قم کی جایگاہ اور فضائل
- شائع
-
- مؤلف:
- محمود شريفى ۔ ترجمہ : یوسف حسین عاقلی پاروی
- ذرائع:
- ماخوذ از کتاب: "چہل حدیث "حضرت معصومہ عليهاالسلام اور قم المقدس "
قم کی جایگاہ اور فضائل
۔۔۔۔
قم، فاطمیوں کی پناہ گاہ
حديث-۱
قَالَ الصّادِقُ عليه السلام: اِذا أَصابَتْكُمْ بَلِيَّةٌ وَ عِناءٌ فَعَلَيْكُمْ بِقُم، فَاِنَّهُ مَأْوَى الفاطِميينَ… [ بحارالانوار، 60/215]
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:(اے ہمارے چاہنے والو!)جب تم پر مصیبتیں، رنج و آلام ،گرفتارى اور سختیاں آئیں تو تمھیں چاہیے کہ قم کی طرف سفر کریں کیونکہ قم فاطمیوں کی پناہ گاہ (اور مؤمنین کے لئے) محل آسائش اور سکون کی جگہ ہے۔
شہر قم جائے امن
حديث-۲-سُئِلَ أَميرُالمُؤْمِنينَ عليه السلام : عَنْ أَسْلَمِ الْمُدُنِ وَ خَيْرِ المَواضِعِ عِنْدَ نُزُولِ الْفِتَنِ وَ ظُهُورِ السَّيْفِ؟ فَقالَ: أَسْلَمُ الْمَواضِعِ يَوْمَئذِ أَرْضُ الْجَبَلِ، فَاِذا اضْطَرَبَتْ خُراسانُ وَ وَقَعَتِ الْحَرْبُ بَيْنَ أَهْلِ جُرْجان وَ طَبَرِسْتان وَ خَرِبَتْ سَجِسْتانُ فَأسْلَمُ المَواضِعِ يَوْمَئِذٍ قَصَبَةُ قُم.
اميرالمؤمنين عليه السلام سے پوچھا گیا: جب فتنہ و فساد، مصیبتیں اور تلواریں نازل(جنگ وجدال) ہو تو جائے امن کے لئے بہترین جگہیں کہاں ہیں؟ امام عليه السلام نے فرمایا: اس وقت جائے امن پہاڑوں کی سرزمین (سر زمين جَبَل) ہے، پس جب شہر خُراسان پریشان و مضطرب ہو، اورشہر جُرْجان (گرگان) اور شہر طَبَرِسْتان کے لوگوں کے درمیان جنگ چھیر جائے اور شہر سَجِسْتان تباہ ہو جائے، تب سب سے زیادہ جائے امن اس وقت شہر قم ہے۔[ بحارالانوار: 60/217]
آشيانه آلمحمد صلى الله عليه و آله وسلم
حديث-۳
عَنْ أَبِى الحَسَنِ الاَوَّلِ عليه السلام قالَ: قُم عُشُّ آلِ مُحَمَّدٍ وَ مَأوى شيعَتِهِمْ، وَلكنْ سَيَهْلِكُ جَماعَةٌ مِنْ شَبابِهِمْ بِمَعْصِيَةِ آبائِهِمْ وَ الاْسْتِخفافِ وَالسُّخْريَّةِ بِكُبَرائِهِمْ وَ مَشايِخِهِمْ وَ مَعَ ذلِكَ يَدَفَعُ اللّهُ عَنْهُمْ شَرَّ الاَعادِى وَ كُلَّ سُوءٍ. [ بحارالانوار:60/217]
ساتویں امام ابی الحسن موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا: قم آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے شیعوں کی پناہ گاہ اور آشيانه ہے، لیکن عنقریب انکے نوجوانوں کا ایک گروہ ان کے اپنے آباء و اجداد کے نافرمانیوں، گناہوں اور معصیتوں کی وجہ سے تباہ ہو جائےگا۔ (جس کی علت) بزرگوں اور عمر رسیدہ افراد کا مذاق اڑانا، تذلیل اور تضحیک کرنا، لیکن ان سب کے باوجود پھر بھی خدا ان کو دشمنوں کے شرّ اور تمام برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
منتخب شہر
حديث-۴ -عَنْ أَبى عَبْدِ اللّهِ عليه السلام قالَ: اِنَّ اللّهَ اخْتارَ مِنْ جَميعِ البِلادِ كُوفَةَ وَ قُم وَ تِفْليسَ.
امام صادق عليه السلام نے فرمایا: پروردگار عالم نے، تمام شہروں میں شہرکوفہ، شہرقم اور شہر طفلس کو منتخب کیا ہے۔
[ بحار، 60 214]
[شہر طفلس :جو جارجیا یا گُرجستان یوریشیا کے قفقاز کے علاقے میں ایک ملک ہے۔ جارجیا مغربی ایشیا اور مشرقی یورپ کے سنگم پر واقع ہے یہ شہر طویل عرصےتک ایران کا حصہ ہے۔ (کتاب:فرهنگ معين)]
مركز شيعه
حديث-۵
سُئِلَ أَبُو عَبْدِاللّهِ عليه السلام: أَيْنَ بِلادُ الْجَبَلِ؟
فَاِنّا قَدرُوِينا أَنَّهُ اِذا رَدَّ اِلَيْكُمُ الاْمْرَ يَخْسِفُ بِبَعْضِها.
فقالَ: اِنَّ فيها مَوضِعا يُقالُ لَهُ «بَحْر» وَ يُسَّمى بِقُم وَ هُوَ مَعْدَنُ شيعَتِنا.[بحارالانوار: 60/212]
امام صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا: جَبَل (پہاڑوں) کے شہر کہاں ہیں؟
ہمیں روایت کی گئی ہے کہ جب حکومت تم لوگوں کے پاس واپس آئے گی تو اس کا ایک حصہ ختم ہو جائے گی۔
امام نے فرمایا: اس پہاڑ میں ایک جگہ «بَحْر» نامی ہے اور اس حصہ کو "قم" کہتے ہیں۔ یہی ہمارے شیعوں کا مرکز ہے۔
قم اورولايت اهلبيت عليهمالسلام تسلیم کرنا
حديث-۶-عَنْ أَنَسِ بْنِ مالِكِ قالَ:كُنْتُ ذاتَ يَوْمٍ جالِساعِنْدَ النَبىِّ(ص)اِذْ دَخَلَ عَلَيْهِ عَلىُّ بْنُ أَبى طالِبٍ(ع)فَقال(ص)اِلَىَّ يا أَبَالْحَسَنِ،ثُمَّ اعْتَنَقَهُ وَقَبَّلَ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَقالَ:يا عَلىُّ اِنَّ اللّهَ عَزَّ اسْمُهُ عَرَضَ وَلايَتَكَ عَلَى السَماواتِ،فَسَبَقَتْ اِلَيْهَا السَّماءُ السّابِعَةُ فَزَيّنَها بِالْعَرْشِ، ثُمَّ سَبَقَتْ اِلَيْهَا السَّماءُ الرابِعَةُ فَزَيَّنَها بِالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ، ثُمَّ سَبَقَتْ اِلَيْها السَّماءُ الدُّنيا فَزَّيَنَها بِالكَواكِبِ، ثُمَّ عَرَضَها عَلَى الاَرضينَ فَسَبَقَتْ اِلَيْها مَكَّةُ فَزيَّنَها بالْكَعْبَةِ، ثُمَّ سَبَقَتْ اِلَيهَا الْمَدينَةُ فَزَيَّنَهابى، ثُمَّ سَبَقَتْ اِلَيْهَا الْكُوفَةُ فَزَيَّنَهابِكَ، ثُمَّ سَبَقَتْ اِلَيْها قُمَّ فَزَّينَها بِالْعَرَبِ وَ فَتَح اِلَيْهِ بابا مِنْ أَبْوابِ الجَنَّةِ. [ بحار الانوار: 60/212]
انس بن مالک کہتا ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا، اس وقت علی ابن ابی طالب علیہ السلام داخل ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فرمایا اے ابالحسن نزدیک ہوجاؤ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے آغوش میں لیا، گلے لگایا اور آنکھوں کے درمیان بوسہ لیا ، پھر فرمایا: اے علی! پروردگار عالم نے آپ کی حکومت کو آسمانوں پر عرضہ فرمایا، تو ساتویں آسمان نے سب سے پہلے آپ کی ولايت کو قبول کرنے میں سبقت حاصل کی، پھر اللہ تعالیٰ نے اسے عرش کی زينت بخشی، پھر چوتھے آسمان نے آگے بھڑ کر آپ کی ولايت کو قبول کرنے کی سعادت حاصل کی تو پروردگار عالم نے اسے " بَيْت الْمَعْمُور" کی زينت بخشی، پھر دنیاوی آسمان نے آپ کی ولايت کو قبول کر لیا، جسے خدا نے ستاروں سے مزین کیا، اس کے بعد زمینوں پر عرضہ کیا تو مکہ معظمہ نے آپ کی ولايت کو قبول کر لیا، جسےخدا نےخانہ کعبہ سے زینت بخشی، اس کے بعد مدينه منورہ نےسبقت کی تو پروردگار عالم نے میرے واسطے سے اسے زینت بخشی اس کے بعد شہر کوفہ آگے آیا اور تیری ولایت کو قبول کیا تو تیرے ذریعے اسے زینت دی اس کے بعد شہر قم نے آگے بڑھ کر تیری ولایت کو قبول کیا تو بواسطه عرب (اشعري خاندان)کے ذریعے زینت بخش دیا اور ساتھ میں جنت کےدروازوں میں سے ایک دروازہ اسی سمت کھول دیا.
قم کے لوگ مهدى عليهالسلام کے ہمراہ
حديث-۷
عَنْ عَفّانِ البَصْرِىّ : عَنْ أَبى عَبْدِ اللّهِ عليه السلام قالَ لى:
أَتَدْرى لِمَ سُمِّىَ قُم؟
قُلْتُ: أَللّهُ وَ رَسُولُهُ وَ أَنْتَ أَعْلَمُ. قالَ: اِنَّما سُمِىَّ قُم لاِنَّ أَهْلَهُ يَجْتَمِعُونَ مَعَ قائِمِ آلِ مُحمَّدٍ صَلَواتُ اللّهِ عَلَيهِ وَ يَقُومُونَ مَعَهُ وَ يَسْتَقيمُونَ عَلَيْهِ وَيَنْصُرُونَهُ. [ بحارالانوار: 60/216]
عفّان بصرى کہتا ہے:
امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ شہر "قم" کو " قم "کیوں کہا جاتا ہے؟ میں نے عرض کیا:
پروردگار عالم، اس کا رسول(ص) اور آپ ہی بہتر جانتے ہیں۔
پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا: "شہر قم" کو "قم" اس لئے کہا گیا کیونکہ اس شہر کے لوگ قائم آل محمد صَلَواتُ اللہ علیھم کے قیام کے ہمراہ ثابت قدم رہیں گے، آپ (عج ) کے ساتھ قیام کرینگے، اور آپ (عج ) کی مدد کرتے رہینگے۔