوم الحديث؛ اسم المؤلف: أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحاكم النيسابوري الوفاة: 405، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت - 1397هـ - 1977م، الطبعة: الثانية، تحقيق: السيد معظم حسين، ج1، ص50
مطالب بہت زیادہ ہے۔320 ہجری میں فوت ہونے والے "المحاسن والمساوی" کے مصنف "بیہقی" کا ایک جملہ نقل کرنا دلچسپ ہے۔ راوی کہتا ہے کہ ہم نے بصرہ میں بحث کی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سب سے افضل کون ہے؟ مجلس میں "عبداللہ" خلیفہ دوم کا بیٹا موجود تھا، انہوں نے کہا:
"يا أبا عبد الرحمن من أفضل أصحاب رسول الله؟"
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بہترین صحابی کون ہے؟
"فقال: أبو بكر وعمر وعثمان وطلحة والزبير وسعد وسعيد وعبد الرحمن بن عوف وأبو عبيدة بن الجراح."
آپ نے فرمایا: ابوبکر، عمر، عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور ابو عبیدہ جراح۔
"فقال له: فأين علي بن أبي طالب، رضي الله عنه؟"
تم نے علی کا ذکر کیوں نہیں کیا؟
اس نے پلٹا اور کہا:
"يا هذا تستفتي عن أصحابه أم عن نفسه؟"
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے بارے میں سوال کر رہے ہیں یا صحابہ کرام کے بارے میں سوال کر رہے ہیں؟
"قال: بل عن أصحابه"
اس نے کہا صحابہ کرام کے بارے میں۔
"قال: إن الله تبارك وتعالى يقول: ' ' قل تعالوا ندع أبناءنا وأبناءكم ونساءنا ونساءكم وأنفسنا وأنفسكم فكيف يكون أصحابه مثل نفسه؟"
آپ کیسے کہتے ہیں کہ صحابہ کرام نبی کے جان کی طرح ہیں؟
المحاسن والمساوئ؛ اسم المؤلف: إبراهيم بن محمد البيهقي الوفاة: بعد 320هـ، دار النشر: دار الكتب العلمية - بيروت/ لبنان - 1420هـ - 1999م، الطبعة: الأولى، تحقيق: عدنان علي، ج1، ص 38
اس طرح کے جملے اهل سنت کے کتابوں میں الی ماشاء اللہ موجود ہیں۔ "زمخشری" جب "کشاف" میں "مباہلہ" کا مسئلہ زکر کرتے ہیں تو فرماتے ہیں:
"وفيه دليل لا شيء أقوى منه على فضل أصحاب الكساء عليهم السلام وفيه برهان واضح على صحة نبوة النبي صلى الله عليه وسلم"
ہمارے پاس صحابہ کرام کی فضیلت کے بارے میں آیت "مباہلہ" سے بہتر کوئی آیت نہیں! آیت "مباہلہ" درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت کی دلیل ہے۔
الكشاف عن حقائق التنزيل وعيون الأقاويل في وجوه التأويل؛ اسم المؤلف: محمود بن عمر الزمخشري الخوارزمي الوفاة: 538، دار النشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت، تحقيق: عبد الرزاق المهدي، ج 1، ص 397
ناظم:
بہت خوب! اب اصل مباہلہ صحابہ کرام کے لیے ایک فضیلت ہے اور اہل سنت کی کتابوں میں بھی اس کا ذکر ہے۔ کیا اس آیت کی بنا پر شیعہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ امیر المومنین پیغمبر کے بعد بلافصل خلیفہ ہیں؟
کیا اس آیت میں یہ صلاحیت ہے؟
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ کئی بار ہم چینل اور فضای مجازی پر یہ دیکھتے ہیں، وہ بار بار کہتے ہیں کہ آپ فضیلت تراشی کر رہے ہیں اور خود امیر المومنین علیہ السلام نے اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لیے کہیں بھی اس آیت کا حوالہ نہیں دیا۔
یہ بھی بتاءیں کہ کیا معصومین اور امیر المومنین نے ایسا کوئی حوالہ دیا تھا؟
امیر المومنین علیہ السلام اپنی امامت کو ثابت کرنے کے لیے واقعہ مباہلہ سے مدد لیتے ہیں!
آیت اللہ حسینی قزوینی:
شیعہ اور سنی کا عقیدہ ہے کہ امامت رسالت کا تسلسل ہے۔ رسالت کو جاری رکھنے کے لیے کیا کوئی اس قابل ہے کہ جو روحِ نبوی ہو وہ آکر اس رسالت کی ذمہ داری کو جاری رکھے یا نہیں وہ آیے جو عرصہ دراز سے مشرک تھے اور اسلام کے بارے میں نہیں جانتے تھے!؟
دوسرے خلیفہ کا کہنا ہے صحابہ کرام کب روحِ رسول کی مانند ہو سکتے ہیں؟
ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ تمام روایت جیسے حدیث غدیر اور منزلت کو کنارے رکھ دیں اور ہم ہیں اور ہم ایک ایسے شخص کو منتخب کرنا چاہتے ہیں جو اس رسالت کی ذمہ داری کو جاری رکھے۔ جناب ابوبکر، طلحہ، زبیر، عمر بن الخطاب، عبدالرحمن ابن عوف، سعد ابن ابی وقاص اور ... ان کے آگے علی ابن ابی طالب ہیں۔
امیر المومنین کے بارے میں قرآن میں ایک آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ علی جان پیغمبر اور نفس پیغمبر ہے کیا یہ شخص رسالت کی ذمہ داری لے سکتا ہے یا وہ جو جان پیغمبر نہیں ہے وہ لے سکتا ہے؟
بحث مکمل طور پر عقلی بحث ہے۔ "تاریخ دمشق" جلد 42 میں نقل ہوا ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے شوریٰ کے دن، (عثمان، طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن ابن عوف اور سعد ابن ابی وقاص) کہا:
"والله لأحتجن عليهم بما لا يستطيع قرشيهم ولا عربيهم ولا عجميهم رده ولا يقول خلافه"
خدا کی قسم آج میں ایسی دلیل پیش کروں گا کہ نہ تو "قریشی"، نہ "عرب" اور نہ "عجمی" میری بات کو رد کر سکتا ہے اور خلاف کہہ سکتا ہے۔
تاريخ مدينة دمشق؛ اسم المؤلف: علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي الوفاة: 571، دار النشر: دار الفكر - بيروت - 1995، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ج42، ص431
حضرت نے یہاں پر اپنے بارے میں ساٹھ یا ستر فضائل بیان کیے ہیں۔ جو ہماری کتابوں میں بھی مذکور ہے کہ شیخ طوسی کی "کمال الدین" میں دو روایتیں ہیں اور جناب ابن مردویہ جو 410 میں فوت ہوئے ہیں نے "مناقب" میں دو روایتیں نقل کی ہیں۔ ان کا بیان سو فیصد درست ہے۔
حضرت علی اپنے فضائل بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"هل فيكم أحد أقرب إلى رسول الله في الرحم و من جعله رسول الله نفسه قالوا اللهم لا"
کیا تم میں کوئی مجھ سے زیادہ نبی کے قریب ہے؟ جس کو نبی نے اپنی نفس کے طور پر متعارف کرایا۔ سب نے کہا کہ خدا کی قسم تیرے سوا کوئی نہیں۔
تاريخ مدينة دمشق؛ اسم المؤلف: علي بن الحسن إبن هبة الله بن عبد الله الشافعي الوفاة: 571، دار النشر: دار الفكر - بيروت - 1995، تحقيق: محب الدين أبي سعيد عمر بن غرامة العمري، ج42، ص431
اس سے زیادہ واضح اور روشن!؟
جناب ابن عساکر (متوفا 571) ہے جو شیعہ بھی نہیں ہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام دلیل دیتے ہیں کہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان اورروح ہے۔ کیا وہ شخص جو نبی کی جان اور روح ہے اہل ہے یا وہ شخص جو اس حد میں نہیں ہے وہ اہل ہے؟
ناظم:
یہ نکتے بہت درست دقیق نکتے ہیں، ذرا سی غور کرنے سے انسان کیلیے واضح ہو جاءے گا مگر یہ کہ جو حق سے بھاگنا چاہتا ہے وہی اس کو نظر انداز کر سکتا ہے۔
ایک نکتہ جو اس دن کی برکتوں کے بارے میں ہے اور بہت سے چاہنے والے اس کی تلاش میں ہیں تاکہ شیعہ کتب سے "مباہلہ" تحریک کے حوالے دیکھ سکیں۔
ان سوالات میں جو کچھ بھی بیان گیا ہے وہ سب سنی کتب سے ہے، "صحیح مسلم" سے آپ نے بیان فرمایا ہے اور "ابن عساکر" سے سند نقل کی ہے، یہ مسئلہ شیعوں میں کس طرح بیان کیا گیا ہے، آئیے اس معاملے کو سند کی نقطہ نظر سے بررسی کرتے ہیں؟
مباہلہ کی آیت کے بارے میں امام رضا علیہ السلام کی مامون کے ساتھ قابل سماعت مناظرہ!
حضرت آیت اللہ حسینی قزوینی:
شیعہ کتابوں میں اس پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ کتاب "عیون اخبار الرضا" میں موسیٰ ابن جعفر علیہ السلام سے بالکل صحیح روایت کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ جب ہارون الرشید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سے خطاب کیا کہا:
"السَّلَامُ عَلَيْك يَا ابْنَ عَمِّي"
سلام ہو آپ پر اے میرے چچا کے بیٹے
کیونکہ عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے۔ حضرت امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا:
"السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا أَبَا"
سلام ہو آپ پر اے بابا جان
ہارون الرشید شرمندہ ہوا اور بولا ہاں رسول اللہ ہمارے چچازاد بھائی ہیں لیکن وہ آپ کے والد ہیں۔ آپ ان کے فرزند ہیں اور ہم ان کے چچازاد بھائی ہیں۔
پھر تفصیلی بحث کی گئی جس میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگ کس کے ماتحت تھے، سورہ آل عمران کی آیت نمبر 61، آیت "مباہلہ" نازل ہوئی۔
امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ وہاں صرف علی ابن ابی طالب، فاطمہ، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام تھے۔ لہٰذا "أبنائنا" سے مراد حسن و حسین ہیں۔ "نسائنا" فاطمہ ہیں اور "وأنفسنا" علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔
پھر یہ بحث ہوئی کہ کیا پوتی کوفرزند کہا جا سکتا ہے، جس میں حضرت موصوف نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں فرمایا:
"أَلْحَقْنَاهُ بِذَرَارِيِّ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ طَرِيقِ مَرْيَمَ وَ كَذَلِكَ أُلْحِقْنَا بِذَرَارِيِّ النَّبِيِّ مِنْ قِبَلِ أُمِّنَا فَاطِمَةَ"
جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی باپ نہیں تھا اور وہ اپنی والدہ کے ذریعے انبیاء سے جڑے ہوئے تھے، اسی طرح ہم بھی اپنی والدہ فاطمہ کے ذریعے نبی سے جڑے ہیں۔
عيون أخبار الرضا (عليه السلام)؛ نویسنده: ابن بابويه، محمد بن على، مصحح: لا جوردی، مهدی، ناشر: نشر جهان،ج1، ص 81 و 84
یا امام رضا علیہ السلام اورمامون کے درمیان مناظره میں مامون نے امام رضا علیہ السلام سے کہا:
"أَخْبِرْنِي بِأَكْبَرِ فَضِيلَةٍ لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ يَدُلُّ عَلَيْهَا الْقُرْآن"
علی کی سب سے بڑی فضیلت کیا ہے جس کی طرف قرآن نے اشارہ کیا ہے؟
حضرت نے فرمایا:
"فَضِيلَتُهُ فِي الْمُبَاهَلَة فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ الْحَسَنَ وَ الْحُسَيْنَ فَكَانَا ابْنَيْهِ وَ دَعَا فَاطِمَةَ فَكَانَتْ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ نِسَاءَهُ وَ دَعَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَكَانَ نَفْسَهُ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَ جَل"
علی کی سب سے بڑی فضیلت "مباہلہ" ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین کو بلایا جو اس آیت کے مطابق آپ کے بیٹے ہوئے۔ اور اس نے فاطمہ کو بلایا جس میں خواتین بھی شامل تھیں اور امیر المومنین کو بلایا جو خدا کے حکم سے پیغمبر کی نفس بنی تھے۔
پھر فرمایا۔
"وَ قَدْ ثَبَتَ أَنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ خَلْقِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ أَجَلَّ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ وَ أَفْضَل"
خدا کی مخلوقات میں پیغمبر سے افضل کوئی نہیں، دوسری طرف علی پیغمبر کی نفس و جان ہیں تو علی ابن ابی طالب سے افضل کوئی نہیں۔
الفصول المختارة؛ مفيد، محمد بن محمد، محقق / مصحح: میر شریفی، علی ناشر: كنگره شيخ مفيد، ص 38
"افضل الافضل افضل" سے مراد وہ ہے جو نبی کی جگہ پر بیٹھا ہو اور نبی کی نفس کو شمار کیا جاتا ہے، نبی خود بہترین مخلوق ہے پس جو نبی کی نفس ہے وہ بھی افضل مخلوق ہے۔
بعد میں "مامون" کچھ غلطیاں کرتا ہے اور حضرت رضا علیہ السلام تفصیلی جواب دیتے ہیں۔
امالی شیخ صدوق (رحمۃ اللہ علیہ) میں یہ بھی ہے کہ "مامون" نے "مرو" میں ایک جلسہ منعقد کیا تھا اور حضرت رضا علیہ السلام وہاں موجود تھے۔ عراق اور خراسان کے علماء کی جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔
وہاں "مباہلہ" کی آیت پر بحث ہوئی، انہوں نے "مباہلہ" کی آیت سے مسئلہ پیدا کرنا چاہا اور "مباہلہ" کی آیت کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ جب علی ابن ابی طالب پیغمبر نفس اور جان ہیں۔
’’فَهَذِهِ خُصُوصِيَّةٌ لَا يَتَقَدَّمُهُ فِيهَا أَحَدٌ وَ فَضْلٌ لَا يَلْحَقُهُ فِيهِ بَشَرٌ وَ شَرَفٌ لَا يَسْبِقُهُ إِلَيْهِ خَلْقٌ أَنْ جَعَلَ نَفْسَ عَلِيٍّ كَنَفْسِه‘‘
علی کے لیے ایسی صفات ہیں جو کسی اور میں ایسی صفات نہیں ہیں اور علی کے لیے ایسی خوبیاں شمار کی جاتی ہیں کہ نہ تو اس سے پہلے والے اور نہ بعد والوں میں کوئی ایسی فضیلت ہے۔
پھر انہوں نے کہا کہ "أنفسنا" مراد نبی ہیں ۔ حضرت نے جواب دیا:
"غَلِطْتُم إِنَّمَا عَنَى بِهَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ"
آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ یہاں اس سے مراد نفس اور جان پیغمبر علی ابن ابی طالب ہے۔
اسی حدیث کی بنا پر جو آپ آیات برائت کے بارے میں قبول کرتے ہیں جو انہوں نے ابوبکر کے ہاتھ سے لے کر امیر المومنین کو وہاں بھیجا تھا، فرمایا:
"لَأَبْعَثَنَّ إِلَيْهِمْ رَجُلًا كَنَفْسِي يَعْنِي عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ"
میں کسی کو بھیجنا چاہتا ہوں کہ وہ اہل مکہ کے لیے سورہ برات کی آیات سنائے جو میری جان ہے یعنی علی ابن ابی طالب!
الأمالي (للصدوق)؛ ابن بابويه، محمد بن على، محقق/ مصحح: ندارد. ناشر: كتابچى، ص 525
آپ وہاں کیا کہتے ہیں؟ آپ وہاں کہتے ہیں "نفسی" کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود برات کی آیت پڑھنا چاہتے تھے؟ یہ ایسے موضوعات ہیں جو بالکل واضح ہیں۔
ناظم:
محترم ناظرین دقت کر یں، آج رات کے مطالب میں حضرت استاد نے ذکر کیا ہے کہ ہم تمام دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی دعوت دیتے ہیں کہ آئیں اور سچ سنیں اور اپنے اپنے دلائل پیش کریں۔
آپ نے جو نکتہ بیان کیا وہ یہ تھا کہ اگر وہ نہ مانیں تو ہم بھی "مباهله" کریں گے۔
ائمہ معصومین علیہم السلام کا دشمن کے ساتھ مباهله کرنے کا واضح حکم!
میرا سوال یہ ہے کہ کیا اب ایسا کرنا ممکن ہے؟ کیا یہ کام رسول اللہ کے زمانے سے مخصوص نہیں تھا؟
حضرت آیت اللہ حسینی قزوینی:
ہمارے پاس ائمہ علیہم السلام سے متعدد روایاتیں موجود ہیں، مرحوم شیخ مفید کی کتاب "تصحیح الإعتقادات الإمامیة" میں کچھ مطالب موجود ہے۔
"إعتقادات الإمامیة" شیخ صدوق کی تصنیف ہے "تصحیح الإعتقادات" شیخ مفید کی تصنیف ہے۔ "شیخ صدوق" 381متوفای 381، "شیخ مفید"متوفای 413۔
وہ روایت کرتے ہیں کہ امام صادقؑ نے اپنے اصحاب کے ایک قبیلہ سے فرمایا:
"بينوا للناس الهدى الذي أنتم عليه و بينوا لهم" لوگوں کو اپنی صداقت کا ثبوت دو۔
وہی تعبیر جو کل ’’مقام معظم رهبری‘‘ نے کہی تھی، آؤ اور حملہ کرو، یعنی اپنی سچائی اور دوسری طرف کی باطل دونوں کو ثابت کرو۔
ایک بار پھر میں یہ کہہ رہا ہوں کہ دوسرے فریق کو لعن طعن، طعن و تشنیع اور لعن طعن سے باطل قرار دینا منطقی طور پر بالکل درست نہیں۔ ائمہ کرام نے جن آیاتوں و روایاتوں سے منع کیا ہے ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے فریق کی رائے کو تنقید کا نشانہ بنانا اور لعنت بھیجنا ہمارے لیے عقلی طور پر درست نہیں۔
ہم منطق اور استدلال کے ساتھ کہتے ہیں کہ آپ یہ کہتے ہیں اور اس وجہ سے آپ کا استدلال باطل ہے۔
جس طرح ان لوگوں نے عمل کیا "قاضی عبدالجبار معتزلی" نے کتاب "المغنی فی الامامۃ" میں دو جلدیں خلافت کی بحث کے لیے مخصوص کی ہیں۔
دسواں جلد جو کہ دو جلدوں یعنی 19 اور 20 میں منقسم ہے، 19 جلد میں انہوں نے شیعوں کے شواہد پر تنقید کی ہے اور 20 جلد میں جناب ابوبکر، عمر اور عثمان کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے دلائل بیان کیے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے بعض جگہ پر توہین اور جسارت کی ہے، لیکن اس میں موجود ترواد کے کوزه سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
مرحوم سید مرتضیٰ جو شیخ مفید کے شاگرد تھے، نے کتاب الشافی لکھی۔ تینوں خلفائے راشدین کی خلافت کے جواز کے لیے جو دلائل وہ لائے ہیں ان کا بھی انھوں نے ٹھوس اور قطعی جواب دیا ہے۔ انہوں نے ان شبہات کا بھی جواب دیا جو اس نے اٹھائے تھے اور ان دلائل کا بھی جواب دیا جو وہ شیعہ عقیدہ کو باطل کرنے کے لیے لائے تھے۔
یہ بحث ایک علمی اور قابل قبول بحث ہے لیکن یہ درست نہیں کہ وہ کسی چینل پر گستاخی شروع کر دے یا یہ "افغانی" شیخ ابھی فضای مجازی میں گستاخی شروع کر دے۔ اس نے عمامه پہنناچھوڑ دیا ہے، پتہ نہیں کب اسلام چھوڑے گا؛
(ثُمَّ كَانَ عَاقِبَةَ الَّذِينَ أَسَاءُوا السُّوأَى أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللَّهِ وَكَانُوا بِهَا يسْتَهْزِئُونَ)
پھر آخر کار، برے کام کرنے والے اس مقام پر پہنچ گئے جہاں انہوں نے خدا کی آیاتوں کا انکار کیا اور ان کا مذاق اڑایا!
سورہ روم (30): آیت 10
شیخ مفید بیان کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"و باهلوهم في علي بن أبي طالب فأمر بالكلام و دعا إليه و حث عليه "
انہوں نے کہا کہ امیر المومنین کی سچائی کے بارے میں "مباهله"کرے۔ ان سے بات کریں اور مناظره کریں حضرت نے اصرار کیا، راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا جناب آپ بعض اوقات بعض صحابی کو کہتے ہیں مناظره نہ کریں، کہتے ہیں کہ ہاں، ہمارے بعض اصحاب ہیں جو مناظره کرنا نہیں جانتے اور قاعده مناظره کے بارے میں بھی نہیں جانتے، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے ہم کہتے ہیں آپ مناظره نہ کریں ۔
"أبصر بالحجج و أرفق منه" وہ حقائق کا اظہار کرنا جانتے ہیں اور وہ بحث کا فن جانتے ہیں۔
تصحيح اعتقادات الإمامية؛ نويسنده: مفيد، محمد بن محمد (تاريخ وفات مؤلف: 413 ق)، محقق / مصحح: درگاهى، حسين، ناشر: كنگره شيخ مفيد، ص71
شیخ مفید مرحوم اپنی کتاب "الحکایات" میں فرماتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"خَاصِمُوهُمْ وَ بَيِّنُوا لَهُمُ الْهُدَى الَّذِي أَنْتُمْ عَلَيْهِ وَ بَيِّنُوا لَهُمْ ضَلَالَهُمْ وَ بِاهِلُوهُمْ فِي عَلِيٍّ"
اپنے حقانیت کے بارے میں بولو اور حملہ کرو اور امیر المومنین کی نسبت "مباہلہ" کرو۔
الحكايات في مخالفات المعتزلة من العدلية؛ نويسنده: مفيد، محمد بن محمد (تاريخ وفات مؤلف: 413 ق)، محقق / مصحح: كنگره شيخ مفيد، ناشر: كنگره ي شيخ مفيد، قم: 1413ق، ص 75
مرحوم "نوری" نے "مستدرک" جلد 5 صفحہ 262 میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ فرمایا:
’’خَاصِمُوهُمْ وَ بَيِّنُوا لَهُمُ الْهُدَى الَّذِي أَنْتُمْ عَلَيْهِ وَ بِاهِلُوهُمْ فِي عَلِيٍّو‘‘۔
اپنی سچائی کا اظہار کریں اور امیر المومنین کی نسبت "مباہلہ" کریں۔
مستدرك الوسائل و مستنبط المسائل؛ نورى، حسين بن محمد تقى، محقق/ مصحح و ناشر: مؤسسة آل البيت عليهم السلام، ج5، ص262
کتاب کافی میں ایک دلچسپ روایت ہے جس میں علامہ مجلسی کہتے ہیں کہ یہ صحیح روایت ہے۔ یہ روایت بہت دلچسپ ہے، راوی "ابو مسروق" امام صادق علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں۔
امام صادق کی خدمت میں راوی آتا ہے اور شکایت کرتا ہے کہ ہم سنی علماء سے بحث کرتے ہیں، ہم ہر آیت پر بحث کرتے ہیں اور وہ عذر پیش کرتے ہیں۔ ایک آیت یہ ہے:
(أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ)
خدا کی اطاعت کرو! اور خدا کے رسول اور اولو الامر (اوصياي پيامبر) کی اطاعت کرو۔
سورہ نساء (4): آیت 59
ہم اشاره کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں:
"نَزَلَتْ فِي أُمَرَاءِ السَّرَايَا"
"اولی الامر" جنگی کمانڈروں کے سلسلے میں نازل ہواہے۔
آیت ولایت کی طرف:
(إِنَّمَا وَلِيكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ)
تمہارا ولی اور سرپرست صرف خدا اور اس کا رسول اور وہ جو ایمان لانے والے ہیں۔ جو نماز پڑھتے ہیں اور رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔
سورہ مائدہ (5): آیت 55
ہم دلیل پیش کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:
"نَزَلَتْ فِي الْمُؤْمِنِينَ"
اس کا تعلق تمام مومنین سے ہے۔
مودت کی آیت میں:
(قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى)
کہو: میں تم سے اپنے رسالت کے لیے کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اپنے رشتہ داروں سے مودت کرنے کے۔
سورہ شوری (42): آیت 23
ہم احتجاج کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں:
"نَزَلَتْ فِي قُرْبَى الْمُسْلِمِينَ"
اس آیت کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔
پھر فرماتے ہیں کہ میں نے امام صادق سے کہا:
"فَلَمْ أَدَعْ شَيْئاً مِمَّا حَضَرَنِي ذِكْرُهُ مِنْ هَذِهِ وَ شِبْهِهِ إِلَّا ذَكَرْتُهُ"
ہر آیت اور دلیل جو ہم دیتے ہیں، وہ ایک عذر پیش کرتے ہیں اور اس کا جواز پیش کرتے ہیں۔
حضرت نے فرمایا:
"إِذَا كَانَ ذَلِكَ فَادْعُهُمْ إِلَى الْمُبَاهَلَةِ"
اگر وہ ضدی ہیں اور اس طرح جواز پیش کرتے ہیں تو انہیں "مباہلہ" کی دعوت دیں۔
"قُلْتُ وَ كَيْفَ أَصْنَعُ قَالَ أَصْلِحْ نَفْسَكَ ثَلَاثاً وَ أَظُنُّهُ قَالَ وَ صُمْ وَ اغْتَسِلْ وَ ابْرُزْ أَنْتَ وَ هُوَ إِلَى الْجَبَّانِ فَشَبِّكْ أَصَابِعَكَ مِنْ يَدِكَ الْيُمْنَى فِي أَصَابِعِهِ ثُمَّ أَنْصِفْهُ وَ ابْدَأْ بِنَفْسِكَ۔"
میں نے کہا کیا کروں؟ فرمایا تین دن تک اپنی روحانیت پیدا کرو، روزہ رکھو اور غسل کرو، ان کے ساتھ صحرا میں جاؤ، اپنے داہنے ہاتھ کی انگلیاں کھولو اور ہاتھ کی انگلیوں پر تالا لگاؤ۔
اس کے بعد فرمایا یہ دعا پڑھو:
"اللَّهُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَ رَبَّ الْأَرَضِينَ السَّبْعِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ الرَّحْمَنَ الرَّحِيمَ إِنْ كَانَ أَبُو مَسْرُوقٍ جَحَدَ حَقّاً وَ ادَّعَى بَاطِلًا فَأَنْزِلْ عَلَيْهِ حُسْبَاناً مِنَ السَّمَاءِ أَوْ عَذَاباً أَلِيماً ثُمَّ رُدَّ الدَّعْوَةَ عَلَيْهِ فَقُلْ وَ إِنْ كَانَ فُلَانٌ جَحَدَ حَقّاً وَ ادَّعَى بَاطِلًا فَأَنْزِلْ عَلَيْهِ حُسْبَاناً مِنَ السَّمَاءِ أَوْ عَذَاباً أَلِيماً"
پھر کہواے خدا اگر یہ لوگ سچا ہیں میں جھوٹا ہوں، مجھے تباہ کر دو؛ اگر میں صحیح ہوں اور یہ یہ لوگ جھوٹے ہیں، ان کو تباہ کر دو۔ ابو مسروق کہتے ہیں:
"فَوَ اللَّهِ مَا وَجَدْتُ خَلْقاً يُجِيبُنِي إِلَيْهِ"
جب میں نے مباہلے میں مدعو کیا تو ایک شخص بھی نہیں آیا!
الكافي ( ط- الإسلامية)؛ نويسنده: كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق؛ محقق / مصحح: غفارى على اكبر و آخوندى، محمد؛ ناشر: دار الكتب الإسلامية، تهران: 1407 ق، ج2، ص 513 و 514، بَابُ الْمُبَاهَلَة، ح1
یہ کونسا مذہب ہے کہ تم دین پر جان قربان کرنے کو تیار نہیں؟ "شبکه المستقلة" میں جو وہابی عرب سے آئے تھے میرے خیال میں یہ "عثمان الخمیس" یا "عبد الرحمن دمشقیه" تھے۔ جناب ڈاکٹر "عبد الزہرا" کا شمار بغداد یونیورسٹی کے شیعہ علماء اور پروفیسروں میں ہوتا ہے جو "لندن" گئے اور وہاں کی بین الاقوامی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔
جناب "تیجانی" بھی اس مباهله میں موجود نہیں تھے، انہوں نے آیت اللہ "بہجت" کو خط لکھا کہ ہم چاہتے ہیں ان لوگوں کو مباهله کیلیے دعوت دیں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
انہوں نے کہا کہ دعوت دو لیکن یہ لوگ مباہلہ کے عنوان سے نہیں آئینگے، اگر ہم دعوت دیں تومباہلہ کی شرائط کیا ہیں؟ آیت اللہ بہجت نے لکھا کہ آپ تین دن کے روزے رکھیں، صحرا میں جائیں، فلاں فلاں، انہوں نے ان کے لیے "مباہلہ" کی تمام شرائط اور دعائیں لکھ کر بھیج دیں۔
پہلے تو انہوں نے کہا کہ ہم ’’مباہلہ‘‘ کے لیے تیار ہیں۔ اگلی ملاقات میں انہوں نے کہا کہ "مباہلہ" کو "بیت اللہ الحرام" کے کنارے ہونا چاہیے نہ کہ سیٹلائٹ نیٹ ورک پر۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم وہاں آنے کو تیار ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ ہم مباہلہ بالکل نہیں کریں گے!
یہ خبر پوری دنیا میں پھیل گئی، اس وقت انہوں نے خود دعویٰ کیا کہ ’’شبکه المستقلة‘‘ کے 70 ملین سے زائد ناظرین ہیں، یعنی مناظرہ شروع ہوگئی، دوستوں نے بتایا کہ ملک قطر، بحرین، کویت اور امارات کے سڑک پر کوئی نہیں ملا، سب ٹیلی ویژن کے سامنے ہے۔
یہاں تک کہ ہمارے دوست جن کے پاس ٹی وی نہیں تھا یا سڑک پر تھے وہ بھی کسی دکان یا ایسی جگہ پر گئے جہاں ٹی وی تھا کہ شیعہ اور وہابیوں کے درمیان مناظرہ کہاں ہو رہی ہے۔
جیسا کہ "ابو مسروق" کہتے ہیں: "فَوَ اللَّهِ مَا وَجَدْتُ خَلْقاً يُجِيبُنِي إِلَيْهِ" جب ہم آئے تو اعلان کیا کہ نہ تو مناظرہ ہے اور نہ ہی مباہلہ ان میں سے کوئی بھی حضرات آمادہ نہیں ہیں۔ صرف یہ اکیلے آنا چاہتے ہیں تاکے وہ اپنے نیٹ ورکس پر بات چیت کا سلسلہ جاری رکھیں۔
یہی روایت علامہ مجلسی مرحوم نے "مرآة العقول جلد 12 صفحہ 185 “میں کہی ہے۔ یہ ایک اچھی اور صحیح روایت ہے۔
ناظم:
اچھی بات! تو یہ مباحث ایسی ہے جو ابھی مورد بحث ہیں۔ دوسری طرف اس مذہب کے سامنے جان کی کیا قدر ہے جہاں انسان کے تمام مستقبل کا دارومدار اس مذہب کے اعمال پر ہے۔
استاد ہمارے پاس دوسرے سوالات بھی ہیں، الحمدلله لوگ علم معرفت کی تلاش میں ہیں ان شاء اللہ ان میں سے ہر ایک شخص شکوک و شبہات کا جواب دینے والا اور دوسروں کو علم معرفت پیش کرنے والا فرد ہو سکتا ہے۔
استاد ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہے پروگرام کے آخر میں اس مبارک موقع پر اپنے تمام چاہنے والوں کے لیے دعا فرمائیں، ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔
حضرت آیت اللہ حسینی قزوینی:
مجھے بہت خوشی اور مسرت ہوئی کہ غدیر کے ایام میں تہران اور اس کے آس پاس کے شہروں میں لوگ غدیر اور عہد و پیمان کے مسئلہ میں امیر المومنین کے ساتھ دیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔
شاید 1400 سالوں میں اس کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔ اس سال بھی لوگوں کی حاضری پچھلے سال کے مقابلے میں بہت زیادہ رہی۔ لیکن بدقسمتی سے اصلاح پسندی اور تشیع کی تبلیغ کرنے والے بعض حضرات نے اپنے اخبارات اور سائبر اسپیس میں اس کو نشر نہیں کیا، بلکہ وہ پوری ندامت اور جہالت اور مکمل حماقت اور غلط فہمی کے ساتھ آئے اور انہوں نے کہا کہ غدیر کے دن سڑکیں گندی ہوگئی فلاں فلاں ہوا ایسی باتیں کرنے لگے۔
ان لوگوں کے پاس ان فسادات کے علاوہ اور کوئی بہانہ نہیں تھا جہاں اتنے لوگ سڑکوں پر پتھر پھینک رہے تھے، ٹائر جلا رہے تھے اور دوسرے کام کر رہے تھے ان ہوگوں کو یہ سب دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔
یا اب "فرانس" میں جہاں گلی کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے وہ ان لوگوں کو دیکہائی نہیں دیتا وہ اندھے ہو چکے ہیں لیکن اس طرف مثال کے طور پر ایک خالی پلاسٹیک یا انڈے کا چھلکا جو زمین پر گرا ہے، وہ ان کو دیکھتے اور نمایاں کرتے ہیں۔
اولاً یہ کہ لوگ خود جمع کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جو کام کرنے والے لوگ ہیں وہ بڑے دلچسپی کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہم نے ان کو دیکھا، خاص طور پر قم میں چاہے وہ جمکران یا قم کے درمیان تقریباً 12 کلومیٹر کا فاصلہ، غدیر کی رات اور غدیر کے دن تقریباً 300 لوگوں نے دلچسپی کے ساتھ کام کرتے ہوئے دیکھا اور انہوں نے خوشی صفائی کیا اور خوش تھے۔
میں یہ بھی بتانا چاہوں گا کہ امیر المومنین نے ہمیں کامیابی بھی دی ہے، ہم نے قم کے معزز گورنر سے رابطہ کیا اور ان لوگوں کے نام بتائے جن لوگوں نے غدیر کے دن گلیوں کی صفائی کیا تھا اور انہوں نے تقریباً 300 عزیزوں کو 500،500 ہزارتومان دینے کا فیصلہ کیا۔
یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک احسان تھا، یقیناً یہ ان کی کاوشوں کے مقابلے میں بہت معمولی ہے، لیکن یہ لوگ غصه سے لال پیلے ہو رہے تھے۔
(قُلْ مُوتُوا بِغَيظِكُمْ)
کہو: تم اسی غصے سے مرو گے!
سورہ آل عمران (3): آیت 119
غصه میں ڈوب مرو کہ لوگ امیر المومنین کی محبت کے لیے محنت کرتے ہیں اور آپ ان کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ایسی باتیں کرتے ہیں، اب یہ امیر المومنین کا مسئله سیاسی مسئلہ۔۔۔ وغیرہ نہیں۔
ہم خدا کی قسم کھاتے ہیں کہ وہ امیر المومنین کی رہنمائی کے لیے زمین مہیا کرے گا۔ ہم اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ وہ جہنم کی آگ میں جلیں اور اگر توبہ نہ کیا تو ضرور جلیں گے۔
اے اللہ امیر المومنین کی عزت کے خاطر، امیر المومنین کی عصمت کے خاطر، فاطمہ زہرا، امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کی صداقت کے خاطر ہمارے آقا ومولا امام زمانہ کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہمیں اپنے خاص اصحاب، عقیدت مند سپاہیوں اور اپنے شهداء کے رکاب میں شامل فرما۔
تمام مصیبت زدہ لوگوں کی پریشانیاں دور فرما، محتاجوں کی حاجتیں پوری فرما، سب کی دعاؤں اور ہماری دعاؤں کو امیر المومنین کے واسطے سے قبول فرما!
"السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ"
ناظم:
آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اس کے علاوہ، میں آپ سب پیارے اور معزز ناظرین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، انشاء اللہ، آپ اگلی ملاقات تک کامیاب اور موفق رہیں گے، اللہ آپ کی حفاظت فرمائے!