غدیر کے با شکوہ اجتماع کا مقصد
- شائع
-
- مؤلف:
- آیت اللہ سبحانی دامت برکاتہ
- ذرائع:
- اقتباس از امت کی رہبری آیت اللہ سبحانی دامت برکاتہ
گزشتہ بحثوں سے اچھی طرح واضح اور ثابت ھوگیا کہ غدیر کا واقعہ قطعی اور یقینی طور پر ایک تاریخی واقعہ ھے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبھہ کرنا بدیھی امور میں شک کرنے کے مترادف ھے ۔ اسلامی احادیث میں شاید ھی کوئی ایسی حدیث ھو جو متواتر اور قطعی ھونے کے لحاظ سے اس حدیث کی برابری کر سکے ۔
اس لئے ھم اس کی سند کے بارے میں مزید بحث و گفتگو نھیں کریں گے بلکہ اب اس کے مفاد و مفھوم کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس حدیث کو سمجھنے کی کنجی یہ ھے کہ جملہ ” من کنت مولاہ فعلی مولاہ'' میں وارد شدہ لفظ ”مولیٰ“ کو سمجھ لیں اس لفظ کے معنی کو سمجھنے کے بعد قدرتی طور پر حدیث کا مفھوم بھی واضح ھوجائے گا ۔
سب سے پھلے یہ امر قابل غور ھے کہ قرآن مجید میں لفظ ”مولیٰ“ ، اولی“ اور ” ولی“ کے معنی میں استعمال ھو ا ھے ، جیسے:
تو آج ( قیامت کے دن) نہ تم سے کوئی فدیہ یا عوض لیا جائے گا اور نہ کفار سے ، تم سب کا ٹھکانا جھنم ھے وھی تم سب کا صاحب اختیار (مولا) ھے اور تمھارا بدترین انجام ھے۔
اسلام کے بڑے اور نامور مفسرین اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں کھتے ھیں :
اس آیت میں ”مولیٰ“ کا لفظ ” اولی“ کے معنی میں ھے ، کیونکہ یہ افراد ، جو ناشائستہ اور برے اعمال کے مرتکب ھوئے ھیں تو ان کےلئے ان اعمال کے عوض جھنم کی آگ کے سوا کوئی اور چیز سزاوار نھیں ھے(1)
2۔( یَدْعُوا لَمَنْ ضَرَّه اٴَقْرَبُ مِنْ نَّفْعِه لَبِئْسَ الْمَولٰی وَ لَبِئْسَ الْعَشِیرُ)
”یہ اس بت کو پکارتا ھے جس کا نقصان اس کے فائدے سے زیادہ قریب تر ھے وہ اس کا بدترین سرپرست ( ولی ) اور بدترین ساتھی ھے “۔(2)
یہ آیہ شریفہ اپنے مضمون اور گزشتہ آیات کے قرینہ کی روشنی میں مشرکوں اور بت پرستوں کے عمل سے متعلق ھے کہ وہ بتوں کو اپنا صاحب اختیار ( ولی) جانتے تھے اور اسے اپنے سرپرست ( ولی) کی حیثیت سے مانتے تھے اور ” ولی“ کی حیثیت سے ھی ان کو پکارتے تھے۔
ان دو آیتوں اور اسی طرح دوسری آیات _ جن کے ذکر سے ھم صرف نظر کرتے ھیں _ سے اجمالی طور سے ثابت ھوتا ھے کہ ”مولیٰ“ کے معنی وھی ” اولیٰ“ اور ” ولی“ کے ھیں ۔
اب دیکھنا یہ ھے کہ جملہ ”من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ'' کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس کا مقصد وھی نفوس پر تصرف رکھنے میں اولیٰ ھونا ھے جس کا لازمہ کسی شخص کا انسان پر ولایت مطلقہ رکھنا ھے یا حدیث کا مفھوم کچھ اور ھے جیسا کہ بعض لوگوں نے تصور کیا ھے کہ حدیث غدیر میں ”مولیٰ“ دوست اور ناصر کے معنی میں ھے۔
بے شمار قرائن اس کے گواہ ھیں کہ ” مولیٰ“ سے مراد وھی پھلا معنی ھے جسے علماء اور دانشوروں نے ولایت مطلقہ سے تعبیر کیا ھے اور قرآن مجید نے خود پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بارے میں فرمایا ھے:
(اَلنَّبِیُّ اَوْلَٰی بِالْمُؤْمِنِینَ مَنْ اٴَنْفُسِهمْ ) (3)
بیشک نبی تمام مؤمنین سے ان کے نفوس کی نسبت زیادہ اولیٰ ھے۔
اگر کوئی شخص ( تسلط اور تصرف کے لحاظ سے ) کسی کی جان پر خود اس سے زیادہ شائستہ و سزاوار ھو تو وہ قدرتی طور پر اس کے مال پر بھی یھی اختیار رکھتا ھوگا۔ اور جو شخص کسی انسان کی جان و مال پر اولی بالتصرف ھو ، وہ اس کے بارے میں ولایت مطلقہ رکھتا ھے۔
اس بنا پر انسان کو اس( ولی) اس کے تمام احکام کی موبمو اطاعت کرنی چاھئے اور جس چیز سے وہ منع کرے اس سے با ز رھنا چاھئے۔
یہ عھدہ اور منصب ، خدا کی طرف سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیا گیا تھا ۔ آپ خود ذاتی طور پر ھرگز اس منصب و مقام کے حامل نھیں تھے۔
واضح تر الفاظ میں یوں کھا جائے گا کہ یہ خدائے تعالیٰ ھے جس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو لوگوںکی جان و مال پر مسلط فرمایا ھے ۔ آپ کو ھر قسم کے امر و نھی کے اختیارات دئے ھیں اور آپ کے احکام و اوامر کی مخالفت کو خدا کے احکام کی مخالفت جانا ھے ۔
چونکہ قطعی اور یقینی دلائل سے یہ ثابت ھو چکا ھے کہ اس حدیث میں ”مولیٰ“ کے معنی وھی ھیں جو آیہ شریفہ میں ” اولیٰ“ کے ھیں ، لھذا قدرتی طور پر امیر المؤمنین حضرت علی(ع)اسی منصب و مقام کے حامل ھوئے جس کے آیہ شریفہ کی نص کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تھے ، یعنی اپنے
زمانے میں امت کے پیشوا اور معاشرے کے رھبر اور لوگوں کی جان و مال پر اولی وبالتصرف کا اختیار رکھنے والے اور امامت کا یھی وہ عظیم اور بلند مرتبہ ھے جسے ولایت الھیہ سے تعبیر کیا جاتا ھے ( یعنی وہ ولایت جو خدا کی طرف سے بعض خاص افراد کو وسیع پیمانے پر عطا ھوتی ھے )
اب ھم وہ قرائن و شواھد بیان کرتے ھیں جن سے پوری طرح ثابت ھوتا ھے کہ اس حدیث میں لفظ ” مولیٰ“ کے معنی تمام امور میں ( اولی بالتصرف) اور صاحب اختیار ھونے کے علاوہ کچھ اور نھیں ھے۔
ذیل میں ایسے چند شواھد ملاحظہ ھوں:
فقال له قم یا علی فاننی
رضیتک من بعدی اماماً و هادیا
یعنی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی (ع)کی طرف رخ کرکے ان سے فرمایا: اٹھو کہ میں نے تمھیں اپنے بعد لوگوں کا امام و ھادی مقرر کردیا ھے “
واضح رھے کہ حسّان نے پیغمبر کے کلام میں موجود لفظ ” مولیٰ“ سے امت کی امامت ، پیشوائی اور ھدایت کے علاوہ کوئی اور معنی نھیں لئے ھیں (4)
صرف حسّان ھی لفظ” مولیٰ“ سے یہ نھیں سمجھے ، بلکہ اس کے بعد بھی اسلام کے عظیم شعرا __جن میں سے اکثراعلیٰ درجے کے شعرا اور بعض عربی زبان کے استاد شمار ھوتے تھے__ نے بھی اس لفظ سے وھی معنی لئے ھیں جو حسان نے سمجھے تھے ، یعنی امت کی امامت و پیشوائی۔
و اوجب لی ولایته علیکم
رسول الله یوم غدیر خم
” رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے میری ولایت کو تم لوگوں پر غدیر کے دن واجب فرمایا ھے “
علی(ع)سے بھتر کون ھوسکتا ھے جو ھمارے لئے حدیث کے حقیقی مفھوم کو واضح کر سکے ؟ جبکہ شیعہ و سنی آپ(ع)کے علم ،امانتداری اور تقویٰ کے سلسلے میں اتفاق نظر رکھتے ھیں ۔ چنانچہ ھم دیکھتے ھیں کہ حضرت (ع)حدیث غدیر سے استدلال کرتے ھوئے فرماتے ھیں:
” پیغمبر خدا نے غدیر کے دن میری ولایت کو تم لوگوں پر واجب فرمایا“
کیا اس وضاحت سے یہ مطلب نھیں نکلتا ھے کہ غدیر کے دن حاضر تمام لوگوں نے آنحضرت (ع)کے بیانات سے دینی سرپرستی اور معاشرے کی رھبری کے علاوہ کوئی اورمفھوم نھیں سمجھا تھا؟
خود حدیث میں ایسے قرائن موجود ھیں جو اس بات کی گواھی دیتے ھیں کہ پیغمبر اسلام کے اس جملہ کا وھی مطلب ، یعنی حضرت علی(ع)کا ” اولی بالتصرف“ و صاحب اختیار ھوناھے ۔ کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ” من کنت مولاہ “ فرمانے سے پھلے یوں فرمایا تھا :
”الست اولیٰ بکم من انفسکم“
کیا میں تم لوگوں پر تمھارے نفوس سے زیادہ اختیار نھیں رکھتا ھوں ؟
اس جملہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ” اولی بکم من انفسکم “ سے استفادہ فرمایا ھے اور اپنے آپ کو تمام لوگوں پر ان کے نفوس سے زیادہ صاحب اختیار بتایا ھے ۔
اس کے فوراً بعد فرماتے ھیں : ” من کنت مولاہ فهذا علی مولاه“
ان دو جملوں کی ترتیب سے ذکر کئے جانے کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مقصد یہ نھیں ھے کہ علی(ع)بھی میر ی طرح لوگوں کے نفوس پر صاحب اختیار ھےں جسے آپ نے پھلے اپنے لئے ثابت فرمایا اور یہ جو آپ نے فرمایا کہ : ” اے لوگو! وھی منصب و مقام جس کا میں حامل ھوں ، علی(ع)بھی اسی منصب کے حامل ھیں “ اگر پیغمبر کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ھوتا تو اپنی اولویت کے بارے میں پھلے لوگوں سے اقرار لینے کی ضرورت ھی نھیں تھی۔
”اٴَلَسْتمُْ تَشْهدُون َ اٴَنَّ لاإِله إِلَّا اللهَ و َ اٴَنَّ مُحمّداً عَبْدُه وَ رَسُولُه وَ اٴَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌ وَ النَّارَ حَقٌ“
یعنی ، کیا تم لوگ گواھی نھیں دیتے ھو کہ خدا کے سوا کوئی پروردگار نھیں ھے ، محمد اس کا بندہ اور رسول ھے اور بھشت و جھنم حق ھیں۔
یہ اقرار لینے کا مقصد کیا ھے ؟ کیا اس کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور ھے کہ پیغمبر اسلام لوگوں کے ذھنوں کو اس پر آمادہ کرنا چاھتے تھے کہ علی کے بارے میں جس منصب کا اعلان کرنے والے ھیں وہ انھی اصولوں کے مانند اھم ھے ، اور لوگ جان لیں کہ آپ کی ولایت و خلافت کا اقرار اسلام کے مذکورہ تین اصول کے مانند ھے جس کا سب نے اقرار و اعتراف کیا ھے ؟ اگر ”مولیٰ“ کا مقصد دوست اور مددگار لیا جائے تو اس صورت میں جملوں کا سلسلہ ھی ٹوٹ جاتا ھے اور پیغمبر کے کلام کی بلاغت و پائداری ختم ھوجاتی ھے ۔ کیونکہ منصب ولایت سے الگ ھٹ کر حضرت علی (ع)خودایسے عظیم مسلمان تھے جنھوں نے ایسے معاشرہ میں پرورش پائی تھی جھاں پر تمام مؤمنوں سے دوستی کی ضرورت کوئی ڈھکی چھپی بات نھیں تھی چہ جائیکہ علی (ع)جیسے مؤمن سے دوستی جسے پیغمبر اس اھتمام و شاٴن کے ساتھ ایک بڑے اجتماع میں اعلان فرماتے ! اور اس صورت میں یہ امر اتنا اھم بھی نھیں تھا کہ اسلام کے تین بنیادی اصولوں کے برابر قرار پاتا ۔
” انه یوشک ان ادعی فاجیب “
” قریب ھے کہ میں دعوت حق کو لبیک کھوں“
یہ جملہ اس امر کی حکایت کرتا ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی رحلت کے بعد کےلئے کوئی اھتمام و اقدام کرنا چاھتے تھے تا کہ اپنے بعد پیدا ھونے والے خلاٴ کو پر کریں۔
اور بلاشبہ واضح ھے کہ جو چیز اس خلاٴ کو پر کرسکتی تھی وہ صرف حضرت علی(ع)کی خلافت و امامت تھی کہ رسول خدا کی رحلت کے بعد امور کی باگ ڈور حضرت علی(ع)اپنے ھاتہ میںلے لیں ، نہ کہ علی(ع)کی محبت و دوستی یا ان کی نصرت و مدد !
الله اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بن ابی طالب
میں خدا کی طرف سے تکمیل دین ، اتمام نعمت ، اپنی رسالت اور علی(ع)ابن ابیطالب کی ولایت پر تکبیر کھتا ھوں۔
مزے کی بات یہ ھے کہ شیخین پھلے افراد تھے جنھوں نے امام(ع)سے کھا:
”هنیئاً لک یا علی بن ابی طالب اصبت و امسیت مولی کل مؤمن و مومنة“
” مبارک ھو آپ کو یہ منصب ، اے علی (ع)! کہ آپ ھر مومن زن و مرد کے مولیٰ ھوگئے“
حقیقت میں حضرت علی(ع)اس روز امت کی سرپرستی و رھبری کے علاوہ کسی اور منصب کے مالک نھیں بنے تھے جبھی وہ اس قسم کی مبارکباد کے مستحق قرار پائے اور اسی وجہ سے اس دن ایسے کی بے مثال تقریب اور ایسے عظیم اجتماع کا اھتمام کیا گیا ۔
کیا قرآن مجید نے مؤمن افراد کو ایک دوسرے کا بھائی نھیں پکارا ھے ؟ جیسا کہ فرمایا ھے :
(اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ )(5)
” با ایمان لوگ آپس میں ایک دوسر کے بھائی ھیں“
کیا قرآن مجید نے مؤمنوں کا تعارف ایک دوست کے دوسرے کی حیثیت سے نھیں کرایا ھے جیسا کہ فرماتا ھے :
( و َ المُؤمِنُونَ وَ المُؤْمِنَٰتُ بَعْضُهمْ اٴَوْلِیاءُ بَعْضٍ)
”با ایمان لوگ ایک دوسرے کے دوست ھیں “(6)
علی(ع)بھی تو اسی با ایمان معاشرے کی ایک فرد تھے ، اس لئے اس کی ضرورت ھی نھیں تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم الگ سے اور وہ بھی اس اھتمام کے ساتھ علی(ع)کی دوستی اور محبت کا اعلان فرماتے !!
جو کچھ ھم نے بیان کیا اس سے بالکل واضح ھوجاتا ھے کہ بعض لوگوں کا یہ دعویٰ ، کہ حدیث غدیر کا مقصد علی(ع)کی دوستی یا ان کی نصرت و مدد کو ضروری قرار دینا تھا اور پیغمبر کے خطبہ میں لفظ ”مولیٰ“ دوست یا ناصر کے معنی میں ھے ، در حقیقت تعصب پر مبنی ایک قسم کی غیر منصفانہ تفسیر اور بھت بچگانہ باتیں ھیں ۔ گزشتہ قرائن اور اس خطبہ کے اول سے آخر تک بغور مطالعہ کے بعد یہ ناقابل انکار حقیقت معلوم ھوجاتی ھے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خطبہ میں ”مولیٰ“ کا ایک ھی معنی ھے ، یعنی ” صاحب اختیار“ (اولی بالتصرف) ھونا۔ اور اگر یہ کھا جائے کہ اس کا مقصد سیادت اور آقائی ھے اور مولیٰ ” سید “ کے معنی میں ھے تو اس سیادت کا مقصد وہ دینی والٰھی سیادت ھے جو امام کی اطاعت کو لوگوں پر واجب اور ضروری قرار دیتی ھے۔
1۔( فاَلْیَومَ لاَ یُؤْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَةٌ وَ لاَ مِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مَاٴْوَاکُمُ النّارُ هیَ مَولَکمْ وَ بِئْسَ الْمَصِیرُ) 1۔ غدیر کے تاریخی واقعہ کے دن رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے شاعر حسّان بن ثابت حضور اکرم سے اجازت حاصل کرکے کھڑے ھوئے اورپیغمبر اکرم کے بیانات کے مضمون کو اشعار کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا ۔ یھاں قابل توجہ نکتہ یہ ھے کہ اس فصیح ، بلیغ ، اور عربی زبان کے رموز سے واقف شخص نے لفظ ”مولیٰ“ کی جگہ پر امام و ھادی کا لفظ استعمال کیا ھے ، ملاحظہ ھو: 2۔ امیر المؤمنین(ع)نے معاویہ کو لکھے گئے اپنے چند اشعار میں حدیث غدیر کے بارے میں یوں فرمایا ھے: 4۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تقریر کی ابتدا ء میں لوگوں سے اسلام کے تین اھم اصول ( توحید، نبوت ، معاد) کے بارے میں اقرار لیتے ھوئے فرمایا: 5۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے خطبہ کے آغاز میں اپنی رحلت کی طرف اشارہ کرتے ھوئے فرماتے ھیں : 6۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جملہ ”من کنت مولا ہ''کے بعد یوں فرمایا: 7۔ اس سے واضح اور بھتر کیا گواھی ھوسکتی ھے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے منبر سے نیچے تشریف لانے کے بعد شیخین اور اصحاب رسول کی ایک بڑی جماعت نے حضرت علی(ع)کی خدمت میں مبارک باد پیش کی اور مبارک بادی کا یہ سلسلہ سورج ڈوبنے تک جاری رھا؟ 8۔ اگر مقصد صرف علی(ع)کی دوستی کا اعلان تھا تو یہ ضروری نھیں تھا کہ پیغمبر اسلام ایسے موسم گرما میں حجاج کے ایک لاکہ کے مجمع کو رکوا کر اور لوگوں کو تپتی ریت پر بٹھا کر مفصل خطبہ بیان کرتے اور اس کے بعد ا س مسئلہ کو پیش کرتے ۔
حوالہ جات
1۔ ای اولی لکم ما اسلفتم من الذنوب۔
2۔ حج / 13۔
3۔ احزاب 6
4۔ مناقب خوارزمی ص 80 وغیرھ۔
5۔ حجرات / 15
6۔توبہ / 71