انبیاء (علیہم السلام) کے درمیان فرق کے اسباب
سورہ شوریٰ کی آیت نمبر ۱۳ میں ارشاد ہے:۔
شَرَعَ لَكُم مِن الدّین مَاوَصّیٰ به نوحا وَ الّذی اَوحَینَا اِلَیكَ وَمَا وَصّینَا بِه اِبرَاهیمَ وَ مُوسیٰ وعیسٰی۔
یعنی: خدا وند عالم نے تمہارے لئے ایسے دین کا وہی راستہ مقرر کیا ہے جس کی اس نے نوح(ع) سے وصیت کی، اور ائے رسول (ص) وہی ہم نے آپ پر وحی کی صورت میں نازل کیا اور اسی کی ابراہیم(ع) و موسیٰ (ع) و عیسیٰ(ع) سے سفارش کی۔
اس آیت اور دوسرے بہت سے حوالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام آسمانی ادیان کی اساس و بنیاد ایک ہی ہے اور پیغمبروں(ع) کی دعوت و ہدایت کے اصول بھی باہم مشترک اور ایک ہی ہیں، لیکن اس کے باوجود ہر دور میں ان اصول کے نفاذ اور انہیں مقرر کرنے کے سلسلہ میں انبیاء کا طریقہٴ کار متفادت اور جداگانہ رہا ہے۔ جملہ انبیاء کرام میں صرف پانچ بڑے پیغمبر ہیں یعنی حضرت نوح(ع) ، ابراہیم (ع) موسیٰ(ع) و عیسیٰ(ع) و حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم جو مستقل شریعت لائے اور حقیقتاً وہ" تشریعی نبوت" کے حامل رہے ہیں۔ جس کی طرف مذکورہ آیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ بقیہ پیغمبران ہی ادیان کی تبلیغ… پر مامور کئے گئے تھے، اور ان کا فریضہ ان ادیان کے مطابق لوگوں کی ہدایت کرنا تھا یہ انبیاء "تبلیغی نبوت" کے حامل تھے۔ اس کے علاوہ ان بڑے انبیاء کرام کے درمیان بھی احکام و قوانین اور انداز تبلیغ و ہدایت کے لحاظ سے خاصا فرق پایا جاتا ہے۔ جس کی چند جہات ہیں:
1. ماحول نیز، احتیاج و ضرورت کی سطحوں اور لوگوں کی ذہنی و فکری استعداد کا فرق ۔ یہ ایک ناقابل انکار پہلو ہے کہ انبیاء کرام لوگوںکی ہدایت کے لئے تشریف لائے۔ اس اعتبار سے قوانین و احکام کی نوعیت اور ارشاد و معارف کی سطح انسانی معاشرہ کی فکری سطح اور ماحول کی ضرورتوں کے مطابق ہونی چاہیئے۔ یہ بات طبیعی و فطری ہے کہ … قرون اولیہ یا ابتدائی زمانوں میں انسان کے باہمی اجتماعی روابط بہت محدود تھے اور اس کا اجتماعی و معاشرتی نظام کوئی وسعت یا پھیلاؤ نہیں رکھتا تھا۔ اس وجہ سے محدود و مختصر قوانین ہی اس کی زندگی کو ادارہ اور روبراہ کرنے کے لئے کافی ہوتے تھے۔ یوں ہی معاشرہ میں مختلف آراء و خواہشات، افکار و عقائد رائج نہیں ہوئے تھے کہ ان کی اصلاح کے لئے بہت زیادہ ہدایات کی ضرورت ہوتی۔ افکار و روابط کی یہ وسعت نئی نئی چیزوں کی شناخت، فطری عوامل سے سابقہ اور نت نئی ضرورتیں رفتہ رفتہ نئی ہدایت و رسالت کے اسباب فراہم کرتی رہیں، یہاں تک کہ آخر کا ر اسلامی دعوت کی شکل میں آخری و کامل تبلیغ و ہدایت کا ماحول سازگار اور اسباب فراہم ہوئے۔
2. معاشرہ کے خود غرض اور مطلب پرست حکام، مذہبی علماء اور نادان پیروکاروں کے ذریعہ گزشتہ ادیان میں انحرافات و تحریفیں وجود میں آتی رہیں۔یہ ایک فطری سی بات ہے کہ سالہا سال کی طویل مدت میں ایک دینی معاشرہ کے اندر اغیار کے آراء و افکار کی آمیزش، اور نادانوں و صاحبان غرض کے ہاتھوں افسانوں، من گھڑت داستانوں اور خرافات کی ایجادات، ساتھ ہی دین کی اصل کتابوں میں ہونے والی تبدیلیاں اور اس کے باقی ماندہ آثار کی غلط و جاہلانہ توجیہات۔ خاص طور سے ان حالات میں جب کہ ابھی انسان اپنے دینی آثار کو محفوظ کرنے اور اس کی درست تدوین کرنے پر قادر نہ ہوا ہو، یہ دینی آثار و نوشتے آسانی کے ساتھ لوگوں کے حملوں کا نشانہ یا دوسرے حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور اس طرح کچھ عرصہ کے بعد گزشتہ پیغمبر کے بتائے ہوئے صحیح اصول و قوانین کا معلوم کرلینا نا ممکن ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں لازم ہے کہ ایک دوسرا پیغمبر آئے تاکہ وہ ان انحرافات و تحریفات کے پہلوؤں سے لوگوں کو آگاہ کرے اور گزشتہ دین کو ان آلودگیوں سے پاک کرے۔ البتہ اسلام میں کامل طور پر یہ صلاحیت پائی جاتی ہے کہ وہ گزشتہ ادیان کے تحریف شدہ آثار کو عیاں کردیتا ہے۔ لیکن چونکہ اسلام کی دعوت کے آغاز کے دوران چونکہ انسان اپنے آثارکی تحریر و تدوین اور ان کی حفاظت پر قادر ہوچکا تھا لہٰذا مسلمانوں نے قرآن کو بلا کم و کاست اور بغیر کسی تغیر و تحریف کے محفوظ کرلیا ساتھ ہی رسول اکرم (ص) اور ائمہ ہدیٰ (ع) کے بہت سے اقوال و آثار آنے والی دنیا کے لئے بخوبی محفوظ کرلئے تھے چنانچہ اب کسی نئی دعوت یا کسی نئے پیغمبر کی آمد کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
3. مختلف انبیاء (ع) کی آمد کے زمانہ میں گمراہیوں اور کج رویوں کی نوعیت میں فرق رہا ہے۔ مثلاً جناب موسیٰ (ع) اس معاشرہ میں تشریف لائے جو ذلت و اسارت، سماجی بے نظمی، طاقت و حکومت کے فقدان اور ظلم و ستم کی زندگی کا عادی ہوچکا تھا، جس کا تقاضا یہ تھا کہ آپ ان لوگوں کو عزّت کی زندگی بسر کرنے، معاشرہ میں قوت و طاقت حاصل کرنے اور ظلم کے خلاف مبازرہ و جدوجہد کرنے کی دعوت دیں۔ اس وجہ سے جناب موسیٰ (ع) کی دعوت میں دنیاداری اور دنیاوی زندگی کے پہلو نیز خشونت و تندی کے آثار زیادہ نظر آتے ہیں۔ لیکن جناب عیسیٰ (ع) خونخوار، جنگجو اور وسعت طلب حکام و سرداروں کی کشاکس اور طاقت آزمائی نیز مادیات کی طرف شدید جھکاؤ، دنیا پرستی اور اموال کی لوٹ مار کے ماحول میں لوگوں کی ہدایت کے لئے تشریف لائے تھے۔ اس وجہ سے آپ کی کوشش یہ تھی کہ لوگوں کومحبت ویگانگت، اپنے جیسے انسانوں سے الفت نیز مادیات سے کنارہ کشی زہدو تقویٰ اور معنویات کی جانب دعوت دیں۔ یہ اختلاف موحول اور حالات کی دگر گونی کی بنیاد پر تھا جس سے انبیاء کی تبلیغ کے انداز اور روش ہدایت میں خاصا فرق پیدا ہوگیا۔ اوراسلام چونکہ پورے عالم بشریت کی ہدایت کے لئے آیا اور کسی قوم و علاقہ سے مخصوص نہیں ہے لھٰذا اس کی دعوت کی نوعیت، اس کے اصول اور روش ہدایت کسی ایک جہت اور پہلو کی حامل نہیں ہے بلکہ وہ تمام اقوام و امم میں ہر طرح کی ممکنہ گمراہی، کج روی اور افراط و تفریط پر ناظر ہے۔
اسلام جلووٴ الہٰی ہے ضرورت اجتماعی نہیں
حالات اور ماحول کے عین مطابق انبیاء کرام (ع) کی دعوتوں اور تبیغات کو دیکھ کر بعض ماہرین سماجیات نے دعوت انبیاء کے سلسلہ کو ایک اجتماعی و معاشرتی ضرورت کہنا شروع کردیا۔ ان کے خیال میں: برائیوں، ظلم و ستم اور اقتصادی بنیادوں پر طبقاتی اختلافات سے آلودہ ایک ماحول اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے کہ بعض صاحبان عقل و ہوش اور معاشرہ کا درد رکھنے والے افراد ان اختلافات کو دور کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھائیں، لوگوں کو اصلاح کی دعوت دیں۔ اس کے لئے ایک دین ایجاد کریں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے لوگوں کے اضطراب اور پریشانیوں سے فائدہ اٹھائیں اور اس طرح یہ لوگ انبیاء کرام (ع) کی تمام تبلیغات کو انسانی و بشری اصلاح طلب دعوتوںو ہدایتوں کی شکل میںپیش کرتے ہیں۔ اور ہم کہتے ہیں کہ اگر انبیاء کرام(ع) کی تبلیغات حالات اور ماحول کی ضرورتوں کے عین مطابق ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ تبلیغات الہٰی اور غیبی نہیں ہیں کیونکہ جس طرح کائنات کے تمام تکوینی و فطری امور نظم و حکمت کی بنیاد پر استوار ہیں یوں ہی شرعی اور دینی قوانین بھی کامل نظم و حکمت کی اساس پر مبنی ہیں۔ یعنی اگر انسان دعوت و ہدایت کے محتاج ہیں تو جس قدر وہ ہدایت کے محتاج ہیں اسی کے مطابق قوانین و احکام ان کے لئے وحی ہوتے ہیں اور ان ہی کے مطابق محکم نظام کی طرف ان کی رہنمائی ہوتی ہے۔ اس طرح اجتماعی ضرورتوں کا نظام بھی سنن الہٰیہ کے نظام کا ایک حصہ ہے۔ بنا براین انبیاء کی یہ دعوتیں اور ہدایتیں مناسب و ضروری حالات میں الہٰی، اجتاعی ضرورتیں ہیں۔
حضرت ابراہیم (ع)
حضرت ابراہیم (ع) آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے بابل کے ایک شہر"اور" میں پیدا ہوئے تھے۔ بابل کی سرزمین پر "نمرودبن کنعان" نام کا بادشاہ حاکم تھا وہ ظالم و خود خواہ تھا اور خود کو لوگوں کا خدا سمجھتا تھا۔ وہ لوگوں سے چاہتا تھا کہ اس کے فرمانبردار اور بندہٴ بے دام رہیں اور صرف اسی کی اطاعت و ستائش کریں۔
اس سرزمین پر بت پرستی بھی رائج تھی اور معمولاً اس طرح کے حکام بت پرستی، سحرو جادو کے عقائد، مقدرات اور ان پرستاروں کے اثرات اور اسی طرح کے دوسرے خرافات کی زیادہ سے زیادہ ترویج کرتے ہیں، یا کم از کم اس طرح کے اوہام زدہ رواج سے لاتعلق رہتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح کے عقائد لوگوں کی جہالت اور معاشرہ کی فکری عقب ماندگی کا سبب بنتے ہیں اور عموماً موقع پرست افراد لوگوں کی جہالت سے غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور لوگوں کی جہالت و کوتاہ فکری ان کے لئے ماحول کو زیادہ سازگار کرتی ہے۔ ایک طرف تو انسان چاہے یا ان چاہے طور پر۔ مذہبی احساسات اور دینی سرشت و جبلّت رکھتا ہی ہے۔ اب اگر یہ احساسات پتھر ، درخت، ستاروں اور اسی کے مانند دوسری چیزوں کی طرف مائل ہوگئے تو پھر باقی اجتمای، اقتصادی، قانون سازی اور دیگر اختیارات و فرائض خدایان زور و زر کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں اور ان کے تاخت و تازکی را ہیں ہموار ہوجاتی ہیں اور جب اس کے برخلاف لوگوں کے دینی احساسات ایک قادر و توانا، حاضر و ناظر اور رحمٰن و رحیم۔ خدا کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ یعنی لوگ جب اس خدا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو خلقت کی ہدایت کے لئے انبیاء کو بھیجتا ہے اور انہیں جواب دہ قرار دیتا ہے، سب کو ایک برابر سمجھتا ہے اور آقائی وبندگی اور حاکمیت و نوکری کا تصور انسانوں کے درمیان سے دور فرمادیتا ہے تو ایسے دینی و فکری ماحول میں خود غرض اور ظالم افراد کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اپنے منافع پر خطرات کے بادل منڈلاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
حضرت ابراہیم (ع) کی دعوت کے زمانہ میں بعض ایسے افراد تھے جو "زہرہ" ستارہ کو اپنا پروردگار سمجھتے تھے، بعض چاند کو اور بعض سورج کو معبود جانتے تھے۔ اس طرح کی پرستش و عبادت کا تصوّر علم نجوم کی ترقی اور لوگوں کے درمیان اس کے نفوذ اور انسانوں کے مقدرات پر سعد و نحس کی شکل میں ان کے اثرات کے تحت تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آسمان کے بعض سیارے انسانوں کے معبودکی شکل اختیار کرگئے تھے۔ خاص طور سے سورج جو نور و حرارت اور امید و حیات کا سرچشمہ ہے اور تاریکی و وحشت اور سردی و خاموشی کو روشنی و مسرت اور گرمی و جوش و ولولہ میں تبدیل کردیتا ہے یا چاند جس سے پیدا ہونے والی ملائم روشنی اور شاعرانہ منظرخاص طور سے تیرہویں اور چودہویں راتوں میں تاریک صحراؤں اور بیابانوں کے اندر ایک الہام بخش ماحول اور نشاط آور کیفیت پیدا کردیتا ہے۔ اور وہ بھی ایک ایسے انسان کے لئے جو حددرجہ جاہل اور نادان ہے، دنیا جس کے لئے سراسر ابہام و اسرار ہے۔
بت پرستی اکثر قبائل کے افراد کے رئیس قبیلہ یا بزرگ خاندان کے شدید احترام کے باعث بھی وجود میں آتی ہے، لوگ ان کے احترام میں یا ان کی یادوں کا تازہ رکھنے کے لئے ان کے مجسمے بناتے تھے او ریہی احترام رفتہ رفتہ خضوع و عبادت میں تبدیل ہوجاتا تھا۔ اور آخر کار یہ کنووں یاغار کے پتھر جو کسی خاص شکل میں امید بخش یا خوف و وحشت سے دوری کے اسباب بن جاتے تھے البتہ دنیا میں انواع و اقسام کے بتوں اور ہر ایک کے وجود اور ان کی پیدائش کے اسباب و علل کی داستان بڑی مفصل ہے اور ان کے سلسلہ میں بڑی دلچسپ تحقیقات سامنے آئی ہیں۔
حضرت ابراہیم(ع) کی مجاہدات
حضرت ابراہیم (ع) نے ان تمام گمراہیوں کے خلاف اپنی جنگ کا آغاز کیا۔ ہم ان میں سے ہر ایک کی جانب صرف اشارہ کرتے ہیں:
۱۔ نمرود:
سورہ بقرہ کی آیت: ۲۵۸ میں ارشاد ہے: کیا تم نے اس شخص کا حال نہیں دیکھا جس نے حضرت ابراہیم(ع) سے ان کے رب کے بارہ میں بحث و حجت کی؟ وہ شخص جسے خداوند عالم نے ملک و حکومت عطا فرمائی تھی حضرت ابراہیم (ع) سے یوں بحث و حجت پر اتر آیا کہ جب جناب ابراہیم (ع) نے کہا کہ میرا پروردگار وہ ہے جو لوگوں کو زندہ کرتا ہے اور موت دیتا ہے تو اس نے کہا کہ میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مار ڈالتا ہوں۔ حضرت ابراہیم (ع) نے فرمایا: خدا آفتاب کو مشرق سے نکالتا ہے تو اسے مغرب سے نکال کر دکھا۔ اس طرح وہ شخص جو کافر تھا اور حق سے انکار کرتا تھا مبہوت ومات رہ گیا۔ خدا ستمگاروں کی رہنمائی نہیں فرماتا۔"
حضرت ابراہیم (ع) نے اس بحث میں سب سے پہلے موت و حیات سے استدلال کیا ہے۔ راز زندگی، دنیائے خلقت کے سب سے زیادہ حیرت انگیز اسرار…اور خدائے قادر کی بے پایاں قدرت کی بہترین نشانیوں میں سے ہے۔ لیکن نمرود نے اس عظیم استدلال کو ایک معمولی سے مغالطہ کے ذریعہ بے کار کردیا۔اس نے حکم دیا کہ دو قیدی لائے جائیں۔ پھر اس نے ایک کے قتل کاحکم دے دیا اور ایک کوآزاد کر دیا گویا اس نے اس کا اظہار کیا کہ ان لوگوں کی زندگی اور موت میرے ہاتھ میں ہے۔ اس نے ایک شخص کے آزاد کرنے کو زندہ کرنے اور ایک شخص کے قتل کاسامان فراہم کرنے کو زندگی لے لینے اور روح قبض کرنے کے تصور میں تبدیل کردیا۔ حضرت ابراہیم (ع) نے مصلحت یہ دیکھی کہ اس سے عقلی اور علمی بحث کرنے کے بجائے ایک حسی اور بالکل سامنے کی بحث کی جائے۔ چنانچہ آپ نے آفتاب کے طلوع کی بحث شروع کی نتیجہ میں نمرود فوراً ہی زیر ہوگیا۔ نمرود کے ساتھ حضرت ابراہیم (ع) کی منطقی بحثوں اور حق کی جانب دعوتوں کا یہ ایک نمونہ ہے۔
۲۔ستارہ، ماہ اور خورشید پرست قوموں کے ساتھ:
سورہٴ انعام کی آیات:۷۶ تا ۷۹ میں ارشاد ہے: "جب شب تاریک ہوئی آپ نے ایک ستارہ دیکھا اور فرمایا یہ میرا پروردگار ہے لیکن جیسے ہی وہ غروب ہوا تو فرمایامیں اس خدا کو دوست نہیں رکھتا جو غروب ہوجائے۔ اور جب چاندکو روشن وتابناک دیکھا تو فرمایا یہ میرو پروردگار ہے لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو فرمایا، اگر میرا پروردگار میری ہدایت نہ کرے تو میں گمراہ ہوجاؤں۔ پھر جب (صبح کے وقت)آفتاب کو درخشان و تاباں دیکھا تو فرمایا یہ میرا پروردگار ہے۔ یہ سب سے بڑا ہے۔ لیکن جب وہ بھی غروب کرگیا تو فرمایا اے لوگو! میں ہر اس شئے سے بیزار ہوں جسے تم خدا کی ذات میں شریک قرار دیتے ہو۔ میں اپنا رخ اس خدا کی جانب کرتا ہوں جوآسمانوں اورزمین کا پیدا کرنے والا ہے۔ میں خلوص دل سے اس کی ستائش کرتا ہوں اور مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔"
اس استدلال میں دشمن سے لوہا لینے کے لئے اول ایک مئوثر روش سے استفادہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ بڑے آرام وآہستگی سے پہلے ظاہری طور پر مخالف کے عقیدہ کو قبول کرلیاگیا پھر اس عقیدہ کو کنڈم اور باطل کرنے کے لئے موقع و فرصت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اقدام کیا گیا ہے۔ دوسرے بحث کی بنیاد ان فرضی خداؤں کے غروب و زوال یعنی، تغیر و تبدل کمی و زیادتی اور ان کی حرکت پر رکھی گئی ہے۔ اور اس طرح کے امور خدا میں نہیں پائے جاتے کیونکہ خداوند عالم ابدی، حی و قیوم ، کامل لایتغیر و لایزال ہے۔
بڑے انبیاء (ع)
بحث نبوت کی تکمیل کے لئے لازم ہے کہ بعض انبیاء کرام (ع) کی زندگی اور ان کی تبلیغات کواختصار کے ساتھ بیان کیا جائے۔ نہ صرف نقل تاریخ کی صورت میں بلکہ ان انبیاء کرام (ع) کے حقیقی چہرے نمایاںکرنے کی غرض سے اور یہ ثابت کرنے کے لیے کہ انسانی معاشرہ میں انقلابات لانے اور اس کی اصلاح میں ان مقدس شخصیتوں کا کردار کتنا اہم رہا ہے۔ قرآن نے انبیاء کرام کی تاریخ بیان کرنے کا ایک خاص طرز اختیار کیا ہے۔ یہ کتاب خدا کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے کہ کسی کی زندگی کاذکر ابتدا سے شروع کرے اور بتدریج رونما ہونے والے تغیرات و انقلابات، اس کے سفر اور مختلف اقدامات کا تذکرہ کرے۔ انبیاء (ع) کے واقعات بیان کرنے کے سلسلہ میں قرآن کا مقصد اور اس کی غرض لوگوں کی ہدایت و بیداری اور ان کا نصیحت و غیرت حاصل کرنا۔ قوموں اور معاشروں کے انحرافات اور گمراہیوں کے نقطوں کااظہار کرنا… ساتھ ہی انبیا(ع) کرام کے اصلاحی اقدامات اور ان کی دعوتوں کے اصول بیان کرتے ہوئے لوگوں کے افکار اور معاشرہ میں انقلابات لانے کے سلسلہ میں ان کے خدمات کا تذکرہ مقصود ہے۔
انبیاء کرام (ع) کی تعداد بہت ہے اور جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں ان میں سے پانچ افراد مستقل شریعت و کتاب کے حامل تھے، چنانچہ یہاں ہم حضرت ابراہیم (ع) ، حضرت موسیٰ (ع) ، حضرت عیسیٰ(ع) اور حضرت محمد (ص) کی زندگیوں کا مختصر تذکرہ پیش کرتے ہیں ۔ آخر کے تین انبیاء تین عظیم دین دنیا میں لائے جو آج کی دنیا کے زندہ دین ہیں اور تین اسلامی، عیسائی اور یہودی معاشروں کی حیثیت سے تاریخ میں اہم کردار کے حامل رہے ہیں اور آج ان تینوں ادیان کے ماننے والوں کی بڑی تعداد اپنے اپنے فرق کے ساتھ موجودہے۔ حضرت ابراہیم (ع) کا تذکرہ ہم اس وجہ سے کریں گے کہ ابراہیم (ع) ان کے بعد تینوں پیغمبروں کے جد ہیں، ساتھ ہی آپ نے جس توحید اور مناسک و مراسم کی دنیا کو دعوت دی تھی اسے بقیہ ادیان میں بخوبی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ان عظیم ادیان یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت کی جڑیں دراصل دین حضرت ابراہیم (ع) میں پائی جاتی ہیں۔
سامی انبیاء۔ یہاں بحث یہ ہے کہ یہ بزرگ انبیاء جنہیں ہم جانتے ہیں اور دیگر انبیاء کرام(ع) جن کے اسماء دینی آثار و کتب میں ذکرہوئے ہیں یہ سب کے سب کیوں صرف مشرقی ہیں اور وہ بھی مشرق وسطیٰ میں ہدایت کے لئے آئے ہیں۔ مثلاً حضرت ابراہیم(ع) نے بابل میں حضرت موسیٰ(ع) نے مصر میں حضرت عیسیٰ (ع) نے فلسطین میں اور حضرت محمد(ص) نے مکہ میں ظہور فرمایا اور انبیاءِ بنی اسرائیل بھی سب کے سب ان ہی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ کیا زمین کے دوسرے خطوں اور علاقوں میں انسان موجود نہ تھے۔ جنہیں پیغمبر کی ضرورت ہوتی؟ جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اولاً قرآن مجید کے اعتراف کے مطابق اور انبیاء بھی ہوئے ہیں جن کے اسماء قرآن اور دینی کتب میں ذکر نہیں ہوئے ہیں۔ اور چند پیغمبروں کے نام اور ان کے حالات وتبلیغات کے ذکر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انبیاء کی تعداد ان ہی تک محدود ہے۔ دوسرے یہ کہ مذکورہ انبیاء کرام کا سلسلہ ایک دوسرے سے باہم پیوستہ اور متعلق رہا ہے اور ان میں سے ہر ایک نبی دوسرے کے دین کی تکمیل باتبلیغ و ترویج کے لئے آیا ہے۔ یا اس معاشرہ کی اصلاح کے لئے آیا ہے جو گزشتہ پیغمبرکے بعد انحراف و گمراہی کا شکار ہوگیا تھا کی ہدایت و تبلیغ اور اسی طرح اس کے بعد کا پیغمبر گزشتہ معاشرہ کی دینی اصلاح و ہدایت کے لئے آیا… اس طرح چونکہ یہ سلسلہ باہم مربوط ہے اور آخر کار اسلام جیسے عالمی دین پر اس کا تسلسل تمام ہوتا ہے اور اسلام عالمی و ہمہ گیر ہونے کے ساتھ ساتھ گزشتہ سامی ادیان سے مرتبط اور ان کا ناظر بھی ہے اسی وجہ سے ان انبیاء کے نام اور ان کی دعوتوں کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ تیسرے یہ کہ ۔ اصولی طور پر آثار قدیمہ کے تحقیقات کے مطابق انسانی تہذیب و تمدن کی پیدائش اور نشونماکا قدیم ترین گہوارہ مشرق کے یہی چند علاقے رہے ہیں۔ مثلاً کلدہ(۱)، آشور (۲)، مصر، عیلان، بابل، ہندوچین وغیرہ اگر کسی علاقہ یا خطہ میں تہذیب و تمدن کی پیدائش کا مطلب لوگوں کا اس نقطہٴ ارضی پر اجتماع اور معاشرتی زندگی ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسانی اجتماع کے قدیم ترین مراکز یہی علاقے تھے۔ اور ظاہر ہے کہ کسی خطہٴ ارضی پر لوگوں کا اکٹھا ہونا، خاص کر جب ان کے امکانات زندگی میں وسعت پیدا ہوجائے اور لوگ زرق و برق اجتماعی زندگی شروع کریں تو یہ اسی بات کا باعث ہوتا ہے کہ لوگ آپس میں اپنے روابط کو وسعت دیں، حقوق کی باتیں اٹھیں اور باہمی ٹکراؤ وجود میں آئے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر یہ ضرورت پیش آتی ہے کہ صحیح نظام قائم کرنے کے لئے عادلانہ قوانین و قاعدے وجود میں آئیں ایسی صورت میں انبیاء کرام(ع) کا وجود اور ان کا ظہو ر ضروری ہوجاتا ہے بہر حال انبیاء کرام(ع) کا ظہور انسانوں کے تمدّن اورعظیم اجتماعات سے باہم منسلک و مرتبط رہا ہے۔
(۱)…کلدہ: قدیم بابل۔ دونہروں کے درمیان واقع جنوبی علاقہ
(۲)… نہردجلہ کے وسطی میدانی علاقہ کو آشور کہتے تھے
ادیان کے ظہور کا ماحول
انبیاء کرام (ع) اور ان عظیم ادیان کے بارے میں وضاحت کے وقت ہماری کوشش یہ رہے گی کہ ہرپیغمبر کے زمانہ کے ماحول پر اجمالی روشنی بھی ڈالی جائے، کیونکہ جب یہ بات روشن ہوجائے کہ اس ماحول میں کس طرح کے افکار و تعلقات اور کیسے عقائد و اعمال تھے تو اس روشتی میں ہم پیغمبر کی تبلیغ کی جہت کو بہتر طور پر درک کرسکتے ہیں۔ اور اس نبی نے معاشرہ میں جو اصلاح تبدیلیاں پیدا کی ہیں ان سے بخوبی آشنا ہوسکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں تاریخی تحلیل بہتر طور پر انجام پاسکتی ہے۔
حضرت ابراہیم(ع) کی بت شکتی
حضرت ابراہیم (ع) کی جدوجہد سے بھرپور زندگی کا سب سے اہم اقدام بت پرستوں کا مقابلہ تھا۔ آپ نے اپنی دعوت و تبلیغ اپنے اقربا اورخاندان کے افراد سے شروع کی۔ آپ جسے باپ کہہ کر پکارتے تھے (جو آپ کے چچا یا خاندان کے کوئی اور بزرگ تھے)ان سے فرماتے تھے:
"ائے پدربزرگوار آپ ایسی چیز کی عبادت و پرستش کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتی ہے نہ دیکھتی ہے۔ نہ آپ کو کوئی فائدپہنچا سکتی ہے، اور نہ آپ کی زندگی کی کوئی مشکل حل کرسکتی ہے؟" (سورہٴ مریم ، آیت: ۴۲)۔سورہٴ انبیاء کی آیت: ۵۲ میں یوں ارشاد ہے: "جب ابراہیم نے اپنے باپ اور ان کی قوم سے کہا کہ ! یہ مجسمے کیا ہیں جن کی آپ لوگ تعظیم کرتے ہیں؟!"اس طرح کے استدلالات آپ کی زبان سے بہت نقل ہوئے ہیں اور ان استدلالات کی بنیاد یہ ہے کہ ہمیں بلا سبب اور بلا جہت اس بات کا معتقد نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی جاندار یا بے جان چیزہماری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے جبکہ یہ چیزیں خود کچھ نہیں کرسکتیں۔
یہ جدوجہد آج بھی زندہ و پائندہ ہے اوراسے پوری دنیائے بشریت کے کانوں تک پہنچنا چاہیے تاکہ انسان بلا سبب درخت، کنوئیں، غار، نشان قدم، دریا، علم اعدادوہندسہ ، طلسمات اور جادو ٹونے وغیرہ کی تاثیر کا قائل نہ ہو اس طرح ایک طرف وہ زندگی کے حقائق و واقعیات سے اور دوسری طرف خالص و ہمہ گیر انداز میں خدائے واحد کی جانب توجہ سے دور نہ ہوجائے۔
آباء و اجداد کی روش: اس سورہٴ انبیاء کی ۵۳ویں آیت میں ہے کہ جب جناب ابراہیم (ع) نے اپنی قوم کو بتوں کی پرستش پر سرزنش کی اور جواب میں ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ان ہی بتوں کی پرستش کرتے ہوئے دیکھا (اسی بناپر ہم بھی بت پوجتے ہیں)تو ابراہیم (ع) نے فرمایا کہ: "تم اور تمہارے آباو اجداد سب کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں، آزادفکری، دوراندیشی اور واقع بینی کی آفات میں سے ایک آفت یہ بھی ہے کہ لوگ اپنے بزرگوں کے آثار اور عادات و اطوار کو بے چون و چرامان لیں اور ان کااس لئے احترام کریں کہ چونکہ یہ بوسیدہ اور غلط رسمیں پرانے لوگوں کی یادگار اور آبائی سنتیں ہیں لہٰذا انہیں ہر حال میں ماننا اور تسلیم کرنا چاہیئے! حقیقتاً یہ اندھی تقلید جس زمانہ میں بھی رواج پائے بہت بڑی اور کھلی ہوئی گمراہی ہے۔
منصوبہ کا آغاز
جب جناب ابراہیم (ع) نے اپنے منصوبہ کا آغاز کیا اور قوم کو یکتا پرستی کی دعوت دی تو سر انجام مصلحت اسی میں دیکھی کہ بتوں کا قلع قمع کردیا جائے تاکہ فساد کا گھر ہی باقی نہ رہے۔ یہ خطرناک منصوبہ جس میں آپ کی جان کا بھی خطرہ تھا مکمل تدبیر کے ساتھ انجام پایا۔ اور بعض روایات کے مطابق جناب ابراہیم(ع) نے اس کام کے سلسلہ میں تقیہ سے کام لیا۔ یعنی ماہرانہ انداز میں اپنے منصوبہ پر عمل کیا۔ نہ خوف زدہ ہوکر اس اقدام سے پیچھے ہٹے اور نہ اس راز سے کسی دوسرے کو آگاہ کیا۔ پوری موقع شناسی سے کام لیا تاکہ اقدام سے پہلے دشمن کے ہاتھوں گرفتار نہ ہوجائیں آپ نے بے دھڑک اپنا کام انجام دیا اور خطرات سے خوف زدہ نہیں ہوئے۔ لیکن ماہرانہ انداز میں اور کامیابی کے ساتھ صبر کیا یہاں تک کی عید کا دن آپہنچا۔ لوگ شہر سے باہر جانے لگے اور آپ کو بھی دعوت دی، لیکن حضرت نے بیماری کا بہانہ کیا اور شہر میں ہی رک گئے۔ شہر سنسان ہوگیا اور آپ نے بلا کسی روک ٹوک کے بتوں کو توڑڈالا، کلھاڑا بڑے بت کے کاندھے پر ٹکا دیا اور اپنے گھر واپس ہوئے۔جب لوگ واپس ہوئے اور انہوں نے بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے دیکھا تو انہیں ابراہیم(ع) کا خیال آیا ۔ آپس میں کہنے لگے، سنا ہے کہ ابراہیم (ع) نام کا ایک نوجوان بتوں کو برا کہتا ہے۔ جب آپ کو حاضر کیا گیا اور اس کام کے بارہ میں دریافت کیا گیا تو آپ نے جواب دیا: یہ سب ان کے بڑ ے نے کیا ہے۔ اگر یہ بول سکتے ہوں تو ان بتوں سے پوچھ لو۔ سب نے سر جھکا لیا اور کہنے لگے کہ تم جانتے ہو یہ بول نہیں سکتے… حضرت ابراہیم (ع) نے فرمایا: پھر تم ایسے کی عبادت و پرستش کیوں کرتے ہو جو تمہیں کوئی نفع یا نقصان نہیں پہنچاسکتا؟ !!… جناب ابراہیم (ع) نے نہ صرف پہلے اس راز سے کسی کو آگاہ نہیں کیا تھا تاکہ ان پر شبہ نہ کیا جاسکے ۔ اس کے بعد جب آپ نے بتوں کو توڑا تو ایسا ماحول ترتیب دیا تاکہ محاکہ کے وقت اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور بعد میں جلدی اعتراف بھی نہیں کیا بلکہ موقع کی تلاش میں تھے ۔ تاکہ اس کام کو بخوبی انجام دے سکیں یہاں تک کہ خود کو بیمارظاہر کیا تاکہ اُن پر شبہ نہ کیا جاسکے تاکہ پہلے خود دشمن سے شکست اور محکومیت کا اعتراف کرالیں۔ اور آخر کار اس کے بعد بھی ہر طرح کے ظلم و ستم برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے اور چونکہ یہ عمل خدا کی راہ میں انجام دیا تھا لہٰذ ا کوئی ہچکچاہٹ آپ میں پیدا نہیں ہوئی۔ ایک بہت مہیب آگ آپ کے لئے روشن کی گئی اور اس میں آپ کو ڈال دیا گیا لیکن آگ سرد اور خاموش ہوگئی۔ حضرت ابراہیم (ع) صحیح و سلامت رہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ سورہٴ صافات میں جہاں اس واقعہ کا ذکر ہوا ہے وہیں اس کے بعد یہ بھی ارشاد ہے: "وَقَاَل اِنّی ذاھِب اِلیٰ ربّی سَیَھدینِ"(سورہٴ صافات، آیت: ۹۹) حضرت ابراہیم (ع) نے فرمایا: میں اپنے پروردگار کی طرف جارہا ہوں اور وہ جلدہی میری راہنمائی کرے گا۔ یعنی اس خطرناک واقعہ کے بعد آپ پھر فوراً ہی لوگوں کی ہدایت میں مشغول ہوگئے۔ خطروں سے گھبرا کر لوگوں کی ہدایت سے باز نہیں ہے۔
مرُدوں کا زند ہ ہونا: سورہ بقرہ کی آیت:۲۶۰ میں آیاہے کہ "جناب ابراہیم(ع) نے کہا: ائے میرے پروردگار مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے۔ خدانے فرمایا: کیا تم روز قیامت پر ایمان نہیں رکھتے؟ عرض کیا: ایمان تو رکھتا ہوں لیکن اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں، آواز آئی کہ چار مختلف پرندوں کو پکڑلو اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے باہم ملادو اور اس ملے جلے گوشت کے ٹکڑوں کا ایک ایک حصہ الگ الگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دو پھر انہیں آواز دو وہ تمہاری طرف تیزی سے آئیں گے اور جان لو کہ تمہارا پروردگار غالب اور حکمت والا ہے-"۔
چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ انبیاء کرام(ع) کی دعوت کی بنیاد توحید، قیامت پرایمان اور عدل و انصاف پر استوار ہوتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں جناب ابراہیم (ع) کے لئے مردوں کے زندہ ہونے کا منظر مجسم کیا گیا ہے اصل واقعہ ایک قسم کا معجزہ ہے لیکن اس واقع سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ موت کے بعد لوگوں کی زندگی فقط روح کی شکل میں یا خواب و خیال کی صورت میں نہیں ہے بلکہ ایسک ہمہ جہت زندگی ہے یا دوسرے لفظوں میں معاد جسمانی ہے۔
کعبہ کی بنياد
حضرت ابراہیم(ع) کے عظیم اقدامات میں سے ایک خدا کے بندوں کے مرکز اجتماع،خانہٴ توحید یعنی کعبہٴ محترم کی بنا بھی ہے۔ چونکہ کعبہ قبلہٴ اسلام ہے اور مسلمانون کی سب سے بڑی مسجد یعنی مسجد الحرام وہیں ہے مسلمانوں کے سب سے اہم اجتماعی عمل یعنی حج کی انجام دہی کا مرکز بھی مکہ مکرمہ کی سرزمین ہے لہٰذا حضرت ابراہیم(ع) اور امت اسلامی کے درمیان ایک گہرا رابطہ پایا جاتا ہے۔ مکہ اور کعبہ کی قطعی تاریخ کے مطابق اس شہر اور اس گھر کی بنیاد حضرت ابراہیم (ع) کے ہاتھوں پڑی ہے۔ اور اگر کبھی کعبہ اس کے قبل رہا بھی ہے تو یہ امر تاریخ کی روشنی میں پورے طور سے واضح نہیں ہے۔ حضرت ابراہیم (ع) فلسطین کے گردونواح میں زندگ بسر کررہے تھے گھریلوں واقعات کی بنیاد پر یہ طے کیا کہ اپنی زوجہ ہاجرہ اور ان کے کمسن بیٹے اسماعیل (ع) کو لے کر خدا کے حکم کے مطابق عر ب کی جانب سفر کریں اور پہاڑوں کے درمیان اس خشک اور بے آب و گیاہ زمین پر، جہاں آج کل شہرمکہ ہے، انہیں رہنے کے لئے چھوڑدیںاور خود واپس پلٹ جائیں جب جناب ہاجرہ نے پانی کی تلاش میں سات مرتبہ صفا و مروہ کے درمیان کی راہ طے کی اور آپ کو پانی نہ ملا تو اپنے بیٹے کے پاس آئیں لیکن وہاں چشمہٴ زمزم کو ابلتے ہوئے دیکھا۔ رفتہ رفتہ اس چشمہ کے ارد گرد کے علاقہ کے بادیہ نشین بسنے لگے اور چند سال بعد جب حضرت ابراہیم (ع) اس قوم کی ہدایت اور وہاں قیام کرنے پر مامورہوئے تو آپ نے اپنے بیٹے اسماعیل (ع) کی مدد سے خدا کے حکم کے مطابق کعبہ کی بنیاد رکھی۔
"جب ابراہیم (ع) و اسماعیل خانہٴ(خدا) کی دیواروں کو بلند کررہے تھے خدا کی بارگارہ میں عرض کرنے لگے: خداوندا (اس عمل کو) ہم سے قبول فرما ، بے شک تو سننے والا اور دانا ہے" (سورہ ٴ بقرہ/۱۲۷) ابراہیم (ع) نے اس گھرکی تعمیر کی تاکہ لوگ اس سرزمین پر خدا کی عبادت و پرستش کریں اور یہ گھر لوگوں کے اجتماع کا رکز قرار پائے جیساکہ سورہ ٴ ابراہیم(ع) کی ۳۷ ویں آیت میں خود حضرت (ع) کی زبانی ارشاد ہے: پروردگارا میں نے اپنے خانوادہ کواس بے آب و گیاہ زمین پرتیرے محترم گھرکے قریب لاچھوڑا ہے تاکہ یہ لوگ نماز ادا کریں، پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے تاکہ اس سرزمین پر آکر آباد ہوں اور مختلف پھلوں اور میوں کو ان کا رزق قرار دے تاکہ یہ لوگ تیرا شکر ادا کریں۔"
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جناب ابراہیم(ع) نے نہ صرف مختلف قسم کے بت پرستوں کے خلاف جہاد کیا اور بت خانہ کو تاراج کیا بلکہ خدا پرستی کے لئے ایک مرکز کی بنیاد بھی رکھی اور لوگوں کو بے جان خداؤں اور زور و زر کے خدانما ؤں کو چھوڑکر خدا و ند کائنات کے روبرو تسلیم ہونے کی دعوت بھی دی۔ اور خود بھی تسلیم و رضا اور ایثار ووفا کی منزل میں کمال کی آخری حدوں تک ثابت قدم رہے۔ آپ (ع) نے نہ تنہا اپنے آپ کو آگ کے حوالہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں نذرانہ سمجھا بلکہ آپ اس عظیم امتحان سے بھی کامیابی اور سربلندی کے ساتھ گزرگئے جو اسی مکہ میں آپ کے فرزند کے سلسلہ میں پیش آیا۔ آپ(ع)نے خواب میں دیکھا کہ اسماعیل کو خدا کی راہ میں قربان کررہے ہیں۔ یہ خواب آپ (ع) نے تین مرتبہ دیکھا اور آخر کار یہ مسلّم ہوگیا کہ یہ حکم خدا ہے۔ خدا کے گھر کی تعمیر اور لوگوں کو اس کی عبادت و پرستش او ر حق کی جانب دعوت دینے کے ساتھ اس کے بندوں کو اس راہ میں قطعی اور یقینی کامیابی کے حصول کے راز سے بھی آگاہ کرنا چاہیئے۔ آپ (ع) کو ہرطرح کی بت پرستی کے خلاف جہاد اور ہر طرح کے ظلم و ستم سے مقابلہ کی راہ میں قربانی و فدا کاری کے ذریعہ راہ کمال کی تعلیم دینی چاہیئے، سورہٴ صافات کی آیت ۱۰۳ میں ارشاد ہے:"جب ابراہیم(ع) اپنے فرزند کے ہمراہ قربان گاہ تک پہنچے تو فرمایا ، بیٹا میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں، تمہارا کیا مشورہ ہے؟ بیٹے نے کہا: بابا جان جس امر پر آپ مامور کئے گئے ہیں اسے انجام دیجئے انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوںمیں پائیں گے۔ جب یہ دونوں خدا کے حکم کے آگے تسلیم ہوگئے ابراہیم (ع) نے اپنے بیٹے کی پیشانی خاک پر رکھی تاکہ اسے ذبح کریں کہ ہم نے انہیں ندا دی: ائے ابراہیم (ع) تو نے خواب کو سچ کر دکھا یا اور اپنا فریضہ انجام دے دیا، ہم نیکو کوروں کو یوں ہی جزائے خیر دیتے ہیں۔
جب ہم حج سے متلعق گفتگو کریں گے تو دیکھیں گے کہ کس طرح بہت سے اعمال حج مثلاً طواف نماز طواف ، صفا ومروہ کے درمیان سعی، اور قربانی وغیرہ اسی عظیم موحد اور خدا پرست انسان کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ جناب ابراہیم (ع) کے دو بیٹے تھے۔ اسماعیل (ع) او ر اسحٰق (ع) خداوند عالم نے انہیں یہ دونوں بیٹے عالم پیری میں عطا فرماتے تھے چنانچہ سورہ ٴ ابراہیم (ع) کی آیت: ۲۹ میں ارشاد ہے کہ ابراہیم (ع) فرماتے ہیں"خدا کا شکر کہ اس نے ایام پیری میں مجھے اسماعیل (ع) و اسحٰق (ع) عطا کئے درحقیقت میرا پروردگار سننے والا اور دعا قبول کرنے والا ہے۔"
آیة اللہ شہید ڈاکٹر محمد جواد باہنر
مترجم: سید احتشام عباس زیدی
(تنظیم و پیشکش گروہ ترجمہ سایٹ صادقین)
منبع: مجلہ التوحید؛ جلد 7، نمبر 3