معراجِ انسانیت سیرتِ حَسْنَیْن کی روشنی میں
معراجِ انسانیت سیرتِ حَسْنَیْن کی روشنی میں
جبکہ حضرت پیغمبر خدا کی واحد زندگی میں مختلف نمونے سامنے آ گئے جو بظاہر متضاد ہیں۔ حضرت علی بن ابی طالب کی واحد زندگی میں ایسی ہی مثالیں سامنے آ گئیں تو اب اگر دو شخصیتوں میں باقتضائے حالات اس طرح کی د ورنگی نظر آئے تو اس کو اختلاف طبیعت یا اختلاف رائے کا نتیجہ سمجھنا کیونکہ درست ہو سکتا ہے اور یہ کیوں کہا جائے کہ حسن مجتبیٰ طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین طبعاً جنگ پسند تھے بلکہ یہی سمجھنا چاہئے کہ اس وقت کے حالات کا تقاضا وہ تھا اور اس وقت کے حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت حسن مجتبیٰ امام تھے ان کو فریضہ الٰہی وہ محسوس ہوا اور اس وقت حضرت حسین بن علی امام تھے، ان کو فریضہ ربانی اس وقت کے حالات میں یہ محسوس ہوا۔ اس میں جذبات کا کوئی دخل نہ تھا۔
یہی وہ حقیقت ہے جس کا حضرت پیغمبر خدا نے مختلف الفاظ میں پہلے سے اظہار فرما دیا تھا۔ کبھی ان الفاظ میں کہ:
«ابْنَای هَذَانِ إِمَامَانِ قَامَا أَوْ قَعَدَا» (یعنی: الْحَسَنُ وَ الْحُسَینُ)
یہ میرے دونوں فرزند امام ہیں چاہے کھڑے ہوں اور چاہے بیٹھے ہوں۔"
اس وقت کی دنیا اس کو نہیں سمجھ سکتی تھی کہ امام کہنے کے ساتھ قاما اوقعدا۔ کس لئے کہا جا رہا ہے؟
امامت میں اٹھنے اور بیٹھنے کا کیا دخل۔ مگر جب مستقبل نے واقعات پر سے پردہ ہٹایا تو اب معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر ماضی کے آئینہ میں مستقبل کا نقشہ دیکھ رہے تھے ک ہایک صلح کرکے بیٹھ جائے گا اور ایک تلوار لے کر کھڑا ہو جائے گا۔ کچھ لوگ حسن کی صلح پر اعتراض کریں گے اور کچھ لوگ حسین کی جنگ پر۔
آپ نے اسی لئے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں امام ہیں چاہے کھڑے ہوں اور چاہے بیٹھے ہوں۔
یعنی حسن صلح کرکے بیٹھ جائے تو اعتراض نہ کرنا اور حسین تلوار لے کر کھڑا ہو جائے تو اعتراض نہ کرنا وہ بیٹھنا بھی حکم خدا سے ہے اور یہ کھڑا ہونا بھی حکم خدا سے ہے وہ اس وقت کے حالات کا تقاضا ہے اور یہ اس وقت کے حالات کا۔
اور کبھی اس طرح جسے علامہ ابن حجر نے لکھا ہے کہ سیدہ عالم اپنے والد بزرگوار حضرت رسول کے پاس دونوں شاہزادوں کو لے کر حاضر ہوئیں اور عرض کیا۔
یَا آیَتِ هٰذَانِ ابْنَاک انحَلْهُمَا
ابا جان یہ دونوں بچے آئے ہیں انہیں کچھ عطا فرمائیے۔" حضرت نے فرمایا:
اَمَّاالْحُسْنُ فَلَهْ حِلمِی وَ سوُدَدِی واَمّالْحُسَیْنُ فَلَد‘ جُرأتِی وَجُودِی
مطلب یہ ہوا کہ انہیں اور کسی عطیہ کی کیا ضرورت ہے ان میں تو میری صفتیں تقسیم ہو گئی ہیں حسن میں میرا حلم ہے اور میری شان سرداری اور حسین میں میری جرأت و ہمت ہے اور میری فیاضی اب تقسیم پر غور کیجئے۔ معلوم ہوتا ہے۔ کہ ظرف زمانہ کے لحاظ سے جس کو جس صفت کا مظہر بننا تھا اسی صفت کو رسول نے اپنا قرار دیا۔ تاکہ اس صفت سے جو کارنامہ ظہور میں آئے وہ کسی مسلما ن کے نزدیک قابل اعتراض نہ ہو سکے۔
اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ حسن کی صلح کو حسن کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میرے حلم کا نتیجہ ہے اس کا مطلب صاف یہ ہے کہ اس موقع پر میں ہوتا تو وہی کرتا جو حسن کرے گا اور حسین کی جنگ کو حسین کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میری جرأت کا نتیجہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس موقع پر میں ہوتا تو وہی کرتا جو حسین کرے گا۔
اب حسن کی صلح پر اعتراض رسول کے حلم پر اعتراض ہے اور حسین کی جنگ پر اعتراض رسول کی جرأت پر اعتراض ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حسن نے صلح کرکے جہاد حسین کے لئے زمین ہموار کر دی۔ وہ صلح اس وقت نہ ہوتی تو اس کے بعد جہاد کا یہ ہنگام نہ آ سکتا۔ کیونکہ اسلام میں جنگ بہ مجبوری ہوتی ہے عدم امکانِ صلح کی بنا پر جب تک اصول کے تحفظ کے ساتھ صلح کا امکان ہو اس وقت تک جنگ کرنا غلط ہے جب کہ آئین اسلام میں صلح کا درجہ جنگ پر مقدم ہے تو اگر امام حسن صلح نہ کر چکے ہوتے تو اتمام حجت نہ ہوتی اور حضرت امام حسین کے لئے جنگ کا موقع پیدا نہ ہوتا۔
امام حسن کے شرائط صلح پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ اس صلح کے شرائط میں ان مقاصد کا پورا پورا تحفظ کیا گیا تھا جن کے لئے پھر کربلا کی جنگ ہوئی۔ یہ نہ دیکھئے کہ بعد میں شرائط پر عمل نہیں ہوا۔ بعد میں عمل تو حدیبیہ کی صلح کے شرائط پر بھی نہ ہوا تھا مگر یہ تو ایک معاہدہ صلح کا وقوع میں آیا جب ہی فریق مخالف پر الزام عائد ہو سکا کہ اس نے ان شرائط پر عمل نہیں کیا اور اگر کوئی ایسا معاہدہ ہوا ہی نہ ہوتا تو یہ خلاف ورزی کا الزام فریق مخالف پر کہاں عائد ہو سکتا تھا۔ جب حدیبیہ کے شرائط پر عمل نہ ہوا تو فتح مکہ ہوئی اسی طرح اس صلح پر عمل نہ ہوا۔ تو معرکہ کربلا ہوا۔
معلوم ہوا کہ یہ تاریخی واقعات کی رفتار کا لازمی اقتضاء تھا کہ اس وقت صلح ہو اور اس وقت جنگ ہو۔ اور وہ حصہ وقت کا امام حسن کے حصہ میں آیا اور یہ ہنگام امام حسین کے حصہ میں آیا۔ اگر معاملہ بالعکس ہوتا یعنی ۴۱ ھ میں امام وقت امام حسین ہوتے تو وہ صلح امام حسین کرتے اور اگر ۶۱ ھ میں امام حسن موجود ہوتے تو یہ جہاد امام حسن فرماتے۔
حضرت امام حسن جانتے تھے کہ میرا جہاد ہے صلح کرنا۔ ان کی صلح مقتضائے شجاعت تھی اور امام حسین کا جہاد تھا یزید کے مقابلہ میں تلوار کھینچنا۔ یہ ان کی شجاعت کا مظاہرہ تھا۔ کیونکہ جس طرح علمائے اخلاق نے بیان کیا ہے شجاعت ہر موقع پر تلوار لے کر بڑھ جانے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ شجاعت قوت غضب کے تابع حکم عقل ہون یکا نام ہے اور یہ قوت غضبیہ کے اعتدال کا درجہ ہے اگر انسان نے بے موقع غصہ سے کام لیا اور قدم آگے بڑھا دیا تو یہ "تہوُّ" ہو گا اور اگر موقع آنے پر بھی اس سے کام نہ لیا اور بے محل کمزوری دکھائی تو اس کا نام "جُبن" ہو گا یہ دونوں چیزیں شجاعت کے خلاف ہیں۔ شجاعت یہ ہے کہ بے محل قدم آگے نہ بڑھے اور محل آنے پر خاموشی نہ ہو۔ ان دونوں رخوں کو حسن و حسین نے پیش کیا اور اس طرح دونوں نے مل کر شجاعت کی مکمل تصویر کھینچ دی۔
آئندہ آئے گا کہ حضرت امام حسین نے بھی صلح کی کوشش میں کوئی کمی نہیں کی یہ تو فریق مخالف کا طرز عمل تھا کہ اس نے وہ تمام شرائط مسترد کر دیئے۔ اگر دشمن ِشرائط کو منظور کر لیتا تو کارنامہ کربلا بھی صلح پر ختم ہوتا۔ اس کے بعد کسی کو یہ کہنے کا کیا حق ہے کہ امام حسن طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین نسبتاً جنگ پسند تھے۔
اس کا بھی بیان ابھی آئے گا کہ وہاں حاکم شام نے سادہ کاغذ بھیج دیا تھا کہ حسن مجتبیٰ جو چاہیں وہ شرائط لکھ دیں۔ امام نے شرائط لکھے اور حاکم شام نے ان کو منظور کیا دنیا غلط کہتی ہے کہ امام حسن نے حاکم شام کی بیعت کر لی۔ بیعت تو حقیقتاً اس نے کی جس نے شرائط مانے۔ انہوں نے تو بیعت لے لی۔ بیعت کی نہیں۔ اور امام حسین کے سامنے تھا یزید ایسے شخص سے بیعت کا سوال جسے آلِ محمد میں سے کوئی بھی منظور نہیں کر سکتا تھا۔
امام حسین زندگی کے اس ایک دن یعنی عاشور کو ہی حسین نہ تھے وہ اپنی زندگی کے ۵۷ برس میں ہر دن حسین تھے۔ پھر آخر صرف ایک دن کے کردار کو سامنے رکھ کر کیوں رائے قائم کی جاتی ہے۔ آخر اس ایک دن کو نکال کر جو ۵۷ برس ہیں وہ ان کی فہرست حیات سے کیونکر خارج ہو سکتے ہیں اسی طرح حضرت امام حسن صرف اس دن جب صلح نامہ پر دستخط کئے ہیں اسی وقت امام حسن نہ تھے۔ حسن نام تو اس پوری زندگی کا تھا لہٰذا آپ کی پوری زندگی کو سامنے رکھ کر رائے قائم کرنا درست ہو گا اور اگر صرف ایک حصہ حیات سامنے رکھ کر مخالفین اسلام نے آپ کی یہ تصویر کھینچی کہ آپ کے ایک ہاتھ میں تلوار ہے اور ایک ہاتھ میں قرآن جس طرح یہ تصویر نامکمل اور غلط ہے اسی طرح امام حسن کے متعلق جو تصویر کھینچی جاتی ہے یا امام حسین کی جو تصویر کھینچی جاتی ہے وہ بھی غلط ہے اور یہ غلطی اتنی عام ہے کہ ان کے نام لیوا تک اور سیرت و کردار کی پیروی پر زور دینے والے بھی ان کا وہی صرف ایک دن کا کردار جانتے اور اسی کو پیش کرتے ہیں اس لئے تقریروں میں گرمی پیدا کرنے کے لئے اور کسی بڑے معرکہ میں قدم بڑھانے کے واسطے خون میں جوش پیدا کرنے کے لئے حضرت امام حسین کا نام لیتے اور ان کے کارنامہ کو یاد دلاتے ہیں چاہے مقصد صحیح ہو یا غلط اور وہ جو اپنی تمام عمر شہادت سے ایک دن پہلے تک معرکہ آرائی کو ٹالتے رہے وہ حسین کا کردار گویا نہیں ہے کسی اور کا ہے پوری تصویر تو اسی وقت ہو گی جب پوری سیرت سامنے رکھ کر تصویر کھینچی جائے گی۔