ملائکہ کے معنی،خصوصیات،مقام و مراتب اور صفات
فرشتے
اللہ تعالی کی مخلوقات میں فرشتہ وہ مخلوق ہیں جو صاحب عقل و شعور ہیں اور مختلف قسم کی ذمہ داریاں ان کے سپرد ہیں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں فرشتوں کا تذکرہ وارد ہوا ہے جن میں فرشتوں کے اوصاف اور مختلف مأموریت کا تذکرہ ہے۔
فہرست مندرجات
۱ - ملائکہ کے لغوی معنی
۲ - فرشتوں کی خصوصیات
۳ - فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا
۴ - فرشتوں کے وجود کا عقل و سمع سے اثبات
۵ - اللہ کی بارگاہ میں فرشتوں کا مقام
۶ - فرشتے متکلمین کی نظر میں
۷ - فرشتے فلاسفہ کی نظر میں
۸ - فرشتوں کے مختلف مقامات و مراتب
۹ - قرآن کریم میں فرشتوں کے نام
۱۰ - فرشتوں کی عمومی صفات
۱۱ - فرشتوں کی روایات میں خصوصیات
۱۲ - حضرت جبرئیلؑ
۱۲.۱ - جناب جبریلؑ کے مختلف نام
۱۲.۲ - جناب جبریلؑ کے ذریعے انبیاءؑ کی مدد
۱۲.۳ - اسلام میں جناب جبریلؑ کا مقام
۱۳ - جناب جبریلؑ روح اعظم
۱۴ - حوالہ جات
۱۵ - مأخذ
ملائکہ کے لغوی معنی
عربی زبان میں فرشتوں کو ملائکہ کہا جاتا ہے۔” مَلَائِکَۃٌ”جمع ہے جس کا مفرد” مَلَکٌ “ہے۔ ملائکہ کے حروف اصلی” أَلَك “ہے۔ فیومی نے ذکر کیا ہے کہ “أَلْكًا “باب” ضَرَبَ یَضرَبُ “سے ہے یعنی
أَلَكَ يَأْلِكُ أَلْكًا وَأُلُوْكًا
جو کہ پیغام رسانی یا رسالت و پیغام کے معنی میں آتا ہے۔ راغب اصفہانی نے ذکر کیا ہے کہ” مَلَك “کی اصل مَأْلَك بر وزن “مَفعَل “ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ
مَلْأَك، المَأْلَكُ، المَأْلَكَةُ، الأُلُو
كسے مقلوب ہے جس کا معنی رسالت اور پیغام رسانی ہے۔ اسی سے کہا جاتا ہے:
أَلِكْنِي إليه:
میرا پیغام اس کو پہنچا دو۔
لفظ ملائکہ جس طرح جمع کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اسی طرح ملائکہ بول کر مفرد مراد لیا جاتا ہے۔ ابن منظورمتوفی ۷۱۱ھ نے اہل لغت کے اقوال درج کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: “المَأْلَكُ “کا مطلب پیغام اور رسالت ہے جوکہ “مَفْعَل “کے وزن پر آتا ہے اور اس کے علاوہ کوئی کلمہ اس وزن پر نہیں آتا۔” المَلَكُ “اسی سے مشتق ہے جوکہ اصل میں” مَأْلَك “تھا، پھر ہمزہ کو لام کی جگہ یعنی “کاف” سے پہلے لے آئے اور یہ بن گیا” مَلْأَك “بر وزن مَعْفَل، پھر ہمزہ کو تخفیف کی وجہ سے حذف کر دیا اور اس کی حرکت ماقبل ساکن کو دی اور اس طرح یہ" مَلَك "بن گیا جس کی جمع ملائکہ آتی ہے۔ [۱][۲][۳]
فرشتوں کی خصوصیات
قرآن کریم میں فرشتوں کی متعدد خصوصیات وارد ہوئی ہیں۔ سورہ شوری میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
تَكادُ السَّماواتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ وَالْمَلائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَلا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحيم؛
قریب ہے کہ تمام آسمان اپنے اوپر سے پھٹ پڑیں اور ملائکہ (فرشتے) اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور زمین والوں کے لے استغفار کرتے ہیں، آگاہ رہو کہ اللہ ہی غفور رحیم ہے۔[۴]
اسی طرح سورہ انبیاء میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
وَقالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمنُ وَلَداً سُبْحانَهُ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُون؛
اور وہ کہتے ہیں کہ رحمن (اللہ) نے بیٹا بنایا ہے، پاک و منزہ ہے وہ ذات (اس تہمت سے)، بلکہ (فرشتے) اس کے قابل احترام بندے ہیں۔[۵]
اسی سورہ کی اگلی آیت میں فرشتوں کی مزید خصوصیات بیان ہوتی ہیں:
لا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُون؛
وہ اس کے حکم سے پہلے بات نہیں کرتے اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔[۶]
اللہ تعالی ان فرشتوں کے توسط سے کائنات کی تدبیر فرماتا ہے اور فرشتوں کو جو حکم دیتا ہے فرشتے اسی کے مطابق عمل انجام دیتے ہیں اور کسی صورت اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتے۔ قرآن کریم میں سخت و غیظ و غضب والے فرشتوں کے اوصاف بھی بیان ہوئے ہیں جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
لا يَعْصُونَ اللَّهَ ما أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ ما يُؤْمَرُون؛
وہ اللہ کی معصیت و نافرمانی نہیں کرتے اور وہی انجام دیتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔[۷]
فرشتوں کے وجود پر ایمان لانا
قرآن کریم اور روایات کے مطابق فرشتوں کے وجود کا اقرار کرنا اور ان پر ایمان لانا ضروری ہے۔ مومن وہی کہلاتا ہے جو اللہ تعالی اور آسمانی کتابوں کے علاوہ فرشتوں پر بھی ایمان رکھتا ہو۔ پس فرشتے اللہ تعالی کی وہ مخلوق ہیں جن سے ایمان کا تعلق جوڑنا ضروری ہے اور قلبی گہرائی سے ان کی تصدیق کرنا ضروری ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
آمَنَ الرَّسُولُ بِما أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقالُوا سَمِعْنا وَأَطَعْنا غُفْرانَكَ رَبَّنا وَإِلَيْكَ الْمَصير؛
رسول ان پر ایمان رکھتے ہیں جو ان پر ان کے ربّ کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور مومنین (بھی اس پر ایمان رکھتے ہیں)، ان میں سے ہر ایک اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتب اور ان کے رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں، ہم اس کے رسولوں میں سے کسی ایک کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور وہ کہتے ہیں: ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی، اے ہمارے ربّ ہماری مغفرت فرما اور تیری طرف ہی پلٹنا ہے۔[۸]
فرشتوں کے وجود کا عقل و سمع سے اثبات
ملائکہ کا وجود جہاں نقل کے ذریعے سے ثابت ہے وہاں ان کے وجود پر عقلی دلائل بھی موجود ہیں۔
قرآن کریم اور روایات میں صراحت کے ساتھ فرشتوں کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے۔ لہٰذا غیب پر ایمان لانے کے ذیل میں ہم فرشتوں پر ایمان کو ضروری قرار دے سکتے ہیں۔ فرشتوں کے وجود پر نقلی دلائل کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی موجود ہیں جیساکہ ملا صدرا نے تصریح کی ہے کہ فلاسفہ کا اتفاق ہے کہ فرشتے وجود رکھتے ہیں اور انہوں نے وجودِ ملائکہ پر متعدد عقلی دلائل قائم کیے ہیں جس کا تذکرہ فلاسفہ کی کتب میں موجود ہے۔ [۹]
اللہ کی بارگاہ میں فرشتوں کا مقام
اللہ تعالی کی بارگاہ میں فرشتوں کا بہت عظیم مقام ہے۔ آئمہ اہل بیتؑ سے وارد ہونے والی دعاؤں میں اللہ تعالی کے مقرب فرشتوں کے مقام کی طرف نشاندہی کی گئی ہے۔ امام سجادؑ سے منقول دعاؤں میں آپؑ نے اللہ تعالی کے مقرب فرشتوں جیسے جناب اسرافیلؑ، میکایلؑ، جبریلؑ پر درود بھیجا ہے۔[۱۰]
فرشتے متکلمین کی نظر میں
متکلمین نے فرشتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرشتے وہ لطیف ہوائی اجسام ہیں جو مختلف شکل و صورت اختیار کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ [۱۱][۱۲]
فرشتے فلاسفہ کی نظر میں
حکماء اسلامی نے تفصیل سے فرشتوں کے موضوع پر عمیق انداز میں گفتگو کی ہے۔ فلاسفہ کی نظر میں فرشتے جسم یا بدن نہیں ہیں بلکہ فرشتے مجرد مخلوق ہیں جوکہ مادہ اور مادی احکام سے مبرا اور منزہ ہیں۔ اسلامی حکماء فرشتوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرشتے عقول مجردہ ہیں جوکہ اجسام سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتے۔ ملا صدرا نے فلاسفہ کے قول کو اس طرح سے نقل کیا ہے:
أنها جواهر قائمة بأنفسها ليست بمتحيزة البتة و أنها بالماهية مخالفة لأنواع النفوس الناطقة البشرية؛
فرشتے بذاتِ خود قائم ہیں (یعنی جواہر اور عقول مجردہ ہیں) اور متحیز نہیں ہیں (یعنی اجسام اور احکامِ جسم سے منزہ ہیں) اور اپنے حقیقت و ماہیت کے اعتبار سے بشری نفوس ناطقہ سے جدا اور مختلف ہیں۔[۱۳][۱۴]
فرشتوں کے مختلف مقامات و مراتب
سب فرشتے ایک قدر و منزلت اور رتبہ کے مالک ہیں نہیں بلکہ ان کے درمیان بھی مختلف درجات ہیں۔ بعض ملائکہ اللہ تعالی اور اس کے عرش کے ساتھ مختص ہیں، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
الَّذينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَ يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذينَ آمَنُوا رَبَّنا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَ عِلْماً فَاغْفِرْ لِلَّذينَ تابُوا وَ اتَّبَعُوا سَبيلَكَ وَ قِهِمْ عَذابَ الْجَحيم؛
وہ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو عرش کے اردگرد ہیں وہ اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ تسبیح بجا لاتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں، اے ہمارے ربّ تو نے ہر شیء پر اپنی رحمت کو وسیع قرار دیا ہے پس تو توبہ کرنے والوں اور اپنے راستے کی اتباع کرنے والوں کی مغفرت فرما اور انہیں عذاب جحیم سے محفوظ فرما۔[۱۵]
بعض فرشتے وہ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے مختلف قسم کی ذمہ داریاں عنایت فرمائی ہیں اور انہی مأموریت سے ان کے مختلف درجات بنتے ہیں۔ سورہ صافات میں وارد ہوا ہے کہ فرشتے اللہ تعالی کی بیٹیاں نہیں ہیں بلکہ اللہ کے بندے ہیں جن میں سے ہر کا ایک مقام اور منزلت ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
وَما مِنَّا إِلاَّ لَهُ مَقامٌ مَعْلُومٌ؛
(فرشتے کہتے ہیں) اور ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کا اللہ کے ہاں مقام و منزلت نہ ہو۔[۱۶][۱۷][۱۸] فرشتے اللہ تعالی سے ہٹ کر خود سے اختیار اور ارادہ نہیں رکھتے بلکہ وہ اللہ تعالی کے امر و حکم کے تابع ہیں اور وہی انجام دیتے ہیں جو انہیں امر کیا گیا ہے۔[۱۹]
قرآن کریم میں فرشتوں کے نام
تمام علماء و مفسرین متفق ہیں کہ قرآن کریم دو فرشتوں کے نام وارد ہوئے ہیں: جبریلؑ اور میکایلؑ، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
مَنْ كانَ عَدُوًّا لِلَّهِ وَ مَلائِكَتِهِ وَ رُسُلِهِ وَ جِبْريلَ وَ ميكالَ فَإِنَّ اللَّهَ عَدُوٌّ لِلْكافِرين؛
جو اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور جبریل اور میکال (میکایل) کا دشمن ہے تو اللہ (ان) کافرین کا دشمن ہے۔[۲۰]
ہاروت اور ماروت کا تذکرہ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے[۲۱]
لیکن آیا یہ دو فرشتے تھے یا نہیں، اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ اگرچے اکثر مفسرین قائل ہیں کہ یہ دونوں بھی فرشتے تھے جو لوگوں کو جادو اور سحر سے نجات دینے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اسی طرح جہنم کے پاسبان و نگہبان کا تذکرہ بعنوان مالک وارد ہوا ہے جسے جہنمی پکار کر کہیں گے کہ اے مالک تیرا رب تو ہمیں ختم کر کے رہے گا، تو مالک جواب دیں گے: تم لوگوں یہی پڑے رہو گے۔[۲۲]
فرشتوں کی عمومی صفات
قرآن کریم میں فرشتوں کی صفات اور ذمہ داریوں کا بیان وارد ہوا ہے، جن کا اجمالی جائزہ درج ذیل نکات کی صورت میں لیا جا سکتا ہے:
۱. بعض فرشتے انسان پر وحی کے نزول میں واسطہ بنتے ہیں،جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
فَنادَتْهُ الْمَلائِكَةُ وَ هُوَ قائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرابِ أَنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيى مُصَدِّقاً بِكَلِمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَ سَيِّداً وَ حَصُوراً وَ نَبِيًّا مِنَ الصَّالِحين؛
پس فرشتوں نے زکریا کو پکارا جبکہ وہ محراب میں کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ اللہ تجھے یحیی کی بشارت دیتا ہے جو اللہ کے کلمہ کی تصدیق کرنے والا ہے اور سید و سردار اور خواہشات پر قابو رکھنے والا اور صالحین میں سے نبی ہے۔[۲۳][۲۴]
۲. جبکہ بعض فرشتے انسان کی روح قبض کرتے ہیں جیساکہ ملک الموت کے بارے میں ارشاد ہوا ہے۔ [۲۵][۲۶]
۳. بعض فرشتے انسان کے اچھے برے اعمال کو لکھتے ہیں اور ان کے اعمال کی نگہبانی کرتے ہیں، ارشاد رب العزت ہوتا ہے:
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيانِ عَنِ الْيَمينِ وَ عَنِ الشِّمالِ قَعيد ما يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقيبٌ عَتيد؛
اس وقت کی یاد دہانی کرائیں جب اعمال لینے والے دو فرشتے دائیں اور بائیں جانب بیٹھتے ہیں، (انسان) کوئی لفظ منہ سے ادا نہیں کرتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان آمادہ بیٹھا ہوا ہے۔[۲۷][۲۸]
۴. مختلف حوادث، مصیبتوں اور بلاؤں میں انسان کی حفاظت کرنے والے فرشتے اللہ تعالی نے مقرر کیے ہیں:
لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّه؛
ہر شخص کے آگے اور اس کے پیچھے اس کے لیے پہرے دار فرشتے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔[۲۹]
۵. عرشِ الہی کو اٹھانے والے فرشتے جوکہ اہل ایمان کی بخشش کے لیے استغفار کرتے ہیں، جیساکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
الَّذينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذينَ آمَنُوا رَبَّنا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْماً فَاغْفِرْ لِلَّذينَ تابُوا وَاتَّبَعُوا سَبيلَكَ وَقِهِمْ عَذابَ الْجَحيم؛
وہ فرشتے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو عرش کے اردگرد ہیں وہ اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ تسبیح بجا لاتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں، اے ہمارے ربّ تو نے ہر شیء پر اپنی رحمت کو وسیع قرار دیا ہے پس تو توبہ کرنے والوں اور اپنے راستے کی اتباع کرنے والوں کی مغفرت فرما اور انہیں عذاب جحیم سے محفوظ فرما۔[۳۰]
۶. فرشتے انسانی شکل میں ظاہر ہو سکتے ہیں جیساکہ جناب مریمؑ کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے:
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجاباً فَأَرْسَلْنا إِلَيْها رُوحَنا فَتَمَثَّلَ لَها بَشَراً سَوِيًّا؛
پھر ان (مریم) نے لوگوں سے حجاب کیا تو ہم نے ان کی طرف اپنی روح (فرشتہ) کو بھیجا، پس وہ ان کے لیے مکمل انسان کی صورت میں متمثل ہوا۔[۳۱]
۷. کفار سے جنگ کے دوران جب مومنین انتہائی سخت حالات سے دوچار ہو گئے اور کفار کا غلبہ ہوتا جا رہا تھا تو ان مؤمنین کی نصرت اور مدد کے لیے فرشتے نازل ہوئے اور انہوں نے جنگ میں ان کی مدد کی۔[۳۲]
۸. بعض فرشتے ہیں جو کائنات کے امور کی تدبیر کرنے پر مأمور ہیں، ارشاد خداوندی ہوتا ہے:
فَالْمُدَبِّراتِ أَمْراً؛
پس وہ امور کی تدبیر کرنے والے ہیں۔[۳۳]
۹. بعض فرشتے قوموں پر عذاب نازل کرنے پر مأمور ہیں، ارشاد الہی ہوتا ہے:
وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا لُوطاً سيءَ بِهِمْ وَضاقَ بِهِمْ ذَرْعاً وَقالَ هذا يَوْمٌ عَصيب؛
اور جب ہمارے رسول (فرشتے) لوطؑ کے پاس آئے تو انہیں ان (فرشتوں کا آنا) ناگوار گزرا اور ان کی وجہ سے وہ تنگ دل ہوئے اور کہا یہ بڑا سخت بھاری دن ہے۔[۳۴]
فرشتوں کی روایات میں خصوصیات
آئمہ اہل بیتؑ کی احادیث میں فرشتوں کی مختلف خصوصیات بیان ہوئی ہیں۔ ان احادیث کا نچوڑ یہ ہے کہ بعض فرشتے ہیں جو نہ کھاتے پیتے ہیں اور نہ نکاح کرتے ہیں، وہ نسیمِ عرش کے ذریعے سے زندہ ہیں۔[۳۵]
بعض وہ فرشتے ہیں جو حالت سجدہ میں ہیں اور رکوع نہیں کرتے اور بعض رکوع میں ہیں وہ سیدھے کھڑے نہیں ہوتے، بعض فرشتے صف در صف سیدھے کھڑے ہیں جو منتشر و پراگندہ نہیں ہوتے۔
بعض فقط اللہ تعالی کی تسبیح میں مصروف ہیں اور کسی قسم کی تھکاوٹ و خستگی کا شکار نہیں ہوتے، انہیں نہ نیند آتی ہے اور نہ وہ اونگتے ہیں، نہ وہ خطاء و اشتباہ کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ان کے بدنوں میں سستی کا گزر ہوتا ہوتا ہے۔[۳۶]
فرشتوں کی تعداد ان گنت اور کثیر ہے جنہیں شمار میں لانا چاہیں تو شمار میں نہیں لایا جا سکتا۔ [۳۷]
یہ فرشتے اللہ تعالی کے فیض کے واسطے ہیں جن کے توسط سے فیض الہی مخلوق تک پہنچتا ہے۔ یہ فرشتے اللہ تعالی کے مطیع، فرمانبردار اور اس کے اوامر کو جاری کرنے والے ہیں۔[۳۸]
حضرت جبرئیلؑ
ادیانِ ابراہیمی کے مطابق اللہ تعالی کے مقرب ترین فرشتے چار ہیں ہیں جن میں سے ایک جناب جبریلؑ ہیں جوکہ اللہ تعالی اور انبیاءؑ کے درمیان واسطہ اور رابطہ ہیں۔[۳۹]
← جناب جبریلؑ کے مختلف نام
مفسرین کے مطابق قرآن کریم میں حضرت جبریلؑ کے مختلف نام وارد ہوئے ہیں جوکہ درج ذیل ہیں:
۱. روح القدس: سورہ نحل میں ارشاد ہوتا ہے:
قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبِّتَ الَّذينَ آمَنُوا وَ هُدىً وَ بُشْرى لِلْمُسْلِمين؛
کہہ دیجیے کہ روح القدس نے آپ کے ربّ کی جانب سے اسے برحق نازل کیا ہے تاکہ وہ ایمان لانے والوں کو ثابت قدم رکھے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہو۔[۴۰]
اگرچے اس آیت کریمہ میں تصریح نہیں ہے کہ جناب جبریلؑ روح القدس ہیں لیکن ہم اسی آیت کریمہ کو سورہ بقرہ کی اس آیت کے تناظر میں دیکھیں تو ہمارے لیے مطلب واضح ہو جائے گا جس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ مَنْ كانَ عَدُوًّا لِجِبْريلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيْهِ وَ هُدىً وَ بُشْرى لِلْمُؤْمِنين؛
کہہ دیجیے جو جبریل کا دشمن ہے تو اس نے اللہ کے اذن سے آپ کے قلب پر اس (قرآن) کو نازل کیا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو آپ سے پہلے موجود ہے اور مؤمنین کے لیے ہدایت اور بشارت ہے۔[۴۱]
۲. روح الامین: قرآن کریم میں جناب جبریلؑ کو روح الامین بھی کہا گیا ہے:
نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمين؛
اس کو روح الامین نے نازل کیا ہے۔[۴۲][۴۳]
۳. رسول کریم: اکثر و بیشتر مفسرین کے مطابق جناب جبریلؑ کا ایک نام رسول کریم وارد ہوا ہے:
إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَريمٍ؛
بے شک وہ (قرآن) رسول کریم کا قول ہے۔[۴۴]
← جناب جبریلؑ کے ذریعے انبیاءؑ کی مدد
اسلامی کتب میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق حضرت جبریلؑ ہی وہ بزرگ اور عظیم فرشتہ ہیں جو مختلف انبیاءؑ کی مدد کے لیے حاضر ہوئے۔ جب حضرت ابراہیمؑ کو نمرود نے منجنیق کے ذریعے آگ میں پھینکا تو اس وقت ان کی مدد کے لیے حضرت جبریلؑ حاضر ہوئے۔ [۴۵]
اسی طرح جب جناب موسیؑ دریائے نیل سے گزرے اور ان کے پیچھے پیچھے فرعون اور اس کا لشکر نیل میں داخل ہو گئے تو اس وقت حضرت موسیؑ کی مدد کے لیے جناب جبریلؑ تشریف لائے اور فرعون کے منہ میں بدبو دار مٹی ڈال کر اس کو ہلاک کیا۔ [۴۶]
حضرت زکریاؑ کو جناب یحییؑ کی بشارت اور جناب مریمؑ کو جناب عیسیؑ کی خوشخبری جناب جبریلؑ ہی نے سنائی۔
← اسلام میں جناب جبریلؑ کا مقام
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے جناب جبریلؑ کا انتہائی بلند و بالا مقام سامنے آتا ہے۔ خصوصا قرآن کریم کی یہ آیات کہ جبریلؑ نے قرآن کو رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل کیا بہت بلند مرتبہ و مقام کی نشاندہی کرتا ہے، جیساکہ ارشاد باری تعالی ہوتا ہے:
قُلْ مَنْ كانَ عَدُوًّا لِجِبْريلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدىً وَبُشْرى لِلْمُؤْمِنين؛
کہہ دیجیے جو جبریلؑ کا دشمن ہے تو اس نے اللہ کے اذن سے آپ کے قلب پر اس (قرآن) کو نازل کیا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے جو آپ سے پہلے موجود ہے اور مؤمنین کے لیے ہدایت اور بشارت ہے۔[۴۷]
نیز وارد ہوا ہے کہ غزوہ بدر میں رسول اللہ ﷺ اور مومنین کی مدد کرنے کے لیے جناب جبریلؑ نازل ہوئے اور معراج کے موقع پر آنحضرت ﷺ کے ہمسفر اور رہنمائی کرنے والے بھی جناب جبریلؑ تھے۔[۴۸] بعض آیات کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاءؑ کے علاوہ دیگر کی طرف بھی تشریف لاتے ہیں جیساکہ قرآن کریم کے مطابق جناب جبریلؑ حضرت مریمؑ کے پاس تشریف لائے۔[۴۹]
اس طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت جبریلؑ انبیاءؑ کے پاس وحی لے کر آتے ہیں جبکہ غیر انبیاء کے پاس وحی لے کر نہیں آتے بلکہ مختلف مقاصد کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ پس وحی کا تعلق فقط انبیاءؑ کے ساتھ مختص ہے۔ صحیح السند روایت میں آیا ہے کہ جب امام مہدیؑ قیام فرمائیں گے تو سب سے پہلے ان کی بیعت جو کریں گے وہ جناب جبریلؑ ہوں گے۔ [۵۰][۵۱]
جناب جبریلؑ روح اعظم
قرآن کریم اور روایات اہل بیتؑ میں اللہ تعالی کے مقرب ترین خلقت میں سے ایک روح ہے جس کو عظیم و اعظم کہا گیا ہے۔ کلمہِ روح قرآن کریم کی متعدد آیات میں وارد ہوا ہے کہ جیساہ سورۃ القدر میں ہے:
تَنَزَّلُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ فيها بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْر؛ ملائکہ
اور روح اس رات میں اپنے ربّ کے اذن سے امر کو لے کر نازل ہوتے ہیں۔ [۵۲]
البتہ روحِ اعظم کے عنوان سے یہ کلمہ قرآن میں وارد نہیں ہوا۔ صحیح السند احادیث مبارکہ میں روح کو اعظم کی طرف نسبت دی گئی ہے جس کے مطابق روح ایک مخلوق ہے جو جناب جبریلؑ سے جدا ہے اور ان سے بھی زیادہ عظمت و منزلت کی حامل ہے اور رسول اللہ ﷺ اور آئمہ اطہارؑ کے ساتھ مختص ہے۔ [۵۳][۵۴]
اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں کلمہِ روح سے مراد آیا جناب جبریلؑ ہیں یا نہیں بلکہ کوئی اور اللہ تعالی کی خلقت ہے؟ ملا صدرا قائل ہیں کہ جناب جبریلؑ عقل اول اور ملک مقرب ہیں۔[۵۵]
اہل عرفان قائل ہیں کہ جناب جبریلؑ اللہ تعالی کی ربوبیت کے اعتبار سے ذاتِ الہی کا مظہر ہیں اور انسان کامل یعنی حقیقت محمدیہ میں متجلی ہیں۔[۵۶]
حوالہ جات
۱. ↑ ابن فارس، احمد، معجم مقاییس اللغۃ، ج ۱، ص ۱۳۲۔
۲. ↑ راغب اصفہانی، حسین، المفردات فی غریب القرآن، ج ۱، ص ۲۱۔
۳. ↑ ابن منظور، محمد مکرم، لسان العرب، ج ۱۰، ص ۳۹۲۔
۴. ↑ شوری/سوره۴۲، آیت ۵۔
۵. ↑ انبیا/سوره۲۱، آیت ۲۶۔
۶. ↑ انبیا/سوره۲۱، آیت ۲۷۔
۷. ↑ تحریم/سوره۶۶، آیت ۶۔
۸. ↑ بقره/سوره۲، آیت ۲۸۵۔
۹. ↑ ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، مفاتیح الغیب، ج ۱، ص ۳۴۳۔
۱۰. ↑ امام سجادؑ، علی بن حسینؑ، صحیفہ سجادیہ، ص۳۶۔
۱۱. ↑ خواجہ طوسی، محمد بن حسن، تلخیص المحصل، ص۲۳۰۔
۱۲. ↑ ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، مفاتیح الغیب، ج ۱، ص ۳۴۲۔
۱۳. ↑ تفتازانی، مسعود بن عمر، شرح المقاصد، ج۳، ص۳۶۶۔
۱۴. ↑ ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، مفاتیح الغیب، ج ۱، ص ۳۴۲۔
۱۵. ↑ غافر/سوره۴۰، آیت ۷۔
۱۶. ↑ صافات/سوره۳۷، آیت ۱۶۴۔
۱۷. ↑ تکویر/سوره۸۱، آیت ۲۰۔
۱۸. ↑ تکویر/سوره۸۱، آیت ۲۱۔
۱۹. ↑ طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج۷، ص۱۲۔
۲۰. ↑ بقره/سوره۲، آیت ۹۸۔
۲۱. ↑ بقره/سوره۲، آیت ۹۸۔
۲۲. ↑ زخرف/سوره۴۳، آیت ۷۷۔
۲۳. ↑ ال عمران/سوره۳،آیت ۳۹۔
۲۴. ↑ نحل/سوره۱۶، آیت ۲۔
۲۵. ↑ سجده/سوره۳۲، آیت ۱۱۔
۲۶. ↑ نحل/سوره۱۶، آیت ۳۲۔
۲۷. ↑ ق/سوره۵۰، آیت ۱۷۔
۲۸. ↑ ق/سوره۵۰، آیت ۱۸۔
۲۹. ↑ رعد/سوره۱۳، آیت ۱۱۔
۳۰. ↑ غافر/سوره۴۰، آیت ۷۔
۳۱. ↑ مریم/سوره۱۹، آیت ۱۷۔
۳۲. ↑ احزاب/سوره۳۳ف آیت ۹۔
۳۳. ↑ نازعات/سوره۷۹/ آیه۵.
۳۴. ↑ ہود/سوره۱۱، آیت ۷۷۔
۳۵. ↑ حویزی، عبد علی بن جمعہ، تفسیر نور الثّقلین، ج۴، ص۳۴۹۔
۳۶. ↑ رضی، سید رضی، نہج البلاغۃ، خطبہ۱، ص ۱۲۔
۳۷. ↑ محمدی رے شہری، محمد، میزان الحکمۃ، ج۴، ص ۲۹۳۰۔
۳۸. ↑ مطہری، مرتضی، مقدمہ ای بر جہان بینی الہی، ج۳، ص۸۹۔
۳۹. ↑ جعفری، محمد مہدی، دائرة المعارف تشیّع، ج۵، ص۳۰۹۔
۴۰. ↑ نحل/سوره۱۶، آیت ۱۰۲۔
۴۱. ↑ بقره/سوره۲، آیت ۹۷۔
۴۲. ↑ شعراء/سوره۲۶، آیت ۱۹۳۔
۴۳. ↑ نجم/سوره۵۳، آیت ۵۔
۴۴. ↑ تکویر/سوره۸۱، آیت ۱۹-۲۱۔
۴۵. ↑ صدوق، محمد بن علی، علل الشرائع، ج ۱، ص ۳۶۔
۴۶. ↑ بحرانی، سید ہاشم، البرہان فی تفسیر القرآن، ج ۳۰، ص ۵۰۔
۴۷. ↑ بقره/سوره۲، آیت ۹۷۔
۴۸. ↑ شبستری، عبد الحسین، اعلام القرآن، ص۲۷۷-۲۷۸۔
۴۹. ↑ مریم/سوره۱۹، آیت ۱۶-۲۱۔
۵۰. ↑ صدوق، محمد بن علی، کمال الدین وتمام النعمۃ، ج ۲، ص ۶۷۱۔
۵۱. ↑ محسنی، محمد آصف، معجم الاحادیث المعتبرۃ، ج ۲، ص ۳۴۴۔
۵۲. ↑ قدر/سوره۹۷، آیت ۴۔
۵۳. ↑ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج ۱، ص ۲۷۳۔
۵۴. ↑ محسنی، محمد آصف، معجم احادیث المعتبرۃ، ج ۱، ص ۲۶۷۔
۵۵. ↑ ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، المبدأ و المعاد، ص۱۲۴۔
۵۶. ↑ آشتیانی، جلال الدین، شرح مقدّمۃ قیصری، ص۷۸۷-۸۲۰۔
مأخذ
کتاب فرہنگ شیعہ، تالیف شده توسط جمعی از نویسندگان، ص۴۲۲-۴۲۴۔
بعض مطالب اور حوالہ جات محققین ویکی فقہ اردو کی جانب سے اضافہ کیے گئے ہیں۔