سوال:کیا اسماعلی امام آغا خان کے لئے دعاء کرنا جائز ہے؟
- شائع
-
- مؤلف:
- ترجمہ و تریب: یوسف حسین عاقلی پاروی
- ذرائع:
- اصل متن: اسلام کوئست ڈاٹ کام
سوال:کیا آغا خان کے لئے دعاء کرنا جائز ہے؟
ترجمہ و تریب: یوسف حسین عاقلی پاروی
اصل سوال یہ ہے:
غیر شیعیان اور غیر مؤمن کے لئے دعائے خیراور مغفرت کا کیا حکم ہے؟
یا دوسرے الفاظ میں:
قرآن اور حدیث کی روشنی میں، غیر شیعیان کےلئےدعائے خیراور مغفرت کاکیا حکم ہے؟
جواب کا خلاصہ :
مقدمہ:
اللہ تعالٰی خالق کائنات ہے اور اس کی رحمتِ عمومی تمام مخلوقات پر پھیلی ہوئی ہے۔ ایک مؤمن انسان بھی اپنی وجود کی صلاحیت کے حساب سے، اگر وہ خدا کے ناموں اور صفات کا مظہر بننا چاہتا ہے تو اسے باقی مخلوقات کے ساتھ خیرخواہی اور محبت کا سلوک کرنا چاہیے۔ اس لئے صحیح ایمان کا ایک اہم اور نمایاں جزو دین کا نظام ہے
اور اس وجہ سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ خیرخواہی اور محبت ہر مخلوق کے لئے ہونی چاہیے،
چاہے وہ مؤمن ہو یا کافر، یا یہ کہ اس کی حد مؤمنوں تک ہی ہے؟ اس موضوع پر آگے بحث کی جائے گی۔
ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے دعاء کو چار اقسام میں تقسیم کرنا ہوگا اور ہر ایک کو الگ سے پرکھا جائے گا۔
الف. ہدایت کے لئے دعاء:
دعاء کرنا اور ہدایت کی کوشش کرنا تمام لوگوں کے لئے، حتیٰ کہ غیر مسلموں کے لئے بھی جائز ہے۔
جیسا کہ پیغمبر اسلام (ص) نے جنگ خندق کے موقع پر قریش کے لئے دعاء کی تھی،
جو اُن کے خلاف جنگ پر اُترے تھے، اور اللہ سے ان کی ہدایت ، طلب کیا(یعنی ہدایت کےلئے تنیک تمناؤں کا اظہار کیا)۔[1]
اسلام میں غیر مؤمن لوگوں کے مال و دولت اور افرادی قوت کی فراوانی پر فریفتہ نہ ہونے کا حکم ہے کیونکہ اگر غیر مؤمن کے پاس مال و اولاد کی فراوانی ہے تو اس کے دو برے نتائج ہیں:
الف۔ بظاہر خوشحال نظر آنے کے باوجود وہ ہمیشہ اضطراب اور پریشانی کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں۔
ب: انہی چیزوں کی محبت اس سے حق و باطل کو سمجھنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے اور وہ ناقابل ہدایت ہو کر کفر کی موت مرتا ہے۔
البته، ایسے شخص کے لئے جو دین خدا سے سخت دشمنی کرتاہو یا رکھتا ہو، اور اس میں لجاجت و شدت بھی ہو، اور حق کے پیروکاروں پر ظلم و ستم کرنے سے بھی دریغ نہ کرتا ہو، اس پر لعنت کی جا سکتی ہے اور اللہ سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ اسے ہدایت نہ دے؛ جیسا کہ حضرت موسیٰ (ع) نے فرعون کے لئے دعاء کی تھی:
وَقَالَ مُوسَىٰ رَبَّنَا إِنَّكَ آتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَأَهُ زِينَةً وَأَمْوَالًا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ ۖ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلَىٰ أَمْوَالِهِمْ وَاشْدُدْ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّىٰ يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ﴿ سوره یونس8۸﴾
" اور موسیٰ نے عرض کی: اے ہمارے رب! تو نے فرعون اور اس کے درباریوں کو دنیاوی زندگی میں زینت بخشی اور دولت سے نوازا ہے ہمارے رب! کیا یہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ (دوسروں کو ) تیری راہ سے بھٹکائیں؟
ہمارے رب! ان کی دولت کو برباد کر دے اور ان کے دلوں کو سخت کر دے تاکہ یہ لوگ دردناک عذاب کا سامنا کرنے تک ایمان نہ لائیں"۔[2]
یہ بد دعاء اس وقت کی گئی جب ہر قسم کے دلائل و معجزات دکھانے کے باوجوددشمن اپنے کفر پر ڈٹے رہے اورمستقبل میں ایمان لانے کی امید بھی باقی نہ رہی۔
نیزیہ بد دعاء بالکل اسی طریقہ پر ہے جو خود اللہ تعالیٰ اختیار فرماتا ہے کہ : جب حجت الہی تمام ہو پھر بھی کفر پر ڈٹے رہیں تو پھر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے، ان کا ہاتھ نہیں تھامتا، حتی ان سے توفیق سلب کیا جاتا ہےمزیدانہیں توفیق نہیں دیتا اس دعاء کا مضمون بھی شاید یہی ہے۔
ب. نیک امور میں کامیابی کی دعاء
جیسےدوسروں کے نیک کاموں ، اجتماعی اورمفاد عامہ یا عوام الناس کی فلاح و بہود کے حصول کے لئے کامیابی کی دعاء کرنا –
چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم - جائز ہے۔
یہ دعاء غیر مسلمانوں کے لئے بھی جائز ہے اور ان مسلمانوں کے لئے بھی جو حق کے راستے پر نہیں ہیں۔
امام سجاد (علیہ السلام) نے اُن لوگوں کے لئے دعاء کی جو ظالم و جابربنی امیہ کے فوجیوں میں شامل تھے مگر اسلامی سرحدوں کے دفاع میں مصروف تھے جو صحیفہ سجادیہ میں دعاء دعاء ثغور کے نام سے مشہور ہے
یہ مشہور دعاء صحیفہ سجادیہ کی ستائیسویں دعاء ہے جو امام سجاد علیہ السلام کی ماثورہ دعاؤں میں سے ایک ہے
جسے آپ علیہ السلام نےمسلمان ملکوں کے سرحدوں پر کھڑے محافظوں اورسپاہیوں کے حق میں کی ہے۔
حضرت زین العابدین(علیہ السلام) نے اپنی اس دعاء میں مسلمانوں کے سرحد کی مضبوطی کے لئے دعا کی ہے۔ اور خدا سے سرحدی سپاہیوں کے لئے علم و آگہی، صبر، اخلاص، ایمان، تقوا اور ان کی تعداد کی فراوانی کی دعا کی ہے۔ اسی طرح سے امام علیہ السلام اس دعاء میں اسلام کا دفاع کرنے لئے تمام مسلمانوں کی شمولیت و مشارکت چاہتے ہیں کہ وہ مجاہدوں کی مدد کریں اور سرحدی سپاہیوں کی مدد کریں اور ان کے گھر والوں کا خیال رکھیں۔
امام سجادعلیہ السلام نےغیبی امداد کے ذریعہ جنگ میں مشرکوں، پر مسلمانوں کی کامیابی اور کافروں کی بربادی کو موحد معاشرے کے لئے مقدمہ قرار دیا ہے۔
سرحدوں کی نگہبانی کرنے والوں کیلئے حضرت امام سجاد علیہ السلام کی مشہور دُعاء"کا ایک دفعہ ضرور مطالعہ کیجئےتاکہ آنکھیں حقیقت کو دیکھ سکیں:
«وكان من دعاء الإمام السجاد (ع) لأهل الثغور:»
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ حَصِّنْ ثُغُوْرَ الْمُسْلِمِیْنَ بِعِزَّتِكَ، وَ اَیِّدْ حُمَاتَهَا بِقُوَّتِكَ، وَ اَسْبِغْ عَطَایَاهُمْ مِنْ جِدَتِكَ.
بارالٰہا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اپنے غلبہ و اقتدار سے مسلمانوں کی سرحدوں کو محفوظ رکھ، اور اپنی قوت و توانائی سے ان کی حفاظت کرنے والوں کو تقویت دے، اور اپنے خزانۂ بے پایاں سے انہیں مالا مال کر دے۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ حَصِّنْ ثُغُوْرَ الْمُسْلِمِیْنَ بِعِزَّتِكَ، وَ اَیِّدْ حُمَاتَهَا بِقُوَّتِكَ، وَ اَسْبِغْ عَطَایَاهُمْ مِنْ جِدَتِكَ.
بارالٰہا! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور اپنے غلبہ و اقتدار سے مسلمانوں کی سرحدوں کو محفوظ رکھ، اور اپنی قوت و توانائی سے ان کی حفاظت کرنے والوں کو تقویت دے، اور اپنے خزانۂ بے پایاں سے انہیں مالا مال کر دے۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِهٖ، وَ كَثِّرْ عِدَّتَهُمْ، وَ اشْحَذْ اَسْلِحَتَهُمْ، وَ احْرُسْ حَوْزَتَهُمْ، وَ امْنَعْ حَوْمَتَهُمْ، وَ اَلِّفْ جَمْعَهُمْ، وَ دَبِّرْ اَمْرَهُمْ، وَ وَاتِرْ بَیْنَ مِیَرِهِمْ، وَ تَوَحَّدْ بِكِفَایَةِ مُؤَنِهِمْ، وَ اعْضُدْهُمْ بِالنَّصْرِ، وَ اَعِنْهُمْ بِالصَّبْرِ، وَ الْطُفْ لَهُمْ فِی الْمَكْرِ.
اے اللہ! محمدؐ اور ان کی آلؑ پر رحمت نازل فرما اور ان کی تعداد بڑھا دے، ان کے ہتھیاروں کو تیز کر دے، ان کے حدود و اطراف اور مرکزی مقامات کی حفاظت و نگہداشت کر، ان کی جمعیت میں انس و یکجہتی پیدا کر، ان کے امور کی درستی فرما، رسد رسانی کے ذرائع مسلسل قائم رکھ، ان کی مشکلات کے حل کرنے کا خود ذمہ لے، ان کے بازو قوی کر، صبر کے ذریعہ ان کی اعانت فرما، اور دشمن سے چھپی تدبیروں میں انہیں باریک نگاہی عطا کر۔
... اَللّٰهُمَّ وَ اَیُّمَا غَازٍ غَزَاهُمْ مِنْ اَهْلِ مِلَّتِكَ، اَوْ مُجَاهِدٍ جَاهَدَهُمْ مِنْ اَتْبَاعِ سُنَّتِكَ، لِیَكُوْنَ دِیْنُكَ الْاَعْلٰى، وَ حِزْبُكَ الْاَقْوٰى،ّ وَ حَظُّكَ الْاَوْفٰی، فَلَقِّهِ الْیُسْرَ، وَ هَیِّئْ لَهُ الْاَمْرَ، وَ تَوَلَّهٗ بِالنُّجْحِ، وَ تَخَیَّرْ لَهُ الْاَصْحَابَ، وَ اسْتَقْوِ لَهُ الظَّهْرَ، وَ اَسْبِـغْ عَلَیْهِ فِی النَّفَقَةِ، وَ مَتِّعْهُ بِالنَّشَاطِ، وَ اَطْفِ عَنْهُ حَرَارَةَ الشَّوْقِ، وَ اَجِرْهُ مِنْ غَمِّ الْوَحْشَةِ، وَ اَنْسِهٖ ذِكْرَ الْاَهْلِ وَ الْوَلَدِ، وَ اْثُرْ لَهٗ حُسْنَ النِّیَّةِ، وَ تَوَلَّهٗ بِالْعَافِیَةِ، وَ اَصْحِبْهُ السَّلَامَةَ، وَ اَعْفِهٖ مِنَ الْجُبْنِ، وَ اَلْهِمْهُ الْجُرْاَةَ، وَ ارْزُقْهُ الشِّدَّةَ، وَ اَیِّدْهُ بِالنُّصْرَةِ، وَ عَلِّمْهُ السِّیَرَ وَ السُّنَنَ، وَ سَدِّدْهُ فِی الْحُكْمِ، وَ اعْزِلْ عَنْهُ الرِّیَآءَ، وَ خَلِّصْهُ مِنَ السُّمْعَةِ، وَ اجْعَلْ فِكْرَهٗ وَ ذِكْرَهٗ وَ ظَعْنَهٗ وَ اِقَامَتَهٗ فِیْكَ وَ لَكَ ... ۔
بارالٰہا! تیرے دین و ملت والوں میں سے جو غازی ان سے آمادۂ جنگ ہو یا تیرے طریقہ کی پیروی کرنے والوں میں سے جو مجاہد قصد جہاد کرے، اس غرض سے کہ تیرا دین بلند، تیرا گروہ قوی اور تیرا حصہ و نصیب کامل تر ہو، تو اس کیلئے آسانیاں پیدا کر، تکمیل کار کے سامان فراہم کر، اس کامیابی کا ذمہ لے، اس کیلئے بہترین ہمراہی انتخاب فرما، قوی و مضبوط سواری کا بندوبست کر، ضروریات پورا کرنے کیلئے وسعت و فراخی دے، دل جمعی و نشاط خاطر سے بہرہ مند فرما، اس کے اشتیاق (وطن) کا ولولہ ٹھنڈا کر دے، تنہائی کے غم کا اسے احساس نہ ہونے دے، زن و فرزند کی یاد اسے بھلا دے، قصد خیر کی طرف رہنمائی فرما، اس کی عافیت کا ذمہ لے، سلامتی کو اس کا ساتھی قرار دے، بزدلی کو اس کے پاس نہ پھٹکنے دے، اس کے دِل میں جرأت پیدا کر، زور و قوت اسے عطا فرما، اپنی مدد گاری سے اسے توانائی بخش، راہ و روش (جہاد) کی تعلیم دے، اور حکم میں صحیح طریق کار کی ہدایت فرما، ریا و نمود کو اس سے دور رکھ، ہوسِ شہرت کا کوئی شائبہ اس میں نہ رہنے دے، اس کے ذکر و فکر اور سفر و قیام کو اپنی راہ میں اور اپنے لئے قرار دے۔... ۔[۳ و ۴]
ج. دعاء برائے مغفرت گناہ
دین مقدس اسلام میں دوسروں کے لئے استغفار کرنے کے حوالے سے کچھ پابندیاں ہیں۔ مسلمان، اور یہاں تک کہ پیغمبر (صلی الہ علیہ وآلہ وسلم)، کافروں اور مشرکوں کے لئے، جو ہدایت پر نہیں ہیں، بخشش مانگنے کا حق نہیں رکھتے۔
اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ ﴿ سوره التوبة 80﴾
"(اے رسول) آپ ایسے لوگوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں یا دعا نہ کریں (مساوی ہے) اگر ستر بار بھی آپ ان کے لیے مغفرت طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا، یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور اللہ فاسقین کو ہدایت نہیں دیتا"۔
یعنی :جب یہ لوگ بدتر جرم جو کفر اور فسق سے عبارت ہے، کے ارتکاب میں مشغول ہیں، عین اس وقت ان کے لیے درگزر اور معاف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس بات کے ناممکن اور نامعقول ہونے کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے فرمایا: اے رسول صلىاللهعليهوآلهوسلم خواہ آپ بنفس نفیس ان کے لیے ستر بار بھی مغفرت کی دعا کریں پھر بھی یہ لوگ قابل عفو و درگزر نہیں ہیں کیونکہ ان کی طرف سے جرم ہنوز جاری ہے۔ ستر سے کثرت مراد ہے، حد بندی نہیں(بلاغ القرآن)۔
وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ﴿ سوره التوبة 8۴﴾
"اور ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر آپ کبھی بھی نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہوں، انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ نافرمانی کی حالت میں مرے ہیں"۔
یعنی:نماز جنازہ پڑھنا اور میت کی قبر پر بغرض دعا و زیارت کھڑا ہونا میت کے لیے عزت و تکریم ہے۔ منافق جو مسلمانوں کی صف میں داخل نہیں ہے، اس عزت و تکریم کا مستحق نہیں ہے(بلاغ القرآن)۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اپنے چچا" آزر" کے لئے ایک وعدے کی بناء پر ایک مخصوص مدت تک اس کے لئےدعائےاستغفار کیا، مگر بعد میں اس سے براءت کر لی۔
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴿ سوره التوبة ۱۱۳﴾
"نبی اور ایمان والوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مشرکوں کے لیے مغفرت طلب کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جبکہ یہ بات ان پر عیاں ہو چکی ہے کہ وہ جہنم والے ہیں"۔
یعنی:شرک، اللہ کی وحدانیت کے ساتھ بڑی گستاخی اور ناقابل معافی جرم ہے۔ اس آیت کی شان نزول میں متعدد روایات ہیں۔ سیاق آیت سے قریب روایت یہ ہے کہ کچھ اصحاب نے کہا: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کے لیے استغفار کیا ہے تو ہم بھی اپنے آبا و اجداد کے لیے استغفار کیوں نہ کریں؟
مگر غیر امامیہ کے صحاح میں آیا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوطالب علیہ السلام کی وفات کے موقع پر نازل ہوئی ہے جب حضرت ابوطالب علیہ السلام کی طرف سے کلمہ پڑھنے سے انکار کے باوجود نبی کریم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے ان کے لیے استغفار کیا۔ یہ روایت از لحاظ متن و سند قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ:
اولاً سورئہ توبہ سنہ 9 ہجری میں نازل ہوئی ہے جبکہ حضرت ابو طالب علیہ السلام نے ہجرت سے پہلے وفات پائی ہے۔
ثانیاً اس کا راوی سعید بن مسیب ناصبی ہے جیسا کہ واقدی نے لکھا ہے کہ اس نے امام زین العابدین علیہ السلام کے جنازے میں شرکت تک گوارا نہیں کی۔
ثالثاً اس آیت کی شان نزول میں روایات مضطرب ہیں۔
مثلاً غیر امامیہ کے مصادر میں ابن عباس، ابن مسعود اور عطیہ کی طرف سے روایت ہے کہ:
رسول کریم صلىاللهعليهوآلهوسلم نے اپنی والدہ حضرت آمنہ کے لیے استغفار کیا تو اس آیت کے ذریعے منع کیا گیا۔(معاذ اللہ) (المنار2:58)(ماخوذاز کتاب بلاغ القرآن)
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ﴿ سوره التوبة ۱۱۴﴾
"اور(وہاں)ابراہیم کا اپنے باپ (چچا) کے لیے مغفرت طلب کرنا اس وعدے کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس کے ساتھ کر رکھا تھا لیکن جب ان پر یہ بات کھل گئی کہ وہ دشمن خدا ہے تو وہ اس سے بیزار ہو گئے، ابراہیم یقینا نرم دل اور بردبار تھے"۔[5]
وَاغْفِرْ لِأَبِي إِنَّهُ كَانَ مِنَ الضَّالِّينَ ﴿ سوره الشعراء ۸۶﴾
"اور میرے باپ (چچا) کو بخش دے کیونکہ وہ گمراہوں میں سے ہے"۔
یعنی:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قیامت کی ہولناکی کا صحیح ادراک ہے۔ ابو الانبیاء ہونے کے باوجود اللہ کے حضور کس انداز سے عاجزی کرتے ہیں۔ فرزند خلیل حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعا میں ہے:
وَ لَا تُخْزِنِی یَوْمَ تَبْعَثُنِی لِلِقَائِکَ وَ لَا تَفْضَحْنِی بَیْنَ یَدَیْ اَوْلِیَائَکَ ۔ (الصحیفة السجادیة)
تو جس دن مجھے اپنی ملاقات کے لیے اٹھائے گا تو مجھے رسوا نہ کر اور اپنے دوستوں کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کر۔ ہم نے پہلے کئی بار بتایا انبیاء و ائمہ علیہم السلام کا استغفار، آداب بندگی کا حصہ ہے۔ عصمت کے باوجود اعتراف کرتے ہیں کہ بندگی کا حق ادا نہ ہوا۔(بلاغ القرآن)
ایسے مسلمان جو حق کو جانتے ہیں مگر اس کی مخالفت کرتے ہیں یا وہ مسلمان جو اہل بیت (علیہم السلام) کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں (نواصب) بھی اسی طرح کے حکم میں ہیں۔
مگر جو زیادہ تر غیر شیعہ مسلمان ہیں، ان کے لئے دعاء کرنے میں شرعا کوئی حرج نہیں بلکہ یہ ایک پسندیدہ عمل ہے؛
جیسے کہ امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:
عَنْ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ قَالَ: مَنْ قَالَ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسَاً وَ عِشْرِينَ مَرَّةً:
عبداللہ بن سنان، ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،امام ا صادق عَلَيْهِ السَّلاَمُ نے فرمایا: جو شخص روزانہ پچیس مرتبہ کہے کہ:
اَللَّهُمَّ اِغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَ اَلْمُؤْمِنَاتِ وَ اَلْمُسْلِمِينَ وَ اَلْمُسْلِمَاتِ كَتَبَ اَللَّهُ لَهُ بِعَدَدِ كُلِّ مُؤْمِنٍ مَضَى وَ كُلِّ مُؤْمِنٍ بَقِيَ إِلَى يَوْمِ اَلْقِيَامَةِ حَسَنَةً وَ مَحَا عَنْهُ سَيِّئَةً وَ رَفَعَ لَهُ دَرَجَةً
"اے اللہ معاف کر دے۔ مومن مردوں اور مومن عورتوں اور مسلمان مردوں اور مسلم عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہر گزرے ہوئے اور آج تک باقی رہنے والے مؤمنوں کی تعداد لکھ دی ہے۔ قیامت ایک اچھی چیز ہے، ایک بری چیز کو اس سے مٹا دیتی ہے، اور اس کے درجات کو بلند کرتی ہے۔
اسی طرح ایک مشہور دعاء میں پڑھتے ہیں:
"اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِینَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ وَ الْمُسْلِمِینَ وَ الْمُسْلِمَاتِ الْأَحْیَاءِ مِنْهُمْ وَ الْأَمْوَات"[۶]
"اے اللہ! مؤمن مردوں اور عورتوں، مسلمان مردوں اور عورتوں، زندوں اور مردوں کو بخش دے"۔
ایک روایت کے مطابق؛ امام صادق (ع) نے میت کی نماز کے ایک حصے کے بارے میں جس میں میت کے لئے بخشش کی دعاء کی جاتی ہے، فرمایا:
«اگر وہ شخص خدا کا دشمن تھا، تو کہو: خدایا! ہم نے اس سے تیرے خلاف کچھ نہیں دیکھا ... خدایا! اس کی قبر کو آگ سے بھر دے ... لیکن اگر وہ شخص مستضعف تھا (یعنی جان بوجھ کر حق کے خلاف نہیں آیا)، تو کہو: خدایا! جو لوگ توبہ کر چکے ہیں اور تیرے راستے پر چل رہے ہیں، انہیں بخش دے اور انہیں جنت کی آگ سے محفوظ رکھ۔
لیکن اگر تم نہیں جانتے کہ یہ شخص کس قسم کے لوگوں میں شامل ہے، تو کہو: اگر اس نے خیر اور اہل خیر کو پسند کیا، تو اسے بخش دے اور اپنی رحمت میں شامل کر۔[۷]
د. بقا اور لمبی عمر کےلئے دعاء
ظالموں کے لئے دعا کرنا یا ان کی حمایت کرنا - خواہ وہ ظاہری شکل میں مسلمان ہی کیوں نہ ہوں - ایک ذلیلانہ عمل ہے اور جائز نہیں ہے۔ چاہے وہ ظاہری طور پر مسلمان ہی کیوں نہ ہوں – ایک ناپسندیدہ اور ناجائز عمل ہے۔
صَفوان بن مهران اسدی معروف به صفوان جَمّال کی روایت کے مطابق جو انہوں نے امام کاظم(علیہ السلام) سے نقل کی ہے،
اس کا نتیجہ ہی ہےکہ: "ہر شخص جو چاہتا ہے کہ ہارون الرشید جیسے ظالم لوگ زندہ رہیں [حتی کہ کچھ وقت کے لئے] وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہے، اور جو ان لوگوں میں شامل ہو، وہ آتش دوزخ میں داخل ہوگا"۔
صفوان کے متعلق اہم ترین روایات میں سے وہ روایت ہے جو ان کے ایمان اور ائمہ کی اطاعت سے حکایت کرتی ہے۔ اس روایت میں ہارون عباسی کو اونٹ کرائے پر دینے کا ماجرا بیان ہوا ہے اب اس واقعہ کو مکمل پڑھ لیجئےگا:
صفوان نے بہت سے اونٹ رکھے ہوئے تھے جنہیں کرائے پر دے کر وہ اپنی زندگی کے بسر کرتے تھے، اسی مناسبت سے انہیں جمال کہتے تھے۔
ایک دن حضرت امام کاظم کی خدمت میں پہنچے. آپ نے فرمایا: ایک چیز کے علاوہ تمہاری ہر چیز اچھی ہے۔
صفوان نے استفسار کیا: میں آپ پر فدا ہوجاؤں وہ کیا ہے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ کہ تم اپنے اونٹ ہارون کو کرائے پر دیتے ہو۔
صفوان نے جواب دیا :مولامیں حرص، لالچ اور لہو کی بنا پر ایسا نہیں کرتا ہوں۔ وہ حج پر جاتا ہے تو میں حج کے راستے کیلئے دیتا ہوں میں خود اس کی کوئی خدمت نہیں کرتا ہوں۔ بلکہ اپنے غلام کو اس کے ساتھ بھیجتا ہوں۔
امام نے فرمایا: کیا تم اس سے کرائے کے طلبگار ہو؟
اس نے کہا: یابن رسول اللہ ہاں! بلکل ۔
امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: کیا دوست رکھتے ہو کہ وہ زندہ رہے تا کہ تمہارا کرایہ تمہیں مل جائے؟
صفوان: یابن رسول اللہ ہاں! بلکل ۔
امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: کوئی کسی کی زندگی کی بقا کا طلبگار ہو تو وہ انہی میں سے ہوگا اور جو کوئی دشمن خدا ہو گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔
صفوان جمال نے امام کاظم علیہ السلام سےہونے والی اس گفتگو کے بعد تمام اونٹوں کو بیچ دیا۔
جب اس کی خبر ہارون کو ملی تو اس نے صفوان کو طلب کیا اور کہا :
سنا ہے تم نے تمام اونٹ بیچ دیئے ہیں۔ تم نے کیوں ایسا کیا ہے؟
صفوان نے جواب دیا اور کہا:
بوڑھا ہو گیا ہوں اب اس ذمہ داری کو پورا نہیں کر سکتا ہوں۔
ہارون نے کہا: ہر گز ایسا نہیں ہے میں جانتا ہوں تم نے موسی بن جعفر کے اشارے پر ایسا کیا ہے۔ اگر میرے ساتھ تمہارا حق مصاحبت نہ ہوتا تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔[۹]
یہ روایت ظاہر کرتی ہے کہ ان لوگوں کے حق میں دعاء کرنا جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں، ایک گناہ کبیرہ ہے۔ بلکہ ان لوگوں کے زندہ رہنے کی تمناء کرنا بھی جائز نہیں ہے۔[۸ و ۹]
نتیجہ:
کافروں کے لئے استغفار کرناجائز ہے جب تک کہ ان کو ہدایت کی امید ہو، لیکن اگر ان کا پورا وجود اندھیرے اور گمراہی میں ڈوبا ہوا ہو اور وہ گمراہی کے راستے پر پاؤں دھکیل دیں یا کفر کی حالت میں مر جائیں تو ان کے لئے استغفار کی اجازت نہیں،
اور اگر کوئی دعا کرے تو بھی اس کا کوئی اثر یا فائدہ نہیں ہوگا۔
حالیہ علماء اور دیگر شعبہ ہای زندگی سے تعلق رکھنے والے شخصیات کی طرف سے جاری ہونےوالے بیانات اور دعائیہ کلمات کی چند صوتین ہوسکتی ہے:
پہلی: تو اتحاد و اتفاق کی خاطر
دوسری: آغا خان کی اجتماعی فلاح و بہود کی خدمات کو سراہانے کےلئے
تیسری:سیاسی اور علاقائی رسوم رسومات کی وجہ ہو
----
حوالہ حات:
نوٹ:اصل متنِ(فارسی) کو islamquestکی ویب سائٹ سے لیا کر اردو کی قالب میں ڈالا ہے اور ساتھ میں صحیفہ سجادیہ سے دعاء کی اصلِ متن اور ترجمہ اور اسی طرح علامہ شیخ محسن مرحوم کی بلاغ القرآن سےقرآن کا ترجمہ اور مختصر تفسیر کی عین عبارت کو نقل کیا ہے۔
[1]. طبرسی، فضل بن حسن، اعلام الوری بأعلام الهدی، ص 83، تهران، دار الکتب الاسلامیة، چاپ سوم، 1390ق.
[2]. یونس، 88.
[3]. وَ كَانَ مِنْ دُعَاء امام السجاد عَلَیْهِ السَّلَامُ لِاَهْلِ الثُّغُوْرِ ، 27.
[4]. علی بن الحسین(ع)، الصحیفة السجادیة، ص 126 - 132، قم، دفتر نشر الهادی، چاپ اول، 1376ش.
[5]. توبه، 113 - 114.
[6]. کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 2، ص 530، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، 1407ق.ثواب الأعمال و عقاب الأعمال , جلد۱ , صفحه۱۶۱
[7]. شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج 1، ص 168، قم، دفتر انتشارات اسلامی، چاپ دوم، 1413ق.
[8]. شیخ حرّ عاملی، وسائل الشیعة، ج 16، ص 295، قم، مؤسسه آل البیت(ع)، چاپ اول، 1409ق.
[9].رجال الکشّی، ج۲، ص۷۴۰، ح۸۲۸(ترجمہ اردوازویکی شیعہ)