امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک

سجدہ ائمہ طاہرین (ع) کی نظر میں

0 ووٹ دیں 00.0 / 5

سجدہ ائمہ طاہرین (ع) کی نظر میں

جب اہل بیت (ع) کی حقانیت و وثاقت ہر اعتبار سے ثابت ہو گئی تو ہم اپنے قارئین کی خدمت میں بطور تبرک ان حضرات کی چند احادیث نقل کرنے کا شرف حاصل کر رہے ہیں ۔

۱ ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں پر سجدہ جائز ہے ۔ اور کھانے او رپہننے والی اشیاء پر سجدہ صحیح نہیں ہے ۔(۹)

۲ ۔ دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : زمین پر سجدہ اللہ کا حکم اور واجب ہے ۔ اور چٹائی پر سجدہ کرنا آنحضرت (ص) کی سنت ہے۔(۱۰)

۳ ۔ امام صادق علیہ السلام اس ضمن میں مزید ارشاد فرماتے ہیں : کہ دوسری کسی چیز پر سجدہ صحیح نہیں سوائے زمین اور اس سے اگنے والی چیزوں کے مگر یہ کہ وہ کھائی جاتی ہو یا وہ روئی وغیرہ ہو (کہ اس پر سجدہ صحیح نہیں ہے )۔(۱۱)

۴ ۔ کتاب وسائل الشیعہ میں ہماری نگاہ اس مقام پر ٹھہرتی ہے کہ اسحاق بن فضیل نے امام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام سے چٹائی اور بوریا پر سجدہ کرنے کے متعلق دریافت کیا؟ تو امام (ع) نے جواب میں فرمایا: صحیح ہے ،لیکن خود زمین پر سجدہ کرنا مجھے پسندہے ، کیونکہ حضرت رسولخدا (ص) ایسا ہی کرتے اور سجدہ کی حالت میں پیشانی زمین پر رکھتے تھے ، لہٰذا میں وہی پسند کرتا ہوں جو حضرت (ص) پسند فرماتے تھے ۔(۱۲)

۵ ۔ ایک شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا ۔ کیا چٹائی وبوریا اور گھانس پر سجدہ کرنا درست ہے ؟ امام (ع) نے فرمایا: ہاں صحیح ہے ۔(۱۳)

۶ ۔حلبی کہتے ہیں میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے کپڑے، چادر وغیرہ (جو بالوںسے بنی ہو )پر سجدہ کرنے کے متعلق دریافت کیا تو حضرت (ع)

نے فرمایا اس پر سجدہ نہ کرو ۔مگر ہاں اس پر کھڑے رہو اور زمین پر سجدہ کرو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے ، یا پھر اس پر چٹائی پھیلا کر چٹائی پر سجدہ کرو ۔(۱۴)

مذکورہ روایات سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ اہل بیت اطہار (ع) کی نظر میں فقط زمین یا جو اس سے اُگے اسی پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور کھانے پینے کی چیزوں پر سجدہ کرنا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ آنحضرت (ص) کی احادیث سے اور آپ کی سیرت اور اصحاب و تابعین کے طور طریقہ سے ہمیں معلوم ہو تا ہے ۔

ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ائمہ اطہار (ع) جو بھی شرعی احکام بیان کرتے ہیں وہی ہے جو رسول خدا (ص) سے حاصل کئے ہیں کیونکہ شیعوں کی نگاہ میں شریعت اور قانون سازی کا حق فقط خداوند متعال کو حاصل ہے، اور پیغمبر (ص) کا کام اس مقدس قانون اور دینی احکام کو لوگوں تک پہنچانا ہے ۔

جیسا کہ واضح ہے کہ رسول خدا (ص) (اور دیگر انبیاء (ع))اللہ اور بندوں کے درمیان وحی اور تشریع (احکام الٰہی)کو پہنچانے کے لئے ایک رابطہ ہیں ۔لہٰذا یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اگر شیعہ اہل بیت (ع) کی احادیث و اقوال کو اپنی فقہ (احکام شرعی)کا منبع و مدرک قرار دیتے ہیں تو یہ فقط اس لئے ہے کہ ان کے اقوال در حقیقت آنحضرت (ص) کی احادیث کی عکاسی کرتے ہیں ۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں : میرا حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے دادا علی بن الحسین (ع) کی حدیث ہے اور ان کی حدیث حسین ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسین ابن علی (ع) کی حدیث حسن ابن علی (ع) کی حدیث ہے اور حسن ابن علی (ع) کی حدیث امام علی علیہ السلام کی حدیث ہے اور حضرت علی (ع) کی حدیث،کلام رسول خدا (ص) ہے اوررسول خدا (ص) کا کلام ، کلام الٰہی ہے۔(۱۵)

ایک مقام پر کسی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہی سوال کیا تو آپ نے اس کے جواب میں یہ ارشاد فرمایا :

”مَهما اٴجبتک فِیهِ بِشَیءٍ فَهُوَ عَن رَسُول اَللّٰه (ص) لسنا نَقُولُ بِرَاٴیناَ مِن شَیءٍ ۔“(۱۶)

”جو میں نے تمھیں جواب دیا ہے وہی رسولخدا (ص)کا جواب ہے ہم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے ہیں “اس روایت کی روشنی میں دو نکتے بدیہی طور پر واضح ہوتے ہیں :

الف : اہل بیت (ع) کی نظر میں زمین اور جو چیز اس سے اگتی ہے اس پر سجدہ کرنا صحیح ہے (بس شرط یہ ہے کہ وہ کھانے یا پہننے کی نہ ہو) لیکن خاک و مٹی جو زمین ہی کا

ایک حصہ ہے اس پر سجدہ کرنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے ۔کیونکہ سجدہ کی مصلحت یہ ہے۔ کہ انسان بارگاہ بے نیاز میں سراپا خضوع و تذلل و بردباری کے ساتھ سر بسجود ہوجائے ۔

ب : احادیث و اقوال اہل بیت (ع) ۔ متواتر روایات کے مطابق حجت و معتبر ہیں۔ اور ا ن سے سرپیچی احکام رسول خدا (ص) کی مخالفت ہے ۔ اس لئے کہ رسول خدا (ص) نے حدیث ثقلین اپنی عترت اور اہل بیت (ع) کے کلام و فرمان کی ضمانت خود اپنے اوپر لی ہے ۔ لہٰذا ان کی عترت کے کلما ت، رسول خدا (ص) کے کلام کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔

ان تمام بحثوں اور استدلالوںسے چودہویں رات کے چاند کی طرح یہ روشن ہوجاتاہے کہ شیعوں کا زمین یا خاک پر سجدہ کرنا بجا ہے ۔

____________________

(۱)صحیح ترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب اهل بیت النبی (ص) ، ج/۵ طبع بیروت ، ص/ ۶۶۲ ، حدیث ۳۷۸۶۔”یا ایهّا النّاس انّی قد ترکت فیکم ما ان اٴخذتم به لن تضلوا کتاب اللّٰه وعترتی اهل بیتی “

(۲)مدرک سابق ، ص/ ۶۶۳ ، حدیث ۳۷۸۸۔

(۳) صحیح مسلم ، جزء ۷ باب فضائل علی ابن ابی طالب (ع) ، ط مصر ، ص/ ۱۲۲ ۔ ۱۲۳ ۔

(۴) مستدرک حاکم ، جزء ۳ ص/ ۱۴۸ ۔ الصواعق المحرقة ، باب ۱۱ فصل اول ص/ ۱۴۹ اور اسی طرح کے مضمون پر مشتمل دیگر احادیث درج ذیل کتابوں میں بهی دیکھی جاسکتی ہے :” مسند احمد ، جزء ۵ ص/ ۱۸۲ و ۱۸۹ ۔ ” کنز العمال ، جزء اول ، باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ ، ص/ ۴۴ ۔

(۵)صحیح مسلم ، جزء ۷ باب فضائل علی ابن ابی طالب ، ط مصر ، ص/ ۱۲۳ ۔

(۶)صحیح مسلم ، ج/۶ ص/ ۳ ، ط مصر۔

(۷) گذشته حواله

(۸) نهج البلاغة (صبحی صالح) ، خطبة ۱۴۴۔

(۹) وسائل الشیعة ، ج/ ۳ ص/ ۵۹۱ ، کتاب الصلة، ابواب ما یسجد علیه ، حدیث ۱۔ ”السجود لا یجوز الا علی الارض او علی ما انبتت الارض الا ما اکل او لبس “

(۱۰)وسائل الشیعة ، ج/۳ ص/ ۵۹۳ ، کتاب الصلة ابواب ما یسجد علیه ، حدیث ۷۔ ”السجود علی الارض فریضة وعلی الخمرة سنة “

(۱۱)وسائل الشیعة ، ج/۳ ص/ ۵۹۲ و بحار الانوار ، ج/ ۸۵ ص/ ۱۴۹ ۔ ”لا یسجد الا علی الارض او ما اٴنبتت الارض الا الماکول و القطن و الکتان “

(۱۲) وسائل الشیعة ،ج/۳ ص/ ۶۰۹۔ ”وعن اسحاق بن الفضیل انه ساٴل اٴبا عبد اللّٰه عن السجود علی الحصیر و البواری ، فقال : لاباس وان یسجد علی الارض اٴحب الیّ ، فان رسول اللّٰه (ص) کان یحبّ ذلک ان یمکن جبهته من الارض ، فانا احب لک ما کان رسول اللّٰه (ص) یحبه “

(۱۳)وسائل الشیعة ، ج/۳ ص/ ۵۹۳ ۔”۔۔۔۔ان رجلاً اٴتی ابا جعفر ( الامام الباقر) وساٴله عن السجود علی البوریا و الخصفة و النبات ، قال : نعم “

(۱۴)وسائل الشیعة ، ج/۳ ص/ ۵۹۴ : ”عن ابی عبد اللّٰه قال ساٴلته عن الرجل یصلی علی البساط و الشعر و الطنافس قال : لا تسجد علیه وان قمت علیه و سجدت علی الارض فلاباٴس ، وان بسطت علیه الحصیر و سجدت علی الحصیر فلا باٴس “

(۱۵)جامع احادیث الشیعة ، ج۱ ص ۱۲۷۔”حدیثی حدیث ابی (ع) و حدیث ابی (ع) حدیث جدی (ع) و حدیث جدی (ع) حدیث الحسین (ع) و حدیث الحسین (ع) حدیث الحسن (ع) و حدیث الحسن (ع) حدیث امیر المومنین (ع) و حدیث امیر المومنین (ع) حدیث رسول اللّٰه (ص) و حدیث رسول اللّٰه (ص) قول اللّٰه عز و جل “

(۱۶) جامع احادیث الشیعة ج۱ ص۱۲۹ ۔

آپ کا تبصرہ شامل کریں

قارئین کے تبصرے

کوئی تبصرہ موجودنہیں ہے
*
*

امامين حسنين عليهما السلام ثقافتى اور فکر اسلامى - نيٹ ورک