امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

تمام ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

تمام ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت

چالیسواں درس
تمام ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت

اس درس میں تمام ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت پر بحث کی جائےگی اور اس کو تحقیق کا موضوع قرار دیا جائےگا۔ اصل بحث کو شروع کرنے سے پہلے، لازم ہے کہ اس بات کی یاددہانی کرائی جائے کہ امام کی شرائط سے مربوط ابحاث میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ امام کے لئے معصوم ہونا، علم لدنّی کا حامل ہونا اور خدا تعالی کی طرف سے نصب شدہ ہونا ضروری ہے۔
    ائمہ معصومین علیہم السلم کے حالات زندگی پر اس انتہائی مختصر بحث میں مناسب یہ ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کا مختصر زندگی نامہ پیش کر کے آغاز کیا جائے۔
    پہلے امام؛ حضرت امام علی بن ابی طالب علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت پیغمبر اسلام ﷺ کی بعثت سے دس سال پہلے مکہ شہر میں خانہ خدا (کعبہ) کے اندر ہوئی تھی، اور سن چالیس ہجری میں مسجد کوفہ کے محراب میں ابن ملجم کی زہر بھری تلوار سے شہادت ہوئی تھی۔
    دوسرے امام؛ امام حسن بن علی علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت تین ہجری میں اور شہادت پچاس ہجری میں ہوئی تھی۔
    تیسرے امام؛ امام حسین بن علی علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت سن چار ہجری میں اور آپ علیہ السلام ۶۱ ہجری میں سرزمین کربلا پر پیاسے شہید ہوئے تھیں۔
    چوتھے امام؛ امام علی بن حسین (امام سجاد) علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت سن ۳۸ ہجری میں اور شہادت سن ۹۵ ہجری میں ہوئی تھی۔
    پانچوے امام؛ امام محمد بن علی (امام باقر) علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت سن ۵۸ ہجری میں اور شہادت سن ۱۱۴ ہجری میں ہوئی تھی۔
    چھٹے امام؛ امام جعفر بن محمد (امام صادق) علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت سن ۸۳ ہجری میں اور شہادت سن ۱۴۸ ہجری میں ہوئی تھی۔
    ساتوے امام؛ امام موسی بن جعفر (امام کاظم) علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت سن ۱۲۸ ہجری میں اور شہادت سن ۱۸۳ ہجری میں ہوئی تھی۔
    آٹھویں امام؛ امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت سن ۱۴۸ ہجری میں اور شہادت سن ۲۰۳ ہجری میں ہوئی تھی۔
    نویں امام؛ امام محمد بن علی (امام جواد) علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت سن ۱۹۵ ہجری میں اور شہادت سن ۲۲۰ ہجری میں ہوئی تھی۔
    دسویں امام؛ امام علی بن محمد (امام ہادی) علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت سن ۲۱۲ ہجری میں اور شہادت سن ۲۵۴ ہجری میں ہوئی تھی۔
    گیاروے امام؛ امام حسن بن علی (امام عسکری) علیہما السلام ہیں، آپ علیہ السلام کی ولادت سن ۲۳۲ ہجری میں اور شہادت سن ۲۶۰ ہجری میں ہوئی تھی۔
بارویں امام؛ امام محمد بن حسن (امام زمانہ) علیہما السلام ہیں۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ آپ علیہ السلام زندہ ہیں اور غیبت کبری میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپ علیہ السلام کے ظہور کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کی امامت پر دلایل

  اس درس میں ائمہ معصومین علیہم السلام (امام حسن مجتبی علیہ السلام سے امام مہدی علیہ السلام تک) کی امامت پر دلائل پر بحث کی جائے گی اور اس کو تحقیق کا موضوع بنایا جائے گا۔


الف) امام کی صفات اور شرائط

    پہلی دلیل؛ شرائط، امام کی صفات سے مربوط ہیں۔ امام علیہ السلام کی صفات کے بارے میں معتبر روایات کی روشنی میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ پیغمبرﷺ کے جانشین اور امام کے لئے معصوم، علم لدّنی کا حامل اور پروردگار عالم کی جانب سے منتخب شدہ ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی مذکورہ شرائط کو قبول کرتا ہے اور امام کے لئے ان شرائط کا حامل ہونا ضروری سمجھتا ہے؛ تو امتِ اسلامیہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے علاوہ کسی بھی شخص میں اس طرح کی شرائط پائی نہیں جاتی۔ فقط ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے حق میں ہی ان شرائط کا دعوی کیا گیا ہے۔

ب) پیغمبر اسلام ﷺ کی طرف سے وضاحت

    دوسری دلیل؛ پیغمبر ﷺ کی روایات اور احادیث کی مدد سے اس بات کا ثابت کیا جاتا ہے۔ جس طرح سے پیغمبر اسلام ﷺ کی جانب سے امام علی علیہ السلام کی امامت کے سلسلہ میں واضح فرامین موجود ہے اسی طرح سے دیگر ائمہ معصومین علیہم السلام کے سلسلہ میں بھی وضاحت موجود ہے جن میں سے ’’اثنا عشر خلیفہ‘‘ والی مشہور حدیث بھی شامل ہے جو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت کے لئے بہترین سند قرار پاتی ہے۔ یہ روایت شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کی روایات کے ذرائع میں مختلف اسناد کے ساتھ اور الگ الگ انداز سے نقل کی گئی ہے۔
 حدثنا عبد اللَّهِ حدثنی ابی ثنا بن نُمَیْرٍ ثنا مُجَالِدٌ عن عَامِرٍ عن جَابِرِ بن سَمُرَةَ السوائی قال: سمعت رَسُولَ اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌وسلم) یقول: فی حَجَّةِ الْوَدَاعِ لاَ یَزَالُ هذا الدِّینُ ظَاهِراً علی من نَاوَاَهُ لاَ یَضُرُّهُ مُخَالِفٌ وَلاَ مَفَارِقٌ حتی یَمْضِیَ من امتی اثْنَا عَشَرَ اَمِیراً کلهم من قُرَیْشٍ قال: ثُمَّ خفی عَلَیَّ قَوْلُ رسول اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌وسلم) قال: وکان ابی اَقْرَبَ الی رَاحِلَةِ رسول اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌وسلم) مِنِّی فقلت: یا اَبَتَاهُ ما الذی خفی علی من قَوْلِ رسول اللَّهِ (صلی‌الله‌علیه‌وسلم) قال یقول: کلهم من قُرَیْشٍ قال: فاشهد علی اِفْهَامِ ابی ایای قال: کلهم من قُرَیْشٍ
(شیبانی، احمد بن حنبل (متوفای۲۴۱ه)، مسند احمد بن حنبل، ج۳۴، ص۴۲۹، ح۲۰۸۴۱.  
شیبانی، احمد بن حنبل (متوفای۲۴۱ه)، مسند احمد بن حنبل، ج۳۴، ص۴۱۳، ح۲۰۸۱۷.  )

(و مع قلیل من الاختلاف : ابن ابی زینب، نعمانی، الغیبۃ، ص ۱۲۱؛ مسلم بن حجاج، نیشابوری، صحیح مسلم (کتاب الامارۃ)، ج ۶، ص ۴، محمد بن اسماعیل، بخاری، صحیح بخاری (کتاب الاحکام)، ج ۸، ص ۱۲۷

(اس متن میں کچھ فرق کے ساتھ صحیح بخاری میں ’’امیر‘‘ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے۔) اور احمد بن حنبل، مسند احمد، ج ۵، ص ۹۰ (مسند احمد میں بخاری کی طرح سے بیان کیا گیا ہے)
 میں نے رسول خدا ﷺ کو فرماتے سنا کہ: یہ دین اس وقت تک برقرار و قائم رہے گا جب تک کہ بارہ خلیفہ قائم نہ ہو جائے، اس کے بعد ایک لفظ کہا مگر میں اسے نہ سمجھ پایا، تو میں نے اپنے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا تھا: یہ سب قریش سے ہوں گے۔
    دوسرے انداز سے نقل میں آیا ہے کہ:

’’عن جابر بن سمرہ قال قال رسول اللہ ص لا یزال ھذا الدین عزیزا منیعا ینصرون علی من ناواھم الی اثنی عشر خلیفۃ و قال کلمۃ اصمّنیھا الناس فقلت لابی ما الکلمۃ التی اصمّنیھا الناس فقال قال کلھم من قریش۔‘‘
( محمد بن علی بن بابویہ، قمی، (شیخ صدوق)، الخصال، ج ۲، ص ۴۷۰؛ محمد بن اسماعیل، بخاری، ایضاً،

(متن میں کچھ فرق کے ساتھ، جن میں سے صحیح بخاری میں ’’امیر‘‘ کی تعبیر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ’’بخاری کی طرح سے : مسند احمد میں بھی اسی طرح‘‘ آیا ہے۔))
    اہم ترین مسئلہ خاص طور سے اس کی روایت کی سند کے بارے میں ہے کہ اس روایت کو بیان کرنے والی بعض کتابیں بارویں امام علیہ السلام کی ولادت سے پہلے تالیف شدہ ہے۔ بلکہ بعض محققین نے لکھا ہے کہ اس وقت کہ جب امام صادق علیہ السلام بھی زندہ تھیں اس زمانہ میں مصر کے محدّث لیث بن سعد جس کی وفات ۱۷۵ ہجری میں ہوئی، اس نے اس حدیث کو اپنی کتاب امالی میں بیان کیا تھا اور ابھی دوسری صدی کا اختتام نہیں ہوا تھا اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی تعداد آٹھ سے آگے نہیں بڑھی تھی تب ابو داود طیالسی جس کی وفات ۲۰۴ ہجری میں ہوئی تھی، اس نے اس حدیث کو اپنی مسند میں بیان کیا تھا اور اس کے بعد نعیم بن حماد جس کی وفات ۲۲۸ میں ہوئی، اس نے اپنی کتاب فتن میں اور اسی طرح سے دوسرے افراد نے بھی اپنی اپنی کتابوں میں اس حدیث کا تذکرہ کیا تھا۔
(سید حسن، مدرسی طباطبایی، مکتب در فرایند تکامل، ص ۱۹۰)
بخاری جس کی وفات ۲۵۶ ہجری میں ہوئی، جو امام حسن عسکری علیہ السلام کا ہم عصر اور روایات کا ناقل تھا، اس نے اپنی کتاب امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی کے دوران تحریر کی تھی۔
 اس نے جس زمانہ میں کتاب تالیف کی تب تک شیعوں کے درمیان کا اثنا عشری نظریہ مشہور نہیں ہوا تھا۔ اس بنا پر اس حدیث کے بیان کرنے میں شیعہ محدثین اور علماء کی دخالت کے معمولی امکان بھی نفی ہو جاتی ہے اور شیعوں کی طرف سے اس حدیث کی تشکیل اور دست اندازی کا کوئی امکان پایا نہیں جاتا۔
دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ؛

اس روایت کی سند میں یہ ہے کہ بنی امیہ کے خلفاء اس حدیث کو بنو عباس کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ بنی امیہ کا اعتقاد تھا کہ شروع کے تین خیفہ کو بنی امیہ کی خلفاء کے ساتھ ملاکر اس حدیث کے مصداق بنو امیہ قرار پاتے ہیں۔ اس حدیث کی بنیاد پر ایک طرف تو وہ اپنی حکومت کو جائز قرار دیتے تھے اور دوسری طرف؛ اس حدیث کو بنیاد بنا کر بنو عباس کی حکومت کو ناجائز قرار دیتے تھے۔
(سید حسن، مدرسی طباطبایی، مکتب در فرایند تکامل، ص ۹۰-۱۹۱ (بنو امیہ کی جانب سے اس روایت کو استعمال کرنے کا ثبوت اور اسی طرح سے بنو عباس کی طرف سے اس کا جواب دیا جانا اس کو اس کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے۔))
اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ بنو عباس اس بات کے علاوہ کہ وہ طاقت رکھتے تھے اور کثیر محدثین، علماء اور خطباء پر اثر و رسوخ رکھتے تھے اور ان کا بنو امیہ سے سخت اختلاف بھی کسی سے مخفی نہیں ہے، وہ اس بات پر قادر تھے کہ اگر اس حدیث میں کسی قسم کے اعتراض کی گنجائش ہوتی تو وہ مذکورہ حدیث کا انکار کر دیتے اور اس طرح سے اپنا فائدہ حاصل کر لیتے۔
    مگر چونکہ اس حدیث کا سلسلۂ سند رسول خدا ﷺ تک قطعی اور واضح تھا، کسی کے لئے بھی اس کے انکار کی گنجائش نہیں تھی۔ اس وجہ سے یہ روایت انتہائی زیادہ مقام اور اعتبار کی حامل تھی اور کسی بھی عنوان سے اس کی سند قابل اعتراض نہیں ہے۔ خاص طور سے اس کی سند کے متعلق یہ مسئلہ بھی قابل بیان ہے کہ اس روایت کے بیان کرنے والوں کے پہلے طبقہ میں رسول خدا ﷺ کی پندرہ اصحاب قرار دیئے جاتے ہیں؛ کہ جن کے درمیان عبد اللہ بن مسعود جیسی نمایا شخصیت بھی شامل ہے۔
(شیخ جعفر، باقری، الخفاء الاثنی عشر، ص ۱۳، (و رواۃ الحدیث ھم : جابر بن سمرۃ السوائی، ابو جحیفہ (وھب النسوائی)، عبد اللہ بن عمرو، عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عمر، انس بن مالک، عبد اللہ بن عباس، سلمان الفارسی، عامر بن سعد، عبد الملک بن عمیر، سماک بن حرب، العباس بن عبد المطلب، عائشہ بنت ابی بکر، ابو ھویرۃ، ابو سلمۃ راعی رسول اللہ (ص)۔ انہوں نے ان افراد سے روایت کے نقل کے ذرائع کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔))
    دوسرا نکتہ؛ یہ ہے کہ حدیثی ذرائع سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت متعدد دفعہ رسول خدا ﷺ کی جانب سے حجۃ الوداع، عرفات اور یا منی اور یا دونوں جگہ، اور مدینہ میں صادر ہوئی تھی۔
( محمد، محمدی ری شھری، اھل البیت فی الکتاب و السنۃ، ص ۷۹۔ (اہل سنّت کے مختلف ذرائع سے اس روایت کے متعدد دفعہ اور متعدد مقامات پر صادر ہونے کو ثابت کیا گیا ہے۔))
 مختلف مقامات اور مخصوص حالات میں اس حدیث کو متعدد دفعہ بیان کیا جانا اس کی اہمیت کی نشاندی کرتا ہے اور دوسری طرف نقل میں پائےجانے والا اختلاف بھی کسی حد تک اس بات کو واضح کرتا ہے، اگرچہ معنی کی صورت میں نقل کیا جانا اور یا کسی حد تک سیاسی دست درازی سے ممکن ہے کہ اس کے نقل میں جزئی تبدیلیاں واقع ہوئی ہو۔

 

روایت کی دلالت: 

  رسول خدا ﷺ کی اس حدیث سے حقیقی مراد کیا ہے اس کو سمجھنے کے لئے اس روایت میں موجود داخلی علامات اور اسی طرح سے خارجی علامات سے غفلت نہیں برتنی چاہیئے۔ اس میں پائی جانے والی داخلی علامات مندرجہ ذیل ہیں:

    اول: اس میں خلفاء کی تعدد متعین کر دی گئی ہے جو بارہ افراد پر مشتمل ہیں۔
    دوم؛ روایت سے مجموعی طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ مذکورہ ائمہ رسول خدا ﷺ کی نگاہ میں پسندیدہ افراد ہیں اور ساتھ ہی اہل حق اور اہل عدالت ہیں، جو مسلسل پیغمبر اسلام ﷺ کے مقاصد اور اہداف کے حصول کے لئے عمل پیرہ رہتے ہیں۔ دوسری علامت کی تائید کے لئے؛ ثبوت موجود ہیں، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:
    پہلا ثبوت؛ یہ ہے کہ اس منقولہ بعض روایت میں دین کی عزت اور بعض میں دین کی سر بلندی کو ان بارہ افراد کی بنیاد پر قرار دیا گیا ہے، یہ دونوں طرح کی روایت صحیح مسلم میں ہے اور تیسرے انداز کے نقل کے مطابق (مسند احمد کے نقل کی بنا پر) دین کے قیام کی بنیاد ان بارہ افراد کو قرار دیا گیا ہے۔
(شیخ جعفر، باقری، پیشین، صص ۶۴-۶۶)
    دوسرا ثبوت؛ ان افراد کو امت کی قسمت کا مرکز قرار دیا گیا ہے، طبرانی کے نقل کے مطابق امت کے امر کا استحکام اور دشمنوں پر کامیابی ان خلفاء سے مربوط ہے۔ حاکم نیشابوری کے نقل کی بنا پر امت کا مفاد اور صحیح مسلم کے نقل کے مطابق امت کے امور کا راہِ راست پر ہونا ان ائمہ سے وابستہ ہونے میں ہے۔( شیخ جعفر، باقری، پیشین، صص ۶۷-۶۹۔)
    تیسرا ثبوت؛ اس روایات میں جو شباہتیں پیش کی گئی ہے، حاکم نیشابوری کے نقل کے مطابق کبھی ان خلفاء کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نقباء سے تشبیہ دی گئی ہے اور بعض نقل میں بنی اسرائیل کے نقباء سے تشبیہ دی گئی ہے۔( شیخ جعفر، باقری، پیشین، صص ۶۱)
یہ تشبیہات اگرچہ ان کے متعدد ہونے پر اشارہ کرتے ہیں؛ مگر ساتھ ان خلفاء کے مقام اور فضیلت کی طرف بھی مضبوط اشارہ ہے۔ یہ داخلی ثبوت کے مجموعے سے اچھے انداز سے مندرجہ بالا بات ثابت ہو جاتی ہے۔ چونکہ اہل سنّت کے علماء میں سے ایک ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس نکتہ کو قبول کیا ہے کہ رسول خدا ﷺ کی مراد ایسے باصلاحیت خلفاء ہیں جو حق کو قائم کر سکتے ہو؛ اگرچہ اس نے ان روایات کی تطبیق شیعوں کے ائمہ پر قبول نہیں کی ہے۔ وہ لکھتا ہے:

’’و معنی ھذا الحدیث البشارہ بوجود اثنی عشر خلیفۃ صالحاً یقیم الحق، و یعدل فیھم۔۔۔‘‘( اسماعیل بن کثیر، دمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج ۲، ص ۳۴)
    تیسری علامت؛ یہ ہے کہ اس روایات کے بعض نقل میں اس بات کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ بارہ افراد بنی ہاشم سے ہوں گے۔
(سلیمان بن ابراھیم، قندوزی حنفی، ینابیع المودۃ لذوی القریبی، ج ۲، ص ۳۱۵ و ج ۳، ص ۲۹۰؛ احمد حنبل، مسند احمد، ج ۱، ص ۳۹۸، مسند عبد اللہ بن مسعود؛ احمد بن علی بن حجر، عسقلانی، فتح الباری، ج ۱۳، ص ۱۸۳ (ابن حجر نے اس روایت کی سند کو اچھا قرار دینے کے بعد اس روایت کی دلالت کی تفسیر بیان کی ہے جس کی طرف رجوع کرنا اہل تحقیق کے لئے مفید ہے)
    چوتھی علامت؛ یہ ہے کہ یہ ائمہ نسب کے اعبار سے قبیلۂ قریش سے ہوں گے۔ یہ شرط بارہ کے عدد کے ساتھ اکثر روایات کے نقل میں موجود ہے۔ صحیح بخاری کے نقل میں بھی یہ قید موجود ہے۔
( شیخ جعفر، باقری، پیشین، ص ۶۳۔)


خارجی علامات

    اہم ترین خارجی علامت رسول خدا ﷺ کے دیگر اقوال ہیں؛ چونکہ آپ ﷺ کے دیگر اقوال میں مرکزی نکتہ اسی کو بنایا گیا ہے۔ رسول خدا ﷺ کی روایات میں سے بعض دیگر بعض کی تفسیر کرتی ہے اور آپ ﷺ کے کلام کے حقیقی معنی کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، یہ اس نکتہ کا بھی اظہار کرتی ہیں کہ ان اقوال میں متضاد اور متصادم نتائج تلاش نہ کئے جائے۔
    ولایت اور امامت کے متعلق رسول خدا ﷺ کے تمام اقوال جن میں امام علی علیہ السلام کو خلافت پر معیّن کرنے والی روایات بھی شامل ہیں، یہ سب ہمارے اس موضوع کے لئے ایک قسم کی علامت قرار پاتی ہے؛ چونکہ حدیثِ ثقلین بہترین ثبوت ہے جو ان روایات کے مصداق کے تعیّن میں مددگار بن سکتی ہے۔

حدیثِ ثقلین کے متعلق اسی درس میں آگے چل کی گفتگو کی جائے گی، مگر اس وقت دلیل کی حد تک اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ حدیثِ ثقلین امامت کو اہل بیت علیہم السلام میں محدود کرتی ہے۔ مذکورہ تمام علامات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اس روایت کا معنی یہ ہے کہ بارہ افراد یہی ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں۔ چونکہ بنو امیہ اور بنو عباس کے خلفاء اسلام کی عزّت اور سربلندی کا باعث نہیں بنے تھے اور علمی لحاظ سے ذرہ برابر بھی رسول خدا ﷺ سے شباہت نہیں رکھتے۔
    دوسری بات؛ ان کی تعداد بارہ افراد پر مشتمل نہیں تھی۔ تیسری بات؛ جن روایات میں بنو ھاشم کا تذکرہ ہے اس سے بنو امیہ کی مناسب نہیں ہے چونکہ یہ لوگ بنو ہاشم سے نہیں تھے۔ اس بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بارہ امام سے مراد یہی بارہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام ہیں اور ان روایات کے مصادیق کی دوسری کسی قسم کی تفسیر اس تفسیر کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ شیعہ ذرائع سے منقول شدہ روایات میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ یہ بارہ نقیب میں آخری حضرت حجّت علیہ السلام ہوں گے کہ اہل تحقیق جستجو کر سکتے ہیں۔
(محمد بن یعقوب، کلینی، اصول کافی، ج ۱، ص ۵۳۴، محمد، محمدی ری شھری، اھل البیت فی الکتاب و السنۃ، صص ۸۹-۸۵)
    اہل سنّت کے ذرائع سے بھی بعض کتابوں میں، ان روایات کے مصادیق بیان کئے گئے ہیں؛ کہ مہدویت کی بحث میں ان روایات میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جائے گا۔ یہ سب روایات اگرچہ ممکن ہے کہ سند کے لحاظ سے قابل بحث ہو؛ مگر اثنا عشر والی روایات کی تطبیق ائمہ اہل بیت علیہم السلام پر کرنے میں بہترین تائید بن سکتی ہیں۔
    ضمناً اس بات کو بیان کرنا ضروری ہے کہ اہل سنّت کے بعض مشہور علماء امام علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام اور حضرت حجّت علیہ السلام کو بارہ اماموں کے مصادیق قرار دیتے ہیں۔
(عبد الرحمن بن ابی بکر، جلال الدین، سیوطی، تاریخ الخلفاء، ص ۱۲ (اہل سنّت کا مشہور شخص سیوطی لکھتا ہے :

’’فقد وجد من الاثنی عشر خلیفۃ، الخلفاء الاربعۃ، و الحسن، و معاویۃ، و ابن الزبیر، و عمر بن عبد العزیز، ھؤلاء ثمانیۃ، و یحتمل ان یضمّ الیھم المھتدی من العبّسیّین، لانّھم فیھم کعمر بن عبد العزیز فی بنی امیّہ، و کذلک الطاھر لما اوتیہ من العدل، و بقی الاثنان المنتظران، احدھما : المھدی لانہ من آل محمّد‘‘)
ابن کثیر بھی حضرت مہدی علیہ السلام کو بارہ خلفاء کا آخری قرار دیتا ہے؛ اگرچہ اس نے اس عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ حضرت علیہ السلام کی اب تک ولادت نہیں ہوئی ہے۔ جس طرح سے تورات سے نقل کیا جاتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بشارت دی جاتی ہے کہ بارہ عظیم افراد ان کی ذریت سے وجود میں آئیں گے۔ ابن کثیر تورات اور رسول خدا ﷺ کی روایات میں موجود ان بارہ افراد کے مصادیق ایک ہی قرار دیتا ہے۔
(اسماعیل بن کثیر، دمشقی، تفسیر القرآن العظیم، ج ۲، ص ۳۴۔)
    نتیجۃً اگر ان روایات سے کیا مراد ہے اس کی سمجھ کو ابتدائی دو صدی میں موجود عالم اسلام اور مسلمان علماء کی حد تک محدود کر دیا جائے تو یہ فرض قابل فہم نہیں ہے؛ آج کے دور میں زمانہ کے گذرنے کے ساتھ اور مکتبِ اہل بیت علیہم السلام کے مستحکم اور ثابت ہونے کے بعد، عالم اسلام کے حالات و واقعات کی علامات، بنو امیہ اور بنو عباس کے کرتوت اور ان کا ائمہ اہل بیت علیہم کی سرگمیوں سے موازنہ کرنے اور دیگر تمام علامات کو مدّ نظر رکھنے کے بعد حجّت مکمل ہو جاتی ہے اور صاحب انصاف شخص اگر یقین کی منزل تک نہ بھی پہنچ سکے تب بھی اسے اس بات کا اطمنان حاصل ہو جاتا ہے مکتبِ اہل بیت علیہم السلام کے علماء کا نظریہ باقی تمام نظریات پر فوقیت رکھتا ہے۔

پہلے والے امام کی جانب سے وضاحت
    تیسری دلیل؛ ائمہ معصومین علیہم السلام کی امامت کو ثابت کرنے کے لئے پہلے والے امام کی اپنے بعد والے امام کے لئے کی جانے والی تصریح ہے۔ مرحوم کلینی نے اصول کافی میں اور ہم عصر علماء میں سے ایک آیت اللہ حکیم نے کتاب ’’فی رحاب العقیدۃ‘‘ میں اس سلسلہ میں بہترین امور کی طرف اشارہ کیا ہے۔ آیت اللہ حکیم نے بعض ائمہ جن میں ساتویں امام علیہ السلام بھی شامل ہیں ان کے متعلق سو سے قریب روایت نقل کی ہے جو پیغمبر اسلام ﷺ اور دیگر تمام ائمہ معصومین علیہم السلام کے حوالے سے مختلف روایتی ذرائع میں نقل کی گئی ہے۔
(سید محمد سعید، حکیم، فی رحاب العقیدۃ، ص ۳۴۶ (مزید مطالعہ کے لئے اس کتاب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔))
د) علامات کی جمع آوری
    چوتھی دلیل؛

علامات کی جمع آوری ہے۔ علامات سے مراد وہ تمام ثبوت ہیں کہ اگر کوئی کسی ایک علامت اور ثبوت پر مطمئن نہ ہو؛ تو ان تمام کے مجموعے کے ذریعے دعوے کے درست اور صحیح ہونے پر یقین پیدا کر لیتا ہے۔ ان علامات سے مراد:
۱۔ حدیث ثقلین
    پہلی علامت؛ خاص طور سے ائمہ معصومین علیہم السلام کی امامت پر مشہور حدیثِ ثقلین ہے جو رسول خدا ﷺ سے بار بار اور مخلتف جگہوں اور مختلف اوقات میں صادر ہونے کو نقل کیا گیا ہے۔ ان میں سے امام احمد نے اپنی مشہور حدیث کی کتاب میں اس کو بیان کیا ہے اور مرحوم شرف الدین نے کتاب المراجعات میں اس کو بعینہ ذکر کیا ہے:
    ’’عن زید الثابت قال قال رسول اللہ ﷺ انی تارک فیکم خلیفتین کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی اھل بیتی فانھما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض۔‘‘
(حاشیہ: احمد بن محمد بن حنبل شیبائی، مسند احمد، ج ۸، ص ۱۳۸، حدیث ۲۱۶۳۴، اہل تحقیق مزید معلومات کے لئے کتاب :
 النص و الاجتہاد کے صفحات کی طرف رجوع کر سکتے ہیں، اور ساتھ یہ کہ اس کتاب کے مؤلف نے بعینہ عبارت کو نقل کیا ہے، قابل ذکر ہے کہ خاص طور سے یہ علمی کام انتہائی وسیع پیمانہ میں ہوا ہے۔
و قد اخرجھا مسلم فی صحیحہ، و اخرجھا الترمذی و النسائی و الامام احمد فی مسندہ و الطبرانی فی الکبیر، و الحاکم فی مستدرکہ و الذھبی فی تلخیص المستدرک، و ابن ابی شیبۃ و ابو یعلی فی سننھما، و ابن سعد فی الطبقات، و غیر واحد من اصحاب السنن بطرق متعددۃ و اسانید کثیرۃ، و التفصیل فی المراجعۃ ۸ من مراجعاتنا (منہ قدس)۔ اقول: اشارۃ الی مضمون الحدیث المتواتر و ھو حدیث الثقلین قال (ص): ’’یا أیھا الناس اِنی تارک فیکم ما ان اخذتم بہ لن تضلوا، کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی‘‘۔
    راجع الحدیث فی: صحیح الترمذی ج ۵ ص ۳۲۸ ط بیروت و ج ۱۳ ص ۱۹۹ ط الصاوی و ج ۲ ص ۳۰۸ ط بولاق بمصر، تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۱۱۳ دار أحیاء الکتب العربیۃ بمصر، مصابیح السنۃ للبغوی ص ۲۰۶ ط القاھرۃ و ج ۲ ص ۲۷۹ ط محمد علی صبیح، جامع الاصول لابن الأثیر ج ۱ ص ۱۸۷ ط مصر، مشکاۃ المصابیح ج ۳ ص ۲۵۸ ط دمشق، اِحیاء المیت للسیوطی یھامش الاتحاف ص ۱۱۴ ط الحلبی، الفتح الکبیر للنبھائی ایضاً ص ۱۸ط مصر، نظم درر السمطین للزرندی الحنفی ص ۲۳۲ ط النجف، ینابیع المودۃ للقندوزی الحنفی ص ۳۳، ۴۵ و ۴۴۵ ط الحیدریۃ و ص ۳۰ و ۴۱ و ۳۷۰ ط اسلامبول، و بلفظ ثان قال صلی اللہ علیہ و آلہ: ’’انی تاریک فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا بعدی، احدھما اعظم من الآخر، کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الی الأرض و عترتی أھل بیتی و لن یفترقا حتی یردا علی الحوض فانظرو کیف تخلفونی فیھما‘‘۔
راجح الحدیث فی: صحیح الترمذی ج ۵ ص ۳۲۹ دار الفکر بیروت و ج ۱۳ ص ۲۰۰ ط الصاوی و ج ۲ ص ۳۰۸ ط بولاق بمصر، نظم درر السمطین للزرندی ص ۲۳۱ ط النجف، الدر المنثور للسیوطی ج ۶ ص ۷، ۳۰۷ ط المحمدیہ۔ اسد الغابۃ لابن الانیر ج ۲ ص ۱۲ط مصر، المعجم الصغیر للطبرانی ج۱ ص ۱۳۵ ط دار المنصر بمصر، ینابیع المودۃ للقندوزی الحنفی ص ۳۳ و ۴۰ و ۲۲۶ و ۳۵۵ ط الحیدریہ و ص ۳۰ و ۳۶ و ۱۹۱ و ۲۹۶ ط اسلامبول، تفسیر ابن کثیر ج ۴ ص ۱۱۳ ط مصر، عبقات الانوار ج ۱ من حدیث الثقلین ص ۲۵ ط آصفھان، کنز العمال ج ۱ س ۴۴ ح ۸۷۴ ط ۱ و ج ۱ ص ۱۵۴ ط ۲، الفتح الکبیر للنبھانی ج ۱ ص ۴۵۱ ط مصر، تفسیر الخازن ج ۱ ص ۴ ط مصر، مصبیح السنۃ للبگوی ج ۲ ص ۲۷۹ ط محمد علی صبیح و ص ۲۰۶ ط الخیریۃ، جامع الاصول لابن الاثیر ج ۱ ص ۱۸۷ ط مصر، مشکاۃ المصابیح للعمری ج ۳ ص ۲۵۸ ط دمشق۔ و فی لفظ ثالث عن زید بن ثابت قال: ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ انی تارک فیکم خلیفتین کتاب اللہ حبل ممدود ما بین السماء و الأرض أو ما بین السماء الی الأرض و عترتی أھل بیتی و أنھما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض۔‘‘ راجع: الفضائل لأحمد بن حنبل بترجمۃ الامام الحسین ص ۲۸ ح ۵۶۔ مسند احمد بن حنبل ج ۵ / ۱۸۲ و ۱۸۹ ط ۱، فرائد السمطین للحموینی ج ۲ / ۱۴۴ عن زید بن ثابت قال: قال النبی صلی اللہ علیہ و آلہ: ’’انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ عزّ و جل و عترتی أھل بیتی ألا و ھما الخلیفتان من بعدی و لن یفترقا حتی یردا علی الحوض‘‘۔ و عن ابی سعید الخدری ایضاً: ’’انی تارک فیکم الثقلین احدھما أکبر من الآخر کتاب اللہ حبل ممدود من السماء الی الارض و عترتی أھل بیتی و انھما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض‘‘۔ الفضائل لاحمد بن حنبل ص ۲۰ ح ۳۵ ترجمۃ الحسین و ح ۳۶۔ و یوجد ھذا الحدیث بالفاظ اخری متعددۃ و مصادر کثیرۃ جدا و لأجل المزید من الاطلاع راجع (سبیل النجاۃ فی تتمۃ المراجعات تحت رقم – ۳۰ و ۳۱ و ۳۲ و ۳۴ و ۳۵ و ۳۶ ط فی بغداد و بیروت مع المراجعات))

اس سند کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ اس میں خلیفہ کی تعبیر استعمال کی گئی ہے۔ رسول خدا ﷺ واضح طور سے فرما رہے ہیں کہ: میں اپنے دو خلیفہ تمہارے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں: اول؛ میری عترت اور اہل بیت اور دوسرا؛ قرآن کریم ہے۔ جبکہ دیگر کئی منقولات میں ’’انی تارک فیکم الثقلین‘‘ کی تعبیر وارد ہوئی ہے۔
    اگر اس حدیث پر منصفانہ اور علمی دقّت کے ساتھ نگاہ کی جائے تو یہ حدیث ائمہ معصومین علیہم السلام کی امامت پر دلالت کرتی ہے؛ چونکہ رسول خدا ﷺ نے واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’انی تارک فیکم خلیفتین‘‘ اس روایت کو ہم نے ایک علامت کے طور پر پیش کیا ہے؛ چونکہ اس حدیث میں بذات خود اہل بیت علیہم السلام سے کون افراد مراد ہیں اس کی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ مگر امامت، وصایت اور خلافت کو اہل بیتِ عصمت و طہارت میں محدود کر دیا گیا ہے اور اس حد تک کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
۲۔ پیغمبر اسلام ﷺ سے ابوذر (رض) کی روایت
    دوسری علامت؛ رسول خدا ﷺ سے مروی ابوذر غفاری (رض) کی روایت ہے اور اس روایت کو اہل سنّت کے بڑے اور مشہور افراد سے ایک ذھبی نے نقل کیا ہے:
’’قال رسول اللہ ﷺ علی و ذریّتہ یختمون الاوصیاء الی یوم القیامۃ‘‘
(محمد بن احمد بن عثمان، ذھبی، میزان الاعتدال فی نقد الرجال، ج ۲، ص ۲۷۲۔)

علی علیہ السلام اور علی علیہ السلام کی ذریّت قیامت کے دن تک اوصیاء کے سلسلہ کو اختتام پر پہنچائیں گے۔
    حقیقتِ امر یہ ہے کہ اس روایت سے زیادہ واضح اس بات کا بیان نہیں پایا جاتا کہ امامت اور خلافت کو امام علی علیہ السلام کی ذریّت میں قرار دیا گیا ہے۔
    جس وقت ذہبی اس حدیث کو نقل کرتا ہے، وہ حیرت کا شکار ہو جاتا ہے اور اس روایت کو کمزور قرار دینے کی کوشش کرتا ہے، تاکہ اس کو دلیل بننے کے قابل نہ رہنے دے؛ مگر اس حدیث کا مواد اس قدر واضح اور دقیق ہے کہ کسی بھی علمی لحاظ سے اس پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ اس روایت کی سند میں یہ کہہ کر شک ایجاد کرنے کی کوشش کرنا کہ: ’’فھذان دالان علی کذبہ و رفضہ، عفا اللہ عنہ‘‘ یہ تکنیکی لحاظ سے صحیح نہیں ہو سکتا اور یہ بغیر دلیل کے دعوے کی ایک قسم ہے؛ بلکہ یہ نشاندہی کرتا ہے کہ اہلبیت علیہم السلام کے فضائل نقل کرنے کے سبب راوی کو ضعیف قرار دیا جاتا تھا، اور اسی حربہ کو ابن جوزی نے اس روایت کو جھوتی ثابت کرنے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔
(عبد الرحمن بن علی، ابن جوزی القرشی، الموضوعات، ج ۱، ص ۳۷۷ (ھذا حدیث موضوع انفرد بہ الحسن بن محمد العنوی (الغنوی)۔ قال الحفاظ: کان رافضیا۔ و فیہ ابراھیم بن عبد اللہ۔ قال ابن حبان: کان یسرق الحدیث و یسویہ و یروی عن الثقاۃ ما لیس من احادیثھم و استحق الترک۔))
    اس روایت کی سند سے قطع نظر علامت کے حد تک یہ تکنیکی لحاظ سے مکمل ہے، جیسا کہ متواتر روایت میں بھی اہم بات قطع اور یقین کا حاصل ہونا ہے؛ اگرچہ خبر دینے والوں کے درمیان ممکن ہے کہ کوئی ایسا راوی ہو جس کی خبر قابل قبول نہ ہو؛ مگر اخبار اور شواہد کی کثرت اس حد تک ہونی چاہیئے کہ انسان کی عقل اس روایت کے خلافِ واقع ہونے کے متعلق ہر قسم کی الجھن اور امکان کی نفی کر دے۔
۳۔ امام معصوم علیہ السلام کی جانب سے امامت کا دعوی
    تیسری علامت؛ خود ائمہ موصومین علیہم السلام کی طرف سے امامت کا دعوی ہے۔ امام سجاد علیہ السلام صحیفہ سجادیہ میں اور دیگر ائمہ علیہم السلام کے کلام میں متعدد مقامات پر وصایت اور ولایت کا مسئلہ اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے حق کے غصب کئے جانے تذکرہ پایا جاتا ہے۔
(صحیفہ سجادیہ۔ دعای ۲۸ ’’ اللهم ان هذا المقام لخلفائک و اصفیآئک، و مواضع امنائک فی الدرجة الرفیعة التی اختصصتهم بها قد ابتزوها ‘‘
و اصول کافی، ج ۲، ص ۲۳

(عمرو بن حریث کی معتبر روایت میں راوی نے اپنے اعتقادات کو امام صادق علیہ السلام کے سامنے بیان کئے۔ راوی نے خدا، خاتم الانبیاء (ص) کی رسالت، معاد اور بعض فروع دین پر ایمان کے بعد امام صادق علیہ السلام تک ایک ایک امام کی امامت کا اعتراف کیا۔ آخر میں امام صادق علیہ السلام جواب میں فرماتے ہیں :
 یا عمرو، ھذا واللہ دین اللہ و دین آبائی الذی ادین اللہ بہ فی السر و العلانیۃ۔
اس ایمان کو امام صادق علیہ السلام نے دینِ خدا اور دینِ آبائے طاہرین علیہم السلام اور اپنا دین قرار دیا اور اس پر تاکید فرمائی)۔ و شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا (ع)، ج ۲، ص ۱۳۰
(اس خط میں جو امام رضا علیہ السلام نے مامون کو اس کی درخواست پر اسلام کی معرفت کے موضوع پر تحریر فرمایا تھا، اس میں آپ علیہ السلام نے اصول اور فروع کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ ان میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت کے موضوع میں ہر امام کے نام کا تذکرہ فرمایا ہے۔
 ’’و ان الدلیل بعدہ و الحجۃ علی المؤمنین و القائم بامر المسلمین و الناطق عن القرآن و العالم باحکامہ، اخوہ و خلیفتہ و وصیہ و ولیہ و الذی کان منہ بمنزلۃ ھارون من موسی علی بن ابی طالب علیہ السلام امیر المؤمنین و امام المتقین۔۔۔‘‘
 و صدوق، الامالی، ص ۴۲۰

(عبد العظیم حسنی کی امام ھادی علیہ السلام سے مروی حدیث میں تمام عقائدی اصول جن میں ایک ایک امام کا نام کے ساتھ تذکرہ کیا گیا ہے اور آپ علیہ السلام نے اس پر ایمان کے صحیح ہونے پر تاکید اور راوی کے لئے دعا فرمائی ہے۔
 ’’یا ابا القاسم، ھذا و اللہ دین اللہ الذی ارتضاہ لعبادہ، فاثبت علیہ اثبتک اللہ بالقول الثابت فی الحیاۃ الدنیا و فی الآخرۃ‘‘)
 و برقی، المحاسن، ج ۱، ص ۲۸۹

جنہوں نے معاذ بن مسلم کی روایت کو نقل کیا ہے)
 جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام اس بات کے دعویدار تھیں؛ یہ بات ہماری نگاہ میں یقینی طور سے ثابت شدہ ہے، اہل تحقیق خود اس موضوع پر تحقیق کر سکتے ہیں، علامت کی حد تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ کافی ہے۔ ائمہ معصومین علیہم السلام کے مقام کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام یا تو معین طور پر اور یا اہل بیت میں دیگر افراد کو ملاتے ہوئے، حدیث ثقلین کے مصداق ہیں، اس بنا پر جو افراد حدیث ثقلین کے مصداق ہو ممکن نہیں ہے کہ ان کا دعوی بےبنیاد ہو۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی عصمت کی بحث میں زیادہ نکات خاص طور سے ائمہ اہل بیت علیہ السلام کے دعوؤں کی قدر و قیمت کے سلسلہ میں نقل کئے گئے تھے، اس کی طرف رجوع کیا جائے تاکہ یہ بحث زیادہ مکمل ہو جائے۔
    جو چیز جو اس علامت کی اہمیت اور مقام کو بلند کر دیتی ہے وہ یہ نکتہ ہے کہ شیعوں کی جانب سے خصوصی طور سے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت کا دعوی کرنا اور خود ائمہ علیہم السلام سے بھی امامت کے دعوے کو نقل کرنا؛ یہ ایک حقیقت ہے یا حقیقت سے عاری کوئی چیز؟ اگر حقیقت ہے اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام یہ دعوی رکھتے تھے؛ تو یہ ممکن نہیں ہے کہ انصاف پسند مسلمان ان عظیم ہنستیوں کی شخصیت کی طرف توجہ کرتے ہوئے اور حدیث ثقلین کے معنی کو مدّ نظر رکھتے ہوئے، بھی یہ کہے کہ تمام ائمہ اہل بیت علیہم السلام جن میں سرفہرست امام علی علیہ السلام اور حضرت حسنین علیہما السلام ہیں، انہوں نے جھوٹا دعوی کیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ابتدائی دور کے شیعہ اپنی نقل شدہ بات میں سچے نہیں تھے؛ تو معاملہ اور مشکل ہو جائے گا۔ چونکہ اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ ان ہزاروں افراد نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا جبکہ وہ سب جھوٹ کے حرام ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ افراد جو آغاز اسلام کی ابتدائی دو صدیوں میں موجود تھے، جن میں کثیر تعداد میں متقی، علماء اور صالح و نیک لوگ موجود تھے۔ اس کے علاوہ ان ابتدائی دور کے شیعہ گروہوں کے علاوہ ان کی تائید میں اہل سنّت راوی بھی موجود تھے اور صحاح ستہ اور دیگر ذرائع میں بھی یہ حدیث نقل کی گئی تھی، کیا ان تمام کی طرف جھوٹ کی نسبت دی جائے گی۔
    طبسی بیش نے اپنی تالیف شدہ کتاب ’’رجال الشیعۃ فی اسانید السنہ‘‘ میں ایکسو چالیس سے زیادہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے اصحاب کی پہچان کروائی گئی ہے جن کی روایت صحاح ستہ میں موجود ہے، یہ تمام وہ راوی ہیں جن کو اہل سنّت کے علم رجال کے علماء نے قابل بھروسہ قرار دیا ہے۔ مؤلف محترم نے صحاح ستہ میں موجود شیعہ مذہب کے راویوں کی وضاحت کی ہے، اگر شیعہ مذہب کے ان راویوں کو شمار کیا جاتا جن کی اہل سنت کی دیگر حدیثوں کی کتابوں میں روایات موجود ہے اور اسی طرح سے ائمہ معصومین علیہم السلام سے حدیث نقل کرنے والے سنی مذہب کے ان راویوں کو جن کی شیعہ کتابوں میں روایات پائی جاتی ہے اور جن شیعہ روایوں اور ائمہ اہل بیت علیہم السلام پر اہل سنت کے اعتماد کیا ہے، تو مذکورہ تعداد میں اضافہ ہو جاتا اور یہ تعداد انتہائی زیادہ ہو جاتی ہے۔ اس بنا پر ان تمام کی طرف جھوٹ کی نسبت دینے کا مطلب اہل سنّت کی روایات کی بہت بڑی تعداد اور علم رجال کی کتابوں کو مشکوک قرار دینا ہے۔ نتیجۃً ضروری ہے کہ اس بات کو قبول کیا جائے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام امامت کا دعوی رکھتے تھے، اور ان ائمہ معصومین علیہم السلام کی تاریخی شخصیات اور ساتھ ہی حدیث ثقلین کو مدّ نظر رکھتے ہوئے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ علامت خود بھی ایک دلیل بن سکتی ہے۔
۳۔ امام علیہ السلام کی روبرو شیعوں کا دعوی
    چوتھی علامت؛ یہ ہے کہ شیعوں نے ائمہ علیہم السلام کے روبروں ائمہ علیہم السلام کی امامت کے اعتقاد کا دعوی اور اظہار کیا اور ائمہ علیہم السلام کو امام کہہ کر مخاطب کیا اور اپنے اعتقاد کو بالکل واضح کیا۔
(یہ بات شیعوں کے درمیان طے شدہ ہے اور چار روایات جو چند صفحات پہلے نقل کی گئی تھی، وہ اس مسئلہ کے ثبوت اور بنیاد کا ایک حصہ ہے)
 اگر شیعہ اپنے اس عمل میں اشتباہ کا شکار ہوتے؛ تو قطعی طور پر ائمہ اہل بیت علیہم السلام پیغمبر اکرم ﷺ کی یادگار ہونے اور ثقلین اور سفینۂ نوح (ع) جیسی احادیث کے عنوان ہونے کے سبب اس بات کی یاددہانی کراتے اور شیعوں کو اس انحراف سے باز رکھتے۔ مگر تاریخی شواہد واضح طور سے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ نہ فقط یہ کہ ائمہ علیہم السلام نے اس سے منع نہیں فرمایا اور مخالفت نہیں کی؛ بلکہ اس نظریہ کی وسعت اور پھیلاؤ کے لئے کثرت سے مشکلات اور تکالیف برداشت کی۔
۵۔ ینابیع المودہ کی روایات
    پانچوی علامت؛ بیان شدہ متعدد روایات اور احادیث ہیں جن میں اہل سنّت عالم صاحب ینابیع المودہ بھی شامل ہیں، ان روایات کے ایک حصہ کو آیت اللہ حکیم (رح)نے بھی بیان کیا ہے۔
( سید محمد سعید، حکیم، اصول العقیدۃ، از صص ۳۳۹ - ۳۴۵)
 اگرچہ صاحب ینابیع المودہ اہل سنّت کے علماءِ متأخرین میں سے ہیں؛ مگر انہوں نے ایسی احادیث نقل کی ہے کہ اگر یہ تمام احادیث سند کے لحاظ سے ثابت ہو جائے تو پھر کسی کو ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی امامت کے حوالے سے کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہیں رہے گا۔ ان روایات میں سے ایک یہ ہے کہ ابن عباس رسول خدا ﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ:
’’ان خلفائی و اوصیائی و حجج اللہ علی الخلق بعدی الاثنی العشر اولھم علی و آخرھم المھدی۔‘‘(سلیمان بن ابراھیم، قندوزی حنفی، ینابیع المودۃ، ج ۳، ص ۲۹۵)
میرے خلفاء اور اوصیاء اور مخلوقات پر خدا تعالی کی حجّتیں بارہ افراد ہیں، جن میں سب سے پہلا علی (ع) اور ان میں آخر میرے فرزند حضرت مہدی (سلام اللہ علیہ) ہیں۔
    البتہ علامات فقط ان چند باتوں کی حد تک محدود نہیں ہے، علامات اس کے علاوہ بھی موجود ہیں، جو ممکن ہے کہ ان میں سے ہر علامت کئی اہل تحقیق اور محققین کی جانب سے مستقل دلیل کے طور پر پیش کی گئی ہو۔
    اگر ان تمام علامات کو ایک دوسرے سے ملایا جائے تو آخر میں ممکن ہے کہ یہ ایک مستحکم اور یقینی دلیل قرار پائے اور عالم اسلام کی قیامت کے موضوع تک رسائی کے سلسلہ میں دیگر تمام اسلامی فرقوں کے اعتقادی اور فکری بنیادوں کے ساتھ شیعوں کے فکری اور اعتقادی اصولوں کا موازنہ کرنے سے شیعوں کی برتری ثابت ہو جاتی ہے۔
    ایک بہترین طریقہ جس سے اہل تحقیق مدد حاصل کر سکتے ہیں، یہ ہے کہ سب سے پہلے رسول خدا ﷺ کی قطعی احادیث جیسے حدیثِ ثقلین، سفینۂ نوح (ع)، غدیر، اثنا عشر خیفہ اور دیگر تمام احادیث جو اہل بیت علیہم السلام کی شان میں ہے، ان کے متعلق اہل سنّت دانشوروں اور علماء کے نظریات اور خیالات کی طرف رجوع کیا جائے اور اس کے بعد موازنہ اور تطبیق کی خاطر شیعہ دانشوروں اور علماء کے نظریات کی تحقیق کی جائے

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک