انبیاء و صالحین کی یاد میں محافل منعقد کرنے میں اختلاف
- شائع
-
- مؤلف:
- علامہ سید مرتضی عسکری ترجمہ: محمد علی توحیدی
- ذرائع:
- اسلام کے دو مکاتب فکر کا تقابلی جائزہ۔( جلد اول)
انبیاء و صالحین علیہما السلام کی یاد میں محافل منعقد کرنے میں اختلاف
میلاد النبی علیہ السلام منانے کی مخالفت کرنے والوں کے اقوال کے ذکر کے سلسلے میں یہاں ہم سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن عبداللہ بن باز کا فتوی ذکر کرنے پر اکتفا کریں گے ۔
موصوف وہاں کے علمی تحقیقی امور نیز افتاء اور دعوت و ارشاد کےاداروں کے سربراہ ہیں۔
وہ کہتے ہیں: رسول اللہ اور دیگرافراد کے میلاد کی محافل منعقد کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ دین میں داخل کی جانے والی بدعتوں میں سے ایک ہے۔( صحیفۃ الشرق الاوسط ،۳/۱۲/۱۹۸۴، مقالہ :حکم الاحتفال بالمولد النبوی وغیرہ من الموالید)
اس کے برخلاف جو لوگ ان ہستیوں کی محافلِ میلاد منانے کو مستحب سمجھتے ہیں وہ اس بات سے استدلال کرتے ہیں کہ حج کے اکثر مناسک انبیاء و اولیاء کی یاد منانے کے طریقےہی تو ہیں۔
یہاں ہم ان میں سے بعض نمونوں کا تذکرہ کریں گے۔
الف۔ مقام ابراہیم
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:{ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى} (سورہ البقرۃ آیت ۱۲۵)
مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ۔
یہاں ہم صحیح بخاری کی ایک روایت کا خلاصہ ہدیۂ قارئین کرتے ہیں :
جب ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام بیت اللہ تعمیر کر رہے تھے تو اسماعیل علیہ السلام نے پتھر لانے شروع کئے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان پتھروں سے دیوار بنانے کا کام کیا،یہاں تک کہ جب عمارت بلند ہوگئی تو انہوں نے پتھر زمین پر رکھا۔
پھرابراہیم علیہ السلام اس پر کھڑے ہو کر دیوار بنانے لگے جبکہ اسماعیل ان کو پتھر تھما رہے تھے۔
اس کے بعد روایت کا حصہ کچھ اس طرح ہے:
یہاں تک کہ عمارت بلند ہو گئی اور سن رسیدہ نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام پتھروں کو حرکت دینے سے عاجز آ گئے۔
پس وہ اس مقام (مقام ابراہیم علیہ السلام) والے پتھر پر کھڑے ہو گئے اور اسماعیل علیہ السلام نے پتھر تھمانا شروع کئے۔ (صحیح بخاری کتاب الانبیاء باب یزفون النسلان فی المشی ج۲ ص ۱۵۸،۱۵۹)
آیت میں خدا نے واضح طور پر لوگوں کو اس بات کا حکم دیاہے کہ وہ بیت الحرام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کی جگہ کو متبرک سمجھیں اور اسے نماز کی جگہ قرار دیں تاکہ ابراہیم علیہ السلام کی یاد ہمیشہ زندہ وجاوداں رہے۔
اس میں شرک باللہ کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔
ب۔ صفا اور مروہ
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ (البقرۃ /۱۵۸)
صفا اور مروہ یقینا اللہ کے شعائرمیں سے ہیں۔ پس جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لئے ان دونوں کا چکر لگانے میں کوئی حرج نہیں۔
بخاری کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے:
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاجرہ کو اسماعیل کے ساتھ مکہ میں چھوڑ دیا اور پانی ختم ہو گیا جس کی وجہ سے وہ پیاسی ہو گئیں اور ان کا بیٹا بھی پیاس کی وجہ سے پیچ وتاب کھانے لگا تو وہ اپنے بچے کو اس حال میں نہ دیکھ سکیں۔
اس لئےوہ کوہِ صفا کی طرف تشریف لے گئیں اور اس کے اوپر کھڑے ہو کر دیکھا کہ آیا کوئی نظر آتا ہے یا نہیں۔ لیکن انہیں کوئی نظر نہیں آیا۔
پس وہ کوہ صفا سے نیچے تشریف لے آئیں۔ جب وادی میں پہنچیں تو ایک تھکے ماندے انسان کی طرح دوڑیں یہاں تک کہ وہ وادی کو عبور کر گئیں پھر مروہ (کی پہاڑی) پر چلی گئیں اور اس پر کھڑی ہو گئیں اور دیکھا کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں۔
لیکن انہیں کوئی شخص نظر نہیں آیا۔ یوں وہ سات مرتبہ اس کے اوپر چڑھیں اور نیچے اتریں۔
ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول ’نے فرمایا:
لوگوں کے ان دونوں پہاڑیوں(صفاو مروہ)کے درمیان دوڑنے کی وجہ یہی ہے۔ (صحیح بخاری باب یزفون النسلان فی المشی ج۲ ص ۱۵۸، معجم البلدان مادہ: زمزم)
اللہ تعالیٰ نے صفا ومروہ کے درمیان سعی کو حج کی رسومات میں داخل کیا تاکہ ان دونوں کے درمیان ہاجرہ کے دوڑ کی یاد تازہ اور زندہ رہے۔
جس وادی کے درمیان جناب حاجرہ علیہا السلام ایک مجبورانسان کی طرح تیز تیز چلی تھیں اس وادی میں (حاجیوں کے لئے) تیز قدموں کے ساتھ چلنے کا استحباب دراصل جناب حاجرہ÷ کے دوڑنے کی یاد زندہ رکھنے کے لئے ہے۔ لہذا ان سب احکام کا شمار شعائر اللہ میں ہوتا ہے۔
ج۔ رمی جمرات
امام احمد بن حنبل اور محدث طیالسی نے اپنی اپنی مسندوں میں رسول اللہ’سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
جبرائیل حضرت ابراہیم کو لے کر جمرہ عقبہ کے پاس گئے۔ وہاں ان کا شیطان سے سامنا ہوا۔ جناب ابراہیم علیہ السلام نے شیطان کو سات کنکریاں ماریں تو وہ زمین میں دھنس گیا۔ پھر جمرہ وسطیٰ کے پاس تشریف لے آئے تو شیطان آڑے آیا۔
پس آپ نے شیطان پر سات کنکریاں ماریں تو شیطان دوبارہ دھنس گیا۔ اس کے بعد آخری جمرہ کے پاس آئے تو شیطان پھر آڑے آیا۔ آپ نے پھر سات کنکریاں ماریں تو شیطان دھنس گیا۔
(مسند امام احمد ج۱ ص ۳۰۶ طبع مصر، مسند طیالسی حدیث نمبر ۲۶۹۷ طبع حیدر آباد دکن، معجم البلدان مادہ :کعبہ ،طبع بیروت۔)
یوں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے شیطان کو کنکریاں مارنے کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اجتماعی محفل برپا کرنے کو حج کے مناسک میں داخل کیا۔
د۔ قربانی
اللہ تعالیٰ جناب ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے واقعے میں فرماتا ہے:
﴿ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَاهُ أَنْ يَا إِبْرَاهِيمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْبَلَاءُ الْمُبِينُ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ﴾( سورہ صافات۔ آیت۱۰۱ تا ۱۰۷)
ہم نے انہیں ایک بردبار بیٹے کی بشارت دی۔ پھر جب وہ ان کے ساتھ کام کاج کی عمر کو پہنچا توابراہیم نے کہا: اے بیٹا! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ پس دیکھ لو تمہاری کیا رائے ہے۔ اس نے کہا: اے ابا جان! آپ کو جو حکم ملا ہے اسے انجام دیں۔ اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ پس جب دونوں نے (حکم خدا کو ) تسلیم کیا اور ابراہیم نے اسماعیل کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے ندا دی: اے ابراہیم ! تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ بے شک ہم نیکوکاروں کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک نمایاں امتحان تھا اور ہم نے ایک عظیم قربانی سے اس کا فدیہ دیا۔
یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں جناب اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اور اللہ کی طرف سے اسماعیل کے بدلے بہشتی دنبے کی ترسیل کی یاد زندہ رکھنے اور اس سلسلے میں عوامی اجتماع برپا کرنے کو مراسم حج کا اہم حصہ قرار دیا۔
چنانچہ حجاج کو سنت ابراہیمی علیہ السلام پر چلتے ہوئے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام کے کردار کی یاد مناتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں منیٰ کے اندرقربانی دینے اور محفل بپا کرنے کا حکم دیا گیاہے۔
مقام ابراہیم میں ابراہیم علیہ السلام کے قدموں کی برکت آپ کی قدمگاہ میں سرایت کر گئی۔
لہذا خدا نے بیت الحرام کے اندر اسے نماز کی جگہ قرار دینے کا حکم دیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس امر کو ان کی یاد زندہ رکھنے کا وسیلہ قرار دیا۔
حضرت آدم سے برکت کا پھیلاؤ اور ان کی یاد میں عوامی اجتماع
ذیل میں ہم ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کی برکتوں کا ذکر اپنے قارئین کے گوش گزار کرتے ہیں :
بعض روایات میں مذکور ہے کہ:
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ نویں (۹) ذی الحجہ کو عرفات میں قبول کی تھی۔
پھر غروب کے وقت جبرائیل علیہ السلام ان کو مشعر الحرام لے گئے۔
آدم علیہ السلام نے دسویں کی رات وہیں خدا کے حضور دعا کرتے اور قبولیتِ توبہ پر شکر ادا کرتے ہوئے گزار دی۔ وہاں سے صبح کے وقت منیٰ گئے۔
وہاں دسویں کے دن گناہوں سے نجات اور قبولیتِ توبہ کی علامت کے طور پر اپنا سر تراشا۔ پس خدا نے اس دن کو آدم اور ان کی اولاد کے لئے عید قرار دیا نیزآدم علیہ السلام کی اولاد کے لئے آدم علیہ السلام کے سارے اقدامات کو تا ابد مناسک حج میں داخل کیا۔
اللہ تعالیٰ نے عرفات میں نویں کے دن عصرکے وقت ان کی توبہ قبول کر لی۔ یہی وجہ ہے کہ رات کو اولاد آدم علیہ السلام مشعر الحرام میں خدا کو یاد کرتی ہے اور دسویں کے دن منیٰ میں سرمنڈواتی ہے۔ اس کے بعداللہ نے حضرت ابراہیم ، حضرت اسماعیل اور جناب ہاجرہ علیہم السلام کے افعال کو بھی مناسک حج کا حصہ بنایا۔
یوں لوگوں کے لئے مراسم حج کی تکمیل ہوئی۔
بنابریں حج کے سارے اعمال خدا کے مذکورہ نیک بندوں سے منسوب اوقات اور مقامات سے حصول تبرک کا نام ہیں اور یہ سارے مناسک طلوع قیامت تک ان کی یاد میں منائی جانے والی تقریبات ہی تو ہیں۔
مکان میں مکین کی نحوست کی تاثیر
ذیل میں ہم مکین کی طرف سے مکان میں نحوست کی سرایت کو ثابت کرنے کے لئے ایک مثال پیش کرتے ہیں :
محدثین نے روایت کی ہے:
رسول اللہ علیہ السلام جنگ تبوک والے سال لوگوں کے ساتھ قوم ثمود کے گھروں کے پاس پتھریلی زمین میں اترے۔
لوگوں نے ان کنوؤں سے پانی لیا جن سے ثمود پانی لیتے تھے۔ انہوں نے اس سے آٹا گوندھا اور گوشت کی دیگیں چڑھائیں۔
پھر رسول اللہ علیہ السلام کے حکم پر انہوں نے دیگوں کو انڈیل دیا اور گوندھا ہوا آٹا اپنے اونٹوں کو کھلا دیا۔ بعد ازاں حضور’ان لوگوں کے ساتھ وہاں سے چل پڑے، یہاں تک کہ اس کنوئیں پر پہنچے جس سے (حضرت صالح علیہ السلام کی) اونٹنی پانی پیتی تھی۔
آپ علیہ السلام نے صحابہ کرام کو اس قوم کے پاس جانے سے منع کیا جس پرعذاب نازل ہوا تھا۔ فرمایا:
مجھے خوف ہے کہ کہیں تمہارے اوپر بھی وہی عذاب نازل نہ ہو جو ان پر ہوا تھا۔ پس ان کے ہاں نہ جاؤ۔
(صحیح مسلم باب لاتدخلوا مساکن الذین ظلموا انفسھم حدیث نمبر۴۰، مسند امام احمد ج۲ ص ۱۱۷، صحیح بخاری باب نزول النبی الحجر نیز طبری۱/۲۵۰ مطبوعہ یورپ)
حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
ان لوگوں کے گھروں میں داخل نہ ہونا جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا مگر یہ کہ تم روتے ہوئے داخل ہو جاؤ، اس بات کے خوف سے کہ کہیں تم بھی ان کی طرح عذاب میں مبتلا نہ ہو جاؤ۔
بخاری کی روایت کے الفاظ یہ ہیں :
پھر آپ اپنا سر کپڑے سے ڈھانپ کرجلدی چل پڑے یہاں تک کہ وادی سے گزر گئے۔
مسند احمد کی ایک روایت میں یہ ہے:
آپ نے سواری کے اوپر اپنی چادر سے منہ ڈھانپ لیا۔ (مسند الامام احمد ج۲ ص۶۶)
جگہ کی نحوست اور برکت کے اسباب
ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ قوم ثمود کے علاقے اور ان کے کنوؤں میں نحوست کہاں سے آکر سرایت کر گئی؟
اس کا جواب صرف یہی ہے کہ قوم ثمود کی نحوست ان کی بستی اور کنوؤں میں سرایت کر گئی تھی اور نبی کریم علیہ السلام کے عہد تک یہ نحوست باقی رہی اور پتہ نہیں کب تک باقی رہے گی۔
نیز ناقہ ٔ صالح (علیہ السلام) والے کنویں کو فضلیت کہاں سے حاصل ہوئی؟
اس کی وجہ سوائے اس کےبھلا اور کیاہو سکتی ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی اس سے پانی پیتی تھی اور اس کی فضلیت اس میں سرایت کر گئی۔ پھر یہ اثر رسول خدا علیہ السلام کے عہد تک باقی رہا اور پتہ نہیں کب تک باقی رہے۔
ناقۂ صالح اور اس کے کنویں کا مقام، خدائے متعال کے نزدیک اسماعیل علیہ السلام اور ان کے کنویں زمزم سے زیادہ بلند نہیں ہے۔
بناء بریں خداوند عالم نے اسماعیل علیہ السلام کی برکت سے زمزم کو بھی تا ابد با برکت بنا دیا ہے۔
جمعۃ المبارک کے دن کی برکت
خدا کے نیک بندوں کو خدا کی طرف سے عطا شدہ برکت کی کسی خاص وقت میں سرایت کر جانے کی مثال بھی اسی طرح کی ہے، مثال کے طور پرروز جمعہ کی برکت۔
صحیح مسلم میں مروی ہے:
بے شک اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جمعہ کے دن خلق کیا اور اسے جمعہ کے دن ہی جنت میں داخل کیا۔
صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، فضل الجمعۃ حدیث نمبر ۱۷، ۱۸۔
جمعہ کے دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے نیک بندوں پر نازل ہونے والی ان برکتوں کی بدولت جمعہ کا دن ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بابرکت بن گیا ۔
ماہِ رمضان کی برکت
ماہ رمضان کے بابرکت ہونے کی بھی یہی وجہ ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ﴾ سورہ بقرہ آیت ۱۸۵۔
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے اور ایسے دلائل پر مشتمل ہے جو ہدایت اور (حق وباطل میں ) امتیاز کرنے والے ہیں۔
نیز فرمایا:
﴿بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ، إِنّٰا أَنْزَلْنٰاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَآ أَدۡرَىٰكَ مَا لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ، لَيۡلَةُ ٱلۡقَدۡرِ خَيۡرࣱ مِّنۡ أَلۡفِ شَهۡرࣲ﴾ سورۃ القدر آیت ۱ تا ۳۔
ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا۔
اور آپ کیا جانیں کہ شب قدر کیا ہے؟
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
بنا بریں لیلۃ القدر(جس میں رسول اللہ علیہ السلام پر قرآن نازل ہوا) کی برکت پورے ماہ رمضان میں سرایت کر گئی۔
اس رات کے بعد سے یہ مہینہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے با برکت بن گیا ہے۔
اب جب کہ ہم اشارہ کر چکے ہیں کہ خدا کے برگزیدہ بندوں کی یاد منانے کے لئے لوگوں کا جمع ہونا ایک پسندیدہ امر ہے تو یہاں اس بات کی بھی وضاحت کرتے چلیں کہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی یاد منانے کے لئے جمع ہونے کا مقصد ہمارے نزدیک کچھ یو ں ہے کہ (بطور مثال) فخر موجودات سرور کائنات نبی کریم’کی ولادت با سعادت اور آپ کی سیرت پاک کا ذکر شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے بیان کیا جائے، اللہ کی راہ میں لوگوں کو کھانا کھلایا جائے اوراس کا ثواب رسول اللہ’کو بطور ہدیہ پیش کیا جائے اور ان بدعتوں سے اجتناب کیا جائے جو بعض صوفیوں کی اختراع ہیں۔
آئندہ سطور میں ہم قبروں پر عمارتیں بنانے اور ان کو عبادت کی جگہ قرار دینے کے مسئلے کی جانب ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے۔