خانۂ وحی پر حملہ
- شائع
-
- مؤلف:
- آیت اللہ جعفر سبحانی
- ذرائع:
- فروغِ ولایت(سیرت امیر المومنین علی علیہ السلام کا مکمل جائزہ)
خانۂ وحی پر حملہ
قریش کے سپاہی اپنے ہاتھوں کوقبضۂ تلوار پر رکھے ہوئے اس وقت کے منتظر تھے کہ سب کے سب اس خانہء وحی پر حملہ کریں اور پیغمبر کو قتل کردیں جو بستر پر آرام کر رہے ہیں .وہ لوگ دروازے کے جھروکے سے پیغمبر کے بستر پر نگاہ رکھے تھے اور بہت زیادہ ہی خوشحال تھے اوراس فکر میں غرق تھے کہ جلدی ہی اپنی آخری آرزؤں تک پہونچ جائیں گے،
مگر علی علیہ السلام بڑے اطمینان و سکون سے پیغمبر کے بستر پر سو رہے تھے. کیونکہ وہ جانتے تھے کہ خداوند عالم نے اپنے حبیب، پیغمبر اسلام صلىاللهعليهوآلهوسلم کودشمنوں کے شر سے نجات دیا ہے.
دشمنوں نے پہلے یہ ارادہ کیاتھا کہ آدھی رات کو پیغمبر کے گھر پر حملہ کریں گے لیکن کسی وجہ سے اس
ارادے کوبدل دیا اور یہ طے کیا کہ صبح کو پیغمبر کے گھر میں داخل ہوں گے اور اپنے مقصد کی تکمیل کریں گے،
رات کی تاریکی ختم ہوئی اور صبح صادق نے افق کے سینے کو چاک کیا. دشمن برہنہ تلواریں لئے ہوئے یک بارگی پیغمبر کے گھر پر حملہ آور ہوئے اوراپنی بڑی اوراہم آرزوؤں کی تکمیل کی خاطر بہت زیادہ خوشحال پیغمبر کے گھر میں وارد ہوئے، لیکن جب پیغمبر کے بستر کے پاس پہونچے تو پیغمبر کے بجائے حضرت علی ـ کوان کے بستر پر پایا ،ان کی آنکھیں غصے سے لال ہوگئیں اور تعجب نے انھیں قید کرلیا .حضرت علی ـکی طرف رخ کر کے پوچھا: محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم کہاںہیں؟
آپ نے فرمایا: کیاتم لوگوںنے محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم کو میرے حوالے کیا تھا جو مجھ سے طلب کر رہے ہو؟
اس جواب کو سن کر غصے سے آگ بگولہ ہوگئے اور حضرت علی پر حملہ کردیااور انہیں مسجد الحرام لے آئے، لیکن تھوڑی جستجو وتحقیق کے بعد مجبور ہوکر آپ کوآزاد کردیا، وہ غصے میں بھنے جارہے تھے،اور ارادہ کیا کہ جب تک پیغمبر کو قتل نہ کرلیں گے آرام سے نہ بیٹھیں گے۔( تاریخ طبری ج۲ ص ۹۷)
قرآن مجیدنے اس عظیم اور بے مثال فداکاری کو ہمیشہ اور ہر زمانے میں باقی رکھنے کے سلسلے میں حضرت علی ـکی جانبازی کو سراہا ہے اور انھیں ان افراد میں شمار کیا ہے جو لوگ خدا کی مرضی کی خاطر اپنی جان تک کونچھاور کردیتے ہیں: