اسحاق سے مامون کا مناظرہ
- شائع
-
- مؤلف:
- آیت اللہ جعفر سبحانی
- ذرائع:
- فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
اسحاق سے مامون کا مناظرہ :
مامون نے اپنی خلافت کے زمانے میں چاہے سیاسی مصلحت کی بنیاد پر یا اپنے عقید ے کی بنیاد پر،مولائے کائنات کی برتری کا اقرار کیا اور اپنے کو شیعہ ظاہر کیا ایک دن ایک علمی گروہ جس میں اس کے زمانے کے( ۴۰)چالیس دانشمند اور خود اسحاق بھی انھیں کے ہمراہ تھے ، کی طرف متوجہ ہوا اورکہا:
جس دن پیغمبرخدا صلىاللهعليهوآلهوسلم رسالت پر مبعوث ہوئے اس دن بہترین عمل کیا تھا؟
اسحاق نے جواب دیا ، خدا اور اس کے رسول کی رسالت پر ایمان لانا ۔
مامون نے دوبا رہ پوچھا ، کیا اسلام قبول کرنے میں اپنے حریفوں کے درمیان سبقت حاصل کر نا بہترین عمل نہ تھا ؟
اسحاق نے کہا ، کیوں نہیں ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں .
وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُولَٰئِكَ الْمُقَرَّبُونَ
اور اس آیت میں سبقت سے مراد وہی اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنا ہے
مامون نے پھرسوال کیا ، کیا علی ـ سے پہلے کسی نے اسلام قبول کرنے میں سبقت حاصل کی ہے ؟
یا علی ـ وہ پہلے شخص ہیں جو پیغمبر پر ایمان لائے ہیں؟
اسحاق نے جواب دیا،علی ہی وہ ہیں جو سب سے پہلے پیغمبر پر ایمان لائے لیکن جس دن وہ ایمان لائے، بچے تھے اور بچے کے اسلام کی کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن ابو بکر اگر چہ وہ بعدمیں ایمان لائے اور جس دن خدا پرستوں کی صف میں کھڑے ہوئے وہ بالغ وعاقل تھے لہٰذا اس عمرمیں ان کا ایمان اورعقیدہ قابل قبول ہے.
مامون نے پوچھا، علی کس طرح ایمان لائے ؟
کیا پیغمبر نے انھیں اسلام کی دعوت دی یا خدا کی طرف سے ان پر الہام ہوا کہ وہ آئیں اورتوحید اور اسلام کو قبول کریں؟
یہ بات کہنا بالکل صحیح نہیں ہے کہ حضرت علی کا اسلام لانا خداوندعالم کی طرف سے الہام کی وجہ سے تھا، کیونکہ اگر ہم یہ فرض کر لیں تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ علی کا ایمان پیغمبر کے ایمان سے زیادہ افضل ہو جائے گا اس کی دلیل یہ ہے کہ علی کا پیغمبر سے وابستہ ہونا جبرئیل کے توسط اور ان کی رہنمائی سے تھا نہ یہ کہ خدا کی طرف سے ان پر الہام ہوا تھا ۔
بہرحال اگر حضرت علی کا ایمان لانا پیغمبر کی دعوت کی وجہ سے تھا تو کیا پیغمبر نے خود ایمان کی دعوت دی تھی یا خدا کا حکم تھا ؟۔
یہ کہنا بالکل صحیح نہیں ہوگا کہ پیغمبر خدا نے حضرت علی کوبغیرخدا کی اجازت کے اسلام کی دعوت دی تھی بلکہ ضروری ہے کہ یہ کہا جائے کہ پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو اسلام کی دعوت،خدا کے حکم سے دی تھی ۔
کیا خداوندعالم اپنے پیغمبر کو حکم دے گا کہ وہ غیر مستعد(آمادہ ) بچے کو جس کا ایمان لانا اور نہ لانا برابرہو اسلام کی دعوت دے ؟
(نہیں )۔ بلکہ یہ ثابت ہے کہ امام ـ بچپن میں ہی شعوروادراک کی اس بلندی پر فائز تھے کہ ان کا ایمان بزرگوں کے ایمان کے برابر تھا۔
(عقد الفرید، ج۳، ص ۴۳. اسحاق کے بعد جاحظ نے کتاب العثمانیہ میں اشکال کیاہے اور ابوجعفر اسکافی نے کتاب نقض العثمانیہ میں اس اعتراض کا تفصیلی جواب دیاہے اور ان تمام بحثوں کو ابن ابی الحدید نے نہج البلاغہ کی شرح ج۱۳ ص ۲۱۸ سے ص ۲۹۵ پر لکھا ہے)۔
یہاں مناسب تھا کہ مامون اس کے متعلق دوسرا بھی جواب دیتا کیونکہ یہ جواب ان لوگوں کے لئے مناسب ہے جن کی معلومات بحث ولایت وامامت میں بہت زیادہ ہو اور اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اولیائے الہی کا کبھی بھی ایک عام آدمی سے مقابلہ نہیں کرناچاہئے اور نہ ان کے بچپن کے دورکو عام بچوں کے بچپن کی طرح سمجھنا چاہئے اور نہ ہی ان کے فہم وادراک کو عام بچوںکے فہم و ادراک کے برابرسمجھنا چاہیے، پیغمبروں کے درمیان بعض ایسے بھی پیغمبرتھے جوبچپن میں ہی فہم وکمال اور حقایق کے درک کرنے میں منزل کمال پر پہونچے تھے ،اور اسی بچپن کے زمانے میں ان کے اندر یہ لیاقت موجود تھی کہ پروردگار عالم نے حکمت آمیز سخن اور بلند معارف الہیہ ان کو سکھایا، قرآن مجید میں جناب یحییٰ علیہ السلام کے متعلق بیان ہوا ہے :
( یَا یَحْییٰ خُذِالْکِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَیْنٰاه الْحُکْمَ صَبِیّاً ) (سورۂ مریم۱۲)
اے یحییٰ کتاب (توریت) مضبوتی کے ساتھ لو اور ہم نے انھیں بچپن ہی میں اپنی بارگاہ سے حکمت عطا کی جب کہ وہ بچے تھے۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اس آیت میں حکمت سے مرادنبوت ہے اور بعض لوگوں کا احتمال یہ ہے کہ حکمت سے مراد معارف الہی ہے .بہر حال جو بھی مراد ہو لیکن آیت کے مفہوم سے واضح ہے کہ انبیاء اور اولیاء الہی ایک خاص استعداد اور فوق العادہ قا بلیت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں ،اور ان کا بچپن دوسروں کے بچپن سے الگ ہوتا ہے ،
حضرت عیسیٰ ـ اپنی ولادت کے دن ہی خدا کے حکم سے لوگوں سے گفتگو کی اور کہا : بے شک میں خدا کا بندہ ہوں ،مجھ کو اُسی نے کتاب عطا فرمائی ہے اور مجھ کونبی بنایا۔
(وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا) (سورۂ مریم، آیت ۳۰)
معصومین علیہم السلام کے حالات زندگی میں بھی ہم پڑھتے ہیں کہ ان لو گوںنے بچپن کے زمانے
میں عقلی ،فلسفی اور فقہی بحثوں کے مشکل سے مشکل مسئلوں کا جواب دیا ہے ۔
(بطور مثال وہ مشکل سوالات جو ابوحنیفہ نے امام موسیٰ کاظم سے اور یحییٰ ابن اکثم نے امام جواد ـ سے کیے تھے. اور جوجوابات ان لوگوںنے سنا وہ آج بھی حدیث اور تاریخ کی کتابوںمیں محفوظ ہیں) ۔
جی ہاں نیک لوگوں کے کاموں کو اپنے کاموں سے قیاس نہ کریں اور اپنے بچوں کے فہم و ادراک کو پیغمبروں اوراولیاء الہی کے بچپن کے زمانے سے قیاس نہ کریں۔
(امیر المومنین ـ فرماتے ہیں:
لَایُقٰاسُ بِآلِ مُحَمَدٍ مِنْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ اَحَد .
اس امت کے کسی بھی فرد کو پیغمبر اسلام کے فرزندوں اور خاندان سے موازنہ نہ کرو۔ نہج البلاغہ، خطبہ دوم)