امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

اصول دین اور اصول مذہب میں فرق

1 ووٹ دیں 05.0 / 5

اصول دین اور اصول مذہب میں فرق
اصول دین اور اصول مذہب میں موجود فرق کو بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ان دونوں اصل کے درمیان کی تفریق بھی واضح کی جائے۔
 توحید، معاد اور نبوت یہ اصول دین کے اجزاء ہیں اور تمام مسلمان ان کے اصول دین ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔
البتہ عدل اور امامت شیعوں کے عقیدے میں اصول دین کے اجزاء شمار ہوتے ہیں۔
اصول دین اور اصول مذہب میں تفاوت یہ ہے کہ، اگر کوئی شخص توحید، نبوت اور معاد میں سے کسی کا منکر ہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اور مسلمان شمار نہیں کیا جاتا۔ البتہ اگر صورتِ حال یہ ہو کہ کوئی فقط عدل اور امامت کو قبول نہ کرتا ہو تو ایسے شخص کے مسلمان ہونے میں شک نہیں ہے؛ البتہ شیعہ مذہب کے دائرے سے وہ خارج قرار پائے گا، بالفاظ دیگر؛ اصول دین کا انکار، دین سے خارج ہونے کا موجب بنتا ہے جبکہ اصول مذہب کا انکار خاص (شیعہ) مذہب سے خارج ہونے کا سبب بنتا ہے۔

اصول دین اور فروع دین میں فرق
    اصول دین اور فروع دین میں عام طور سے دو فرق پائے جاتے ہیں:
    ۱۔ دین سے خارج ہونے یا نہ ہونا ؛ اس معنی میں کہ اصول دین میں سے کسی ایک بات کا انکار انسان کو دائرۂ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔ البتہ دین کے فروعات میں سے کسی ایک چیز کا انکار کسی شخص کے دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کا باعث نہیں بنتا؛ البتہ اگر یہ انکار دین کی ضروری و لازمی بات کے انکار تک پہنچ جائے اور انکار کرنے والا اس بات کی طرف متوجہ بھی ہوکہ وہ دین کی ضروری بات کے انکار کا مرتکب ہوا ہے، تب یہ شخص دین سے خارج ہو جاتا ہے۔
( سید محمد کاظم، یزدی، العروۃ الوثقی، ج ۱، س ۱۳۸۔)
    ۲۔ تقلید اورعدمِ تقلید؛ احکام اورعملی قوانین میں ایک مسلمان انسان یا تو تمام احکام میں مجتہد ہو اور اپنی تحقیق کے مطابق عمل کرے،
(اگرکوئی فقہی احکام کے ایک حصہ کا مجتہد ہو تو اس کو متجزی کہتے ہیں)
یا تمام مسائل میں احتیاط پرعمل کرے اور یا جامع الشرائط مجتہدکی تقلید کرے اور ان کے رسالۂ عملیہ (توضیح المسائل) اور علمی نظریات پر عمل کرے۔ جبکہ اصول دین میں تقلید جائز نہیں ہے اور یہ کام حرام ہے اور ہر شخص کو چاہیئے کہ صحیح دلیل قائم کر کے اصول دین کے اعتقاد تک پہنچے۔ اصول دین میں تقلید کے حرام ہونے کی علت ایک مسئلہ ہے جو بذات خود – جو عام طور سے علم فقہ میں اجتہاد و تقلید کی بحث میں – تحقیق طلب ہے۔ اس نظریہ کا نتیجہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تقلید کے ساتھ اور بغیر استدلال، اسلام کو قبول کرتا ہے تو اس پر اسلام کا حکم جاری نہیں ہوگا البتہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ بات اس شخص کے لئے ہے جو دلیل قائم کرنے پر قادر ہو؛ ایسا شخص جو عاجز ہو وہ اس حکم سے خارج ہے اور اس کے لئے اصول دین کے بارے میں یقین اور اطمنان حاصل کرنا چاہے وہ فقہاء کے اقوال کے بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو کافی ہو جاتا ہے۔
(سید محمد، صدر، ماوراء الفقہ، ج ۱۰، ص ۲۸۷)
 اگرچہ فقہی رجحان اس بات کی طرف پایا جاتا ہے کہ علماء کے اقوال کے طریقے سے اصول دین کے بارے میں حاصل ہونے والے یقین اور اطمنان بھی کافی ہونا چاہیئے،یہاں تک کہ ایسا شخص جو دلیل قائم کرنے پر قادر بھی ہو، پھر اس کے لئے اس طرح کا یقین و اطمنان کافی ہونا چاہیئے۔
(موسی، شبیری زنجانی، توضیح المسائل، مسألہ اول : آقای جمال الدین، خوانساری، مبدأ و معاد ص ۱۱۔
(اگرچہ اصول دین میں دلیل کے ذریعے معرفت حاصل کرنا سب پر واجب ہے۔ البتہ ایسا نہیں ہےکہ اگر کوئی ان کو حقیقی انداز سے تقلید کے راستہ سے، بغیر دلیل کے آگاہی رکھتا ہو، ایسے اعتقاد کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور وہ شخص مسلمانوں کے گروہ سے خارج ہو جائے گا ایسا نہیں ہے، بلکہ وہ مسلمان اور مؤمن ہے، زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ایک واجب کام (دلیل کے ذریعے سے معرفت حاصل کرنا) کو ترک کیا ہے، جیسے دیگر واجبات کو ترک کرنےکی طرح سے؛ جیسے روزہ اور نماز۔) اسی طرح کی مزید
معلومات کےلئے سائٹ : اصول دین (http://islampedia.ir.fa) کی طرف رجوع کریں۔ رجوع کیا گیا تھا اس کی تاریخ : ۱۲/۱۳۹۲)
    نوٹ:
جن مقامات پر تقلیدواجب ہے؛ ان میں اصول دین کے علاوہ دین کے تمام امور جن میں اخلاقی مسائل بھی شامل ہےتقلید کی جائے گی۔
(سید محمد کاظم، یزدی، العروۃ الوثقی، ص ۱۳ (مسائلہ کے ذیل میں، بعض فقہاء کے حاشیوں سے جو ہر عمل کی ہر قسم کو تقلید کا مقام قرار دیتے ہیں) البتہ فقہ اور اخلاق کے ضروری مسائل (کہ جن میں کسی قسم کے کسی اختلاف کا وجود ہی نہیں ہوتا) اور اسی طرح سے یقینی باتوں میں تقلید لازم نہیں ہے۔
(ایضاً، ص ۱۴)

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک