امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

علم عقائد میں امامیہ اور معتزلہ کا مکتبِ فکر

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

مشخصات ، قیمت و خرید کتاب علی صراط مستقیم (حسینی سید حسین) خادم الرضا علیه  السلام|فروشگاه کتاب قم

علم عقائد میں امامیہ اور معتزلہ کا مکتبِ فکر

مقدمہ

    جہاں تک تاریخ نشاندہی کرتی ہے، بنیادی سوالات کے اطمنان بخش جواب اور ان کا یقینی حل دریافت کرنا یہ ہر دور کے انسان کا اصلی مسئلہ رہا ہے۔ ایسے سوالات جن کا قابل قبول حل نہ مل سکے، یہ انسان کو اضطراب اور شدید اور حد سے زیادہ الجھن کا شکار بنا دیتے ہیں۔ ایسا علمی مواد جو بنیادی سوالات سے مربوط ہو، یہ انسانوں کے علمی امور کے مراکز کا سب سے قیمتی اثاثہ قرار پاتا ہے، اس ہدف میں شمولیت کی غرض سے مختلف مکاتبِ فکر اور صاحبان فکر و نظر میں سے ہر ایک نے اپنے توانائی کے مطابق اس میدان میں قلم اٹھائی اور کوشش و جدّ و جہد کی ہے، تاکہ انسان کو الجھن و اضطراب سے نجات دلا سکے۔ ان تمام صاحبانِ نظر کی باتوں میں پروردگار عالم کے انبیاء کے فرامین نمایاترین حیثیت و مقام رکھتے ہیں، اور ان تمام انبیاء علیہم السلام کے افکار کی کشش نے خاص طور سے پیغمبر اسلام ﷺ کے افکار نے حقیقت کی متلاشی بہت بڑی تعداد کو اپنے زیرِ اثر بنا دیا ہے۔
   

بنیادی سوالات جو تمام سوالات کی ماں شمار کئے جاتے ہیں؛ اور حقیقت میں ان ہی کے اندر سے تمام اخلاقی اور حقوقی نظام اور دیگر انسانی زندگی سے مربوط انتظامات ظاہر ہوتے ہیں اور ان ہی کی بنیاد پر یہ سب تشکیل پاتے ہیں۔ خواہشات، آرزوئیں، رجحانات، توانائیاں اور ان جیسی چیزیں اس کے دائرے میں شامل ہے، ضروری ہے کہ ان بنیادی سوالات کو زیر بحث لایا جائے۔ اس وقت تک جب تک کہ ان سوالات کا جواب حاصل نہ ہو جائے اور اچھے انداز سے ان کا حل نہ نکالا جائے اور اس کی بنیاد پر انسان کی زندگی کی رہنمائی نہ ہو جائے، ممکن نہیں ہے کہ عظیم انسانوں کا خواب پوری تاریخ کے دوران – یعنی انسان کے اپنے معاشرہ میں- حقیقت کی صورت اختیار کر سکے۔
    دوسری طرف یہ مسئلہ بھی واضح ہے کہ انسان قدرتی آفات جیسے سیلاب، زلزلہ، موزی بیماری یا لاعلاج امراض اور ان جیسی چیزیں، انسان کی اپنی طرف سے بنائی اور تشکیل شدہ ناماسب چیزوں کے مقابلہ میں کم نقصاندہ محسوس ہوتی ہے؛ انسان خود ہی اپنے جیسے انسانوں کے لئے مشکل ایجاد کرنے والا بن گیا ہے۔ اخلاقی اقدار کی پامالی، کائنانات کے خالق پر ایمان کا نہ ہونا، روحانیت کا بحران، بےفائدہ اور کم فائدہ مصروفیات، جہالت و تنگ نظری، ذاتی مفاد پرستی اور طاقتور بننے کی خواہش نے انسان کو ایسے جرائم اور اقدامات میں لگا دیا ہے جو ہرگز انسان کی شان سے مناسبت نہیں رکھتے اور ہر صحت مند ضمیر اس طرح کی ناگوار معاملات و آگاہی سے شرمندہ ہوتا ہے۔
    ایک آخری حل کے راستہ تک پہنچنے اور مذکورۂ بالا پریشانیوں کو ختم کرنے اور اس سے محفوظ ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے سامنے ایک جامع اور عمومی نظام ہو، عقلی بنیادوں کے علاوہ ایسا صحیح، اطمنان بخش اور انسان کے لئے قابل فہم نظام ہو جو نفاذ اور اجرا کے مرحلہ میں بامقصد انسانی زندگی کی بنیادوں سے متصادم نہ ہو اور ساتھ ہی انسانوں کے لئے ایک طرح تو سلامتی سے پُر انسانی حیات کے عطیہ کی مانند ہو اور دوسری طرح ایسی معقول آزادی اور مفید احترام کا حامل ہو جو تمام دینی تجاویز خاص طور سے اخلاق اور روحانیت کا محافظ بھی ہو۔ تازگی، شادابی، ارتقاء، امید، صلح اور محبت کی بخشش کرے۔
’’۔۔۔ وَ اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ كَذٰلِكَ يَضْرِبُ اللَّهُ الْاَمْثَالَ ‘‘
(سورہ رعد۔ آیت ۱۷ (۔۔۔ اور جو لوگوں کو فائدہ پہنچانے والا ہے وہ زمین میں باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثالیں بیان کرتا ہے))
    ہمارا اعتقاد ہے کہ اس طرح کا نظام و وسعت دین اسلام میں موجود ہے، اور اسلام اس قابل ہے کہ دورِ حاضر کی معرفت کی ضرورت اور عالمی افکار کا جواب فراہم کرے؛ اور دین کے فرامین اس دور کے انسانوں کے بنیادی سوالات کے اطمنان بخش اور جدید جوابات دے سکتے ہیں۔ اسلام کی قابل دفاع اور قوی اساس اور بنیادیں اور ان پر اور ان کی بنیادوں پر استوار نظام کا اتباع کیا جائے تو انسان کے تمام انفرادی اور اجتماعی اطراف و جوانب، میدانوں اور ذمہ داریوں میں قابل نجات حل حاصل ہو جائے گا۔ یہ ایسا جامع نظام ہے جو عقل و وحی کی دو پروں پر پرواز کرتے ہوئے انسان کی راہنمائی کی مکمل ذمہ داری قبول کرتا ہے اور اس بات کا دعویدار ہے کہ یہ نظام تمام اضطراب اور دہشت و وحشت سے نجات دلاتا ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو؟ چونکہ اس نظام کو اس پروردگار عالم نے تشکیل دیا ہے جو باحکمت، عادل، موجودات کا خالق ہے اور انسان کے وجود کے تمام پہلوؤں اور رازوں سے واقف ہے، کیا ممکن ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور ایسا نظام تکشیل دے سکے؟ خدا تعالی کا پسندیدہ اسلام خدا تعالی کی جانب سے تشکیل شدہ ہے اور جس دین کی وضاحت و تشریح رسول خدا ﷺ کے دو ثقل (قرآن و اہل بیت علیہم السلام) نے کی ہے، یہ نظام ایسے عقلی اصولوں اور انسانی تجربات سے ہم آہنگ ہے جو کائنات، انسان اور اس کے مستقل کے جدید سوالات اور دور حاضر کے مسائل کا عقلی راستہ سے جواب دینے پر بھی قادر ہے اور اپنے اصولوں سے جدائی اختیار کئے بغیر ترقی اور ارتقاء کی جانب راہنما بھی ہے۔
    مندرجہ بالا دعوؤں کو واضح کرنے کے لئے ممکن ہے کہ اجتہاد کی طرف اشارہ کیا جائے، چونکہ اجتہاد کا ہدف دینِ مقدسِ اسلام کے باطن سے مؤثر اور قابل عمل امور کو اخذ کرنا ہے۔ اس نظام کو تشکیل دینے والے نے اس کو اس قابل بنایا ہے کہ فقیہ اور ماہر جب دین اسلام کی ثابت اور متغیر اصولوں کی طرف رجوع کرتا ہے تو اس کے لئے ممکن ہو جاتا ہے کہ اس نظام سے نئے دور کے انسانوں کے تمام پہلوؤں اور تمام موضوعات پر مشتمل سوالات کے جوابات دے سکے، اور اس نظام کے جامع، کامل اور آخری ہونے کا عملی صورت میں نمونہ پیش کرے۔
    یہ کام ایک ایسا کام ہے جو ان افراد کے لئے ممکنہ راستہ فراہم کرتا ہے جو اس بات کی طرف رجحان رکھتے ہیں اور اس بات کے متلاشی ہے کہ خدائی مقاصد اور اہداف حاصل کرے اور ہدف کو فراموش نہ کرے بلکہ اس علمی سفر کے لئے متعین قوانین کی حدود میں رہتے ہوئے آگے بڑھے، اگرچہ یہ راہ سخت اور دشوار ہے؛ مگر رک جانا اور چھوڑ دینا یہ تو اس سے بھی زیاد مشکل کام ہے چونکہ اس کا نتیجہ دین سے کنارہ کشی ہے اہل دنیا کے سامنے اس دین کی معنویت و روحانیت کی اہانت کا باعث ہے۔
    موجودہ کتاب اسلامی عقائد کے ایک سلسلہ پر مشتمل ہے، جس میں عقاید امامیہ کو سرسری اور آسان انداز سے بحث و تحقیق کا موضوع قرار دیا گیا ہے۔ ان دروس کے مجموعے کی تحریر کا مقصد یہ ہے کہ عام افراد اس کتاب کے مواد سے بہرہ مند ہو سکے اور اس سے اچھے انداز سے استفادہ کر سکے۔ یہ کتاب علم کلام کی ابحاث کے وسیع مطالعہ کا خلاصہ ہے
(اس کتاب کے مواد اور مضمون تیار کرنے میں ہم عصر سے لے کر مرحوم علامہ حلی تک کے شیعہ علماء اور ان سے پہلے مرحوم شیخ طوسی، مرحوم سید مرتضیٰ، مرحوم شیخ مفید اور مرحوم شیخ صدوق کے علمی ورثہ کے مختلف حصوں سے فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ اسی طرح سے قرآن کریم کی آیات کے (فارسی) ترجمہ کے لئے ادب کی پاسداری کرتے ہوئے استاد فولادوند کے (فارسی) ترجمہ سے اسفادہ کیا گیا ہے۔ (اردو میں قرآن کی آیات کے ترجمہ میں مرحوم مولانا ذیشان حیدر جوادی صاحب کے ترجمہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔ ۔مترجم))
 جس کو شروع میں پچپن دروس میں تشکیل دے کر مؤسسہ امام حسین علیہ السلام سے مربوط ’’ امام حسین فانڈیشن اور المجتبی‘‘ کےیوٹیوب چینلز پرتمام تقریر، ویڈیوز کی صورت میں نشر کیا گیا تھا اور بعد میں بعض طالب علم دوستوں کے مشورے سے اس کو تحریری صورت دی گئی، تاکہ ایک کتاب کی صورت میں اشاعت ہو اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کے دوستوں تک پہنچ سکے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ کتاب کے مواد میں اور ریکارڈ کئے گئے دورس میں فرق پایا جاتا ہے۔ یہ فرق امامت سے مربوط ابحاث میں اور کتاب کے پہلے حصہ میں زیادہ ہے چونکہ بعض باتوں کا اضافہ کیا گیا ہے۔
    یہ کتاب قدیم اور پرانے عقائدی مسائل کے متعلق مواد پر مشتمل ہے اور اس دائرے میں پوچھے گئے سوالات کا کتاب کی وسعت اور سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے جواب دیئے گئے ہیں۔

البتہ اس بات کی یاددہانی ضروری ہے کہ بعض مقامات پر اصلی اعتراض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بعض مقامات پر اصلی عبارت اس طرح سے ہے کہ محترم قاری کے لئے اس پر غور کرنے سے خود ہی ان اعتراضات کا جواب نکالنا ممکن ہو جاتا ہے۔
    علم کلام کے جدید مسائل یا نئی باتیں، باوجود اس کے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے، اس کتاب میں مد نظر نہیں رکھی گئی ہے، امید ہے کہ خدا سبحانہ کے لطف سے ان مسائل میں بھی تحقیق کرنے اور ان کو تشکیل دینے کی توفیق نصیب ہوگی۔
    اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ چونکہ اسلامی عقائدی مکاتب فکر کی ابحاث کے درمیان تین عقائدی مکاتب فکر امامیہ، معتزلہ اور اشاعرہ کا تذکرہ بڑے پیمانہ پر موجود ہے اور اس کتاب کے زیادہ تر ابحاث میں اپنا رنگ دیکھاتے ہے، اس لئے ضروری ہے کہ انتہائی عمومی جائزہ کے طور پر عقائد کے متعلق ان تینوں مکاتبِ فکر کا معنی اور تعریف بیان کر دی جائے۔

 

علم عقائد میں امامیہ کا مکتبِ فکر
    لفظِ امامیہ ’’امام‘‘ سے لیا گیا ہے، جس کا لغوی معنی پیشوا اور رہبر کے ہے۔ یعنی ایسا شخص جس کی باتوں کی پیروی کی جائے۔ امام کے لفظ کی جمع ’’ائمہ‘‘ ہے۔ امام کے لفظ کے آخر میں ’’یاء‘‘ نسبت کے لئے ہے یعنی وہ جو امام سے منسوب ہو۔
    اس بات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے کہ امامیہ کے لفظ کو ’’فرقہ‘‘ کے لئے صفت قرار دیا جاتا ہے، اس لئے اس لفظ کو مؤنث بنایا جاتا ہے اس وجہ سے صفت اور موصوف دونوں ’’فرقۃ امامیۃ ‘‘ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ فرقۂ امامیہ سے مراد ایسا گروہ جو پیغمبر اسلام ﷺ کی رحلت کے بعد ’’ایسے امام کا پیروکار ہو جس رسول اللہ ﷺ کی جانب سے متعین کیا گیا ہو‘‘۔
(محمد بن نعمان، مفید۔ (شیخ مفید)، اوائل المقالات، ص ۴۰ اور محمد حسین کاشف الغطاء، أصل الشیعۃ و اصولھا، ص ۲۱۲ اور محمد بن عبد الکریم شھرستانی، الملل و النحل؛ ج ۱؛ ص ۱۴۶ (یجمعھم القول بوجوب التعیین و التنصیص۔۔۔))
    مکتبِ امامیہ کے عقائد میں خصوصی اور نمایا ترین عقیدہ یہ ہے کہ امام کا تعین خدا تعالی کی طرف سے ہوتا ہے، جس کی بنیاد حقیقت میں قرآن کریم کی آیات اور اسلامی روایات میں پائی جاتی ہے، جن میں غدیر اور ثقلین کی دو حدیث شریف بھی شامل ہے۔
(محمد حسین کاشف الغاء، اسی کتاب کے س ۲۱۱۔ ’’و لکن الشیعۃ الامامیۃ زادوا رکنا خامسا و ھو : الاعتقاد بالامامۃ یعنی ان یعتقد : ان الامامۃ منصب اِلھی کانبوۃ۔ فکما ان اللہ سبحانہ یختار من یشاء من عبادہ للنبوۃ و الرسالۃ، و یؤیدہ بالمعجزۃ التی ھی کنص من اللہ علیہ ’’و ربّک یخلق ما یشاء و یختار ما کان لھم الخیرۃ، قصص / ۶۸‘‘ فکذلک یختار للامامۃ من یشاء۔ و یأمر نبیہ بالنص علیہ، و ان ینصبہ اِماما للناس من بعدہ للقیام بالوظائف التی کان علی النبی ان یقوم بھا، سوی ان الامام لا یوحی الیہ کانبی و انما یتلقی الأحکام منہ مع تسدید الھی۔ فالنبی مبلغ عن اللہ و الامام مبلغ عن النبی)
امامیہ تین اصول توحید، نبوت اور معاد جو کہ تمام اسلامی فرقوں کے درمیان مشترک ہے اور دو اور اصول یعنی عدل اور امامت کا مخصوص تفسیر کے ساتھ اعتقاد رکھتے ہیں۔ ان اصول کو بعض دیگر ابحاث کے ساتھ اس کتاب کی عملی ابحاث میں پیش کیا جائے گا۔

علم عقائد میں معتزلہ کا مکتبِ فکر
    معتزلہ اہم علم کلام کا ایک اہم بہاؤ ہے جو پہلی صدی ہجری کے قریب اہل سنت کے درمیان وجود میں آیا تھا۔ یہ بہاؤ اہل حدیث کے مکتبِ فکر کے برخلاف تھا، جو اپنی توجہ کو فقط پیغمبر ﷺ اور صحابہ کی احادیث کی حد تک محدود کئے ہوئے تھے،
یہ عقل کے استعمال کو اہمیت دیتے ہیں اور علم کلام کے مسائل کے حل میں عقلی اسلحہ سے مدد لیتے ہیں۔ کبھی اس میں افراط کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کے تحت فلسفیوں کے نظریات کو دین کے ساتھ مخلوط کر دیتے ہیں۔ معتزلہ فرقہ کا بانی ابو حذیفہ واصل بن عطا غزالی تھا جو حسن بصری کا شاگرد تھا۔ وہ سن ۲۱ ہجری قمری میں مدینہ میں پیدا ہوا اور سن ۱۱۰ ہجری قمری میں انتقال کر گیا۔ واصل بن عطا کا نمایا ترین عقیدہ جس کا وہ معتقد تھا یہ تھا کہ ہر شخص اپنے اعمال اور افعال کا ذمہ دار ہے اور خداوند متعال نے بندوں کے امور خود ان کے حوالے کئے ہے۔ اس مکتبِ فکر کے متعزلہ نام پڑنے کی وجہ یہ تھی کہ واصل بن عطا نے حسن بصری کے حلقۂ درس کو ترک کر دیا تھا خود اپنے نئے حلقۂ درس کا آغاز اپنے اعتقادات کی بنیاد پر تشکیل دیا تھا اور اس وجہ سے علم عقائد کے اس مکتبِ فکر کا فرقۂ معتزلہ نام پڑ گیا۔
(معرزلہ Wikipedia.org/wiki/fa، اور محمد بن عبد الکریم شھرستانی، الملل و النحل، ج ۱، ص ۴۳ سے ص ۸)


معتزلہ کے اصول
    الف: توحید کا مطلب ذات اور صفات میں کثرت کا نہ ہونا (توحید صفاتی)
    ب: عدل، یعنی خدا سبحانہ عادل ہے، ظلم نہیں کرتا۔
    ج: وعد و وعید، یعنی اطاعت گذاروں کے لئے ثواب کا وعدہ اور یقینی گناہگاروں کے لئے بدلہ اور اس کی خلاف ورزی ناممکن ہے۔ اور صرف توبہ راہِ نجات ہے۔
    د: دو مراتب کے درمیان کا مرتبہ: فاسق شخص نہ تو مؤمن ہے اور نہ ہی کافر۔
    ہ: امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ معتزلہ کے نظریات کی بنیاد پر بعض اچھے اور برے کاموں کی پہچان عقل کے ذریعے ہوتی ہے اور ان دونوں فرائض کی انجام دہی کے لئے امام کے وجود اور ان کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
( مرتضی، مطہری، مجموعہ آثار، ج ۳، ص ۶۸، اور محمد بن عبد الکریم شھرساتانی، ایضاً، ص ۴۳ سے ص ۸۵۔)


علم عقائد میں اشاعرہ کا مکتب فکر
    اشاعرہ کا لفظ ابو الحسن علی بن اسماعیل اشعری کے علم کلام کے مکتب کے پیروکار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اشاعرہ کو عمومی معنی میں سنت کی پابندی کرنے والے یا اہل سنت و جماعت کہا جاتا ہے۔ یہ بہاؤ چونکہ یہ خود کو عقل کا سہارا لینے والے معتزلی فرقہ کے خلاف قرار دیتے تھے، اس لئے ظواہر (یعنی قرآن و سنت) پر تاکید کرتے تھے اور حقیقت میں منقولہ باتوں کو عقل پر ترجیح دیتے تھے۔ تیسری صدی کے اواخر اور چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں ابو الحسن اشعری جو ایک طویل عرصہ تک قاضی عبد الجبار سے مربوط تھا، اس نے معتزلہ مذہب کو چھوڑ دیا اور خود صاحبِ نظر بن گیا اور معتزلہ کے مکتبِ فکر سے جدائی اختیار کر کے سنت کے پیروکاروں سے متصل ہو گیا اور اہل حدیث کے مکتب فکر کو بہت بڑی مدد فراہم کی اور تقریباً سن ۳۳۰ میں دنیا سے گذر گیا۔
    ابو الحسن اشعری – اہل حدیث کے متقدمین جیسے احمد بن حنبل وغیرہ کے برخلاف – اصول دین میں منطق اور استدلال کے استعمال کو جائز سمجھتا تھا اور قرآن اور سنت سے بطور دلیل استفادہ کرتا تھا، اس کی مشہور تالیفات میں سے ایک ’’رسالۃ فی استحسان الخوض فی علم الکلام‘‘ ہے۔ اہل حدیث کے مکتبِ فکر میں اس نئے خیالات کے داخل ہونے کے سبب یہ فرقہ دو حصوں میں: اشاعرہ (جو ابو الحسن اشعری کے پیروکار ہیں) اور حنابلہ (جو احمد بن حنبل کے پیروکار ہیں) میں تقسیم ہو گیا، جس میں پہلا فرقہ دلیل و استدلال کو جائز اور دوسرا اس کو حرام سمجھتا تھا۔
(مرتضی، مطہری، مجموعہ آثار، ج ۳، ص ۶۸، اور محمد بن عبد الکریم شھرساتانی ص ۸۷۔ اور ایضاً، ص ۹۲ سے ص ۱۰۳ اور اشعری Wikipedia.org/wiki/fa)


اشاعرہ کے اصول
    اشاعرہ کے اصول اور جداگانہ باتوں کی فہرست میں بہت زیادہ مسائل نظر آتے ہیں، جو امامیہ اور معتزلہ سے فرق رکھتے ہیں، بحث کو طولانی ہونے سے بچانے کے لئے ان میں سے فقط بعض مسائل کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے:
    الف: توحید صفاتی کا انکار۔
    ب: تمام واقعات میں قضا و قدر کی عمومیت۔ اس اصول نے دیگر چند اصولوں کو بھی ایجاد کیا ہے۔
    ج: اچھائیوں کی طرح سے برائیاں بھی خدا کی طرف سے ہے۔
    ہ: انسان اپنے کاموں میں خود مختار نہیں ہے۔ ’’ج‘‘ اور ’’د‘‘ کے اصول یہ دوسری اصل کا لازمہ ہیں۔
    و: قیامت کے دن خدا تعالی آنکھوں سے دکھائی دیگا۔
    ز: فاسق مسلمان میں شمار ہوتا ہے۔
    ح: خدا تعالی کی جانب سے تکلیف ما لا یطاق (ناممکن کام کی ذمہ داری) میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وغیرہ۔۔۔
(مرتضی، مطھری، مجموعہ آثار، ج۳، ص ۸۸ و ۸۹ اور :محمد بن عبد الکریم شھرستانی، الملل و النحل، ج۱، ص ۹۲ تا ص ۱۰۳)
    جو کچھ پیش کیا گیا یہ مذکورۂ بالا علم کلام کے مکاتب فکر پر ایک سرسری نگاہ تھی، ان میں سے ہر ایک کے فکری اور وجودی پہلوؤں، تطبیق اور دقیق موازنہ، ان کے قائم کئے جانے کے اسباب و وجوہات اور تاریخ اور اس طرح کی دیگر ابحاث ہماری اس تحریر کے موضوع سے خارج ہے۔ اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ مکتبِ اہل بیت علیہم السلام کی بنیاد اور ناقابل تسخیر اصول کے تحت ادب اور انصاف کی پابندی لازمی ہے، اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ تمام اسلامی فرقوں کے ادب و احترام کو انتہائی حد تک محفوظ رکھا جائے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک