امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

احکام سِقْطْ جَنِینْ

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

��� احکام «سِقْطْ جَنِینْ»:��

� «سِقْطْ جَنِینْ» کس مہینے میں جائز ہے؟
 �اگر فقط ماں کی جان کو خطرہ ہو تو کیا «سِقْطْ جَنِینْ»  جائز ہے؟
� اگر ماں اور بچے دونوں کی جان کو خطرہ ہو تو کیا کرنا چاہیے؟
� اگر بچہ ذہنی طور پر معذور ہو تو کیا «سِقْطْ جَنِینْ» کی اجازت ہے؟
� کس صورت میں « دیہ»» دینا ضروری ہے؟

 

الفاظ کی وضاحت:
 * «سِقْطْ جَنِینْ»: بچے کو پیدائش سے پہلے ہی ماں کے رحم سے نکالنا۔
 * «جائز»: شرعی طور پر درست یا قابل قبول۔
 * «دیہ»: کسی کے نقصان یا قتل کے عوض اداء کیا جانے والا معاوضہ

 

✍"«سِقْطْ جَنِینْ» ممنوع ہے"
اس جملے کا مطلب ہے کہ بچے کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے «سِقْطْ جَنِینْ»کرنا اسلام میں حرام ہے۔
�یعنی ایک مسلمان عورت جب حاملہ ہو جائے تو اسے بچے کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ایک گناہ ہے اور اس کی ممانعت کی گئی ہے۔
اسلام میں حاملہ عورت کے لئے کچھ خاص احکام اور پابندیاں ہیں جن میں سے ایک «سِقْطْ جَنِینْ» کا حرام ہونا ہے۔
�«سِقْطْ جَنِینْ» کی ممانعت کے چند اہم وجوہات یہ ہیں:
�بچہ اللہ کی طرف سے ایک نعمت ہے اور اسے «سِقْطْ» کرنا اللہ کی ناراضی کا باعث ہے۔
 �بچہ ایک انسان ہے اور اس کی جان لینا قتل کے مترادف ہے۔
 �«سِقْطْ جَنِینْ» سے عورت کی صحت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

�«سِقْطْ جَنِینْ» صرف ان صورتوں میں جائز ہو سکتا ہے جب:

 �عورت کی جان کو خطرہ ہو اور بچے کو بچانے کے لئے «سِقْطْ جَنِینْ» ضروری ہو۔
 � بچہ بہت بیمار ہو اور اس کی زندگی بچانا ممکن نہ ہو۔
 �بچہ ناقص پیدا ہو اور اس کی پرورش کرنا والدین کے لئے بہت مشکل ہو۔

�لیکن یہ سب کچھ بچے میں روح پھونکنے سے پہلے ہے۔
� روح پھونکنے کے بعد «سِقْطْ جَنِینْ» صرف اس صورت میں جائز ہو سکتا ہے

 �جب ماں اور بچہ دونوں کی زندگی کو خطرہ ہو اور «سِقْطْ جَنِینْ» کے بغیر عورت کو بچانا ممکن نہ ہو۔
�اگر «سِقْطْ جَنِینْ» شرعی طور پر جائز بھی ہو تو احتیاط یہ ہے کہ اس کا کفارہ(دیہ) ادا کیا جائے۔

� پروردگار رزق دینے والا ہے لہذا مالی مشکلات کی وجہ سے «سِقْطْ جَنِینْ» کا سوچنا بھی درست نہیں ہے۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک