"انسان شناسی" کی تعریف
انسان شناسی(1)
"انسان شناسی" کی تعریف :
"انسان شناسی " ایک ایسا اصطلاح ہے جسے مختلف میدانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔جیسے زبان شناسی ،سماج شناسی ،قوم شناسی ۔۔۔
اس تحریری سلسلے میں انسان شناسی سے خاص اصطلاح سے مراد "وہ علم جو کہ انسان کی وجود کے حقیقت ،انسان کی مقصد تخلیق اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے راہوں سے متعلق گفتگو کرتا ہے "۔
اس تحریری سلسلے میں کوشش ہوگی کہ انسان کی حقیقی کمال جو کہ ہدف غایی اور خلقت انسان کا اصلی ہدف سے متعلق درست نظریہ مشخص ہوگا اسکے بعد اس ہدف تک پہنچنے کےلیے مناسب رستے کے بارے میں آشنائی کی جایے گی۔
لہذا انسان شناسی از پہلو سے انسان کی وجود سے متعلق تجزیاتی بحث کرنا ہے اور ایک پہلو سے انسان کا سعادت تک پہنچنے کی راہوں سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔
انسان شناسی کا طریقہ کار :
انسان کی پہچان کے لیے گوناگوں طریقے اپنائے جاسکتے ہیں۔دانشوروں نے اپنے اپنے ذوق علمی کے مطابق اس موضوع کو چھیڑا ہے ۔
عرفاء نے شہودی طریقہ کار اور عرفانی معیارات پر انسان کی پہچان سے متعلق بحث کیا ہے۔
نیچرل سائنس کے ماہرین نے تجرباتی طریقہ کار برویے کار لاتے ہوئے اس موضوع کی موشگافی کی ہیں۔
فیلسوفوں نے عقلی طریقہ کار سے تجزیہ تحلیل کرکے اس موضوع کو جانچنے کی کوشش کی ہیں ۔
لہٰذا متعدد علمی معتبر طریقہ کاروں کی رو سے ہمارے پر کئی طرح کے انسان شناسی ہیں۔
البتہ شہودی معیارات پر انسان کی پہچان ،عمومی اور ہر ایک کےلیے میسیر طریقہ کار نہیں۔اسکے علاؤہ شہودی طریقہ کار میں مکاشفات اور شہود کی تفسیر میں خطاء اور غلطی کا امکان ہوتا ہے ۔
اسی طرح سے تجرباتی علوم سے حاصل کیے گیے انسان کی پہچان صرف محسوسات اور انسان کے مادی پہلو کو لحاظ کیا ہوتا ہے لہٰذا اس شناخت کی حلقوں میں خاطر خواہ خواہ اہمیت نہیں ۔اگرچہ فایدہ مند ضرور ہے ۔
چونکہ انسان کی پہچان کےلیے ایک پہلو سے متعلق آشنایی کافی نہیں ۔
لہٰذا اس تحریری سلسلے میں انسان کی پہچان کا طریقہ کار دو پہلوؤں سے ملاحظہ کیے جانے پر استوار ہوگا۔
1-انسان کی پہچان میں انسان کی خصوصیات ،نفس کا ہمیشہ باقی رہنا ،تخلیق انسان کا ہدف ،سعادت کا رستہ صرف اور دین کا ہونا ،راہ سعادت دکھانے والوں کی تخلیق کرنا (امام) اس پہلو کو صرف عقلی طریقہ کار سے ملاحظہ کیا جاہے گا۔
2-جب امام کی ضرورت کو عقلی پیمانوں پر ثابت کیا جایے گا ۔سعادت کے منشور کی ضرورت کو عقلی کسوٹی پر ثابت کرے گا ۔آیمہ اور انبیاء کے معصوم ہونے کو عقلی پیمانوں پر ثابت کرے گا تو اب نقلی طریقہ کار برویے کار لائا جایے گا۔
انسان شناسی کے موضوع کی اہمیت اور ضرورت
کئی پہلوؤں سے اس موضوع کو چھیڑنے کی ضرورت بھی ہے اور اہمیت بھی۔
1-انسان کو پہچاننے کا اثر انسان کی تاکملی حرکت کی سمت تعیین کرنے کردار رکھتا ہے۔
انسان ہر آن دوراہے پر ہوتا ہے ۔دو متضاد راستوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کی مقام پر ہوتا ہے۔اپنے لیے آئیڈیل ہدف اور مثالی راستے اور مثالی رہبر کا انتخاب کرنا تاکہ اس مقصد کی جانب حرکت کی سمت و جہت تعیین کرسکے ۔
2-انسان شناسی کا ایک نمایاں اثر سماجی منفی رویدادوں کی پہچان اور ان سے بچ نکلنے کی راہیں سجھائی دینا ہے۔
اگر انسان کی مخصوص خصوصیات کو نہ پہچانا جائے تو انسان کی معاشرتی اور فردی زندگی میں مختلف قسم کے ناہمواریوں سے روبرو ہوتا ہے اور ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے ۔جیسے غرور تکبر ،لادینیت ،اخلاقی گراوٹ اور افکار پر خود غرضی ،خودبینی چھاجاتا ہے۔
اور صدیوں ایسے رویداد جا شکار ہونے کیوجہ سے انسان انحطاط کا شکار ہویے ہیں۔اور مادی اور خاکی سطح کی زندگی میں اپنے آپکو ضایع کر بیٹھا ہے نتیجے میں حیوانی سطح کی پست اور گھٹیا لذتوں میں سر کھپا کر انسانی بلند و بالا مراتب سے محروم رہے ہیں۔
چنانچہ مغربی ہیومینیزم سے پھوٹی اخلاق،سیاست،اقتصادی نظام نے انسان کو انسانی سماج کو لامحدود خسارہ سے دوچار کیا ہے۔
لہٰذا انسان کی درست اور حقیقی پہچان کرنا ضروری ہے تاکہ ان بحرانوں اور تاریکیوں سے نکل کر سعادت کی راہ کا راہی بن سکے ۔
3-انسان کی حقیقی پہچان سے سماجی نظام کی تشکیل اور انسانی علوم کی تدوین پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔
معاشرتی علوم کا اصلی اور مرکزی موضوع انسان ہے ۔اگر انسان کی ٹھیک طرح سب پہچان ہوجایے ۔انسان کا ہدف ،انسان کا سعادت تک پہنچنے کا راستہ ،انسان کی وجود کے پہلوؤں کی شناخت اور انسان کا آخری مقصد کی پہچان اور ان عوامل و اسباب کی پہچان جو انسان کے عملی رویوں کو تشکیل دیتا ہے ۔
انسان شناسی ایک بہترین آغاز ہے جس سے سماجی ،سیاسی،ثقافتی ،اقداری اور اخلاقی نظام زندگی کی تعمیر ہوگا۔
اسلامی آیڈیولوجی میں انسان شناسی کی اہمیت
اسلامی آیڈیولوجی کی فکری بنیادوں میں چھ اہم مراحل باہم پیوستہ ہیں۔ان چھے مراحل کی زنجیری جوڑ اور پیوستگی یوں ہے
1- معرفت شناسی
2- خدا شناسی
3- انسان شناسی
4- فلسفہ اخلاق
5- فلسفہ حقوق
6- فلسفہ سیاست
لہٰذا ان فکری اور نظریاتی کڑی میں انسان شناسی حلقہ اتصال اور سنگم کی حیثیت کا مالک ہے۔
انسان شناسی کا معرفت شناسی سے باہمی رابطہ
انسان کی پہچان اور انسانی مقصد کی تشخیص کا لازمہ یہ ہے کہ ہمارے پاس حقیقت پہچاننے کا قابل بھروسہ معیار اور درست ضابطہ ہونا ضروری ہے۔ان معتبر ضابطوں کے بغیر کسی بھی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔
1-معرفت شناسی/epistimolgy ہمیں معبتر ضابطے فراہم کرتا ہے تاکہ ہم حقیقیت اور غیر حقیقت کو تشخیص دے سکے۔اگر معرفت شناسی یا دوسرے الفاظ میں حقیقتوں کی پہچان کا معتبر ضابطہ نہ ہونے کی صورت میں ہم شکاککیت یا نسبیت گرایی کے دلدل میں جا پھنسیں گے۔اور کسی معتبر معرفت تک رسائی پیدا نہ کرسکیں گے ۔
لہذا انسان شناسی میں بطور مقدمہ معرفت شناسی کا مطالعہ کیا جانا اس پہلو سے اشد ضروری ہے۔
2- خدا شناسی /theology کا انسان شناسی سے رابطہ جاننے کےلیے خداشناسی کے موضوع کو پہلے جانا ضروری ہے۔
پہلے اس سؤال کا جواب جاننا ضروری ہے کہ کائنات کے اندر انسان مستقل موجود ہے یا وابستہ موجود ہے ؟
بالفرض انسان مستقل موجود ہوؤں تو پھر انسان کے لیے شرعی تکلیف ،عبادت بندگی عبودیت اور الہٰی اقدار کی پیروی معنیٰ نہیں رکھتا ۔
اس کے باالمقابل اس نظریے کو مانا جاہے کہ انسان ،مبداء ھستی سے وابستہ مخلوق ہے ۔مبداء ھستی کی مالکیت کے مطلق ہونے کی دلیل کی رو سے اب انسان اپنے زندگی کے تمام پہلوؤں میں محتاج ہیں۔انسان کسی بھی پہلو سے بے نیاز اور مستقل نہیں۔
دوسری جانب انسان کی پہچان میں ہدف انسان ،راہ تکامل انسان ،ضرورت راہنمائی انسان ،حیات انسان ،مراتب حیات انسانی ،منشور انسان جیسے سبھی عناوین اور موضوعات خدا شناسی سے ہی پھوٹتا ہے۔
3 -فلسفہ اخلاق اور انسان شناسی کا رابطہ
فلسفہ اخلاق میں انسان کی اخلاقی تعمیر مدنظر ہوتا ہے اور مشابہ اخلاق اور غیر اخلاقی معیارات سے آشنائی تاکہ ان سے بچا جاسکے اور درست اخلاقی اصولوں کی پہچان تاکہ ان سے مزین ہوا جاسکے ۔
اخلاق کا سادہ ترین تعریف
1-"یہ کام ٹھیک ہے "
2-"یہ کام ٹھیک نہیں ہے"
3-"یہ کام کرنا چاہیے "
4-"یہ کام نہیں کرنا چاہیے "
سے مربوط ہیں۔
انسان کی حقیقت سے مربوط امور میں ان چاروں جملات کی رو سے دیکھا جاتا ہے۔تاکہ انسانی وجود اور ھستی سے تناسب رکھنے والے امور کو اپنایا جاسکے
اور انسانی تکامل اور پیشرفت سے متصادم امور سے بچا جاسکے ۔
تاکہ انسان ،اخلاقی لحاظ سے اپنے روحانی پہلوؤں کی تعمیر و تشکیل کو اعلیٰ ترین سطح تک انجام دے کر قرب الہٰی حاصل کرسکے۔
4- فلسفہ حقوق اور انسان شناسی کا باہمی رابطہ :
فلسفہ حقوق میں حق اور حق کی پیدائش اور قانونی حقوق جیسے کلیدی اور اساسی پہلوؤں کو چھیڑیں گے اور حقوقی پہلو سے جو کام انجام دینا چاہے اور حقیوقی پہلو سے جن کاموں سے رکنا چاہے ان سے آشنائی اور آگاہی پیدا مقصود ہے۔
اقداری مفاہیم جیسے یہ کام کرنے کا فلان کام کو کرنے کا قانونی حق ہے یا فلان کام کو انجام دینے کا قانونی طور پر حق نہیں ۔
اس موضوع کےلیے بھی انسان شناسی کا مطالعہ کیا ہوا ہونا ضروری ہے چونکہ انسان شناسی میں ایک اہم ترین موضوع اختیار اور جبر کا ہے۔جسے سمجھے بغیر فلسفہ حقوق کا سمجھنا ممکن نہیں۔
اسی طرح سے انسان شناسی میں انسان کی روحانی پہلو کو بھی ثابت کیا جانا ضروری ہے تاکہ حقوق کا دامن مادی پہلوؤں سے ہٹ کر روحانی پہلو کو بھی شامل ہونا تصور کیا جاسکے ۔
4- فلسفہ سیاست اور انسان شناسی میں باہمی رابطہ :
سیاسی مشروعیت ،ضرورت حکومت ،حکمران کی شرائط اور رعایا کی ذمہ داریاں ،حکومتی قوانین کی شرائط ،حکومت کی تشکیل میں عوام کا کردار اور سیاسی نظام میں عوام کی حیثیت کی تشریح فلسفہ سیاست کے اہم چپیٹرز ہیں ۔ لہذا انسان شناسی میں ان مقدماتی تصورات حاصل ہویے بغیر فلسفہ سیاست کے عناوین کو ہضم نہیں کیا جاسکتا ۔
انسان شناسی میں انسان کی انفرادی حیثیت سے ہٹ کر سماجی اور معاشرتی پہلو اور اس سے متعلق آگاہی سے ہی سیاسی نظام اور سیاسی تقاضوں کی نسبت آگاہی پیدا کیا جاسکتا ہے ۔
حکومت کا کام صرف رفاہ وفلاح میسر کرنا ہے یا اس سے بالاتر حکومت کی زمہ داری ہے؟
جب انسان شناسی میں روحانی پہلو کو ثابت کریں گے پھر اس پہلو کی تربیت اور پرورش کےلیے حکومتی کردار اور حیثیت کیا ہونا چاہئے ؟ان تمام سوالوں کا جواب انسان شناسی کے موضوع کی مطالعے سے ہی ممکن ہے۔
انسان شناسی اور راہ شناسی میں رابطہ
انسان شناسی کا موضوع دو مرحلوں پر مشتمل ہے۔
1-انسان کی ذات کو پہچاننا یعنی انسان کیا ہے؟ کیوں ہے اور کہاں سے ہے؟
2-انسان کو ذہنی اور نظریاتی مرحلے میں پہچاننے کے بعد انسانی ذات اور وجود کی تعمیر اور تشکیل کےلیے راہنما اور راہ شناس کی ضرورت ہے۔ایک راہنما نقشے کی ضرورت ہے تاکہ مطلوبہ مقصد تک رسائی پیدا کرسکے ۔
یہ مرحلہ پہلے مرحلے کے بعد ہے۔
جب انسان کی مکمل پہچان حاصل ہوجایے ۔انسان کی مثبت منفی خصوصیات سے آگاہی پیدا ہوجایے تبھی انسان نے اس درپیش سفر کو طے کرنا ہے اس کےلیے ایک آگاہ راہنما کی ضرورت ہے جسے اس راستے کی اترا چڑھاو ،نشیب و فراز کا علم ہو۔ راستے کی دشواری اور سہولت کے بارے میں جانتا ہو ۔
راستے میں حائل رکاوٹوں سے دقیق آگاہی رکھتے ہوں اور ان مشکلات سے نمٹنے کا طریقہ کار بھی جانتا ہو۔
اور سب سے بڑھ کر خود اسی راہنما نے اس تکاملی سفر کو خیر و عافیت سے اور اعلی مقام تک سفر کرچکا ہو ۔تاکہ باقی انسانوں کو بھی انسانی تاکملی شاہراہ پر انسانی سفر کر اسکے ۔
انسان شناسی کی بحث کے مراحل :
1-انسان کا دو پہلو ہونا ثابت کرنا ہے ۔انسان بدن اور جسم میں منحصر نہیں بلکہ انسان جسم اور روح کے مرکب کا نام ہے۔
لہٰذا انسان کی مادی پہلو سے ہٹ کر روحانی پہلو جیسے ارادہ ،عزم ،فہم ،اداراک ،تعقل تفکر۔۔۔ وغیرہ کی پہچان حاصل کرنا۔
2-انسانی روح اصل ہے
انسان اگرچہ دو پہلو رکھتا ہے۔جسم اور روح لیکن روح اصل ہے جسم اور بدن انسان کی انسانی سفر کا آغاز ہے۔۔کہذا روح کی خصوصیات کی پہچان کرنا ضروری ہے۔
2.1-علم و ادراک کی خصوصیت
.2.2-عمل اور عملی کشش کی خصوصیت
3-موت کے بعد کی زندگی ۔
انسان کی بدن کی زندگی محدود ہے ۔بہت جلد یہ بدنی زندگی گھل سڑ جاتا ہے اور یہ بوسیدہ ہوجاتا ہے۔لیکن انسان موت سے اور روح و بدن کی جدائی سے ختم نہیں ہوتا ۔
بلکہ موت سے انسان کی ایک اور جنم ہوتی ہے ۔
حکمت وعدل الٰہی کا تقاضا ہے کہ انسان مؤت کے بعد ختم نہ ہو۔
روح کا مجرد ہونا ،نفس اور روح کا اصل ہونا ،انسان کی قوت ادارک اور قوت عمل کا جایزہ ،موت کے بعد بھی انسان کا باقی رہنے کا امکان ۔۔۔
4-انسانی تخلیق کا ہدف :
انسان کو کیوں پیدا کیا گیا ؟
آیا یہ ہدف کا فاعل سے ہماہنگ ہے؟
انسان کا ہدفمند خلق ہونا
راہ شناسی
1-دین سعادت کا راستہ ہے۔
جب حقیقت وجود انسان کو جان لیا اب اس انسان کی تخلیق کا آغاز اور انسان کا ہدف ق مقصد تک رسائی کےلیے جو راستہ ہے اس سے آشنایی پیدا کرنا ،موت کے بعد کی زندگی کی خصوصیات ؟
کیا معمولی ذرایع سے راستے کی پہچان حاصل کرسکتا ہے؟
مخصوص انسان بطور راہنما کی ضرورت ؟
ضرورت نزول وحی اور ارتباط بحرین ( عالم ملک و غلام ملکوت میں سنگم بننے والے وجود کی ضرورت)...
آیمہ اور انبیاء کی عصمت تاکہ انکے پیغامات پر اطمینان پیدا کیا جاسکے ۔
2-دین اسلام کی حقانیت
دین اسلام ایسا دین ہے جو کامل ہے جس میں بشریت کی زندگی سے متعلق سبھی ضروری آگاہی موجود ہے تمام راہنمایوں پر مشتمل ہے ۔اور اس کی تعلیمات قرآن کریم اور سنت نبوی کی شکل میں موجود ہے۔
3-دین کی خاتمیت کا پہلو :
قرآن کریم نے خاتمیت کے موضوع کو ہی کیا ہء۔
دین اسلام تا قیام قیامت تک کے نسل کی راہنمائی کا زمہ دار ہے۔اس منشور کی تحفظ اور بچاؤ کی زمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لیا ہے۔
خاتمیت یعنی اب قیامت تک آنے والے نسلوں کی ہر ضرورتوں کا جواب اور ہر سوال کا قانع کنندہ جواب دین اسلام کے پاس ہی ہے۔
اسلام ہی لوگوں کی زندگیوں کو سنوارنے کا جامع پروگرام رکھتا ہے۔
دین اسلام کے تعلیمات دو طرح سے ہیں۔
1-ثابت اور تغییر ناپذیر
2-متغیر اصول
4-امامت :
دین کی تحفظ کا الہی اہتمام کا نام امامت ہے ۔جو دین کے احکامات اور ایین کو جاری کرتا ہے اور نافذ کرتا ہے ۔
آیا رحلت رسول اللّٰہ کے بعد لوگ خود سے قرآن مجید اور سنت کی طرف رجوع کرسکتے ہیں تاکہ سعادت سے بہرہ مند ہوں؟
آیا رحلت رسول اللّٰہ کے بعد اللہ تعالٰی کی جانب سے امت کی زمام کسی کو سونپ دیا گیا ہے یا نہیں؟
شرایط امام اور امام کی تعیین کا طریقہ کار دلیل عقلی اور دلیل نقلی کی بنیادوں پر پیش کرنا اور امام کی غیبت میں کیسے راہ سعادت تک پہنچنا ..جیسے موضوعات زیر بحث لایا جائے گا ۔