امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اسلام کی نگاہ میں انسان اور موجودات

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

درس سوم
اسلام کی نگاہ میں انسان اور موجودات
آخری درس میں اسلام کی نگاہ میں انسان اور موجودات کے بارے میں کچھ عمومی باتیں بیان کی جائے گی۔ انسان اور موجودات سے مربوط قرآن اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات اور اسلامی نقطۂ نظر سے حاصل شدہ عمومی اصول کے متعلق باتوں کو دو حصوں میں پیش کیا جا سکتا ہے۔
۱۔ اسلام میں انسان کا مقام
    اس حصہ میں، اسلام کی نگاہ انسان کی طرف مرکوز ہے کہ اسلام میں انسان کو کیا مقام حاصل ہے؟ انسان اس دکھائی دینے والی کائنات میں ایک ایسا وجود ہے جو جسم اور روح سے مرکب ہے۔ اگر انسان کا جسم مرنے کے بعد بکھر جائے اور ختم ہو جائے، تو انسان کی روح اسی طرح سے اپنی حیات کو آگے بڑھاتی ہے اور ہمیشہ کے لئے باقی رہتی ہے۔
( اس بارےمیں خصوصی بحث اسی کتاب کے چھیالیسویں درس میں معاد سے مربوط حصہ میں بیان کی جائےگی۔ (روح کے عقیدے کی بنیاد پر معاد کی تفسیر یہ اسلامی دانشوروں اور علماء کے ایک جماعت کی روش ہے۔) رجوع کریں)
قرآن کریم میں اس موضوع کو واضح اور آشکار کرنے کے لئے متعدد آیات موجود ہیں جن کو معاد کے حصہ میں بیان کیا جائے گا۔
    اس مقام ایک نمونہ کو ذکر کرنا مناسب محسوس ہوتا ہے کہ:
لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚكَلَّا ۚإِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖوَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴿١٠٠﴾
سورہ مؤمنون
(شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں . ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے)
    اس آیتِ شریفہ میں بیان کیا جا رہا ہے کہ انسان مرنے کے بعدظاہری اعتبار سے تو چلا جاتا ہے؛ مگر موت کا مطلب فنا ہو جانا نہیں ہے اور انسان کی روح عالم بزرخ میں اپنی زندگی کو جاری رکھتی ہے اور قیامت کے دن دوبارہ مبعوث ہوگی۔
۱۔ فطرتِ توحیدی
    اسلامی نقطۂ نظر میں انسان سے مربوط سب سے پہلی بات جو پیش کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ انسان پاک اور توحیدی فطرت کے ساتھ خلق کیا گیا ہے۔ اگر عوامل خارجی اور اطرافی ماحول کے اثرات اور شیطانی وسوسے اثر انداز نہ ہو تو انسان ہمیشہ حقیقت کو جاننے کا خواہاں اور ایک حق کو مدّ نظر رکھنے والا وجود ہے۔ اگر اپنی فطرت کے مطابق اس کی تربیت ہو جائے تو وہ ایک توحید پرست اور خدا پرست وجود بن جاتا ہے اور اخلاقی پستیوں اور اجتماعی بدبختیوں سے دور کنارہ کش ہوتا ہے۔ اس نکتہ کا قرآن کریم کی آیات سے بھی استفادہ ہوتا ہے۔ پروردگار عالم ارشاد فرماتا ہے:
    
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ‎﴿٣٠﴾‏
سورہ روم،
آپ اپنے رخ کو دین کی طرف رکھیں اور باطل سے کنارہ کش رہیں کہ یہ دین وہ فطرت الہیۤ ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الہٰی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے یقینا یہی سیدھا اور مستحکم دین ہے مگر لوگوں کی اکثریت اس بات سے بالکل بے خبر ہے۔
    اس آیت ِ شریفہ سے یہ بات معلوت ہوتی ہے کہ انسان کی فطرت حق کی خواہاں اور حقیقت کی طالب ہے، اگر اطراف کے عوامل اثر انداز نہ ہو اور شیطانی وسوسے اس سے دور رہے اور فطری طریقے سے اس کی پرورش ہو تو انسان ایک ایسا وجود ہے جو کمال کا خواہش مند ہے۔
۲۔ انسان کا با اختیار ہونا
    اسلامی نقطہ نظر میں دوسرا اصول جو پیش کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان کو انتخاب اور اختیار کا حق حاصل ہے اور یہ نکتہ بھی اسلامی نقطہ نظر سے طے شدہ باتوں میں سے ہے۔
    خدا سبحانہ سورۂ انسان میں فرماتا ہے:
وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ‎﴿٣٠﴾‏
سورہ انسان۔
یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہوجائے یا کفران نعمت کرنے والا بن جائے۔ شکر گذار انسان راہ راست اور رشد و کامیابی کے راستہ کی طرف آگے بڑھتا ہے اور پروردگار عالم کی نعمتوں کا احترام کرتا ہے اور ان نعمتوں سے درست طریقے سے استفادہ کرتا ہے اور اپنی عمر کو ایک انتہائی قیمتی سرمایہ سمجھ کر اس کا خیال رکھتا ہے اور اپنی روحانی اور جسمانی طاقت کو انسان کی انفرادی اور معاشرتی و اجتماعی اقدار کی ترقی، وسعت او ربلندی میں صرف کرتا ہے، مگر ناشکرہ انسان خدائی نعمتوں کو ضائع کر دیتاہے اور ان کو نامناسب اور غلط جگہوں پر خرچ کر دیتا ہے۔
    قرآن کریم نے جس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ انسان ایک خودمختار وجود ہے جو اپنے اختیار کے ساتھ ارادہ کرتے ہوئے صحیح اعتقاد تک پہنچتا ہے اور اخلاقی اقدار کو قائم کرتا ہے اور انسانیت کے کمال کی طرف آگے بڑھتا ہے۔
۳۔ انسان کی ذمہ داری
    تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بااختیار انسان، خدا کے حضور اپنی ذات، دوسروں اور فطرت کے بارے میں بھی جوابدہ ہے۔ اپنی انسانیت اور ضمیر کے سامنے، پروردگار عالم، انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے سامنے، تاریخ، معاشرہ اور تمام انسانوں کے سامنے جوابدہ ہے۔
    پروردگار عالم نے قرآن کریم میں انفرادی اور اجتماعی وعدوں کی پاسداری کے سلسلہ میں سورۂ اسرا میں فرمایا ہے:
    ’’۔۔۔وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا ‎﴿٣٤﴾‏
سورہ اسراء
۔۔۔اور اپنے عہدوں کو پورا کرنا کہ عُہد کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
 انسان پر اپنے اعضاء اور جوارح کے بارے میں جو ذمہ داری ہے اس کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:
‏ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا ‎﴿٣٦﴾‏
سورہ اسراء، آیت۳۶۔
اور جس چیز کا تمہیں علم نہیں ہے اس کے پیچھے مت جانا کہ روزِ قیامت سماعت، بصارت اور قواُ قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
    عالم آخرت میں کی جانے والے سوالات کے سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:
 وَقِفُوهُمْ ۖ إِنَّهُم مَّسْئُولُونَ ‎﴿٢٤﴾‏
سورہ صافات
اور ذرا ان کو ٹہراؤ کہ ابھی ان سے کچھ سوال کیا جائے گا
    ہر سوال کا لازمہ یہ ہے کہ سوال کا حق موجود ہے اور سوال کرنے کا حق وہاں پر ہوتا ہے جہاں پر دوسری طرف والا جواب دہ ہو۔ اس بنا پر اسلامی نقطۂ نظر میں انسان ایک ایسا جوابدہ وجود ہے جس کو سوال اور بازپرس کے مقام پر رکھا گیا ہے اور اس کو پوچھے جانے والے سوالات کےجوابات دینا ضروری ہوگا۔
۴۔ انسانوں کے درمیان مساوات
    اسلام کی نقطۂ نظر کے متعلق ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ایک انسان دوسرے انسان پر روحانی اور حاصل شدہ کمالات کے علاوہ دیگر کسی چیز میں کوئی فوقیت نہیں رکھتا اور خلقت کے موقع پر تمام انسانوں کو ایک جیسا ہی نگاہ میں رکھ کر خلق کیا گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام سے منسوب ایک حدیث میں ہے کہ آپ (ع) نے ارشاد فرمایا:
    ’’اَلنَّاسُ سَوَاءٌ كَأَسْنَانِ اَلْمُشْطِ ۔۔۔‘‘
(محمد باقر،مجلسی؛(علامہ مجلسی)،بحارالانوار،ج ۷۵،باب23، ص251)
انسان کندھے کے دونوں طرف کی طرح سے برابر ہیں اور ان میں کسی کو دوسری پر کسی طرح کا کوئی امتیاز حاصل نہیں ہے۔۔۔
    اس بنا پر قومی وابستگی، پیشہ ورنہ عہدوں،جسمانی اور ظاہری خوبصورتی، سرمایہ اور مالی وسائل کی موجودگی کسی بھی لحاظ سے انسان کے لئے کمال اور فوقیت کا باعث نہیں ہے۔ اسلام میں روح کے حصہ کو ایک دوسرے معیار کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے جو حقیقی، واقعی اور حاصل شدہ معیار رکھتا ہے۔ پروردگار عالم سورۂ حجرات میں ارشاد فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ‎﴿١٣﴾‏
سورہ حجرات
انسانو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دیئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پہچان سکو بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگارہے اور اللہ ہر شے کا جاننے والا اور ہر بات سے باخبر ہے)
    قرآن کریم نے ظاہری تفاوت جو رنگ اور کھالوغیرہ کا پایا جاتا ہے اس کو افراد کی ظاہر ی تشخیص کا بالکل ذریعہ شمار نہیں کیا ہے۔ خدا سبحانہ کے نزدیک انسانوں میں سب سے زیادہ عزیز اور سب سے زیادہ باقیمت وہ انسان ہے جو باتقوی ہو۔ یہی وہ فرق ہے جو تمام جہتوں اور تمام پہلوں میں بنیادی حثیت رکھتا ہے؛ سیاسی تقوی، اقتصادی تقوی، اعتقادی تقوی وغیرہ۔
۵۔ اعمال کی سزا و جزا
    پیش کرنے کے قابل ایک اور اصول یہ بھی ہے کہ انسان کے تمام اعمال چاہے وہ ذرّہ کے برابر ہی کیوں نہ ہو اس کا حساب و کتاب ہوگا اور انسان کے اعمال کے عوض اس کو سزا و جزا دی جائےگی۔ انسان اپنے اعمال کا خود عالم آخرت میں بھی جوابدہ ہے اور اسی طرح سے اس دنیا میں بھی ممکن ہے کہ اس کے اعمال کے اچھے یابرے نتائج سے وہ متأثر ہو۔ اس بات کو قرآن کریم میں بالکل واضح طور سے بیان کیا گیا ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ‎﴿٩٦﴾‏    
(سورہ اعراف، آیت ۹۶۔)
اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوٰی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔
اس موضوع سے مربوط دیگر آیات بھی سورہ نوح میں بیان کی گئی ہے:
 فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ‎﴿١٠﴾‏ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُم مِّدْرَارًا ‎﴿١١﴾‏ وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَل لَّكُمْ أَنْهَارًا ‎﴿١٢﴾‏
’’فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ، اِنَّہٗ كَانَ غَفَّارًا، يُّرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا، وَّيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ جَنّٰتٍ وَّ يَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْہٰرًا ‘‘(سورہ نوح، آیات : ۱۲ - ۱۰)

اور کہا کہ اپنے پروردگار سے استغفار کرو کہ وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے، وہ تم پر موسلا دھار پانی برسائے گا، اور اموال و اولاد کے ذریعہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات اور نہریں قرار دے گا ۔
    قرآن کریم کی ان تمام آیات سے اس بات کا استفادہ ہوتا ہے کہ انسان کے اعمال اور افعال یہاں تک کہ انفرادی اور اجتماعی قسمت میں اس کی باطنی نیتیں بھی اثر انداز ہوتی ہے۔
۶۔ انسان کا روشن مستقبل
    اسلام کی نگاہ میں، انسان کا مستقبل روشن ہے۔ اگر اب تک انسان کی تاریخ تلخ تھی اور انسان کے لائق نہ تھی؛ مگر مستقبل میں درخشاں ہے اور اسلام نے اس بات کی نوید سنا دی ہے کہ ایک دن انسان کی زندگی روشن ہو جائے گی اور زندگی عدل اور مساوات کی بنیاد پر تشکیل پائے گی اور معاملات کی گرفت صالح و نیک لوگوں کے ہاتھ میں آ جائے گی۔ پروردگار عالم سورہ انبیاء میں ارشاد فرماتا ہے:
وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ ‎﴿١٠٥﴾‏
(سورۂ انبیاء،
اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔
    یعنی زبور میں تورات کے بعد ہم نے یہ لکھ دیا تھا کہ اس زمین کے وارث وہ لوگ ہوں گے جو نیک اور لائق ہیں۔
۷۔ انسان کی عظمت
    اسلام کی نگاہ میں انسان کے بارے میں ایک اور نکتہ پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان ایک باعظمت وجود ہے۔ پروردگار عالم سورۂ اسراء میں اس طرح سے ارشاد فرماتا ہے:
 وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا ‎﴿٧٠﴾‏
(سورہ اسراء
اور ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انہیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے اور انہیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔
    انسان کی دی گئی عظمت اور قدر قیمت کو مدّ نظر رکھتے ہوئے انسان کو نہ تو ظالم بننا چاہیئے اور نہ ہی مظلوم۔ اس سلسلہ میں کافی باتیں بیان کرنے کے قابل ہے مگر اس درس میں ان کو بیان کرنے کا موقع نہیں ہے۔
۸۔ انسان کی آزادی
    ایک دوسرا اہم اصول یہ ہے کہ انسان آزاد خلق ہوا ہے اور کسی بھی عنوان سے اس سے اس کی آزادی کو سلب نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ کہ اس کی آزادی انسانی کی معنوی و روحانی بلندی سے متصادم ہو اور یا اس کی آزادی دیگر لوگوں کے لئے ضرر اور نقصان کا باعث بن رہی ہو۔ انسان کی آزادی اس کی انفرادی اور اجتماعی افکار کے میدان میں گردش کرتی ہے اور اس کے وجود کے تمام زاویوں میں حاوی ہے۔

ب۔ دین اسلام میں موجودات کا مقام
دین اسلام میں انسان کے مقام کے متعلق بحث کرنے کے بعد، اجمالی طور سے چند باتیں اسلام کی نگاہ میں موجوادت کے سلسلہ میں بھی پیش کی جاتی ہے۔
۱۔ اللہ کے علاوہ جو کچھ ہے وہ سب اس کی مخلوق ہے
    پہلی بات موجودات کے بارے میں یہ ہے کہ اللہ کے سواء جو کچھ ہے وہ سب اسی پروردگار عالم کی مخلوق ہے۔ عالم اپنے وجود کے آغاز کے لئے بھی اور اپنے وجود کے تسلسل کا باقی رکھنے کے سلسلہ میں بھی ہر لمحہ پروردگار عالم کی ذات کا محتاج ہے اور کسی بھی لمحہ وہ پروردگار عالم کے فیض سے بےنیاز نہ تھا اور ہر لمحہ وہ پروردگار عالم کے ارادے اور فیض سے بہرمند ہو رہا ہے۔
۲۔ عالم کے لئے فنا ہے
    دوسری بات جو پیش کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نقطہ نظر سے عالم ہمیشہ سے نہیں تھا اور موجودات کا تمام نظام اپنی محدود عمر رکھتا ہے اور ایک دن آئے گا جب تمام چیزیں جن میں آسمان اور زمین بھی شامل ہے سب ختم ہو جائیں گے اور یہ اس وقت ہوگا جب قیامت بپا ہوگی۔ پروردگار عالم سورہ ابراہیم میں ارشاد فرماتا ہے:
يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ ۖ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ‎﴿٤٨﴾‏
سورہ ابراہیم
اس دن جب زمین دوسری زمین میں تبدیل ہوجائے گی اور آسمان بھی بدل دیئے جائیں گے اور سب خدائے واحد و قہار کے سامنے پیش ہوں گے۔
    دوسرے الفاظ میں؛ ایک دن زمین اور آسمان ختم ہو جائیں گے، سورج اپنی موجودہ حالت میں باقی نہیں رے گا اور نہ ہی چاند اپنی موجودہ حالت میں برقرار رہے گا، تمام موجودہ نظام ماضی کا قصہ بن جائیں گے اور موجودات پر ایک جدید نظام کی حکمرانی ہوگی۔
۳۔ موجودات، فطرتِ مادّی کے مساوی نہیں ہے
    دوسرا صول یہ ہے کہ ہر وجود فطرتِ مادّی سے مساوی نہیں ہے۔ یہ تصوّر خطا پر مشتمل ہے کہ جو چیز مادّی حواس سے محسوس کی جا سکے فقط وہی چیزیں وجود رکھتی ہیں اور ہر وہ چیز جس کو حواس درک نہ کر سکے وہ وجود نہیں رکھتی۔ اسلامی نقطہ نظر سے کئی موجودات ایسے ہیں جیسے فرشتے، جن وغیرہ جو وجود رکھتے ہیں اور ان میں سے بعض جیسے فرشتے فیض الہی کا ذریعہ ہے مگر ظاہری حواس سے وہ دکھائی نہیں دیتے اور محسوس ہونے سے آزاد ہے۔
    بالفاظ دیگر

حقیقی اور واقعی موجودات ہو سکتاہے کہ ایسے ہو جو حِسْ کے ذریعے محسوس کئےجائے؛ اور یا صرف عقل کے ذریعے سے ان کو درک کیا جا سکے اور اسی طرح سے یہ موجودات ممکن ہے کہ جانے پہچانے ہو اور ممکن ہے کہ جانے پہچانے نہ ہو بلکہ رائج کے انسانی حقائق سے مختلف ہو۔
(مزید معلومات کےلئے رجوع کریں : مرتضیٰ، مطہری، اصول فلسفہ و روش رثالیم، ص ۱۳۹-۲۳۴، محمد تقی، مصباح یزدی، آموزش فلسفہ، ج ۱، بخش دوم کتاب)
یہ ایک ایسا دائرہ کار ہے کہ بہت سارے دینی مسائل اور قرآنی اطلاعات جیسے فرشتوں کو وجود، انبیاء علیہم السلام کا علم غیب اور ان کے معجزات، آخرت کے عالم کا وجود، امام زمانہ (عج) اور امامت سے مربوط امور جیسے امام زمانہ (عج) کی طویل عمر اور کم عمری میں امامت کے منصب پر فائر ہونا وغیر مسائل اسی دائرہ کار میں حل ہوتے ہیں۔ ان اصولوں کو تسلیم و قبول کرنا دیگر کئی دینی معلومات کو قبول کرنے اور ان پر ثابت قدم رہنے اور استحکامت کا مظاہر کرنے میں بہت زیادہ کردار ادا کرتا ہے؛ ممکن ہے کہ ایک دینی مسئلہ مستند امور اور دلائل کی بنیاد پر کسی کے لئے باعثِ اطمنان ہو، اور علمی اصطلاح میں مقتضی موجود ہو اور مانع مفقود ہو،مگر وہ قطع، یقین اور باطنی راحت کا باعث نہ بنے، بلکہ ہمیشہ ایک طرح کا اندرونی اضطراب اور باطنی الجھن اس کو سکون لینے نہ دے۔ یہ اندرونی الجھن بعض مقامات میں کبھی محسوسات سے ارتباط کی زیادتی اور انسان کے اس قاعدے پر اعتقاد کے سبب پیدا ہوتی ہے کہ محسوس اور رائج امور کے علاوہ کسی قسم کے دوسرے حقائق وجود رکھتے ہی نہیں ہے، یا یہ کہ کم از کم وہ خود اس قابل نہیں ہوتا کہ باطنی اطمنان تک رسائی حاصل کر سکے۔
۴۔ عالم مخلوق ہے جسے پروردگار عالم نے خلق کیا ہے
    دوسرا اصول یہ ہے کہ عالم، مخلوق ہے اور اس کو پروردگار عالم نے ایک خاص مقصد کے تحت خلق کیا ہے، یہاں تک کہ اس کائنات کی سب سے چھوٹی مخلوق کی خلقت میں بھی ہدف و مقصد کو مدّ نظر رکھا گیا ہے؛ چاہے وہ پہاڑ، آسمان، زمین، سمندر اور دیگر موجودات جیسی مخلوقات ہی کیوں نہ ہو۔ ان تمام موجودات میں انسان کائنات کی نمایا ترین مخلوق ہے جس کو بلند ترین اور اعلی ترین مقاصد کی خاطر خلق کیا گیا ہے جو وہی عالم آخرت ہے۔ امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں:
    ’’وَ أَعِدُّوا لَهُ (الموت) قَبْلَ نُزُولِهِ. فإِنَّ الْغَايَةَ الْقِيَامَةُ ‘‘
(سید رضی، نھج البلاغہ، تحقیق، صبحی صالح، خطبہ ۱۹۰، ص ۲۸۱)
 (تم لوگ موت کے لئے اس کے آنے سے پہلے آمادہ ہو جاؤ چونکہ مقصد کی انتہاء قیامت ہے)
    انسان کا انتہائی مقصد قیامت ہے انسان کے تمام اعمال جن میں نیک اور بد شامل ہے قیامت میں اپنا اثر دکھائیں گے۔
    اس بنا پر اسلامی نقطۂ نظر سے اللہ کے علاوہ تمام چیزیں حکمت اور مخصوص مقصد کی خاطر پروردگار عالم کی جانب سے خلق کی گئی ہے۔
(جعفر، سبحانی، منشور عقاید امامیہ، ص ۱۹-۱۳۴ (اس درس کے زیادہ تر مواد میں اس کتاب سے استفادہ کیا گیا ہے)

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک