ولایت تکوینی اور ولایت تشریعی
امام علی(ع) اور ولایت تکوینی امیرالمؤمنین اور آپ (ع) کے معصوم فرزندوں کی ولایت پر بحث ان مباحث میں سے ہے جو ہمیشہ سے متکلمین (علماء علم کلام یا عقائد) کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔
اس مکتوب میں کوشش ہوئی ہے کہ علم و معرفت کے دو ابلتے سمندروں یعنی قرآن اور نہج البلاغہ کی روشنی میں امیرالمؤمنین علی اور دیگر ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی ولایت تکوینی کو ثابت کیا جائے کیونکہ ان مقدس ہستیوں کی ولایت تکوینی کے اثبات سے رہبری اور معاشرے کی قیادت و سرپرستی کے حوالے سے ان کی افضلیت اور برتری زیادہ سے زیادہ آشکار اور واضح ہوجاتی ہے۔
1۔ ولی اور ولایت کے لغوی اور اصطلاحی معنی ولی کی جڑ " وَلیْ" ہے [یا یوں کہئے کہ ولی کا مادہ " وَلیْ"] ہے۔ ولی کے معنی کسی چیز کا کسی دوسرے چیز کے پیچھے قرار پانے کے ہیں اس طرح سے کہ ان دو چیزوں کے درمیان کوئی تیسری اجنبی چیز فاصلہ نہ بنے اور ان کے درمیان ایک قسم کا تعلق بھی برقرار ہو؛ اب اس رابطے کی دو قسمیں ہیں:
کبھی تو یہ رابطہ دو طرفہ ہوتا ہے یعنی یہ ان دو چیزوں میں سے ایک کا دوسرے سے تعلق اسی طرح ہوتا ہے جو دوسری کا پہلی چیز سے ہوتا ہے۔ اس تعلق کے لئے اخوت کی مثال پیش کی جاسکتی ہے؛ اگر زید، بکر کا بھائی ہے تو بکر بھی زید کا بھائی ہے۔
اور کبھی یہ رابطہ یک طرفہ ہوتا ہے اور وہ یوں کہ جو رابطہ ایک فریق دوسرے فریق سے تعلق دوسرے فریق کے دوسرے فریق سے تعلق سے مختلف ہوتا ہے۔ اس تعلق میں تأثیر (اثر گذاری اور تأثر (اثر پذیر یکطرفہ ہی؛ اس رابطی میں ایک اثر گذار (مؤثرٍ) اور دوسرا اثر پذیر (مؤثر) ہے۔ اس قسم کے رابطے میں دونوں کا ایک دوسرے سے تعلق ہے لیکن دونوں کا ایک دوسرے سے تعلق یکطرفہ ہے اور یہ تعلق رہبری اور ولایت کا تعلق ہے۔ اور ولایت اگر فتح واو کے ساتھ (وَلایت) ہو تو اس کے معنی بھی یہی ہیں لیکن اگر ولایت کا لفظ بکسر واو (وِلایت) ہو تو دوستی اور محبت کے معنی میں استعمال ہوگا جو اول الذکر (دو طرفہ رابطے) کے زمرے میں آئے گا۔ (1)
وَلایت رہبری اور سرپرستی کے معنی میں صرف خدا، انبیاء عظام اور ائمہ علیہم السلام کے لئے مختص ہے اور خداوند متعال نے (جس کو ذاتی طور پر یہ ولایت حاصل ہے) یہی ولایت انبیاء اور ائمہ علیہم السلام کے لئے قرار دی ہے اور جعل کی ہے۔ (2)
اب اگر یہ ولایت اور یہ اثر گذاری قانون سازی اور تشریع اور لوگوں پر حکومت کرنے کے حوالے سے ہو تو اس کو "ولایت تشریعی" کہا جاتا ہے اور اگر یہ اثر گذاری عالم خلقت و آفرینش میں ہو تو اس کو "ولایت تکوینی" کہیں گے۔ انییاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام اور اس کے لائق و شائستہ بندے ہیں جو اس کے لطف کے سائے میں اس کے اذن سے عالم خلقت اور انسانوں کے دلوں میں تصرف کرسکتے ہیں۔ (3)
علی علیہ السلام کی ولایت تکوینی قرآن مجید کی روشنی میں قرآن کریم انبیاء اور اولیاء الہی کے لئے معجزات اور تصرفات بیان کرکی ولایت تکوینی کو باضابطہ طور پر تسلیم کرتا ہے۔ ان تصرفات اورمعجزات کی اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ یہ اللہ کی کے ارادے کے تسلسل میں اور اللہ کے اذن سے مشروط ہے۔ [اور نبی یا ولی کو اس حوالے سے استقلال اور خودمختاری حاصل نہیں ہے)۔
بہرحال قرآن مجید میں ایک ایسی آیت ہے جس سے علی علیہ السلام کے لئے ولایت تکوینی ثابت ہوتی ہے۔
اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
وَيَقُولُ الَّذِينَ كَفَرُواْ لَسْتَ مُرْسَلاً قُلْ كَفَى بِاللّه شَهيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ وَمَنْ عِندَه عِلْمُ الْكِتَابِ۔ (سورہ رعد آیت 43)
اور کفار کہتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول نہیں ہیں کہہ دیں کہ میرے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے خدا اور علم الکتاب کا مالک، کافی ہیں۔
اس آیت میں علم الکتاب کے مالک کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت پر گواہ اور شاہد قرار دیا گیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ علم الکتاب کا حامل اور مالک کون ہے؟ اور رسول اللہ (ص) کی رسالت و نبوت کا گواہ کون ہے؟ تمام شیعہ روایات اور سلیمان حنفی قندوزی کی کتاب ینابیع المودة سمیت اہل سنت کی متعدد روایات سے ثابت ہے کہ علم الکتاب کے مالک امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہیں۔ (4)
یہ تو تھیں نقلی دلائل؛ عقلی دلیل سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے وہ یوں کہ مثال کے طور پر: جب کوئی عالم کسی مجتہد کی اعلمیت کی گواہی دیتا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہوتا ہے کہ اعلمیت کی گواہی دینے والا عالم بھی بھی اس مجتہد کے درجے کا عالم ہونا چاہئے ہوتا ہے؛ تو یہاں نبوت کی شہادت دینا چونکہ ایک باطنی امر ہے لہذا اس باطنی امر کی گواہی دینے کے لئے باطن کا علم ہونا ضروری ہے تا کہ وہ اس باطنی علم کے ذریعے نبی کو غیر نبی سے تمیز اور تشخیص دے سکے اور چونکہ یہ آیت نازل ہوتے وقت علی علیہ السلام کے سوا کسی بھی مسلمان کے لئے اس آیت کا نزول، قابل قبول نہیں ہے لہذا اس آیت سے مراد علی علیہ السلام ہی ہیں۔(5) علامہ طباطبائی(رح) بھی تفسیرالمیزان میں اس آیت کے ذیل میں دوسری تمام آراء کو تفصیل کے ساتھ رد کرتے ہیں اور آخر میں یہی رائے اختیار کرتے ہیں۔ (6)
تا ہم اس آیت میں دو باتیں اور بھی ہیں جن کا اثبات ضروری ہے:
اول: علم الکتاب سے مراد علم قرآن نہیں ہے جیسا کہ دوسرے مقامات میں بھی اس عبارت سے مراد آسمانی کتب کا علم نہیں ہے بلکہ موصولہ روایت (7) کے مطابق علم الکتاب سے مراد "اسم اعظم الہی" ہے۔
دوئم: اسم اعظم الہی علم ولایت تکوینی کا رمز اور علامت ہے۔ (8)
[جب حضرت سلیمان بلقیس کا تخت لانے کے لئے اپنے اصحاب و انصار کی مدد طلب کرتے ہیں تو عفریت کے بعد آصف بن برخیا اٹھتے ہیں] اسی حوالے سے سورہ نمل کی آیت 40 میں ارشاد ہے:
قَالَ الَّذِي عِندَه عِلْمٌ مِّنَ الْكِتَابِ أَنَا آتِيكَ بِه قَبْلَ أَن يَرْتَدَّ إِلَيْكَ طَرْفُكَ۔
وہ شخص [آصف بن برخیا] جس کے پاس "کتاب میں سے تھوڑا سا علم" تھا ـ بولا: میں آپ کے پلک جھپکنے سے بھی قبل، [بلقیس کا] تخت حاضر کروں گا۔
یہاں نام ذکر کئے بغیر ہے موصوف کی بجائے صفت بیان ہوئی ہے اور اس کو ایک حکم کی نسبت دی گئی ہے۔ ادبی قواعد کے مطابق اس سیاق عبارت (Course of Speech) اور کلام کی روش سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبارت علیت ظاہر کرتی ہے اوریوں آیت کا مفہوم کچھ اس طرح بنتا ہے کہ: مذکورہ شخص (آصف بن برخیا) چونکہ کتاب کا تھوڑا سا علم رکھتے تھے اسی بنا پر وہ تخت بلقیس کو پلک جھپکنے سے بھی قابل حاضر کرکے حضرت سلیمان کے ہاں لے آئے؛ اور چونکہ "قاعدہ" ایک کلی قانون ہے لہذا جہاں بھی یہ صفت موجود ہوگی وہاں یہ حکم بھی نافذ ہوگا اور آصف بن برخیا جو یہ بڑا کام کرنے پر قادر ہوئے اس کا سبب اس زمانے کی آسمانی کتاب کا علم نہیں تھا کیونکہ بلاشک اسی زمانے میں دیگر کئی افراد تھے جو اس دور کی کتاب کے علماء تھے مگر ان میں یہ قوت ظاہر نہیں ہوسکی۔ پس ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علم ایک خاص قسم کا علم ہے جو اپنے حامل یا مالک کو یہ توانائی دیتا ہے۔
ہاں! مگر آصف بن برخیا کے علم اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کے علم میں فرق بہت ہے اور یہ فرق سورہ رعد اور سورہ نمل میں مختصر سے غور کے بعد نمایاں ہوجاتا ہے۔
سورہ نمل کی چالیسویں آیت آصف بن برخیا کے وصف میں نازل ہوئی ہے اور اس آیت آصف کی توصیف کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ "و من عندہ علمٌ من الکتاب" [یعنی وہ جس کے پاس کتاب کا تھوڑا سا علم تھا]، جبکہ سورہ رعد کی آیت 43 میں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی توصیف میں ارشاد ہوتا ہے: "و من عندہ علم الکتاب"؛ [یعنی وہ ذات با برکات جس کے پاس پورا علم کتاب ہے]۔
سورہ نمل کی مذکورہ عبارت سے جزئیت کا استفادہ ہوتا ہے یعنی آصف کے علم کتاب کے ایک جزء سے واقف تھے۔ اور یہ بات "مِن تبعیضیہ" سے ظاہر ہوتی ہے جو اسم نکرہ "علم" کے بعد مذکور ہے۔ تا ہم سورہ رعد کی آیت میں علم مضاف ہے اور کتاب مضاف الیہ ہے۔ اور چونکہ کتاب کے اوپر "ال" جنس وارد ہوا ہے جس سے عمومیت اور تمامیت کا اظہار ہوتا ہے، چنانچہ اس سے ثابت ہے کہ علی علیہ السلام پورے اسم اعظم کے مالک ہیں۔
یہ نکتہ اہل بیت علیہم السلام کی روایت میں ذکر ہوا ہے کہ "اسم اعظم 73 حروف پر مشتمل ہے جن میں سے ایک حرف صرف خدا کے لئے مخصوص ہے اور کسی کو بھی (خدا کے سوا) اس سے آگہی حاصل نہیں ہے، جبکہ باقی 72 حروف ہم اہل بیت کے پاس ہیں اور آصف بن برخیا ان 72 حروف میں صرف ایک حرف سے واقف تھے۔
چونکہ تمام اسماء اعظم امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے پاس ہیں اور اسم اعظم درحقیقت ولایت تکوینی کی علت و اساس ہے لہذا امیرالمؤمنین علیہ السلام کی ولایت تامّ اور مطلق ہے؛ اور بلاشک جس کے پاس یہ قوت اور یہ ولایت ہوگی وہ دوسروں پر حکومت کرنی کے لئے کسی بھی دوسرے شخص سے زیادہ لائق، شائستہ اور اہل ہوگا اور امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنے خطبوں اور کلمات مبارکہ میں اپنی اس شائستگی اور اہلیت کی طرف بار بار اشارہ فرمایا ہے:
لا يقاس بآل محمد من ہذہ الامّة أحدٌ و لہم خصائص حقّ الولایة۔
اس امت میں سے کسی کا بھی آل محمد (ص) سے قیاس نہیں کیا جاسکتا [کیونکہ] حقِّ ولایت کی تمام خصوصیات ان ہی کے لئے مختص ہیں۔
...........
مآخذ:
1۔ جوادی آملی، عبداللہ، ادب فنای مقربان، ج1، ص224۔
2۔ وہی، ص226۔
3۔ بابازادہ، علیاکبر، تجلیات ولایت، ص157۔
4۔ کوہکمرہای، ولایت و علم امام، ص207۔
5۔ وہی، ص40۔
6۔ طباطبائی، سید محمدحسین، المیزان، ج13، ذیل آیة 43 سورة رعد۔
7۔ مجلسی، بحارالأنوار، ج7، ص105، ص439 و ص437۔
8۔ کوہکمرہای، وہی، ص77۔