حدیث خاصف النعل
حدیث خاصف النعل
حدیث خَاصِفُ النَّعْل (خاصف النعل یعنی جوتی گانٹھنے والا) پیغمبر اکرم (ص) سے مروی ایک حدیث ہے جس میں حضرت امام علیؑ کے مقام و مرتبے اور فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ جس وقت حضرت علیؑ پیغمبر خدا(ص) کے جوتے گانٹھ رہے تھے اس دوران پیغمبر اسلام نے حضرت علیؑ کو خاصف النعل کے لقب سے یاد کیا۔ کتب حدیث میں اسی مضمون کی مختلف روایات موجود ہیں، ان سب میں امام علیؑ کے لیے خاصف النعل کا لقب کا استعمال کیا گیا ہے۔
قرآن کی تاویل کے سلسلے میں حضرت علیؑ کی ظالموں اور ستمگروں سے جنگ ان روایات کے عناوین میں سے ایک ہے۔ امام علیؑ کی امامت پر نص صریح کا پایا جانا، تاویل قرآن کے بارے میں آپؑ کی مکمل آگاہی و علم نیز آپؑ کے دور خلافت کی جنگوں میں امامؑ کی راستبازی اور حقانیت وہ موضوعات ہیں جن کو ان روایات سے اخذ کیا گیا ہے۔ خاصف النعل سے متعلق دیگر احادیث میں پیغمبر اکرم (ص) نے امام کو امت کے ہادی اور اپنے بعد جانشین کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
ان احادیث کا فریقین کے منابع حدیثی میں وسیع پیمانے پر ذکر ملتا ہے جن میں شیعہ حدیثی کتب اربعہ میں سے بعض کتب نیز اہل سنت کی صحاح ستہ کی بعض کتب بھی شامل ہیں۔ محققین نے ان میں سے بعض احادیث کو مستفیض، بعض کو متواتر اور دیگر بعض احادیث صحیح السند احادیث قرار دیا ہے۔
اس حدیث کا تذکرہ کرتے ہوئے ام سلمہ نے عائشہ سے کہا کہ وہ امام علیؑ کے خلاف بغاوت کرنے سے باز رہیں۔ امام علیؑ نے اپنے بعض فرامین میں اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے خاصف النعل سے متعلق احادیث سے استناد کیا ہے۔ ان احادیث کو سید اسماعیل حمیری سمیت دیگر شعراء نے اپنے اشعار میں بیان ہے۔
اہمیت اور پس منظر
حدیث خاصف النعل یا احادیث خاصف النعل پیغمبر اکرم (ص) سے منقول روایات کا ایک مجموعہ ہے، جس میں امام علیؑ کے فضائل و مقام و مراتب، آپؑ کی امامت و خلافت، مشرکین اور ظالمین سے آپؑ کی جنگ کو وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔ اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ جس وقت امام علیؑ پیغمبر خدا(ص) کے جوتے کو گانٹھ رہے تھے اس وقت آپ(ص) نے یہ امام علیؑ کو خاصف النعل کے لقب سے یاد کیا۔[1] امام علیؑ کے لیے خاصف النعل کا عنوان ان روایتوں کی مشترکہ خصوصیت ہے۔[2] "خصف" کا مطلب ہے چند چیزوں کو جمع کرنا اور انہیں آپس میں جوڑنا ہے[3] اور جو شخص جوتوں کے الگ تھلگ شدہ ٹکڑوں کو جمع کرکے ان کو اپنی اصلی شکل میں واپس لانے والے کوخاصف النعل کہتے ہیں۔[4]
امام علیؑ کی کفش دوزی کو آپؑ کی انتہائی عاجزی[5] اور دنیا کی بے توقیری نیز آپؑ کی سادہ زندگی کے نمونے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔[6] پیغمبر اکرم(ص) نے جب امام علیؑ کو خاصف النعل کہا[7] تو اس کے بعد سے یہ لقب آپؑ کے القابات میں شمار ہونے لگا۔[8]
کہتے ہیں کہ یہ روایتیں حضرت علیؑ کی امامت کے صریح نصوص میں سے ہیں[9] جن میں امام علیؑ سے مخصوص فضائل بیان ہوئے ہیں[10]
نیز یہ روایات دوسرے صحابہ پر امام علیؑ کی فضیلت اور برتری کو ظاہر کرتی ہیں۔[11] خاصف النعل والی احادیث امام علیؑ کی توصیف بیان کرنے کے ساتھ امامؑ کی فضیلت کے بارے میں واضح احادیث بیان کرتی ہیں[12]
نیز آپؑ کی امامت و خلافت کے بارے میں بھی صریح نصوص[13] کی حیثیت رکھتی ہیں۔ بعض شیعہ اور سنی علماء نے فضیلت علیؑ کے سلسلے میں ان احادیث کی اہمیت کو حدیث منزلت اور حدیث غدیر جیسی احادیث کا ہم پلہ قرار دیا ہے۔[14]
حدیث کی اعتباریت
گیارہویں ہجری صدی کے شیعہ عالم دین ہاشم بن سلیمان بَحرانی کا کہنا ہے کہ خاصف النعل کی احادیث اہل سنت کتب احادیث میں نو سلسلہ سند سے نقل ہوئی ہیں[15] اور شیعہ کتب احادیث میں دو سلسلہ سند[16] سے نقل ہوئی ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ خاصف النعل کی احادیث شیعہ اور سنی منابع[17] میں وسیع پیمانے[18] پر نقل ہوئی ہیں۔ ان احادیث کا مجموعہ کتب اربعہ[19] میں سے بعض کتب اور دیگر شیعہ متقدمین کی کتب حدیث[20] میں ذکر ہوا ہے۔ علمائے متاخرین نے ان کو اپنی کتب میں مکرراً بیان کیا ہے۔[21] اہل سنت کی متقدم منابع حدیثی جیسے سنن ترمذی،[22] سنن نسائی[23] اور مُسنَد احمد[24] میں بھی ان احادیث میں سے بعض کا تذکرہ ملتا ہے اور اہل سنت کے دیگر منابع حدیثی[25] میں بھی ان کو بیان کیا گیا ہے۔[26]
شیخ مفید نے خاصف النعل کی بعض احادیث کو صحیح السند قرار دیا ہے[27]
نیز مقدّس اردبیلی نے اس حدیث کو مشہور اور معتبر قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ان احادیث کی سند پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔[28] بعض شیعہ علماء کا کہنا ہے کہ ان احادیث کے سند میں وثاقت کے سلسلے میں اجماع پایا جاتا ہے،[29] بعض نے ان کو مستفیض قرار دیا ہے[30]
اور بعض محققین انہیں متواتر[31] قرار دیتے ہیں۔ سنی محدث اور صحاح ستہ میں سے سنن ترمذی کے مصنف ترمذی نے اپنی کتاب میں نقل کردہ خاصف النعل کی روایت کو سابقہ محدثین کا حوالہ دیتے ہوئے صحیح قرار دیا ہے۔[32] اہل سنت کے محدث گنجی شافعی نے بھی ان احادیث کو اعلیٰ صفات کی حامل احادیث، عمدہ اور صحیح قرار دیا ہے۔[33]
بعض شیعہ علماء نے کتب احادیث میں ان احادیث کو بیان کرنے کے لیے الگ باب تشکیل دیا ہے۔ اور انہیں مختلف شیعہ سنی منابع حدیثی سے نقل کیا ہے۔[34]
حدیث کی مختلف اقسام اور تشریحات
حدیث خاصف النعل کو بہت سے عبارات اور عنوانات کے ساتھ نیز مختلف مقامات اور اوقات میں ذکر کیا گیا ہے، اس نکتے کو مد نظر رکھتے ہوتے کہا جاتا کہ یہ چیز امام علیؑ کے مناقب و فضائل کی تکرار کو ظاہر کرتی ہے اور امامؑ کی فضیلت پر بھی تاکید کرتی ہے۔[35]
ان میں سے بعض احادیث درج ذیل ہیں:
تاویل قرآن کے لیے امام علیؑ کی جنگ والی روایت
مجموعہ احادیث میں سے ایک روایت میں خاصف النعل کا تعلق حضور اکرم (ص) کے اس فرمان سے ہے جس میں آپ(ص) نے اپنے صحابہ کے ایک اجتماع میں فرمایا: «إِنَّ مِنْکمْ مَنْ یقَاتِلُ عَلَی تَأْوِیلِ ہَذَا الْقُرْآنِ کمَا قَاتَلْتُ عَلَی تَنْزِیلہ؛ تم میں سے کوئی ایسا شخص بھی ہے جو اس قرآن کی تاویل کے سلسلے میں جہاد کرتا ہے جس طرح میں نے اس کے نزول کے وقت جہاد کیا تھا»۔ وہاں موجود لوگوں میں سے کچھ نے؛ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ابوبکر اور عمر تھے، پوچھا کہ کیا وہ ایک ہی شخص ہیں؟ آپ(ص) نے نفی میں جواب دیتے ہوئے ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ کیا جو آپ(ص) کے جوتوں کو سی رہا تھا۔ اس وقت امام علیؑ پیغمبر کے جوتوں کو سِی رہے تھے۔[36] متعدد علماء اور مفسرین کا خیال ہے کہ رسول اللہ(ص) نے یہ حدیث آیت اصلاح ذات البین کے نزول کے بعد ارشاد فرمائی۔[37]
محققین نے اس حدیث کی مختلف تشریحات پیش کی ہیں:
اثبات امامت
شیعہ فقیہ مقدّس اردبیلی (متوفی: 993 ھ) نے اس حدیث کو امام علیؑ کی امامت کے اثبات میں نص صریح قرار دیا ہے۔[38] مقدس اردبیلی اور دوسرے بعض علما کے نزدیک امام علیؑ کے جہاد اور پیغمبر اکرم (ص) کے جہاد کی مماثلت امام علیؑ کی امامت پر دلالت کرتی ہے[39] اور دوسروں کی امامت کو رد کرتی ہے۔[40] البتہ بعض اہل سنت علما جیسے شافعی اور ابن تیمیہ وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح ماننے کے باوجود امام علیؑ کی امامت پر اس کی دلالت کو قبول نہیں کیا۔[41] اور شافعی کا کہنا ہے کہ یہ حدیث صرف ستمگروں سے جنگ کرنے کی واضح کیفیت کو بیان کرتی ہے۔[42]
تأویل قرآن کے بارے میں مکمل آگاہی
بعض شیعہ علماء خاصف النعل (امام علیؑ) کی قرآن کی تاویل کے لیے ستمگروں سے جنگ کی روایات کو امام علیؑ کی قرآن پر مکمل آگاہی وعلم[43] اور علم تاویل قرآن[44] پر آپؑ کے مکمل احاطہ کی دلیل سمجھتے ہیں۔[45] اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی کتاب (قرآن) امام کے بغیر کافی نہیں ہے اور جو لوگ قرآن کو کافی سمجھتے ہیں اور آیات کی تبیین و تفسیر میں معصومینؑ کی ضرورت کو رد کرتے ہیں؛ ان کی باتیں بے دلیل و باطل ہیں۔[46]
حضرت علیؑ کے دور خلافت کی جنگوں میں آپؑ کا حق بجانب ہونا
علماء کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) کے فرامین، امام علیؑ کی خلافت کے دوران تین گروہوں ناکثین، قاسطین اور مارقین کے ساتھ لڑی گئی جنگوں کی پیشنگوئی اور ان میں آپؑ کی سچائی اور حقانیت کا ثبوت ہیں۔[47] بعض علما اس تعبیر کو امامؑ کے ساتھ جنگ کرنے والے مخالفین کے ارتداد کی علامت سمجھتے ہیں۔[48]
حدیث میں مشرکین کے خلاف جنگ کا ذکر
چوتھی صدی ہجری کے شافعی مذہب کے محدث حکیم نیشاپوری کے مطابق صلح حدیبیہ کے دوران سہیل بن عمرو مشرکین کے کئی سرداروں کے ساتھ رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور صلح حدیبیہ کے معاہدے کی شق میں اس شرط کا ذکرکیا: "اگر ہمارے لوگوں میں سے کوئی فرد آپ لوگوں کے پاس آئے تو اسے ہمارے پاس واپس کرنا۔" رسول خدا(ص) اس شرط سے ناراض ہوئے اور فرمایا: اے گروہ قریش، اس درخواست سے ہاتھ اٹھاؤ، ورنہ میں تمہارے پاس ایک ایسے شخص کو بھیجوں گا جس کے دل کو اللہ نے ایمان کے ساتھ آزمایا ہے کہ وہ تمہاری گردنیں تن سے جدا کردے گا، جب کہ تم دین سے خارج ہوگئے ہو۔" ابوبکر اور عمر نے کہا: کیا آپ(ص) کا مقصود ہم ہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: نہیں، وہ ہے جو اب میرے جوتے سی رہا ہے۔ اس وقت امام علیؑ پیغمبر اسلام(ص) کے جوتے سینے میں مصروف تھے۔[49]
سید ہاشم بحرانی نے اس روایت کو قبیلہ ثقیف[50] کے لیے خطرے کی گھنٹی جبکہ نسائی نے "کندہ" یا "حضرموت" کے "بنووَلیعہ" نامی ایک قبیلہ کے لیے خطرہ شمار کیا ہے۔ [51]
امامت علیؑ کا اثبات
متعدد علماء نے اس حدیث کو امام علیؑ کی امامت پر دلیل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حضرت علیؑ کا مشرکین سے جنگ کرنا اور ان کا سر قلم کرنا خدا کے حکم سے تھا اور روایت کے مطابق وہ خاصف النعل جس کا دل ایمان سے آزمایا گیا تھا، وہی شخص ہے جو منصب امامت اور رسول خدا(ص) کی جانشینی کا مستحق قرار پاسکتا ہے۔[52]
حدیث میں پیغمبر(ص) کے جانشینوں کا ذکر
شیعہ محدث و فقیہ حُرّ عامِلی نے پیغمبر اکرم (ص) سے ایک روایت نقل کی ہے جس میں امام علیؑ کو خاصف النعل اور ان کی جانشینی اور امام حسینؑ کی نسل سے ان کی اولاد کی امامت کی تصریح کی گئی ہے۔[53] ایک دوسری حدیث میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ ابوبکر اور عمر نے جب مابعد پیغمبر اسلام(ص) کے خلیفہ کے بارے میں سوال کیا تو جواب میں رسول خدا (ص) نے اپنے جانشین کو خاصف النعل کے لقب سے یاد کیا جب کہ علیؑ رسول خدا(ص) کے جوتے سینے میں مصروف تھے۔[54]
اسی طرح کی روایت عائشہ سے بھی مروی ہے۔[55]
ابو الصلاح حلبی (متوفیٰ: 447ھ) نے اپنی کتاب "تقریب المعارف" میں روایت کی ہے کہ رسول خدا (ص) نے اپنے کسی سفر میں ابوبکر اور عمر سے فرمایا: خاصف النعل کو امیر المومنین کہہ کر سلام کریں جبکہ امام علیؑ پیغمبر خدا(ص) کے جوتوں میں پیوند لگانے میں مصروف تھے۔[56]
روایت میں ہادی امت کا ذکر
میں ایک روایت کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں پیغمبر اسلام (ص) نے سورہ رعد کی ساتویں آیت میں لفظ "ہادی" کی تشریح کرتے ہوئے امام علیؑ کا تعارف خاصف النعل کے نام سے کیا ہے۔ جس وقت امام علیؑ ایک کونے میں رسول اللہ(ص) کے جوتوں میں پیوند لگانے میں مصروف تھے؛ پھر پیغمبر خدا(ص) نے امام کے فضائل بیان کیے اور آپ(ص) کے بعد بارہ اماموں (بنی اسرائیل کے نقباء کی تعداد کے برابر ) کا تعارف کرایا جن میں امام مہدیؑ کو بھی شمار کیا۔[57]
حدیث خاصف النعل کے استنادات
بعض روایتوں کے مطابق جب عائشہ نے امام علیؑ کے خلاف بغاوت کا فیصلہ کیا تو انہوں نے ام سلمہ سے اس سلسلے میں معاونت کرنے کی درخواست کی۔[58] ام سلمہ نے اس کام سے انہیں منع کیا اور امام علیؑ کے فضائل بیان کرنے میں پیغمبر اکرم (ص) کی ایک ایسی روایت سے استناد کیا جس میں پیغمبر اسلام(ص) نے اپنے جانشین کو خاصف النعل کے لقب سے یاد کیا۔[59] عائشہ نے ام سلمہ کی بات کی تصدیق کی؛[60] لیکن امام علیؑ کی مخالفت سے پیچھے نہیں ہٹی۔[61] بعض روایتوں کے مطابق، ام سلمہ کی بات سن کر عائشہ نے امام علیؑ کے خلاف بغاوت نہ کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن عبد اللہ بن زبیر نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔[62]
امام علیؑ نے خود اپنے بعض فرامین میں خاصف النعل والی حدیث سے استناد کرتے ہوئے[63] اسی لقب پر فخر بھی کیا ہے۔[64]
مثال کے طور پر چھٹی صدی ہجری کے شیعہ محدث اور متکلماحمد بن علی طبرسی نے اپنی کتاب الاحتجاج میں اس طرح نقل کیا ہے کہ امام علیؑ نے جنگ جمل میں اپنے حق بجانب ہونے کے سلسلے میں اسی خاصف النعل والی حدیث سے استدلال کیا ہے۔[65]
اس لقب کو استعمال کرنے کی وجہ
کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام (ص) کی جانب سے امام علیؑ کے لئے خاصف النعل کی تعبیر استعمال کرنے کی وجہ یہ تھی کہ امام علیؑ کے اعلیٰ مقام اور پیغمبر اسلام (ص) کے ساتھ آپؑ کے قریبی تعلق کے باوجود آپ کی ارفع و اعلیٰ عاجزی کو ظاہر کیا جائے۔ اس بیان کے مطابق نبی مکرم(ص) نے بالواسطہ طور پر لوگوں کو ایسے شخص کی رہبری کی طرف رہنمائی فرمائی جو عاجزی جیسی خصوصیت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔[66]
بعض علما کا خیال ہے کہ معروف نام کے بجائے نئی تعبیر کا استعمال کرنا لوگوں کے ذہنوں میں اس کے رسوخ ہونےکا سبب بنتا ہے۔ لہذا پیغمبر خدا(ص) نے امام علیؑ کو متعارف کرانے کے لیے مختلف تعابیر کا استعمال کرتے ہوئے انہیں لوگوں کے ذہنوں میں زیادہ دیر تک باقی رہنے کے لیے زمینہ فراہم کیا؛ جیسا کہ پیغمبر خدا(ص) نے حضرت علیؑ کے لئے ابو تراب کی تعبیر کا استعمال اسی مطلب کو مد نظر رکھ کر کیا تھا۔[67]
نظم و شعر میں حدیث خاصف النعل کی جھلک
خاصف النعل سے متعلق روایات پوری تاریخ میں شعراء کی نظموں میں بھی اپنی جگہ پیدا کی ہے۔[68] ان میں سے سید حِمیَری،[69] ابو علوی اصفہانی، سید محمد مہدی بحر العلوم اور دیگر شعراء نے اپنی نظموں میں حدیث خاصف النعل کا ذکر کیا ہے[70] یا امام علیؑ کے لقب کے طور پر آپؑ کو خاصف النعل سےیاد کیا ہے۔[71] مختلف کتابوں کےمصنفین نے ان اشعار کو نقل کیا ہے۔[72]
کتاب علیٌ(ع) خاصفُ نَعلِ النَّبی(ص)
مونوگراف
کتاب «علیٌ(ع) خاصفُ نَعلِ النَّبی(ص) و قراءۃٌ فی رُموزِ الْحدیث و معانیہ»؛
اس کتاب کو ماجد عطیہ نامی مولف نے عربی زبان میں تحریر کیا ہے۔ مولف نے حدیث خاصف النعل کا ذکر کرتے ہوئے امام علیؑ کی امامت اور خلافت بلا فصل کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔[73]
«اثبات امامت بلا فصل امیرالمومنین(ع) در حدیث مقاتلہ (خاصفالنعل)، با تأکید بر روش علامہ میر حامد حسین»؛
یہ ایم فل کی تھیسس کے طور پر لکھی گئی ایک تحقیق ہے جس میں حدیث کی اعتباریت اور دلالت سے متعلق تفصیلی بحث کی گئی ہے۔[74]
تحقیقی مقالہ بعنوان «معناکاوی روایتہای جنگ تأویل»
فارسی زبان میں لکھا گیا ہے جس میں تاویل کے دقیق معنی اور خاصف النعل کی تاویل قرآن کے لیے جنگ سے متعلق تحقیقی مطالب بیان کیے گئے۔[75]
حوالہ جات
1. بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج6، ص285؛ اربلی، کشف الغمۃ، 1381ھ، ج1، ص335؛ علامہ حلی، نہج الحق، 1982ء، ص220، ابن شہرآشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب(ع)، 1379ھ، ج3، ص44۔
2. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج8، ص35۔
3. ابنمنظور، لسان العرب، بیروت، ج9، ص71۔
4. طباطبایی، المیزان، 1417ھ، ج8، ص35۔
5. عطیہ، علی علیہالسلام خاصف نعل النبی صلیاللہعلیہوآلہ، 1436ھ، ص13۔
6. مکارم شیرازی، پیام امام امیر المومنین(ع)، 1385شمسی، ج2، ص303۔
7. فاضل لنکرانی، آیۃ التطہیر رؤیۃ مبتکرۃ، 1424ھ، ص138۔
8. سبط ابنجوزی، تذکرۃ الخواص، 1418ھ، ص16؛ مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، 1383شمسی، ج1، ص16؛ شیعی سبزواری، راحۃ الأرواح، 1378شمسی، ص86۔
9. حلبی، تقریب المعارف، 1404ھ، ص202،
10. شیخ مفید، الإفصاح فی الإمامۃ، 1413ھ، ص136۔
11. جمعی از نویسندگان، فی رحاب أہل البیت(ع)، 1426ھ، ج22، ص52۔
12. مظفر، دلائل الصدوق، 1422ھ، ج5، ص85،
13. مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، 1383شمسی، ج1، ص232؛ طبری، کامل البہائی فی السقیفۃ، 1426ھ، ج2، ص220؛ عطیہ، علی علیہالسلام خاصف نعل النبی صلیاللہعلیہوآلہ، 1436ھ، ص123۔
14. کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج1، ص37؛ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ لابن أبی الحدید، 1383شمسی، ج9، 28؛ بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج2، ص69۔
15. بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج6، ص285۔
16. بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج3، ص169۔
17. ابنشاذان نیشابوری، الإیضاح، 1363شمسی، ص451۔
18. کاشف الغطاء، العقائد الجعفریۃ، 1425ھ، ص74؛ کشف الغطاء، 1422ھ، ج1، ص37۔
19. کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص11؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، 1407ھ، ج4، ص116۔
20. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص321؛ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص122؛ شیخ مفید، الإختصاص، 1413ھ، ص119؛ ابن حیون، شرح الأخبار، 1409ھ، ج1، ص203؛ شیخ صدوق، الخصال، 1362شمسی، ج1، ص275؛ شیخ طوسی، الأمالی، 1414ھ، ص254۔
21. ملاحظہ کیجیے: علامہ حلی، کشف الیقین، 1411ھ، ص137؛ علامہ حلی، نہج الحق، 1982ء، ص220؛ طبرسی، إعلام الوری، 1390ھ، ص189؛ ابن شہرآشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب (ع)، 1379ھ، ج3، ص44۔
22. ترمذی، سنن ترمذی، 1419، ج5، ص452۔
23. نسایی، سنن النسائی، 1411ھ، ج5، ص127-128۔
24. ابن حنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، 1416ھ، ج17، ص391۔
25. ملاحظہ کیجیے: ابنمغازلی شافعی، مناقب ابنالمغازلی الشافعی، 1424ھ، ص99؛ حاکم نیشابوری، المستدرک علی الصحیحین، 1411ھ، ج2، ص149؛ متقی ہندی، کنز العمال، 1989ء، ج13، ص99، 147؛ ابنابیالحدید، شرح نہج البلاغۃ لابنأبی الحدید، 1383شمسی، ج6، 217۔
26. مزید تفصیلات کے لیے رجوع کیجیے: شرف الدین، المراجعات، 1426ھ، ص346؛ فیروزآبادی، فضائل الخمسۃ، 1392ھ، ج2، 349-350۔
27. شیخ مفید، الجمل، 1413ھ، ص80۔
28. مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، 1383شمسی، ج1، ص232۔
29. عطیہ، علی علیہ السلام خاصف نعل النبی صلیاللهعلیہ وآلہ، 1436ھ، ص19۔
30. شیخ مفید، الجمل، 1413ھ، ص80؛ شیخ الشریعہ اصفہانی، القول الصراح فی نقد الصحاح، قم، ص217؛ عطیہ، علی علیہالسلام خاصف نعل النبی صلیاللہعلیہ وآلہ، 1436ھ، ص12۔
31. شرف الدین، المراجعات، 1426ھ، ص319؛ کاشف الغطاء، کشف الغطاء، 1422ھ، ج1، ص37۔
32. ترمذی، سنن ترمذی، 1419، ج5، ص452۔
33. گنجی شافعی، کفایۃ الطالب، 1404ھ، ص98۔
34. بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج6، ص285؛ اربلی، کشف الغمۃ، 1381ھ، ج1، ص335؛ علامہ حلی، نہج الحق، 1982ء، ص220.مرعشی، إحقاق الحق، 1409ھ، ج5، ص606-613؛ مظفر، دلائل الصدق، 1422ھ، ج5، ص85-92؛ نقوی، عبقات الأنوار، 1366شمسی، ج15، ص100؛ ابنشہرآشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب(ع)، 1379ھ، ج3، ص44۔
35. عطیہ، علی علیہالسلام خاصف نعل النبی صلیاللہعلیہ وآلہ، 1436ھ، ص19۔
36. ابنحنبل، مسند الإمام أحمد بن حنبل، 1416ھ، ج17، ص391، ج18، ص296. با کمی اختلاف در: ابنعطیہ، أبہی المراد، 1423ھ، ج1، ص37؛ شیخ مفید، الإفصاح فی الإمامۃ، 1413ھ، ص135؛ میلانی، تشیید المراجعات، 1427ھ، ج3، ص282؛ طبری، المسترشد فی إمامۃ علی بن أبی طالب(ع)، 1415ھ، ص357؛ سید بن طاووس، الطرائف، 1400ھ، ج1، ص70؛ مرعشی، إحقاق الحق، 1409ھ، ج31، ص149۔
37. قمی، تفسیر القمی، 1404ھ، ج2، ص321؛ کلینی، الکافی، 1407ھ، ج5، ص11؛ ابنشعبہ حرانی، تحف العقول، 1404ھ، ص289؛ شیخ طوسی، تہذیب الأحکام، 1407ھ، ج4، ص116۔
38. مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، 1383شمسی، ج1، ص232۔
39. مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، 1383شمسی، ج1، ص233؛ بیاضی، الصراط المستقیم، 1384شمسی، ج2، ص63۔
40. مظفر، دلائل الصدوق، 1422ھ، ج6، ص154۔
41. میلانی، تشیید المراجعات، 1427ھ، ج1، ص469، بہ نقل از ابنتیمیہ؛ مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، 1383شمسی، ج1، ص232، بہ نقل از شافعی۔
42. مظفر، دلائل الصدوق، 1422ھ، ج6، ص154؛ مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، 1383شمسی، ج1، ص232، بہ نقل از شافعی۔
43. حسینی تہرانی، امام شناسی، 1426ھ، ج2، ص148۔
44. ابنعطیہ، أبہی المراد، 1423ھ، ج1، ص38۔
45. حسینی تہرانی، امام شناسی، 1426ھ، ج2، ص148۔
46. حسینی تہرانی، امام شناسی، 1426ھ، ج2، ص148۔
47. نقوی، عبقات الأنوار، 1366شمسی، ج11، ص166، شیخ مفید، الجمل، 1413ھ، ص79؛ سلطان الواعظین شیرازی، شبہای پیشاور، 1379شمسی، ص901۔
48. سلطان الواعظین شیرازی، شبہای پیشاور، 1379شمسی، ص901۔
49. ترمذی، سنن ترمذی، 1419، ج5، ص451؛ شیخ مفید، الإرشاد، 1413ھ، ج1، ص122؛ طبرسی، إعلام الوری، 1390ھ، ص189؛ مرعشی، إحقاق الحق، 1409ھ، ج5، ص606۔
50. بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج6، ص286۔
51. نسایی، سنن النسائی، 1411ھ، ج5، ص127-128۔
52. اربلی، کشف الغمۃ، 1381ھ، ج1، ص336-337؛ بیاضی، الصراط المستقیم، 1384شمسی، ج2، ص63؛ مقدس اردبیلی، حدیقۃ الشیعۃ، 1383شمسی، ج1، ص232۔
53. شیخ حرعاملی، إثبات الہداۃ، 1422ھ، ج2، ص257۔
54. شیخ حر عاملی، إثبات الہداۃ، 1422ھ، ج3، ص123۔
55. طبری، المسترشد فی إمامۃ علی بن أبی طالب(ع)، 1415ھ، ص622؛ شیخ حر عاملی، إثبات الہداۃ، 1422ھ، ج3، ص275؛ بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج1، ص242۔
56. حلبی، تقریب المعارف، 1404ھ، ص203۔
57. خزاز، کفایۃ الأثر، 1401ھ، ص88۔
58. طبری، کامل البہائی فی السقیفۃ، 1426ھ، ج2، ص218-220۔
59. ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ لابن أبی الحدید، 1383شمسی، ج6، 217، طبرسی، الإحتجاج، 1403ھ، ج1، ص166، شیخ حر عاملی، إثبات الہداۃ، 1422ھ، ج3، ص123، 156؛ بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج1، ص242؛ سلطان الواعظین شیرازی، شبہای پیشاور، 1379شمسی، ص740۔
60. طبری، کامل البہائی فی السقیفۃ، 1426ھ، ج2، ص218-220۔
61. سلطان الواعظین شیرازی، شبہای پیشاور، 1379شمسی، ص741۔
62. طبری، کامل البہائی فی السقیفۃ، 1426ھ، ج2، ص220۔
63. ابنشاذان نیشابوری، الإیضاح، 1363شمسی، ص451؛ بحرانی، غایۃ المرام، 1422ھ، ج6، ص286؛ مجلسی، بحارالانوار، 1403ھ، ج26، ص4۔
64. مغنیہ، الجوامع و الفوارھ، 1414ھ، ص179۔
65. طبرسی، الإحتجاج، 1403ھ، ج1، ص170،
66. «نام بردن از امیرالمؤمنین علیہالسلام با عنوان خاصف النعل یا «کفشدوز»، سایت ثقلین۔
67. «نام بردن از امیرالمؤمنین علیہالسلام با عنوان خاصف النعل یا «کفشدوز»، سایت ثقلین۔
68. ملاحظہ کیجیے: ابن شہرآشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب(ع)، 1379ھ، ج3، ص45۔
69. شیخ حر عاملی، إثبات الہداۃ، 1422ھ، ج3، ص341؛ الغدیر، ج2، 450؛ ابن شہرآشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب(ع)، 1379ھ، ج3، ص45۔
70. عطیہ، علی علیہالسلام خاصف نعل النبی صلی اللہ علیہ وآلہ، 1436ھ، ص131۔
71. سبط ابنجوزی، تذکرۃ الخواص، 1418ھ، ص45؛ محدث ارموی، تعلیقات نقض، 1409ھ، ج2، ص976۔
72. شیخ حر عاملی، إثبات الہداۃ، 1422ھ، ج3، ص341؛ الغدیر، ج2، 450؛ ابن شہرآشوب مازندرانی، مناقب آل أبی طالب(ع)، 1379ھ، ج3، ص45۔
73. عطیہ، ماجد بن احمد، علی علیہالسلام خاصف نعل النبی صلیاللہعلیہوآلہ، کربلا، العتبۃ الحسینیۃ المقدسۃ، 1436ق۔
74. «اثبات امامت بلافصل امیرالمومنین علیہالسلام در حدیث مقاتلہ بررسی شد.»، پایگاہ جامع اطلاع رسانی امامت۔
75. مرادی، محمد، «معناکاوی روایتہای جنگ تأویل»، نشریہ علوم حدیث، دورہ 19، شمارہ 74، شمارہ پیاپی 74، زمستان 1393شمسی۔
مآخذ
1. ابنابی الحدید، شرح نہج البلاغۃ لابنأبی الحدید، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی، 1383ہجری شمسی۔
2. ابنحنبل، احمد بن محمد، مسند الإمام أحمد بن حنبل، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1416ھ۔
3. ابنحیون، نعمان بن محمد، شرح الأخبار فی فضائل الأئمۃ الأطہار(ع)، قم، جامعہ مدرسین، 1409ھ۔
4. ابنشاذان نیشابوری، فضل، الإیضاح، تہران، انتشارات دانشگاہ تہران، 1363ہجری شمسی۔
5. ابنشعبہ حرانی، حسن بن علی، تحف العقول عن آل الرسول صلی اللہ علیہ و آلہ، قم، جامعہ مدرسین، چاپ دوم، 1404ھ۔
6. ابنشہرآشوب مازندرانی، محمد بن علی، مناقب آل أبی طالب علیہم السلام، قم، علامہ، 1379ھ۔
7. ابنعطیہ، جمیل حمود، أبہی المراد فی شرح مؤتمر علماء بغداد، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، 1423ھ۔
8. ابنمغازلی شافعی، مناقب ابنالمغازلی الشافعی، بیروت، دارالأضواء، چاپ سوم، 1424ھ۔
9. ابنمنظور، محمد بن مکرم، لسان العرب، بیروت، دارصادر، چاپ سوم، بیتا۔
10. «اثبات امامت بلافصل امیرالمومنین علیہالسلام در حدیث مقاتلہ بررسی شد.»، پایگاہ جامع اطلاع رسانی امامت، تاریخ بازدید: 9 حرداد 1402ہجری شمسی۔
11. اربلی، علی بن عیسی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، تبریز، بنیہاشمی، 1381ھ۔
12. بحرانی، سید ہاشم غایۃ المرام و حجۃ الخصام فی تعیین الإمام من طریق الخاص و العام، بیروت، مؤسسۃ التأریخ العربی، 1422ھ۔
13. بیاضی، علی بن یونس، الصراط المستقیم إلی مستحقی التقدیم، قم، المکتبۃ المرتضویۃ، 1384ہجری شمسی۔
14. ترمذی، محمد بن عیسی، الجامع الصحیح و ہو سنن الترمذی، قاہرہ، دارالحدیث، 1419ھ۔
15. جمعی از نویسندگان، فی رحاب أہلالبیت(ع)، قم، المجمع العالمی لأہل البیت(ع)، چاپ دوم، 1426ھ۔
16. حاکم نیشابوری، محمد بن عبداللہ، المستدرک علی الصحیحین، تحقیق مصطفی عبد القادر عطا، بیروت، دارالکتب العلمیہ، 1411ھ۔
17. حسینی تہرانی، سید محمد حسین، امام شناسی، مشہد، علامہ طباطبایی، چاپ سوم، 1426ہجری شمسی۔
18. حلبی، ابوالصلاح، تقریب المعارف، قم، انتشارات الہادی، 1404ھ۔
19. خزاز قمی، علی بن محمد، کفایۃ الأثر، قم، انتشارات بیدار، 1401ھ۔
20. سبط ابنجوزی، یوسف بن قزاوغلی، تذکرۃ الخواص من الأمۃ فی ذکر خصائص الأئمۃ، قم، منشورات الشریف الرضی، 1418ھ۔
21. سلطان الواعظین شیرازی، شبہای پیشاور در دفاع از حریم تشیع، تہران، دارالکتب الإسلامیہ، چاپ سی و نہم، 1379ہجری شمسی۔
22. سید بن طاووس حسنی، علی بن موسی، الطرائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف فی معرفۃ مذاہب الطوائف، قم، خیام، 1400ھ۔
23. شرف الدین، سید عبدالحسین، المراجعات، قم، المجمع العالمی لأہل البیت، چاپ دوم، 1426ھ۔
24. شیخ صدوھ، محمد بن علی، الخصال، قم، جامعہ مدرسین، 1362ہجری شمسی۔
25. شیخ طوسی، محمد بن الحسن، الأمالی، قم، دارالثقافۃ، 1414ھ۔
26. شیخ طوسی، محمد بن الحسن، تہذیب الأحکام، تحقیق خرسان، تہران، دار الکتب الإسلامیہ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
27. شیخ الشریعہ اصفہانی، القول الصراح فی نقد الصحاح، قم، مؤسسہ امام صادق(ع)، بیتا۔
28. شیخ حر عاملی، محمد بن حسن، إثبات الہداۃ، بیروت، مؤسسۃ الأعلمی، 1422ھ۔
29. شیخ مفید، محمد بن محمد بن نُعمان، الإختصاص، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
30. شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الإرشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، قم، کنگرہ شیخ مفید، 1413ھ۔
31. شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الإفصاح فی الإمامۃ، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، 1413ھ۔
32. شیخ مفید، محمد بن محمد بن نعمان، الجمل، قم، المؤتمر العالمی للشیخ المفید، 1413ھ۔
33. شیعی سبزواری، ابو سعید، راحۃ الأرواح، تہران، میراث مکتوب، چاپ دوم، 1378ہجری شمسی۔
34. طباطبایی، سید محمدحسین، تفسیر المیزان، قم، جامعہ مدرسین، 1417ھ۔
35. طبرسی، فضل بن حسن، إعلام الوری بأعلام الہدی، تہران، اسلامیہ، چاپ سوم، 1390ھ۔
36. طبرسی، احمد بن علی، الإحتجاج، مشہد، نشر المرتضی، 1403ھ۔
37. طبری، عماد الدین، کامل البہائی فی السقیفۃ، قم، المکتبۃ الحیدریۃ، 1426ھ۔
38. طبری، محمد بن جریر بن رستم، المسترشد فی إمامۃ أمیر المؤمنین(ع)، قم، مؤسسۃ الواصف، 1415ھ۔
39. عطیہ، ماجد بن احمد، علی علیہالسلام خاصف نعل النبی صلیاللہعلیہوآلہ، کربلا، العتبۃ الحسینیۃ المقدسۃ، 1436ھ،
40. علامہ حلی، حسن بن یوسف، کشف الیقین فی فضائل أمیر المومنین(ع)، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی، 1411ھ۔
41. علامہ حلی، حسن بن یوسف، نہج الحق و کشف الصدوق، بیروت، دارالکتاب اللبنانی، 1982ء۔
42. فاضل لنکرانی، محمد، شہاب الدین اشراقی، آیۃ التطہیر رؤیۃ مبتکرۃ، قم، مرکز فقہ الأئمۃ الأطہار(ع)، چاپ سوم، 1424ھ۔
43. فیروزآبادی، فضائل الخمسۃ من الصحاح الستۃ، تہران، انتشارات اسلامیہ، چاپ دوم، 1392ھ۔
44. قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی، قم، دار الکتاب، چاپ سوم، 1404ھ۔
45. کاشف الغطاء، شیخ جعفر، العقائد الجعفریۃ، قم، مؤسسۃ أنصاریان، چاپ سوم، 1425ھ۔
46. کاشف الغطاء، شیخ جعفر، کشف الغطاء عن مبہمات الشریعۃ الغراء، قم، انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم، 1422ھ۔
47. کلینی، محمد بن یعقوب بن اسحاھ، الکافی، تہران، دارالکتب الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1407ھ۔
48. گنجی شافعی، محمد بن یوسف، کفایۃ الطالب فی علی بن ابی طالب(ع)، تہران، دار احیاء تراث أہل البیت، چاپ دوم، 1404ھ۔
49. محدث ارموی، میر جلال الدین، تعلیقات نقض، تہران، انتشارات انجمن آثار ملی، 1358ہجری شمسی۔
50. مجلسی، محمدباقر، بحارالانوار، تحقیق: ابراہیم میانجی و محدباقر بہبودی، قم، چاپ سوم ، 1403۔
51. متقی ہندی، علی بن حسامالدین، کنز العمال فی سنن الاقوال و الافعال، بیروت، مؤسسۃ الرسالۃ، 1989م.
52. مرعشی، قاضی نوراللہ، إحقاق الحق و إزہاق الباطل، قم، مکتبۃ آیۃ اللہ المرعشی النجفی، 1409ھ۔
53. مظفر، محمدحسین، دلائل الصدوق، قم، مؤسسۃ آلالبیت(ع)، چاپ اول، 1422ھ۔
54. مغنیہ، محمد جواد، الجوامع و الفوارق بین السنۃ و الشیعۃ، بیروت، مؤسسۃ عز الدین، 1414ھ۔
55. مقدس اردبیلی، احمد بن محمد، حدیقۃ الشیعۃ، قم، انتشارات انصاریان، چاپ سوم، 1383ہجری شمسی۔
56. میلانی، سید علی، تشیید المراجعات و تفنید المکابرات، قم، مرکز الحقائق الإسلامیۃ، چاپ چہارم، 1427ھ۔
57. مکارم شیرازی، پیام امام امیرالمومنین(ع)، تہران، دارالکتب الاسلامیہ، 1385ہجری شمسی۔
58. «نام بردن از امیرالمؤمنین علیہالسلام با عنوان خاصف النعل یا «کفشدوز»، سایت ثقلین. تاریخ بازدید: 9 حرداد 1402ہجری شمسی۔
59. نسائی، احمد بن علی، السنن الکبری، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، منشورات محمد علی بیضون، 1411ھ۔