امام موسی کاظمٴ اسوہ عبادت و استقامت
ائمہ طاہرین علیہم السلام نے اپنی گہربار زندگی کے دوران اثبات حق اور رہبری امت کے لئے کسی کوشش سے دریغ نہیں کیا۔ اس مقصد کی خاطر انہوں نے ہر پریشانی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔ اسی لئے ائمہ اطہار علیہم السلام راہِ حق میں صبر و استقامت کا نمونہ بن کر سامنے آئے اور راہِ فضیلت پر چلنے والوں کے لئے اسوہ بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ عارف اور خدا کی تلاش میں رہنے والے انسان زیارتِ جامعہ جیسی روح بخش زیارت کے اس جملے کو خلوت و جلوت میں اپنی زبان پر جاری رکھتے ہیں کہ: اشہد انکم قد وفیتم بعهد الله و ذمته و لکل ما اشترط علیکم فی کتابه و دعوتم الی سبیله و اتخذتم طاقتکم فی مرضاته و حملتم الخلائق علی منهج النبوّة۔ (میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ (ائمہ اہلبیت علیہم السلام) نے خدا کے ساتھ اپنے عہد و ذمہ کو پورا کیا اور جو کچھ اس نے اپنی کتاب میں آپ کے ساتھ شرط کیا تھا اسے بہترین طور پر انجام دیا۔ لوگوں کو راہِ خدا کی طرف دعوت دی اور اپنی تمام توانائیوں کو رضائے الہی کے حصول میں استعمال کیا اور مخلوقات کی سنتِ رسول۰ کی جانب رہنمائی فرمائی)۔
شیعیانِ حیدرِ کرارٴ کے ساتویں امام، حضرت موسی کاظم علیہ السلام ٧ صفر سن ١٢٨ ہجری کو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ایک گاوں، ابوائ میں دنیا میں تشریف لائے۔ آپٴ نے بھی تمام ائمہ معصومین کی طرح اپنی امامت کے ٣٥ برسوں کے دوران دین اسلام کے احیائ اور الہی اقدار کے فروغ کے لئے ہر قسم کی مشکلات اور پریشانیوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا اور راہِ اسلام میں صبر و استقامت کو عملی جامہ پہنایا۔ آپٴ کا دورِ امامت چار ظالم عباسی خلفائ کے ساتھ رہا یعنی منصور، مہدی، ہادی او رہارون الرشید)۔
آپٴ نے اس مقصد کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کی اور فضیلتوں کے دفاع اور اخلاقی اور اجتماعی برائیوں کے مقابلے کے لئے استقامت او رپائداری کو پورے طور پر مجسم کیا۔ ہم آپٴ کی زیارت میں پڑھتے ہیں:
اشہد انک۔۔۔ صبرت علی الاذی فی جنب اللّٰہ و جاھدت فی اللّٰہ حق جہادہ۔ (میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے ۔۔۔ راہِ خدا میں ہر تکلیف و اذیت پر صبر کیا اور راہِ خدا میں اس طرح جدوجہد کی جیسا کہ اس کا حق تھا)۔
آپٴ نے عباسی خلفائ اور خصوصاً ہارون رشید کے بے رحمانہ اور ناقابلِ برداشت مظالم کا صبر و استقامت کے ساتھ مقابلہ کیا اور ٢٥ رجب ١٨٣ ہجری کو اس دنیا سے رخصت ہوکر معبود حقیقی کی بارگاہ میں تشریف لے گئے۔ آپٴ کے لئے مخصوص صلوات میں آیا ہے:
اللّٰہم صلِّ علی موسَی بنَ جعفر و صيّ الابرار و امام الاخیار۔۔۔ و مآلف البلوی و الصبر و المضطهد بالظلم و المحبور بالجور و المعذب فی قعر السجون و ظلم القطامیر ذی الساق المرضوض بحلق القیود۔ (خدایا موسی ابن جعفر پر درود نازل فرما! جو نیک لوگوں کے جانشین اور اچھے لوگوں کے امام تھے۔۔۔ جو بلاوں اور صبر سے واقف، ظلم وستم کا شکار، قیدخانوں اور تنگ و تاریک کمروں میں اذیتیں اٹھانے والے، ورم زدہ اور زخمی پیروں اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔۔)
زیرِ نظر مقالہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے صبر و استقامت، عزم و قاطعیت، پہاڑوں جیسی سختی و سربلندی اور ظالم دشمنوں کے سامنے صراحت کے ساتھ دیئے گئے پیغامات اور جدوجہد کے چند اوراق ہیں۔
معرفت و جہاد کا سنگم:
بے شک عقیدہ کی خاطر صبر و استقامت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ایک طاقتور سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کا درس یہ ہے کہ ہر حقیقت طلب انسان کے لئے بہترین سہارا پروردگار پر بھروسہ ہے۔ اور حصولِ معرفت اور قربِ پروردگار کے لئے مختصر ترین اور نزدیک ترین راستہ عبادت اور معنویت (روحانیت) کی طرف توجہ ہے۔ چنانچہ پروردگارِ عالم کا ارشادِ رہنما ہے: و استعینوا بالصبر و الصلٰوة۔ یعنی نماز اور صبر سے مدد طلب کرو۔
امام موسی کاظم علیہ السلام باطل کی بھرپور طاقت کے مقابلے میں اسی رہنمائی کی پیروی کرتے ہوئے صبر و بردباری اور نماز و عبادت سے استعانت کرتے تھے:
’’کان يُحیی اللیل بالسهر السحر بمواصلة الاستغفار حلیف السجدۃ الطویلة و الدموع الغزیرة و المناجات الکثیرة و الضراعات المتصلة۔ ‘‘
آپ راتوں کو سحر تک بیدار رہتے اور آپ کی شب زندہ داری ہمیشہ استغفار، طویل سجدوں، بہتے آنسووں، کثرتِ مناجات اور دورانِ عبادت مسلسل گریہ و زاری کے ساتھ ہوا کرتی۔
ظالم بادشاہوں کا عزم و حوصلے کے ساتھ سامنا کرنا:
جیسا کہ اولیائ اللہ کو خدا کی امداد پر پورا یقین ہوتا ہے، اس لئے وہ دنیا پرستوں اور ظالم طاغوتوں کے سامنے بے خوف و خطر اور پوری قاطعیت اور صراحت کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں اور سرمایہ ایمان کی موجود گی میں خدا کے سوا کسی طاقت سے نہیں گھبراتے کہ : فمن یومن بربہ فلایخاف بخسا و لا رھقاً۔ (جو اپنے پروردگار پر ایمان رکھے وہ نہ کسی نقصان سے ڈرتا ہے اور نہ کسی ظلم (اور ظالم) سے گھبراتا ہے)۔
ساتویں امامٴ ایسے اولیائ اللہ میں ایک روشن نمونہ ہیں۔ اب ہم اس حوالے سے بعض واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں:
الف: مہدی عباسی سے مکالمہ:
تیسرے عباسی خلیفہ، مہدی نے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے اعلان کیا کہ حکومت پر جس کسی کا کوئی حق ہو وہ اپنا حق لے سکتا ہے۔ اس نے بظاہر لوگوں کے حقوق ادا کرنا شروع کر دیئے۔ امام موسی کاظمٴ نے بھی اپنے حق کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر خلیفہ مہدی عباسی اور امامٴ کے درمیان یہ مکالمہ ہوا:
خلیفہ: آپ کا حق کیا ہے؟
امامٴ: فدک۔
خلیفہ: فدک کی حدود معین کردیں تاکہ میں آپ کو واپس کر دوں۔
امامٴ: اس کی پہلی حد کوہِ احد، دوسری حد مصر کا عریش، تیسری حد سیف البحر (دریائے خزر) اور چوتھی حد دومۃ الجندل (عراق) ہے۔
خلیفہ: یہ سب؟!
امامٴ: ہاں۔
خلیفہ کا چہرہ غیظ و غضب سے سرخ ہوگیا اور وہ چلایا: یہ بہت زیادہ ہے۔ ہمیں سوچنا پڑے گا۔
امام موسی کاظم علیہ السلام نے دراصل اسے یہ سمجھا دیا کہ حکومت امامٴ کا حق ہے اور دنیائے اسلام کی حکومت کی باگ ڈور اہلبیت علیہم السلام کے ہاتھ میں ہونی چاہئے۔
ب: دلوں پر حکومت:
ایک دن خانہ کعبہ کے نزدیک ہارون الرشید نے امام کاظمٴ سے ملاقات کی اور دورانِ گفتگو امامٴ سے کہا: ’’کیا آپ ہی وہ ہیں جن سے لوگ خفیہ طور پر بیعت کرتے ہیں اور آپ کو اپنا رہبر قرار دیتے ہیں؟‘‘
امامٴ نے کمالِ شجاعت سے فرمایا: انا امام القلوب و انت امام الجسوم۔ میں دلوں پر حکومت کرتا ہوں اور تم جسموں پر۔
ج: متکبروں کو تنبیہ:
ہارون الرشید ایک ظالم اور متکبر بادشاہ تھا۔ وہ اپنے آپ کو ہر چیز اور ہر ایک سے بالاتر سمجھتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ اپنی حکومت کی وسعت پر فخر و مباہات کرتے ہوئے بزعمِ خویش بادلوں سے بھی کہا کرتا تھا کہ: اے بادلو! مشرق و مغرب میں جہاں چاہو برس جاو کہ جہاں تمہارے قطرات گریں گے، وہ میری ہی سرزمین ہوگی اور اس زمین کا خراج مجھ تک ہی پہنچے گا۔
ایک مرتبہ امام کاظمٴ ہارون کے محل میں تشریف لے گئے۔ ہارون نے پوچھا: یہ دنیا کیا ہے؟
فرمایا: یہ فاسقوں کا ٹھکانہ ہے۔ اس کے بعد سورہ اعراف کی آیت ١٤٦ کی تلاوت کر کے ہارون کو خبردار کیا کہ: ساصرِف عن اٰیاتی الذین یتکبرون فی الارض بغیر الحق و ان یروا کل اٰیۃ لا یومنوا بها و ان یروا سبیل الرشد لایتخذوه سبیلا و ان یروا سبیل الغيِّ یتخذوه سبیلاً۔ ترجمہ : میں عنقریب اپنی آیتوں کی طرف سے ان لوگوں کو پھیردوں گا جو روئے زمین میں ناحق اکڑتے پھرتے ہیںاور یہ کسی بھی نشانی کو دیکھ لیں ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ان کا حال یہ ہے کہ ہدایت کا راستہ دیکھیں گے تو اسے اپنا راستہ نہ بنائیں گے اور گمراہی کا راستہ دیکھیں گے تو اسے فوراً اختیار کر لیں گے۔
ہارون نے پوچھا: دنیا کس کا گھر ہے؟
فرمایا: دنیا ہمارے شیعوں کے لئے جائے سکون اور دوسروں کے لئے آزمائش ہے۔
اس گفتگو کے آخر میں ہارون نے تنگ آکر پوچھا: کیا ہم کافر ہیں؟
امامٴ نے فرمایا: نہیں، لیکن ایسے ہو جیسا کہ خدا نے فرمایا ہے: الذین بدلوا نعمت اللّٰہ کفراً و احلُّوا دار البوار۔ ترجمہ : کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفرانِ نعمت سے تبدیل کر دیا اور اپنی قوم کو ہلاکت کی منزل تک پہنچا دیا۔
د: سلام ہو آپ پر اے بابا!
ہارون الرشید ایک مرتبہ مدینہ آیا اور ایک بڑی تعداد میں لوگوں کے ساتھ حرمِ نبوی میں پہنچا۔ اس نے قبر مبارک کے سامنے کھڑے ہوکر بڑے فخر کے ساتھ اس طرح سے سلام کیا: السلام علیک یابن عمّ۔ (یعنی اے میرے چچا کے بیٹے آپ پر سلام ہو)۔ اس موقع پر امام کاظمٴ بھی وہاں موجود تھے، آپٴ نزدیک تشریف لائے اور غاصب خلیفہ کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لئے اس طرح سے سلام کیا: السلام علیک یا رسول اللّٰہ، السلام علیک یا آبہ۔ (یعنی سلام ہو آپ پر اے اللہ کے رسول! سلام ہو آپ پر اے بابا)۔ ہارون یہ سن کر سخت ناراض ہوا اور دنیا اس کی نظروں میں تاریک ہوگئی، کیونکہ امامٴ نے اس طرح سے جانشینی رسول۰ کے لئے اپنے حق کو اور ہارون رشید کی نالائقی کو ثابت کردیا تھا۔
ہ: قیدخانے سے ایک خط:
امام موسی کاظمٴ اگرچہ طویل مدت تک ہارون رشید کی ظالم حکومت میں مختلف قیدخانوں میں اسیر رہے اور شقی ترین اہلکاروں کے ہاتھوں دہشت ناک ترین اذیتیں برداشت کیں، اس کے باوجود حق گوئی اور حقائق الہی کے فروغ سے ایک لمحہ بھی دور نہ رہے۔
آپٴ نے مناسب موقعوں پر دنیاپرست حکمرانوں کے کانوں تک اپنی آنکھیں کھول دینے والی باتیں پہنچائیں اور اس طرح اسلامی معاشرے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ امامٴ نے ہارون کے قیدخانے سے ایک انقلابی خط ہارون کو ارسال کیا جس میں تحریر فرمایا:
’’اے ہارون! مجھ پر کوئی سخت اور مشکل دن نہیں گذرتا مگر یہ کہ تیرا ایک آرام و سکون کا دن کم ہو جاتا ہے۔ جان لو کہ ہم دونوں ایک ایسے دن کی جانب رواں دواں ہیں کہ جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اور اس دن مفسد اور ظالم لوگ خسارے میں اور بے بس ہوں گے‘‘۔
یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ امام کاظمٴ ان سخت حالات میں کس طرح سے اپنے خطوط اور اپنا کلام دوسروں تک پہنچایا کرتے تھے؟
اس زمانے کے تاریخی حالات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ آپٴ کے قیدخانے کے داروغہ اور دوسرے اہلکار آپٴ کے ساتھ مختصر ملاقات کے بعد آپٴ کی حقیقت اور معنویت سے واقف ہو جاتے اور آپٴ کے معتقد بن جاتے تھے۔ اسی وجہ سے آپٴ کے کلمات، خطوط، افکار اور سیرت و کردار اور نظریات تاریخ سے اوجھل نہ رہے۔