حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
ولادت باسعادت
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بتاریخ ۷/ صفرالمظفر ۱۲۸ ھ مطابق ۷۴۵ ء یوم شنبہ بمقام ابواجومکہ اورمدینہ کے درمیان واقع ہے پیداہوئے (انوارالنعمانیہ ص ۱۲۶ ،واعلام الوری ص ۱۷۱ ،جلاء العیون ص ۲۶۹ ،شواہدالنبوت ص ۱۹۲ ،روضة الشہداء ص ۴۳۶) ۔
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ پیداہوتے ہی آپ نے ہاتھوں کوزمین پرٹیک کر آسمان کی طرف رخ کیااورکلمہ شہادتین زبان پرجاری فرمایا آپ نے یہ عمل بالکل اسی طرح کیا،جس طرح حضرت رسول خداصلعم نے ولادت کے بعدکیاتھاآپ کے داہنے بازوپرکلمہ تمت کلمة ربک صدقا وعدلا لکھاہواتھا آپ علم اولین وآخرین سے بہرہ ورمتولدہوئے تھے آپ کی ولادت سے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کو بیحد مسرت ہوئی تھی اورآپ نے مدینہ جاکراہل مدینہ کودعوت طعام دی تھی (جلاء العیون ص ۲۷۰) ۔ آپ دیگرآئمہ کی طرح مختون اورناف بریدہ متولدہوئے تھے۔
اسم گرامی،کنیت،القاب
آپ کے والدماجدحضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے خداوندمتعال کے معین کردہ نام ”موسی“ سے موسوم کیاعلامہ محمدرضالکھتے ہیں کہ موسی ،قبطی لفظ ہے اورمواورسی سے مرکب ہے موکے معنی پانی اور”سی“ کے معنی درخت کے ہیں اس نام سے سب سے پہلے حضرت کلیم اللہ موسوم کئے گئے تھے۔
اوراس کی وجہ یہ تھی کہ خوف فرعون سے مادرموسی نے آپ کواس صندوق میں رکھ کر دریامیں بہایاتھاجو”حبیب نجار“ کابنایاہواتھا اوربعدمیں ”تابوت سکینہ“ قرارپایا، تووہ صندوق بہہ کرفرعون اورجناب آسیہ تک پانی کے ذریعہ سے ان درختوں سے ٹکراتاہواجوخاص باغ میں تھے پہنچاتھا لہذا پانی اوردرخت کے سبب سے ان کانام موسی قرارپایاتھا (جنات الخلود ص ۲۹) ۔
آپ کی کنیت ابوالحسن،ابوابراہیم،ابوعلی ابوعبداللہ تھی اورآپ کے القاب کاظم،عبدصالح،نفس زکیہ،صابر،امین، باب الحوائج وغیرہ تھے ”شہرت عامہ“ کاظم کوہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ آپ بدسلوک کے ساتھ احسان کرتے اورستانے والے کومعاف فرماتے اورغصہ کوپی جاتے تھے، بڑے حلیم،بردباراوراپنے ظلم کرنے والے کومعاف کردیاکرتے تھے(مطالب السول ص ۲۷۶ ،شواہدالنبوت ص ۱۹۲ ،روضة الشہداء ص ۴۳۲ ،تاریخ خمیس جلد ۲ ص ۳۲) ۔
لقب باب الحوائج کی وجہ
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ کثرت عبادت کی وجہ سے عبدصالح اورخداسے حاجت طلب کرنے کے ذریعہ ہونے کی وجہ سے آپ کوباب الحوائج کہا جاتاہے،کوئی بھی حاجت ہوجب آپ کے واسطے سے طلب کی جاتی تھی توضرور پوری ہوتی تھی ملاحظہ ہو(مطالب السول ص ۲۷۸ ، صواعق محرقہ ص ۱۳۱) ۔
فاضل معاصرعلامہ علی حیدررقمطرازہیں کہ حضرت کالقب باب قضاء الحوائج یعنی حاجتیں پوری ہونے کادروازہ بھی تھا حضرت کی زندگی میں توحاجتیں آپ کے توسل سے پوری ہوتی تھیں شہادت کے بعدبی یہ سلسلہ جاری رہااوراب بھی ہے ”اخبارپایزالہ آباد ۱۰/ اگست ۱۹۲۸ ءء میں زیرعنوان ”امام موسی کاظم کے روضہ پرایک اندھے کوبینائی مل گئی“ ایک خبرشائع ہوئی ہے جس کاترجمہ یہ ہے کہ حال ہی میں روضہ کاظمین شریف پرجوشہربغدادسے باہرہے ایک معجزہ ظاہرہواہے کہ ایک اندھااوربوڑھا”سید“ نہایت مفلسی کی حالت میں روضہ شریف کے اندرداخل ہوااورجیسے ہی اس نے امام موسی کاظم کے روضہ کی ضریح اقدس کواپنے ہاتھ سے مس کیاوہ فوراچلاتاہواباہرکی طرف دوڑا ”مجھے بینائی مل گئی“ میں دیکھنے لگاہوں، اوراس پرلوگوں کابڑاہجوم جمع ہوگیااوراکثرلوگ اس کے کپڑے تبرک کے طورپرچھین جھپٹ کرلے گئے اس کوتین دفعہ کپڑے پہنائے گئے اورہردفعہ وہ کپڑے ٹکڑے ہوکرتقسیم ہوگئے آخرروضہ شریف کے خدام نے اس خیال سے کہ کہیں اس بوڑھے سیدکے جسم کونقصان نہ پہنچے اس کواس کے گھرپہنچادیا ۔
اس کابیان ہے کہ بغدادکے ہسپتال میں اپنی آنکھ کاعلاج کررہاتھا بالآخرسب ڈاکٹروں نے یہ کہہ کرمجھے ہسپتال سے نکال دیاکہ تیرا مرض لاعلاج ہوگیاہے اب اس کاعلاج ناممکن ہے تب میں مایوس ہوکر روضہ اقدس امام موسی کاظم علیہ السلام پرآیااوریہاں آپ کے وسیلہ سے خداسے دعاکی ”بارالہاتجھے اسی امام مدفون کاواسطہ مجھے ازسرنوبینائی عطاکردے“ یہ کہہ کرجیسے ہی میں نے روضہ کی ضریح کومس کیا میری آنکھوں کے سامنے روشنی نمودارہوئی اورآوازآئی ”جاتجھے پھرسے روشنی دیدی گئی“ اس آوازکے ساتھ ہی میں ہرچیزکودیکھنے لگا،تمام لوگ اس امرکی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ ضعف العمرسیداندھاتھا، اوراب دیکھنے لگاہے (اخبارانقلاب لاہور،اخباراہل حدیث امرتسر مورخہ ۲۴/ اگست ۱۹۲۸ ءء ۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی ہے میں امام موسی کاظم علیہ السلام کے روضے پرچلاجاتاہوں اوران کی قبرپردعاکرتاہوں میری مشکل حل ہوجاتی ہے (مناقب جلد ۳ ص ۱۲۵ طبع ملتان)۔
باشاہان وقت
آپ ۱۲۸ ھ میں مروان الحماراموی کے عہدمیں پیداہوئے اس کے بعد ۱۳۲ ھ میں سفاح عباسی خلیفہ ہوا(ابوالفداء) ۱۳۶ ھ میں منصور دوانقی عباسی خلفہ بنا ۱۵۸ ھ میں مہدی بن منصورمالک سلطنت ہوا( حبیب السیر) ۱۶۹ ھ میں ہادی عباسی کی بیعت کی گئی (ابن الوردی) ۱۷۰ ھ میں ہارون الرشید عباسی ابن مہدی خلیفہ وقت ہوا ۱۸۳ ھ میں ہارون کے زہردینے سے امام علیہ السلام بحالت مظلومی قیدخانہ میں شہیدہوئے (صواعق محرقہ اخبارالخلفاء بن راعی)۔
نشوونمااورتربیت
علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ آپ کی عمرکے بیس برس اپنے والدبزرگوار حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کے سایہ تربیت میں گزرے ایک طرف خداکے دئیے ہوئے فطری کمال کے جوہراوردوسری طرف اس باپ کی تربیت جس نے پیغمبرکے بتائے ہوئے مکارم الاخلاق کی یاد کوبھولی ہوئی دنیامیں ایساتازہ کردیاکہ انھیں ایک طرح سے اپنابنالیااورجس کی بناپر”ملت جعفری“ نام ہوگیاامام موسی کاظم نے بچپنا اورجوانی کاکافی حصہ اسی مقدس آغوش میں گزارا،یہاں تک کہ تمام دنیاکے سامنے آپ کے ذاتی کمالات وفضائل روشن ہوگئے اورامام جعفرصادق علیہ السلام نے اپناجانشین مقررفرمادیاباوجودیکہ آپ کے بڑے بھائی بھی موجودتھے، مگرخداکی طرف کامنصب میراث کاترکہ نہیں ہے بلکہ ذاتی کمال کوڈھونڈتاہے سلسلہ معصومین مین امام حسن کے بعدبجائے ان کی اولادکے امام حسین کاامام ہونااوراولادامام جعفر صادق علیہ السلام میںبجائے فرزنداکبرکے امام موسی کاظم علیہ السلام کی طرف امامت کامنتقل ہونا اس کاثبوت ہے کہ معیارامامت میں نسبی وراثت کومدنظرنہیں رکھاگیاہے (سوانح موسی کاظم ص ۴) ۔
آپ کے بچپن کے بعض واقعات
یہ مسلمات سے ہے کہ نبی اورامام تمام صلاحیتوں سے بھرپورمتولدہوتے ہیں،جب حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی عمرتین سال کی تھی ،ایک شخص جس کانام صفوان جمال تھا حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرمستفسرہواکہ مولا،آپ کے بعدامامت کے فرائض کون اداکرے گا، آپ نے ارشادفرمایاائے صفوان!تم اسی جگہ بیٹھواوردیکھتے جاؤجوایسابچہ میرے گھرسے نکلے جس کی ہربات معرفت خداوندی سے پرہو،اورعام بچوں کی طرح لہوولعب نہ کرتاہو،سمجھ لیناکہ عنان امامت اسی کے لیے سزاوارہے اتنے میں امام موسی کاظم علیہ السلام بکری کاایک بچہ لیے ہوئے برآمدہوئے اورباہرآکراس سے کہنے لگے ”اسجدی ربک“ اپنے خداکاسجدہ کریہ دیکھ کر امام جعفرصادق نے اسے سینہ سے لگالیا(تذکرةالمعصومین ص ۱۹۲) ۔
صفوان کہتاہے کہ یہ دیکھ کرمیں نے امام موسی سے کہا،صاحبزادے !اس بچہ کوکہئے کہ مرجائے آپ نے ارشادفرمایا :کہ وائے ہوتم پر،کیاموت وحیات میرے ہی اختیارمیں ہے (بحارالانوارجلد ۱۱ ص ۲۶۶) ۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے مسائل دینیہ دریافت کرنے کے لیے حسب دستورحاضرہوئے اتفاقا آپ آرام فرمارہے تھے موصوف اس انتظارمیں بیٹھ گئے کہ آپ بیداہوں توعرض مدعاکروں ،اتنے امام موسی کاظم جن کی عمراس وقت پانچ سال کی تھی برآمدہوئے امام ابوحنیفہ نے انہیں سلام کرکے کہا: اے صاحبزادے یہ بتاؤکہ انسان فاعل مختارہے یاان کے فعل کاخدافاعل ہے یہ سن کرآپ زمین پردوزانو بیٹھ گئے اورفرمانے لگے سنو! بندوں کے افعال تین حالتوں سے خالی نہیں ،یاان کے افعال کا فاعل صرف خداہے یاصرف بندہ ہے یادونوں کی شرکت سے افعال واقع ہوتے ہیں اگرپہلی صورت ہے توخداکوبندہ پرعذاب کاحق نہیں ہے،اگرتیسری صورت ہے توبھی یہ انصاف کے خلاف ہے کہ بندہ کوسزادے اوراپنے کوبچالے کیونکہ ارتکاب دونوں کی شرکت سے ہواہے اب لامحالہ دوسری صورت ہوگی،وہ یہ کہ بندہ خودفاعل ہے اورارتکاب قبیح پرخدااسے سزادے۔بحارالانوارجلد ۱۱ ص ۱۸۵) ۔
امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ میں نے اس صاحبزادے کواس طرح نمازپڑھتے ہوئے دیکھ کران کے سامنے سے لوگ برابرگزررہے تھے امام جعفرصادق علیہ السلام سے عرض کیاکہ آپ کے صاحبزادے موسی کاظم نمازپڑھ رہے تھے اورلوگ ان کے سامنے سے گزررہے تھے، حضرت نے امام موسی کاظم کوآوازدی وہ حاضرہوئے، آپ نے فرمایابیٹا! ابوحنیفہ کیاکہتے ہیں ان کاکہناہے کہ تم نمازپڑھ رہے تھے اورلوگ تمہارے سامنے سے گزررہے تھے امام کاظم نے عرض کی باباجان لوگوں کے گزرنے سے نمازپرکیااثرپڑتاہے، وہ ہمارے اورخدا کے درمیان حائل تونہیں ہوئے تھے کیونکہ وہ تو”اقرب من حبل الورید“ رگ جاں سے بھی زیادہ قریب ہے ،یہ سن کرآپ نے انھیں گلے سے لگالیا اورفرمایااس بچہ کواسرارشریعت عطاہوچکے ہیں (مناقب جلد ۵ ص ۶۹) ۔
ایک دن عبداللہ ابن مسلم اورابوحنیفہ دونوں واردمدینہ ہوئے، عبداللہ نے کہا،چلوامام صادق علیہ السلام سے ملاقات کریں اوران سے کچھ استفادہ کریں، یہ دونوں حضرت کے دردولت پرحاضرہوئے یہاں پہنچ کردیکھاکہ حضرت کے ماننے والوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے ،اتنے امام صادق علیہ السلام کے بجائے امام موسی کاظم برآمدہوئے لوگوں نے سروقدتعظیم کی، اگرچہ آپ اس وقت بہت ہی کمسن تھے لیکن آپ نے علوم کے دریابہانے شروع کیے عبداللہ وغیرہ نے جوقدرے آپ سے دورتھے آپ کے قریب جاتے ہوئے آپ کی عزت ومنزلت کاآپس میں تذکرہ کیا،آخرمیں امام ابوحنیفہ نے کہا کہ چلومیں انھیں ان کے شیعوں کے سامنے رسوااورذلیل کرتاہوں، میں ان سے ایسے سوالات کروں گا کہ یہ جواب نہ دیے سکیں گے عبداللہ نے کہا، یہ تمہاراخیال خام ہے ،وہ فرزند رسول ہیں ،الغرض دونوں حاضرخدمت ہوئے، امام ابوحنیفہ نے امام موسی کاظم سے پوچھا صاحبزادے، یہ بتاؤکہ اگرتمہارے شہرمیں کوئی مسافر آجائے اوراسے قضاحاجت کرنی ہوتوکیاکرے اوراس کے لیے کونسی جگہ مناسب ہوگی حضرت نے برجستہ جواب فرمایا:
”مسافرکوچاہئے کہ مکانوں کی دیواروں کے پیچھے چھپے، ہمسایوں کی نگاہوں سے بچے نہروں کے کناروں سے پرہیزکرے جن مقامات پردرختوں کے پھل گرتے ہوں ان سے حذرکرے۔
مکان کے صحن سے علیحدہ، شاہراہوں اورراستوں سے الگ مسجدوں کوچھوڑکر،نہ قبلہ کی طرف منہ کرے نہ پیٹھ ،پھراپنے کپڑوں کو بچاکرجہاں چاہے رفع حاجت کرے یہ سن کرامام ابوحنیفہ حیران رہ گیے ،اورعبداللہ کہنے لگے کہ میں نہ کہتاتھا کہ یہ فرزندرسول ہیں انہیں بچپن ہی میں ہرقسم کاعلم ہواکرتاہے (بحار،مناقب واحتجاج)۔
علامہ مجلسی تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام مکان میں تشریف فرماتھے اتنے میں آپکے نورنظرامام موسی کاظم علیہ السلام کہیں باہر سے واپس آئے امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایابیٹے! ذرااس مصرعہ پرمصرعہ لگاؤ”تنح عن القبیح ولامزتودہ“ آپ نے فورامصرعہ لگایا ”ومن اولیتہ حسنا فزدہ“ بری باتوں سے دوررہو اوران کاارادہ بھی نہ کرو ۲ ۔ جس کے ساتھ بھلائی کرو،بھرپورکرو“ پھرفرمایا! اس پرمصرعہ لگاؤ ”ستلقی من عدوک کل کید“ آپ نے مصرعہ لگایا ”اذاکاوالعدوفلاتکدہ“ (ترجمہ) ۱ ۔ تمہارادشمن ہرقسم کامکروفریب کرے گا ۲ ۔ جب دشمن مکروفریب کرے تب بھی اسے برائی کے قریب نہیں جانا چاہئے (بحارالانوار جلد ۱۱ ص ۳۶۶) ۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی امامت
۱۴۸ ھ میں امام جعفرصادق علیہ السلام کی وفات ہوئی، اس وقت سے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بذات خودفرائض امام کے ذمہ دارہوئے اس وقت سلطنت عباسیہ کے تخت پرمنصوردوانقی بادشاہ تھا یہ وہی ظالم بادشاہ تھا جس کے ہاتھوں لاتعدادسادات مظالم کانشانہ بن چکے تھے تلوارکے گھاٹ اتارے گئے دیواروں میں چنوائے گئے یاقیدرکھے گئے ،خودامام جعفرصادق علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کی جاچکی تھیں اورمختلف صورت سے تکلیفیں پہنچائی گئی تھی، یہاں تک کہ منصورہی کابھیجاہوازہرتھا جس سے آپ دنیاسے رخصت ہوئے تھے۔
ان حالات میں آپ کواپنے جانشین کے متعلق یہ قطعی اندیشہ تھا کہ حکومت وقت اسے زندہ نہ رہنے دے گی اس لیے آپ نے آخری وقت اخلاقی بوجھ حکومت کے کندھوں پررکھ دینے کے لیے یہ صورت اختیارفرمائی،کہ اپنی جائیداداورگھربارکے انتظامات کے لیے پانچ شخصوں کی ایک جماعت مقررفرمائی جس میں پہلاشخص خود خلیفہ وقت منصورعباسی تھا، اس کے علاوہ محمدبن سلیمان حاکم مدینہ، اورعبداللہ افطح جوامام موسی کاظم کے سن میں بڑے بھائی تھے ،اورحضرت امام موسی کاظم اوران کی والدہ معظمہ حمیدہ خاتون۔
امام کااندیشہ بالکل صحیح تھا،اورآپ کاتحفظ بھی کامیاب ثابت ہوا،چنانچہ جب حضرت کی وفات کی اطلاح منصورکوپہنچی تواس نے پہلے توسیاسی مصلحت سے اظہاررنج کیا،تین مرتبہ اناللہ واناالیہ راجعون ،کہا اورکہاکہ اب بھلاجعفرکامثل کون ہے؟ اس کے بعدحاکم مدینہ کولکھاکہ اگرجعفرصادق نے کسی شخص کواپنا وصی مقررکیاہوتواس کاسرفوراقلم کردو، حاکم مدینہ نے جواب میں لکھاکہ انہوں نے توپانچ وصی مقررکئے ہیں جن میں سے پہلے آپ خودہیں، یہ جواب سن کر منصوردیرتک خاموش رہااورسوچنے کے بعدکہنے لگاکہ اس صورت میں تویہ لوگ قتل نہیں کئے جاسکتے اس کے بعددس برس منصورزندہ رہا،لیکن امام موسی کاظم علیہ السلام سے کوئی تعرض نہ کیا، اورآپ مذہبی فرائض امامت کی انجام دہی میں امن وسکون کے ساتھ مصروف رہے یہ بھی تھاکہ اس زمانہ میں منصورشہربغداد کی تعمیرمیں مصروف تھاجس سے ۱۵۷ ھ یعنی اپنی موت سے صرف ایک سال پہلے اسے فراغت ہوئی،اس لیے وہ امام موسی کاظم کے متعلق کسی ایذا رسانی کی طرف متوجہ نہیں ہوالیکن اس عہدسے قبل وہ سادات کشی میں کمال دکھاچکاتھا۔
علامہ مقریزی لکھتے ہیں کہ منصورکے زمانے میں بے انتہاسادات شہیدکئے گئے ہیں اورجوبچے ہیں وہ وطن چھوڑکر بھاگ گئے ہیں انہیں تارکین وطن میں ہاشم بن ابراہیم بن اسماعیل الدیباج بن ابراہیم عمربن الحسن المثنی ابن امام حسن بھی تھے جنہوں نے ملتان کوعلاقوں میں سے مقام”خان“میں سکونت اختیارکرلی تھی (النزاع والتخاصم ص ۴۷ طبع مصر)۔
۱۵۸ ھ کے آخرمیں منصوردوانقی دنیاسے رخصت ہوا،اوراس کابیٹامہدی تخت سلطنت پربیٹھا،شروع میں تواس نے بھی امام موسی کاظم علیہ السلام کی عزت واحترام کے خلاف کوئی برتاؤنہیں کیا مگرچندسال بعدپھروہی بنی فاطمہ کی مخالفت کاجذبہ ابھرا اور ۱۶۴ ھ میں جب وہ حج کے نام سے حجازکی طرف گیاتوامام موسی کاظم علیہ السلام کواپنے ساتھ مکہ سے بغدادلے گیااورقیدکردیاایک سال تک حضرت اس کی قیدمیں رہے پھراس کواپنی غلطی کااحساس ہوااورحضرت کومدینہ کی طرف واپسی کاموقع دیاگیا۔
مہدی کے بعداس کابھائی ہادی ۱۶۹ ھ میں تخت سلطنت پربیٹھا اورصرف ایک سال ایک ماہ تک اس نے سلطنت کی ، اس کے بعدہارون الرشیدکازمانہ آیاجس میں امام موسی کاظم علیہ السلام کوآزادی کی سانس لینانصیب نہیں ہوئی (سوانح امام موسی کاظم ص ۵) ۔
علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ جب آپ درجہ امامت پرفائزہوئے اس وقت آپ کی عمربیس سال کی تھی (اعلام الوری ص ۱۷۱) ۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعض کرامات
واقعہ شقیق بلخی علامہ محمدبن شافعی لکھتے ہیں کہ آپ کے کرامات ایسے ہیں کہ ”تحارمنہاالعقول“ ان کودیکھ کرعقلیں چکراجاتی ہیں ،مثال کے لیے ملاحظہ ہو؟ ۱۴۹ ھ میں شقیق بلخی حج کے لیے گئے ان کابیان ہے کہ میں جب مقام قادسیہ میں پہنچاتومیں نے دیکھاکہ ایک نہایت خوب صورت جوان جن کارنگ سانولہ (گندم گوں) تھا وہ ایک عظیم مجمع میں تشریف فرماہیں جسم ان کاضعیف ہے وہ اپنے کپڑوں کے اوپر ایک کمبل ڈالے ہوئے ہیں اورپیروں میں جوتیاں پہنے ہوئے ہیں تھوڑی دیر بعدوہ مجمع سے ہٹ کر ایک علیحدہ مقام پرجاکربیٹھ گئے، میں نے دل میں سوچا کہ یہ صوفی ہے اورلوگوں پرزادراہ کے لیے باربنناچاہتاہے ،میں ابھی اس کی ایسی تنبیہ کروں گاکہ یہ بھی یادرکھے گا،غرضیکہ میں ان کے قریب گیاجیسے ہی میں ان کے قریب پہنچاہوں،وہ بولے ائے شقیق بدگمانی مت کیاکرویہ اچھاشیوہ نہیں ہے، اس کے بعدوہ فورااٹھ کرروانہ ہوگئے ،میں نے خیال کیاکہ یہ معاملہ کیاہے انہوں نے میرانام لے کرمجھے مخاطب کیااورمیرے دل کی بات جان لی
اس واقعہ سے میں اس نتیجہ پرپہنچاکہ ہونہ ہویہ کوئی عبدصالح ہوں بس یہی سوچ کرمیں ان کی تلاش میں نکلااوران کاپیچھاکیا، خیال تھاکہ وہ مل جائیں گے تومیں ان سے کچھ سوالات کروں گا،لیکن نہ مل سکے،ان کے چلے جانے کے بعدہم لوگ بھی روانہ ہوئے ، چلتے چلتے جب ہم ”وادی فضہ“ میں پہنچے توہم نے دیکھاکہ وہی جوان صالح یہاں نمازمیں مشغول ہیں اوران کے اعضاء وجوارح بیدکی مانندکانپ رہے ہیں اوران کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں میں یہ سوچ کران کے قریب گیاکہ اب ان سے معافی طلب کروں گاجب وہ نمازسے فارغ ہوئے توبولے ائے شفیق خداکاقول ہے کہ جوتوبہ کرتاہے میں اسے بخش دیتاہوں اس کے بعدپھرروانہ ہوگئے اب میرے دل میں یہ یقین آیاکہ یقینا یہ بندہ عابد،کوئی ابدال ہے ،کیوں کہ دو باریہ میرے ارادہ سے اپنی واقفیت ظاہرکرچکاہے میں نے ہرچندپھران سے ملنے کی سعی کی لیکن وہ نہ مل سکے جب میں منزل زبالہ پرپہنچاتودیکھاکہ وہی جوان ایک کنویں کی جگت پربیٹھے ہوئے ہیں اس کے بعدانہوں نے ایک کوزہ نکال کرکنوئیں سے پانی لیناچاہا،ناگاہ ان کے ہاتھ سے کوزہ چھوٹ کرکنوئیں میں گرگیا،میں نے دیکھاکہ کوزہ گرنے کے بعدانہوں نے آسمان کی طرف منہ کرکے بارگاہ احدیت میں کہا:
میرے پالنے والے جب میں پیاساہوتاہوں توہی سیراب کرتاہے اورجب بھوکاہوتاہوں توہی کھانادیتاہے خدایا!اس کوزہ کے علاوہ میرے پاس کوئی اورکوزہ نہیں ہے ،میرے مالک! میرا کوزہ پرآب برآمدکردے،اس جوان صالح کایہ کہناتھاکہ کنوئیں کاپانی بلندہوااوراوپرتک آگیاآپ نے ہاتھ بڑھاکر اپناکوزہ پانی سے بھراہوالے لیااوروضوفرماکر چاررکعت نمازپڑھی، اس کے بعدآپ نے ریت کی ایک مٹھی اٹھائی اورپانی میں ڈال کرکھاناشروع کردیایہ دیکھ کرمیں عرض پردازہواجناب والا! مجھے بھی کچھ عنایت ہومیں بھوکاہوں آپ نے وہی کوزہ میرے حوالے کردیاجس میں ریت بھری تھی خداکی قسم جب میں نے اس میں سے کھایاتواسے ایسالذیذستوپایاجیسامیں نے کھایاہی نہ تھا، پھراس ستومیں ایک خاص بات یہ تھی کہ میں جب تک سفرمیں رہابھوکانہیں ہوا اس کے بعدآپ نظروں سے غائب ہوگئے ۔
جب میں مکہ معظمہ میں پہنچاتومیں نے دیکھاکہ ایک بالو(ریت) کے ٹیلے کے کنارے مشغول نمازہیں اورحالت آپ کی یہ ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہیں اوربدن پرخضوع وخشوع کے آثارنمایاں ہیں آپ نمازہی میں مشغول تھے کہ صبح ہوگئی ، آپ نے نمازصبح ادافرمائی اوراس سے اٹھ کرطواف کاارادہ کیا،پھرسات بارطواف کرنے کے بعد ایک مقام پرٹہرے میں نے دیکھاکہ آپ کے گردبیشمارحضرات ہیں اورسب بے انتہاتعظیم وتکریم کررہے ہیں ،میں چونکہ ایک ہی سفرمیں کرامات دیکھ چکاتھا اس لیے مجھے بہت زیادہ فکرتھی کہ یہ معلوم کروں کہ یہ بزرگ ہیں کون؟ انہوں نے کہاکہ یہ فرزند رسول حضرت امام موسی کاظم ہیں،میں نے کہابے شک یہ صاحب کرامات جومیں میں نے دیکھے وہ اسی گھرانے کے لیے سزاوارہیں (مطالب السول ص ۲۷۹ ،نورالابصارص ۱۳۵ ،شواہدالنبوت ص ۱۹۳ ،صواعق محرقہ ص ۱۲۱ ، ارجح المطالب ص ۴۵۲) ۔
مورخ ذاکرحسین لکھتے ہیں کہ شقیق ابن ابراہیم بلخی کاانتقال ۱۹۰ ھ میں ہواتھا ( تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۵۹) ۔
امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ عیسی مدائنی حج کے لیے گئے اور ایک سال مکہ میں رہنے کے بعدوہ مدینہ چلے گئے ان کاخیال تھا کہ وہاں بھی ایک سال گزاریں گے، مدینہ پہنچ کرانہوں نے جناب ابوذرکے مکان کے قریب ایک مکام میں قیام کیا۔
مدینہ میں ٹہرنے کے بعد انہوں نے امام موسی کاظم علیہ السلام کے وہاں آناجاناشروع کیا،مدائنی کابیان ہے کہ ایک شب کوبارش ہورہی تھی اورمیں اس وقت امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرتھا، تھوڑی دیرکے بعد آپ نے فرمایاکہ اے عیسی تم فورااپنے مکان چلے جاؤکیونکہ ”انہدم البیت علی متاعک“ تمہارامکان تمہارے اثاثہ پرگرگیاہے اورلوگ سامان نکال رہے ہیں یہ سن کرمیں فورامکان کی طرف گیا، دیکھاکہ گھرگرچکاہے اورلوگ سامان نکال رہے ہیں،دوسرے دن جب حاضرہواتوامام علیہ السلام نے پوچھاکہ کوئی چیزچوری تونہیں ہوئی ،میں نے عرض کی صرف ایک طشت نہیں ملتا جس میں وضو کیاکرتاتھا، آپ نے فرمایاوہ چوری نہیں ہوا،بلکہ انہدام مکان سے پہلے تم اسے بیت الخلاء میں رکھ کربھول گئے ہو،تم جاؤاورمالک کی لڑکی سے کہو،وہ لادے گی، چنانچہ میں نے ایساہی کیا اورطشت مل گیا(نورالابصارص ۱۳۵) ۔
علامہ جامی تحریرفرماتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک صحابی کے ہمراہ سو دینارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں بطورنذرارسال کیاوہ اسے لے کرمدینہ پہنچا، یہاں پہنچ کراس نے سوچاکہ امام کے ہاتھوں میں اس جاناہے لہذا پاک کرلیناچاہئے وہ کہتاہے کہ میں نے ان یناروں کوجوامانت تھے شمارکیا تووہ نناوے تھے میں نے ان میں اپنی طرف سے ایک دینارشامل کرکے سوپورا کردیا،جب میں حضرت کی خدمت میں حاضرہواتوآپ نے فرمایاسب دینارزمین پرڈال دو،میں نے تھیلی کھو ل کرسب زمین پرنکال دیا ، آپ نے میرے بتائے بغیراس میں سے میرا وہی دینارجومیں نے ملایاتھا مجھے دیدیا اورفرمایا بھیجنے والے نے عددکالحاظ نہیں کیا بلکہ وزن کالحاظ کیاہے جو ۹۹ میں پوراہوتاہے۔
ایک شخص کاکہناہے کہ مجھے علی بن یقطین نے ایک خط دے کرامام علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا،میں نے حضرت کی خدمت میں پہنچ کر ان کاخط دیا، انہوں نے اسے پڑھے بغیرآستین سے ایک خط نکال کرمجھے دیااورکہا کہ انہوں نے جوکچھ لکھاہے اس کایہ جواب ہے (شواہدالنبوت ص ۱۹۵) ۔
ابوبصیرکابیان ہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام دل کی باتیں جانتے تھے اورہرسوال کاجواب رکھتے تھے ہرجاندارکی زبان سے واقف تھے (روائح المصطفی ص ۱۶۲) ۔
ابوحمزہ بطائنی کاکہناہے کہ میں ایک مرتبہ حضرت کے ساتھ حج کوجارہاتھا کہ راستہ میں ایک شیربرآمدہوا،اس نے آپ کے کان میں کچھ کہاآپ نے اس کواسی کی زبان میں جواب دیااوروہ چلاگیا ہمارے سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اس نے اپنی شیرنی کی ایک تکلیف کے لیے دعاکی خواہش کی، میں نے دعاکردی اوروہ واپس چلاگیا(تذکرة المعصومین ص ۱۹۳) ۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے اخلاق وعادات اورشمائل واوصاف
علامہ علی نقی لکھتے ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اس مقدس سلسلہ کی ایک فردتھے جس کوخالق نے نوع انسانی کے لیے معیارکمال قراردیاتھا اسی لیے ان میں سے ہرایک اپنے وقت میں بہترین اخلاق واصاف کامرقع تھا ،بےشک یہ حقیقت ہے کہ بعض افرادمیںبعض صفات اتنے ممتازنظرآتے ہیں کہ سب سے پہلے ان پرنظرپڑتی ہے چنانچہ ساتویں امام میں تحمل وبرداشت اورغصہ ضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کالقب کاظم قراردیاگیاجس کے معنی ہیں غصہ کوپینے والا،آپ کوکبھی کسی نے ترش روئی اورسختی کے ساتھ بات چیت کرتے نہیں دیکھا اورانتہائی ناگوارحالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظرآئے مدینہ کے ایک حاکم سے آپ کوسخت تکلیفیں پہنچیں یہاں تک کہ وہ جناب امیرعلیہ السلام کی شان میں بھی نازیباالفاظ استعمال کیاکرتاتھا ، مگرحضرت نے اپنے اصحاب کوہمیشہ اس کے جواب دینے سے روکا۔
جب اصحاب نے اس کی گستاخیوں کی بہت شکایت کی اورکہاکہ اب ہمیں ضبط کی تاب نہیں ہمیں ان سے انتقام لینے کی اجازت دی جائے، توحضرت نے فرمایاکہ میں خوداس کاتدارک کروں گا اس طرح ان کے جذبات میں سکون پیدا کرنے کے بعد حضرت خود اس شخص کے پاس اس کی زراعت پرتشریف لے گئے اورکچھ ایسا احسان اورحسن سلوک فرمایا کہ وہ اپنی گستاخیوں پرنادم ہوا، اوراپنے طرزعمل کوبدل دیا حضرت نے اپنے اصحاب سے صورت حال بیان فرماکر پوچھاکہ جومیں نے اس کے ساتھ کیا وہ اچھاتھا یا جس طرح تم لوگ اس کے ساتھ کرناچاہتے تھے سب نے کہایقینا حضورنے جوطریقہ اختیارفرمایا وہی بہترتھا اس طرح آپ نے اپنے جدبزرگوارحضرت امیرعلیہ السلام کے اس ارشاد کوعمل میں لاکردکھلایاجوآج تک ”نہج البلاغہ“میں موجودہے کہ اپنے دشمن پراحسان کے ساتھ فتح حاصل کروکیونکہ یہ دوقسم کی فتح میں زیادہ پرلطف کامیابی ہے بے شک اس لیے فریق مخالف کے ظرف کاصحیح اندازہ ضروری ہے اوراسی لیے حضرت علی نے ان الفاظ کے ساتھ یہ بھی فرمایاہے کہ ”خبردار! یہ عدم تشدد کاطریقہ نااہل کے ساتھ اختیارنہ کرنا ورنہ اس کے تشدد میں اضافہ ہوجائے گا۔
یقیناایسے عدم تشددکے موقع کوپہنچاننے کے لیے ایسی ہی بالغ نگاہ کی ضرورت ہے جیسی امام کوحاصل تھی، مگریہ اس وقت میں ہے جب مخالف کی طرف سے کوئی ایساعمل ہوچکاہوجواس کے ساتھ انتقامی تشددکاجوازپیداکرسکے لیکن اگراس کی طرف سے کوئی اقدام ابھی ایسانہ ہواہو تویہ حضرات بہرحال اس کے ساتھ احسان کرناپسندکرتے تھے تاکہ اس کے خلاف حجت قائم ہواوراسے ایسے جارحانہ اقدام کے لیے تلاش سے بھی کوئی عذرنہ مل سکے بالکل اسی طرح جیسے ابن ملجم کے ساتھ جوجناب امیرعلیہ السلام کوشہیدکرنے والاتھا آخروقت تک جناب امیرعلیہ السلام احسان فرماتے رہے اسی طرح محمدبن اسماعیل کے ساتھ جوامام موسی کاظم علیہ السلام کی جان لینے کاباعث ہوا، آپ احسان فرماتے رہے یہاں تک کہ اس سفرکے لیے جواس نے مدینہ سے بغدادکی طرف خلیفہ بنی عباسی کے پاس امام موسی کاظم علیہ السلام کی شکایتیں کرنے کے لیے کیاتھا ساڑھے چارسودیناراورپندرہ سودرہم کی رقم خودحضرت ہی نے عطافرمائی تھی جس کووہ لے کر روانہ ہواتھا۔
آپ کوزمانہ بہت ناسازگارملاتھا نہ اس وقت وہ علمی دربارقائم رہ سکتاتھا جوامام جعفرصادق علیہ السلام کے زمانہ میں قائم رہ چکاتھا نہ دوسرے ذرائع سے تبلیغ واشاعت ممکن تھی پس آپ کی خاموش سیرت ہی تھی جودنیاکوآل محمدکی تعلیمات سے روشناس بناسکتی تھی آپ اپنے مجمعوں میں بھی اکثربالکل خاموش رہتے تھے یہاں تک کہ جب تک آپ سے کسی امرکے متعلق کوئی سوال نہ کیاجائے آپ گفتگومیں ابتداء بھی نہ فرماتے تھے ، اس کے باوجودآپ کی علمی جلالت کاسکہ دوست اوردشمن سب کے دل پرقائم تھا اورآپ کی سیرت کی بلندی کوبھی سب مانتے تھے۔
اس لیے عام طورپرآپ کواکثرعبادت اورشب زندہ داری کی وجہ سے عبدصالح کے لقب سے یادکیاجاتاتھا آپ کی سخاوت اورفیاضی کابھی شہرہ تھا اورفقراء مدینہ کی اکثرپوشیدہ طورپرخبرگیری فرماتے تھے ہرنمازصبح کی تعقیبات کے بعد، آفتاب کے بلندہونے کے بعد سے پیشانی سجدہ میں رکھ دیتے تھے اورزوال کے وقت سراٹھاتے تھے قرآن مجیدکی نہایت دلکش اندازمیں تلاوت فرماتے تھے خودبھی روتے جاتے تھے اورپاس بیٹھنے والے بھی آپ کی آوازسے متاثرہوکر روتے تھے (سوانح موسی کاظم ص ۸ ، اعلام الوری ۱۷۸) ۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کایہ طریقہ تھا کہ آپ فقیروں کوڈھونڈاکرتے تھے اورجوفقیرآپ کومل جاتاتھا اس کے گھرمیں روپیہ پیسہ اشرفی اورکھانا پانی پہنچایاکرتے تھے اوریہ عمل آپ کارات کے وقت ہوتاتھا اس طرح آپ فقراء مدینہ کے بے شمارگھروں کاآذوقہ چلارہے تھے اورلطف یہ ہے کہ ان لوگوں تک کویہ پتہ نہ تھاکہ ہم تک سامان پہنچانے والاکون ؟ یہ رازاس وقت کھلاجب آپ دنیاسے رحلت فرماگئے (نورالابصارص ۱۳۶ طبع مصر)۔
اسی کتاب کے صفحہ ۱۳۴ میں ہے کہ آپ ہمیشہ دن بھرروزہ رکھتے تھے اوررات بھرنمازیں پڑھاکرتے تھے علامہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ آپ بے انتہاعبادت وریاضت فرمایاکرتے تھے اورطاعت خدامیں اس درجہ شدت برداشت کرتے تھے جس کی کوئی حدنہ تھی۔
ایک دفعہ مسجدنبوی میں آپ کودیکھاگیاکہ آپ سجدہ میں مناجات فرمارہے ہیں اوراس درجہ سجدہ کوطول دیاکہ صبح ہوگئی (وفیات الاعیان جلد ۲ ص ۱۳۱) ۔
ایک شخص آپ کی برابربلاوجہ برائیاں کرتاتھا جب آپ کواس کاعلم ہواتوآپ نے ایک ہزاردینار(اشرفی) اس کے گھرپربطورانعام بھجوادیا(روائح المصطفی ص ۲۶۴) جس کے نتیجہ میں وہ اپنی حرکت سے بازآگیا۔
خلیفہ ہارون الرشید عباسی اورحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام
۱۵/ ربیع الاول ۱۷۰ ھ کومہدی کابیٹا ابوجعفرہارون الرشیدعباسی خلیفہ وقت بنایاگیااس نے اپناوزیراعظم یحی بن خالدبرمکی کوبنایااورامام ابوحنیفہ کے شاگردابویوسف کوقاضی قضاة کادرجہ دیا،بروایتے ذاہبی اس نے اگرچہ بعض اچھے کام بھی کئے ہیں لیکن لہوولعب اورحصول لذت ممنوعہ میں منفردتھا، ابن خلدون کاکہناہے کہ یہ اپنے دادامنصورکے نقش قدم پرچلتاتھا فرق اتناتھا کہ وہ بخیل تھا اوریہ سخی، یہ پہلاخلیفہ ہے جس نے راگ راگنی اورموسیقی کوشریف پیسہ قراردیاتھا ،اس کی پیشانی پرسادات کشی کابھی نمایاں داغ ہے علم موسیقی کاماہرابواسحاق ابراہیم موصلی اس کادرباری تھا ۔
حبیب السیرمیں ہے کہ یہ پہلااسلامی بادشاہ ہے جس نے میدان میں گیندبازی کی اورشطرنج کے کھیل کاشوق کیااحادیث میں ہے کہ شطرنج کھیلنا بہت بڑا گناہ ہے جامع الاخبارمیں ہے کہ جب امام حسین کاسردرباریزیدیمں پہنچاتھاتووہ شطرنج کھیل رہاتھا تاریخ الخلفاء سیوطی میں ہے کہ ہارون رشیداپنے باپ کی مدخولہ لونڈی پرعاشق ہوگیا اس نے کہامیں تمہارے باپ کے پاس رہ چکی ہوں، تمہارے لیے حلال نہیں ہوں ہارون نے قاضی ابویوسف سے فتوی طلب کیا انہوں نے کہاآپ اس کی بات کیوں مانتے ہیں یہ جھوٹ بھی بول سکتی ہے اس فتوے کے سہارے سے اس نے اس کے ساتھ بدفعلی کی ۔
علامہ سیوطی یہ بھی لکھتے ہیں کہ بادشاہ ہارون نے ایک لونڈی خریدکراس کے ساتھ اسی رات بلااستبراء جماع کرنا چاہا،قاضی ابویوسف نے کہاکہ اسے اپنے کسی لڑکے کوہبہ کرکے استعمال کرلیجئے علامہ سیوطی کاکہناہے کہ اس فتوی کی اجرت امام ابویوسف نے ایک لاکھ درہم لی تھی علامہ ابن خلکان کاکہناہے کہ ابوحنیفہ کے شاگردوں میں ابویوسف کی نظیرنہ تھی اگریہ نہ ہوتے توامام ابوحنیفہ کاذکربھی نہ ہوتا۔
تاریخ اسلام مسٹرذاکرحسین میں بحوالہ صحاح الاخبارمرقوم ہے کہ ہارون الرشیدکادرجہ سادات کشی میں منصورسے کم نہ تھا اس نے ۱۷۶ ھ میں حضرت نفس زکیہ علیہ الرحمة کے بھائی یحی کودیوارمیں زندہ چنوادیاتھا اسی نے امام موسی کاظم کواس اندیشہ سے کہ کہیں یہ ولی اللہ میرے خلاف علم بغاوت بلندنہ کردیں اپنے ساتھ حجازسے عراق میں لاکر قیدکردیااور ۱۸۳ ھ میں زہرسے ہلاک کردیا۔
علامہ مجلسی تحفة الزائرمیں لکھتے ہیں کہ ہارون الرشیدنے دوسری صدی ہجری میں امام حسین علیہ السلام کی قبرمطہرکی زمین جتوائی تھی اورقبرپرجوبیری کادرخت بطورنشان موجودتھا اسے کٹوادیاتھا ،جلاء العیون اورقمقام میں بحوالہ امالی شیخ طوسی مرقوم ہے کہ جب اس واقعہ کی اطلاع جریرابن عبدالحمیدکوہوئی توانہوں نے کہا کہ رسول خداصلعم کی حدیث”لعن اللہ قاطع السدرة“بیری کے درخت کاٹنے والے پرخداکی لعنت ہو، کامطلب اب واضح ہوا(تصویرکربلا ص ۶۱ طبع دہلی ص ۱۸۳۸) ۔
ہارون الرشیدکاپہلاحج اورامام موسی کاظم علیہ السلام کی پہلی گرفتاری
مورخ ابوالفداء لکھتاہے کہ عنان حکومت لینے کے بعد ہارون الرشیدنے ۱۷۳ ھ میں پہلے پہل حج کیا علامہ ابن حجرمکی تحریرفرماتے ہیں کہ ”جب ہارون الرشیدحج کوآیاتولوگوں نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں چغلی کھائی کہ ان کے پاس ہرطرف سے مال چلاآتاہے ،اتفاق سے ایک روزہارون رشیدخانہ کعبہ کے نزدیک حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے ملاقی ہوا اورکہنے لگاتم ہی ہوجن سے لوگ چھپ چھپ کربیعت کرتے ہیں امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایاکہ ہم دلوں کے امام ہیں اورآپ جسموں کے،ہارون رشیدنے امام موسی کاظم علیہ السلام سے پوچھاکہ تم کس دلیل سے کہتے ہوکہ ہم رسول اللہ کی ذریت ہیں حالانکہ تم علی کی اولادہواورہرشخص اپنے داداسے منتسب ہوتاہے ناناسے منتسب نہیں ہوتا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ خدائے کریم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے ”ومن ذریتہ داؤد وسلیمان وایوب وزکریاویحی وعیسی“ اورظاہرہے کہ حضرت عیسی بے باپ کے پیداہوئے تھے توجس طرح محض اپنی والدہ کی نسبت سے ذریت انبیاء میں ملحق ہوئے اسی طرح ہم بھی اپنی مادرگرامی حضرت فاطمہ کی نسبت سے جناب رسول خداکی ذریت ٹہرے، پھرفرمایا کہ جب آیہ مباہلہ نازل ہوئی تومباہلہ کہ وقت پیغمبرنے سواعلی اورفاطمہ اورحسن وحسین کے کسی کونہیں بلایا اوربفحوائے ”ابنانا“ حضرت حسن وحسین ہی رسول اللہ کے لیے بیٹے قرارپائے (صواعق محرقہ ص ۱۲۲ ،نورالابصار ص ۱۳۴ ،ارجح المطالب ص ۴۵۲) ۔
علامہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ ہارون رشیدحج کرنے کے بعد مدینہ منورہ آیااورزیارت کے لیے روضہ مقدسہ نبوی پرحاضرہوا اس وقت اس کے گردقریش اوردیگر قبائل عرب جمع تھے،نیزحضرت امام موسی کاظم بھی ساتھ تھے ہارون رشیدنے حاضرین پراپنافخرظاہرکرنے کے لیے قبرمبارک کی طرف ہوکرکہا، سلام ہوآپ پرائے رسول اللہ ،اے ابن عم(میرے چچازادبھائی) حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ سلام ہو، آپ پرائے میرے پدربزرگوار! یہ سن کرہارون کے چہرہ کارنگ فق ہوگیا،اوراس نے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کواپنے ہمراہ لے جاکر قیدکردیا(وفیات الاعیان جلد ۲ ص ۱۳۱ ، تاریخ احمدی ص ۳۴۹) ۔
علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں آپ ہارون رشیدکے قیدخانہ میں تھے ہارون نے آپ کاامتحان کرنے کے لیے ایک نہایت حسین وجمیل لڑکی، آپ کی خدمت کرنے کے لیے قیدخانہ میں بھیجدی حضرت نے جب اسے دیکھاتولانے والے سے فرمایاکہ ہارون سے جاکر کہہ دینا کہ انہوں نے یہ ہدیہ واپس کیاہے اورکہاہے کہ ”بل انتم بہدیتکم تفرحون“ وہ عطائے توبہ لقاء تواس سے تم ہی خوشی حاصل کرو، اس نے ہارون سے واقعہ بیان کیا، ہارون نے کہا کہ اسے لے جاکروہیں چھوڑآؤ، اورابن جعفرسے کہوکہ نہ میں نے تمہاری مرضی سے تمہیں قیدکیاہے اورنہ تمہاری مرضی سے تمہارے پاس یہ لونڈی بھیجی ہے، میں جوحکم دوں وہ کرناہوگاالغرض وہ لومڑی حضرت کے پاس چھوڑ دی گئی
چند دنوں کے بعد ہارون نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جاکر پتہ لگائے کہ اس لونڈی کا کےا رہا اس نے جو قید خانے میں جا کر دیکھا تو وہ حیران رہ گیا اور بھاگا ہوا ہارون کے پاس آکر کہنے لگا کہ وہ لونڈی توزمین پر سجدہ مےں پڑی ہوئی ”سبّوح قدّوس“ ۔کہہ رہی ہے۔اور اس کا عجیب حال ہے ۔ہارون نے حکم دیا کہ اسے اس کے سامنے پیش کیا جائے ، جب وہ آئی تو بالکل مبہوث تھی ،ہارون نے پوچھا کہ بات کیا ہے ،اس نے کہا کہ جب میں حضرت کے پاس گئی اور میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوئی ہوں ،تو آپ نے ایک طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ لوگ جب کہ میرے پاس موجود ہیں مجھے تیری کیا ضرورت ہے ،میں نے جب اس سمت کو نظر کی تو دیکھا کہ جنّت آراستہ ہے ،اورحوروغلماں موجودہے ان کاحسن وجمال دیکھ کرمیں سجدہ میں گرپڑی اورعبادت کرنے پرمجبورہوگئی ۔
اے بادشاہ میں نے وہ چیزیں کبھی نہیں دیکھیں جوقیدخانہ میں میری نظرسے گزریں، بادشاہ نے کہاکہ کہیں تونے سونے کی حالت میں خواب نہ دیکھاہو، اس نے کہااے بادشاہ ایسانہیں ہے میں نے عالم بیداری میں بچشم خودسب کچھ دیکھاہے یہ سن کربادشاہ نے اس عورت کوکسی محفوظ مقام پرپہنچادیا اوراس کے لیے حکم دیاگیاکہ اس کی نگرانی کی جائے تاکہ یہ کسی سے یہ واقعہ بیان نہ کرنے پائے ،راوی کابیان ہے کہ اس واقعہ کے بعدوہ تاحیات مشغول عبادت رہی اورجب کوئی اس کی نمازوغیرہ کے بارے میں کچھ کہتاتھا تویہ جواب میں کہتی تھی کہ میں نے عبدصالح امام موسی کاظم علیہ السلام کواسی طرح کرتے دیکھاہے۔
یہ پاکبازعورت حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی وفات سے چنددنوں پہلے فوت ہوگئی (مناقب ابن شہرآشوب جلد ۵ ص ۶۳) ۔
قیدخانہ سے آپ کی رہائی
آپ قیدخانہ میں تکالیف سے دوچارتھے، اورہرقسم کی سختیاں آپ پرکی جارہی تھیں کہ ناگاہ بادشاہ نے ایک خواب دیکھاجس سے مجبورہوکر اس نے آپ کورہاکردیا،علامہ ابن حجرمکی بحوالہ علامہ مسعودی لکھتے ہیں کہ ایک شب کوہارون رشیدنے حضرت علی علیہ السلام کوخواب میں اس طرح دیکھا کہ وہ ایک تیشہ لیے ہوئے تشریف لائے ہیں اورفرماتے ہیں کہ میرے فرزندکورہاکردے ورنہ میں ابھی تجھے کیفرکردارتک پہنچادوں گا اس خواب کودیکھتے ہی اس نے رہائی کاحکم دیا،اورکہاکہ اگرآپ یہاں رہناچاہیں تورہئے اورمدینہ جاناچاہتے ہیں توتشریف لے جائیے آپ کواختیارہے، علامہ مسعودی کاکہناہے کہ اسی شب کوحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے حضرت محمدمصطفی صلعم کوخواب میںدیکھاتھا (صواعق محرقہ ص ۱۲۲ طبع مصر،علامہ جامی لکھتے ہیں کہ مدینہ روانہ کرتے وقت ہارون نے آپ سے خروج کاشبہ ظاہرکیا آپ نے فرمایاکہ خروج وبغاوت میرے شایان شان نہیں ہے خداکی قسم میں ایساہرگزنہیں کرسکتا(شواہدالنبوت ص ۱۹۲) ۔
امام موسی کاظم علیہ السلام اورعلی بن یقطین بغدادی
قیدخانہ رشیدسے چھوٹنے کے بعدحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام مدینہ منورہ پہنچے اوربدستوراپنے فرائض امامت کی ادائیگی میں مشغول ہوگئے، آپ چونکہ امام زمانہ تھے اس لیے آپ کوزمانہ کے تمام حوادث کی اطلاع تھی ۔
ایک مرتبہ ہارون رشیدنے علی بن یقطین بن موسی کوفی بغدادی کہ جوکہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے خاص ماننے والے تھے اوراپنی کارکردگی کی وجہ سے ہارون رشیدکے مقربین میں سے تھے ،بہت سی چیزیں دیں جن میں خلعت فاخرہ اورایک بہت عمدہ قسم کاسیاہ زربفت کابناہوا چغہ تھا جس پرسونے کے تاروں سے پھول کڑھے ہوئے تھے اورجسے صرف خلفاء اوربادشاہ پہناکرتے تھے علی ین یقطین نے ازراہ تقرب وعقیدت اس سامان میں اوربہت سی چیزوں کااضافہ کرکے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میںبھیج دیا آپ نے ان کاہدیہ قبول کرلیا ،لیکن اس میں سے اس لباس مخصوص کوواپس کردیا جوزربفت کابناہواتھا اورفرمایاکہ اسے اپنے پاس رکھو، یہ تمہارے اس وقت کام آئے گاجب ”جان جوکھم“ میں پڑی ہوگی انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ امام نہ جانے کس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایاہواسے اپنے پاس رکھ لیا تھوڑے دنوں کے بعدابن یقطین اپنے ایک غلام سے ناراض ہوگئے اوراسے اپنے گھرسے نکال دیا اس نے جاکررشیدخلیفہ سے ان کی چغلی کھائی اورکہاکہ آپ نے جس قدرخلعت وغیرہ انہیں دی ہے انہوں نے سب کاسب امام موسی کاظم علیہ السلام کودیدیاہے،اور چونکہ وہ شیعہ ہیں، اس لیے امام کوبہت مانتے ہیں، بادشاہ نے جونہی یہ بات سنی، وہ آگ بگولہ ہوگیااوراس نے فوراسپاہیوں کوحکم دیا کہ علی بن یقطین کواسی حالت میں گرفتارکرلائیں جس حال میں ہوہوں ،الغرض ابن یقطین لائے گئے ،بادشاہ نے پوچھامیرادیاہواچغہ کہاں ہے؟
انہوں نے کہابادشاہ میرے پاس ہے اس نے کہامیں دیکھناچاہتاہوں اورسنو! اگرتم اس وقت اسے نہ دیکھاسکے تومیں تمہاری گردن ماردوں گا، انہوں نے کہابادشاہ میں ابھی پیش کرتاہوں، یہ کہہ کرانہوں نے ایک شخص سے کہاکہ میرے مکان میں جاکرمیرے فلاں کمرہ سے میراصندوق اٹھالا، جب وہ بتایاہواصندوق لے آیاتوآپ نے اس کی مہرتوڑی اورچغانکال کراس کے سامنے رکھ دیا، جب بادشاہ نے اپنی آنکھوں سے چغہ دیکھ لیا،تواس کاغصہ ٹھنڈاہوا، اورخوش ہوکرکہنے لگا، کہ اب میں تمہارے بارے میں کسی کی کوئی بات نہ مانوں گا(شواہد النبوت ص ۱۹۴) ۔
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ پھراس کے بعدرشیدنے اوربہت ساعطیہ دے کرانہیں عزت واحترام کے ساتھ واپس کردیا اورحکم دیاکہ چغلی کرنے والے کوایک ہزارکوڑے لگائے جائیں چنانچہ جلادوں نے مارناشروع کیااوروہ پانچ سوکوڑے کھاکرمرگیا(بحارالانوار ص ۱۳۰) ۔
علی ابن یقطین کوالٹاوضوکرنے کاحکم
علامہ طبرسی اورعلامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ علی بن یقطین نے امام موسی کاظم علیہ السلام کوایک خط لکھاجس میں تحریرکیاکہ ”ہمارے درمیان“ اس امرمیں بحث ہورہی ہے کہ آیامسح کعب سے اصابع(انگلیوں) تک ہوناچاہئے یاانگلیوں سے کعب تک حضوراس اس کی وضاحت فرمائیں، حضرت نے اس خط کاایک عجیب وغریب جواب تحریرفرمایا آپ نے لکھا کہ میراخط پاتے ہی تم اس طرح وضوشروع کروکہ تین مرتبہ کلی کرو، تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالو،تین مرتبہ منہ دھوؤ،اپنی ڈاڈھی کواچھی طرح بھگوؤ،سارے سرکامسح کرو،اندرباہرکانوں کامسح کرو،تین مرتبہ پاؤں دھوؤ اوردیکھومیرے اس حکم کے خلا ف ہرگزہرگزنہ کرنا۔
علی بن یقطین نے جب اس خط کوپڑھا،حیران رہ گئے لیکن یہ سمجھتے ہوئے کہ ”مولائی اعلم بماقال“ آپ نے جوکچھ حکم دیاہے اس کی گہرائی اوراس کوجہ کااچھی طرح آپ کوعلم ہوگا اس پرعمل کرناشروع کردیا۔
راوی کابیان ہے کہ علی بن یقطین کی مخالفت برابردربارمیں ہواکرتی تھی اورلوگ بادشاہ سے کہاکرتے تھے کہ یہ شیعہ ہے اورتمہارے مخالف ہے ایک دن بادشاہ نے اپنے بعض مشیروں سے کہاکہ علی بن یقطین کی شکایات بہت ہوچکی ہیں،اب میں خودچھپ کردیکھوں گا اوریہ معلوم کروں گاکہ وضوکیونکہ کرتے اورنمازکیسے پڑھتے ہیں ،چنانچہ اس نے چھپ کرآپ کے حجرہ میں نظرڈالی تودیکھاکہ وہ اہل سنت کے اصول اورطریقے پروضوکررہے ہیں یہ دیکھ کروہ ان سے مطمئن ہوگیااوراس کے بعدسے پھرکسی کے کہنے کوباورنہیں کیا۔
اس واقعہ کے فورا بعدامام موسی کاظم علیہ السلام کاخط علی بن یقطین کے پاس پہنچا جس میں مرقوم تھا کہ خدشہ دورہوگیا”توضاء کماامرک اللہ“ اب تم اسی طرح وضوکرو،جس طرح خدانے حکم دیاہے یعنی اب الٹاوضونہ کرنا،بلکہ سیدھااورصحیح وضوکرنااورتمہارے سوال کاجواب یہ ہے کہ انگلیوں کے سرے سے کعبین تک پاؤں کامسح ہوناچاہئے (اعلام الوری ص ۱۷۰ ،مناقب جلد ۵ ص ۵۸) ۔
وزیراعظم علی بن یقطین کوامام موسی کاظم کی فہمایش
علامہ حسین بن عبدالوہاب تحریرفرماتے ہیں کہ ”محمدبن علی صوفی کابیان ہے کہ ابراہیم جمال(جوامام موسی کاظم کے صحابی تھے) نے ایک دن ابوالحسن علی بن یقطین سے ملاقات کے لیے وقت چاہاانہوں نے وقت نہ دیا،اسی سال وہ حج کے لیے گئے اورحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بھی تشریف لے گئے ابن یقطین حضرت سے ملنے کے لیے گئے انہوں نے ملنے سے انکارکردیا،ابن یقطین کوبڑاتعجب ہوا،راستے میں ملاقات ہوئی توحضرت نے فرمایاکہ تم نے ابراہیم سے ملاقات کرنے سے انکارکیاتھا اس لیے میں بھی تم سے نہیں ملااوراس وقت تک نہ ملوں گا جب تک تم ان س معافی نہ مانگوگے اورانہیں راضی نہ کروگے ،ابن یقطین نے عرض کی مولامیں مدینہ میں ہوں اوروہ کوفہ میں ہیں، فوری ملاقات کیسے ہوسکتی ہے، فرمایاتم تنہابقیع میں جاؤ،ایک اونٹ تیارملے گااوراونٹ پرسوارہوکر کوفہ کے لیے روانہ ہوچشم زدن میں وہاں پہنچ جاؤگے چنانچہ وہ گئے اوراونٹ پرسوارہوکر کوفہ پہنچے ،ابراہیم کے دروازہ پردق الباب کیا آوازآئی کون ہے؟ کہامیں ابن یقطین ہوں ، انہوں نے کہا،تمہارامیرے دروازہ پرکیاکام ہے؟
ابن یقطین نے جواب دیا،سخت مصیبت میں مبتلاہوں، خداکے لیے ملنے کاوقت دو، چنانچہ انہوں نے اجازت دی، ابن یقطین نے قدموں پرسررکھ کرمعافی مانگی اورساراواقعہ کہہ سنایا ابراہیم نے معافی دی پھراسی اونٹ پرسوار ہوکر چشم زدن میں مدینہ پہنچے اورامام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئے، امام نے بھی معاف کردیااورملاقات کاوقت دے کرگفتگوفرمائی (عیون المعجزات ص ۱۲۳ طبع ملتان)۔
امام موسی کاظم اورفدک کے حدوداربعہ
علامہ یوسف بغدادی سبط ابن جوزی حنفی تحریرفرماتے ہیں کہ ایک دن ہارون الرشیدنے حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام سے کہاکہ آپ فدک لیناچاہیں تومیں دیدوں ،آپ نے فرمایاکہ میں جب اس کے حدودبتاؤں گاتوتواسے دینے پرراضی نہ ہوگا اورمیں اسی وقت لے سکتاہوں جب اس کے پورے حدوددئیے جائیں، اس نے پوچھااس کے حدودکیاہیں فرمایا پہلی حد،عدن ہے دوسری سمرقندہے تیسری حدافریقہ ہے چوتھی حدسیف البحرہے جوخزراورآرمینیہ کے قریب ہے یہ سن کرہارون رشیدآگ بگولہ ہوگیا اورکہنے لگاکہ پھرہمارے لیے کیارہا؟ حضرت نے فرمایاکہ اسی لیے تومیں نے لینے سے انکارکیاتھا اس واقعہ کے بعدہی سے ہارون رشیدحضرت کے درپئے قتل ہوگیا (خواص الامة علامہ سبط ابن جوزی س ۴۱۶) ۔
امام موسی کاظم علیہ السلام کے دوبارہ گرفتاری
علامہ ابن شہرآشوب،علامہ طبرسی،علامہ اربلی،علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ۷۰ ۔ ۱۶۹ ھ میں ہادی کے بعدہارون تخت خلافت پربیٹھا، سلطنت عباسیہ کے قدیم روایات جوسادات بنی فاطمہ کی مخالفت میں تھے اس کے پیش نظرتھے، خوداس کے باپ منصورکارویہ جوامام صادق علیہ السلام کے خلاف تھا، اسے معلوم تھا ،اس کایہ ارادہ کے جعفرصادق کے جانشین کوقتل کرڈالاجائے ،یقینااس کے بیٹے ہاؤوں کومعلوم ہوچکاہوگا ،وہ توامام جعفرصادق علیہ السلام کی حکیمانہ وصیت کااخلاقی دباؤتھا جس نے منصورکے ہاتھ باندھ دئے تھے اورپھرشہربغداد کی تعمیرکی مصروفیت تھی جس نے اسے اس جانب متوجہ نہ ہونے دیاتھا، اب ہارون کے لیے سب سے پہلے یہی تصورپیداہوسکتاتھا کہ اس روحانیت کے مرکزکوجومدینہ کے محلہ بنی ہاشم میں قائم ہے توڑنے کی کوشش کی جائے، مگرایک طرف امام موسی کاظم علیہ السلام کامحتاط اورخاموش طرزعمل اوردوسری طرف سلطنت کی اندرونی مشکلات ان کی وجہ سے نوبرس تک ہارون رشیدکوبھی کسی کھلے ہوئے تشدد کاامام کے خلاف موقع نہ ملا۔
اسی دوران یں عبداللہ ابن حسن کے فرزندیحی کاواقعہ درپیش ہوااوروہ امان دئیے جانے کے بعد تمام عہدوپیمان توڑکردردناک طریقے پرقیدرکھے گئے اورپھر قتل کئے گئے باوجودیکہ یحی کے معاملات سے امام موسی کاظم علیہ السلام کوکسی طرح کاسروکارنہ تھا، بلکہ واقعات سے ثابت ہوتاہے کہ حضرت ان کوحکومت کی مخالفت سے منع فرماتے تھے مگرعداوت بنی فاطمہ کاجذبہ جویحی بن عبداللہ کی مخالفت کے بہانے سے ابھرگیاتھا ،اس کی زد سے امام موسی کاظم علیہ السلام بھی محفوظ نہ رہ سکے، ادھریحی بن خالدبرمکی نے جووزیراعظم تھا،امین (فرزندہارون رشید) کے اتالیق جعفربن محمداشعث کی رقابت میں اس کے خلاف یہ الزام قائم کیاکہ یہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے شیعوں میں سے ہے اوران کے اقتدارکاخواہاں ہے۔
براہ راست اس کامقصدہارون کوجعفرسے برگشتہ کرناتھا ،لیکن بالواسطہ اس کاتعلق حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کے ساتھ بھی تھا اس لئے ہارون کو حضرت کی ضرررسانی کی فکرپیداہوگئی اسی دوران میں یہ واقعہ ہواکہ ہارون رشیدحج کے ارادہ سے مکہ معظمہ میں آیا اتفاق سے اسی سال حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام بھی حج کوتشریف لائے ہوئے تھے ہارون نے اپنی آنکھوں سے اس عظمت ومرجعیت کامشاہدہ کیاجو مسلمانوں میں امام موسی کاظم کے متعلق پائی جاتی تھی اس سے اس کے حسدکی آگ بھڑک اٹھی اس کے بعداس میں محمدبن اسماعیل کی مخالفت نے اوراضافہ کردیا۔
واقعہ یہ ہے کہ اسماعیل ،امام جعفرصادق علیہ السلام کے بڑے فرزندتھے اوراس لیے ان کی زندگی میں عام طورپرلوگوں کاخیال یہ تھا، کہ وہ امام جعفرصادق علیہ السلام کے قائم مقام ہوں گے مگر ان کاانتقال امام جعفرصادق علیہ السلام کے زمانے میں ہوگیااورلوگوں کایہ خیال غلط ثابت ہوا، پھربھی بعض سادہ لوح اس اصحاب اس خیال پررہے کہ جانشینی کاحق اسماعیل اوراولاداسماعیل میں منحصرہے انہوں نے امام موسی کاظم علیہ السلام کی امامت کوتسلیم نہیں کیاچنانچہ اسماعیلیہ فرقہ بن گیا مختصرتعدادمیں صحیح اب بھی دنیامیں موجودہے محمدان ہی اسماعیل کے فرزندتھے اوراس لیے امام موسی کاظم علیہ السلام سے ایک طرح کی مخالفت پہلے سے رکھتے تھے مگرچونکہ ان کے ماننے والوں کی تعداد بہت کم تھی اوروہ افرادکوئی نمایاں حیثیت نہ رکھتے تھے اس لیے ظاہری طورپرامام موسی کاظم کے یہاں آمدورفت رکھتے تھے اورظاہری طورپرقرابت داری کے تعلقات قائم کئے ہوئے تھے۔
ہارون رشیدنے امام موسی کاظم علیہ السلام کی مخالفت کی صورتوں پرغورکرتے ہوئے یحی برمکی سے مشورہ لیا، کہ میں چاہتاہوں کہ اولادابوطالب میں سے کسی کو بلاکراس سے موسی بن جعفرکے پورے حالات دریافت کروں یحی جوخودبھی عداوت بنی فاطمہ میں ہارون سے کم نہ تھا اس نے محمدبن اسماعیل کاپتہ دیا، کہ آپ ان کوبلاکر دریافت کریں، توصحیح حالات معلوم ہوسکیں گے، چنانچہ اسی وقت محمدبن اسماعیل کے نام خط لکھاگیا۔
شہنشاہ وقت کاخط جومحمدبن اسماعیل کوپہنچاتواس نے اپنی دنیاوی کامیابی کابہترین ذریعہ سمجھ کرفورا بغداد جانے کاارادہ کرلیامگران دنوں ہاتھ بالکل خالی تھا، اتناروپیہ پاس موجودنہ تھا کہ سامان سفرکرتے ، مجبورااسی ڈیوڑھی پرآناپڑاجہاں کرم وعطاء میں دوست اوردشمن کی تفریق نہ تھی امام موسی کاظم علیہ السلام کے پاس آکربغدادجانے کاارادہ ظاہرکیاحضرت خوب سمجھتے تھے کہ اس بغدادکے سفرکاپس منظراوراس کی بنیاد کیاہے حجت تمام کرنے کی غرض سے آپ نے سفرکاسبب دریافت کیاانہوں نے اپنی پریشان حالی بیان کرتے ہوئے کہا قرضداربہت ہوگیاہوں، خیال کرتاہوں کہ شایدوہاں جاکرکوئی صورت بسر اوقات کی نکلے اورمیراقرضہ اداہوجائے حضرت نے فرمایا،وہاں جانے کی ضرروت نہیں ہے میں وعدہ کرتاہوں کہ تمہاراتمام قرضہ اداکردوں گا اورجہاں تک ہوگاتمہارے ضروریات زندگی بھی پورے کرتارہوں گا۔
افسوس ہے کہ محمدنے اس کے بعدبھی بغدادجانے کاارادہ نہیں بدلاچلتے وقت حضرت سے رخصت ہونے لگے توعرض کیاکہ مجھے وہاں کے متعلق کچھ ہدایت فرمائی جائے ، حضرت نے اس کاکچھ جواب نہ دیا جب انہوں نے کئی مرتبہ اصرارکیاتوحضرت نے فرمایاکہ ”بس اتناخیال رکھناکہ میرے خون میں شریک نہ ہونا،اورمیرے بچوں کی یتمی کاباعث نہ بننا“ محمدنے اس کے بعدبہت کہاکہ یہ بھلاکونسی بات ہے جومجھ سے کہی جاتی ہے کچھ اورہدایت فرمائیے حضرت نے اس کے علاوہ کچھ کہنے سے انکارکیا، جب وہ چلنے لگاتوحضرت نے ساڑھے چارسودیناراورپندرہ سودرہم انہیں مصارف سفرکے لیے عطا فرمائے نتیجہ وہی ہوا،جوحضرت کے پیش نظرتھا،محمدبن اسماعیل بغدادپہنچے اوروزیراعظم برمکی کے مہمان ہوئے اس کے بعدیحی کے ساتھ ہارون کے دربارمیں پہنچے ،مصلحت وقت کی بناپربہت تعظیم وتکریم کی گئی ،اثناء گفتگومیں ہارون نے مدینہ کے حالات دریافت کئے محمدنے انتہائی غلط بیانیوں کے ساتھ وہاں کے حالات کاتذکرہ کیااوریہ بھی کہا کہ”میں نے آج تک نہیں دیکھا اورنہ سناکہ ایک ملک میں دوبادشاہ ہوں“۔
اس نے کہا: کہ اس کامطلب ؟ محمدنے کہاکہ بالکل اسی طرح جیسے آپ بغدادمیں سلطنت کررہے ہیں،موسی کاظم مدینہ میں اپنی سلطنت قائم کئے ہوئے ہیں، اطراف ملک سے ان کے پاس خراج پہنچتاہے اوروہ آپ کے مقابلہ کے دعوے دارہیں انہوں نے تیس ہزاراشرفی کی ایک زمین خریدی ہے جس کانام ”سیریہ“(شبلنجی) یہی وہ باتیں تھیں جن کے کہنے کے لیے یحی برمکی نے محمدکومنتخب کیاتھا، ہارون کاغیظ وغضب انتہائی اشتغال کے درجہ تک پہنچ گیااس نے محمد کودس ہزاردینارعطاکرکے رخصت کیاخداکاکرنایہ کہ محمدکواس رقم سے فائدہ اٹھانے کاایک دن بھی موقع نہیں ملا، اسی شب کوان کے حلق میں دردپیداہوا، غالبا ”خناق“ ہوگیااورصبح ہوتے ہوتے وہ دنیاسے رخصت ہوگئے ہارون کویہ خبرپہنچی تواس نے اشرفیوں کے توڑے واپس منگوالیے ،مگرمحمدکی باتوں کااثراس کے دل پرایساجم گیاتھا کہ اس نے یہ طے کرلیاکہ امام موسی کاظم کانام صفحہ ہستی سے مٹادیاجائے۔
چنانچہ ۱۷۹ ھ میں پھرہارون رشیدنے مکہ کاسفرکیااوروہاں سے مدینہ منورہ گیا، دوایک روز قیام کے بعد کچھ لوگ امام موسی کاظم علیہ السلام کو گرفتارکرنے کے لیے روانہ کیے جب یہ لوگ امام کے مکان پرپہنچے تومعلوم ہواکہ حضرت روضئہ رسول اللہ پرہیں ان لوگوں نے روضئہ رسول کی عزت کابھی خیال نہ کیاحضرت اس وقت قبررسول کے نزدیک نمازمیں مشغول تھے بے رحم دشمنوں نے آپ کونمازکی حالت میں قیدکرلیا، اورہارون کے پاس لے گئے مدینہ رسول کے رہنے والوں میں بے حسی اس کے پہلے بھی بہت دفعہ دیکھی جاچکی تھی یہ بھی اس کی ایک مثال تھی کہ رسول کافرزندروضہ رسول سے اس طرح گرفتارکرکے لے جایاجارہاتھامگرنام ونہادمسلمانوں میں ایک بھی ایسانہ تھاجوکسی طرح کی آوازاحتجاج بلندکرتا، یہ ۲۰/ شوال ۱۷۹ ھ کاواقعہ ہے۔
ہارون نے اس اندیشہ سے کہ کوئی جماعت امام موسی کاظم کورہاکرانے کی کوشش نہ کرے، دومحملیں تیارکرائیں ایک میں امام موسی کاظم کوسوارکرایااوراس کی ایک بہت بڑی فوجی جمعیت کے حلقہ میں بصرہ روانہ کیااوردوسری محمل جوخالی تھی اسے بھی اتنی ہی جمعیت کی حفاظت میں بغدادروانہ کیامقصدیہ تھاکہ آپ کے محل قیام اورقیدکی جگہ کوبھی مشکوک بنادیاجائے یہ نہایت حسرتناک واقعہ تھاکہ امام کے اہل حرم اوربچے وقت رخصت آپ کودیکھ بھی نہ سکے اوراچانک محل سرامیں صرف یہ اطلاع پہنچ سکی کہ حضرت سلطنت وقت کی طرف سے قیدکرلیے گئے اس سے بیویوں اوربچوں میں کہرام برپاہوگیااوریقیناامام کے دل پربھی اس کاصدمہ ہوسکتاہے وہ ظاہرہے مگر آپ کے ضبط وصبرکی طاقت کے سامنے ہر مشکل آسان تھی۔
معلوم نہیں کتنے ہیرپھیرسے راستہ طے کیاگیاتھاکہ پورے ایک مہینہ سترہ روزکے بعد ۷/ ذی الحجہ کوآپ بصرہ پہنچائے گئے ایک سال تک آپ بصرہ میں قید رہے یہاں کاحاکم ہارون کاچچازادبھائی عیسی بن جعفرتھا، شروع میں تواسے صرف بادشاہ کے حکم کی تعمیل مدنظرتھی، بعدمیں اس نے غورکرناشروع کیاکہ آخر ان کے قیدکئے جانے کاسبب کیاہے؟
اس سلسلہ میں اس کوامام علیہ السلام کے حالات اورسیرت زندگی اوراخلاق واوصاف کی جستجوکاموقع بھی ملا، اورجتنا اس نے امام کی سیرت کامطالعہ کیااتنااس کے دل پرآپ کی بلندی اخلاق اورحسن کردارکااثرقائم ہوتاگیا اپنے ان اثرات سے اس نے ہارون کومطلع بھی کردیا، ہارون پراس کاالٹااثرہواکہ عیسی کے متعلق بدگمانی پیداہوگئی اس لیے اس نے امام موسی کاظم علیہ السلام کو بغدادمیں بلابھیجااورفضل بن ربیع کی حراست میں دیدیااورپھرفضل کارجحان شیعیت کی طرف محسوس کرکے یحی برمکی کواس کے لیے مقررکیامعلوم ہوتاہے کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے اخلاق واوصاف کی کشش ہرایک پراثرڈالتی تھی اس لیے ظالم بادشاہ کونگرانوں کی تبدیلی کی ضرورت پڑتی تھی سب سے آخرمیں امام علیہ السلام ”سندی بن شاہک“ کے قیدخانہ میں رکھے گئے یہ بہت ہی بے رحم اورسخت دل تھا ملاحظہ ہو(مناقب جلد ۵ ص ۶۸ ، اعلام الوری ص ۱۸۰ ، کشف الغمہ ص ۱۰۸ ، نورالابصار ص ۱۳۶ ، سوانح امام موسی کاظم ص ۱۵) ۔
امام علیہ السلام کاقیدخانہ میں امتحان اورعلم غیب کامظاہرہ
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں آپ ہارون رشیدکے قیدخانہ کی سختیاں برداشت فرمارہے تھے امام ابوحنیفہ کے شاگردرشیدابویوسف اورمحمدبن حسن ایک شب قیدخانہ میں اس لیے گئے کہ آپ کے بحرعلم کی تھاہ معلوم کریں اوردیکھیں کہ آپ علم کے کتنے پانی میں ہیں وہاں پہنچ کران لوگوں نے سلام کیا،امام علیہ السلام نے جواب سلام عنایت فرمایا،ابھی یہ حضرات کچھ پوچھنے نہ پائے تھے کہ ایک ملازم ڈیوٹی ختم کرکے گھرجاتے ہوئے آپ کی خدمت میں عرض پردازہواکہ میں کل واپس آؤں گااگرکچھ منگاناہوتومجھ سے فرمادیجیے میں لیتاآؤں گا آپ نے ارشادفرمایامجھے کسی چیزکی ضرورت نہیں، جب وہ چلاگیاتوآپ نے ابویوسف وغیرہ سے کہاکہ یہ بیچارہ مجھ سے کہتاہے کہ میں اس سے اپنی حاجت بیان کروں تاکہ یہ کل اس کی تکمیل وتعمیل کردے لیکن اسے خبرنہیں، کہ یہ آج رات کووفات پاجائے گا،ان حضرات نے جویہ سناتوسوال وجواب کئے بغیرہی واپس چلے آئے اورآپس میں کہنے لگے کہ ہم ان سے حلال وحرام ،واجب وسنت کے متعلق سوالات کرناچاہتاتھے ”فاخذیتکلم معناعلم الغیب“ مگریہ توہم سے علم غیب کی باتیں کررہے تھے اس کے بعدان دونوں حضرات نے اس ملازم کے حالات کاپتہ لگایا،تومعلوم ہواکہ وہ ناگہانی طورپررات ہی میں وفات کرگیایہ معلوم کرکے یہ حضرات سخت متعجب ہوئے(نورالابصار ص ۱۴۶) ۔
علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعدیہ حضرات پھرامام علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پردازہوئے کہ ہمیں معلوم تھاکہ آپ کوصرف علم حلال وحرام ہی میں مہارت حاصل ہے لیکن قیدخانہ کے ملازم نے واضح کردیا،کہ آپ علم المنایااورعلم غیب بھی جانتے ہیں آپ نے ارشادفرمایا کہ یہ علم ہمارے لیے مخصوص ہے اس کی تعلیم حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کودی تھی ،اوران سے یہ علم ہم تک پہنچاہے۔
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ جب ہارون رشیدن بصرہ میں ایک سال قیدرکھنے کے بعدعیسی ابن جعفروالی بصرہ کولکھاکہ موسی بن جعفر(امام موسی کاظم)کوقتل کرکے بادشاہ کوان کے وجودسے سکون دے دیے تواس نے اپنے ہمدردوں سے مشورہ کے بعدہارون رشیدکولکھاکہ اے بادشاہ امام موسی کاظم علیہ السلام میں میں نے اس ایک سال کے اندرکوئی برائی نہیں دیکھی یہ شب وروزنمازروزہ میں مصروف ومشغول رہتے ہیں عوام اورحکومت کے لیے دعائے خیرکیاکرتے ہیں اورملک کی فلاح وبہبودکے خواہشمندہیں بھلامجھ سے کیونکرہوسکتاہے کہ میں انہیں قتل کرکے اپنی عاقبت بگاڑوں۔
”اے بادشاہ ! میں ان کے قتل کرنے میں اپنے انجام اوراپنی عاقبت کی تباہی دیکھ رہاہوں اورسخت حرج محسوس کرتاہوں، لہذاتومجھے اس گناہ عظیم کے ارتکاب سے معاف کربلکہ مجھے حکم دیدے کہ میں انہیں قیدمشقت سے رہاکردوں اس خط کے پانے کے بعدہارون رشیدنے اخر میں یہ کام سندی بن شاہک کے حوالہ کیا اوراسی سے آپ کوزہردلواکرشہیدکرادیازہرکھانے کے بعدآپ تین روزتک تڑپتے رہے، یہاں تک کہ وفات پاگئے (نورالابصار ص ۱۳۷) ۔
علامہ جامی لکھتے ہیں کہ زہرکھاتے ہی آپ نے فرمایاکہ آج مجھے زہردیاگیا ہے کل میرابدن زردہوجائےگا اورتیسرے سیاہ ہوگا اوراسی دن میں اس دنیاسے رخصت ہوجاؤں گاچنانچہ ایساہی ہوا(شواہدالنبوت ص ۱۹۳) ۔
علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں کہ ہارون رشیدنے آپ کوبغدادمیں قیدکردیا ”فلم یخرج من حبسہ الامیتامقیدا“ اورتاحیات قیدرکھاآپ کی وفات کے بعدوفات کے بعدہتھکڑی اوربیڑی کٹوائی گئی آپ کی وفات ہارون رشیدکے زہرسے ہوئی جواس نے ابن شاہک کے ذریعہ سے دلوایا تھا جب آپ کوکھانے یاخرمہ میں زہردیاگیاتوآپ تین روزتک تڑپتے رہے یہاں تک کہ انتقال ہوگیا(صواعق محرقہ ۱۳۲ ،ارحج المطالب ص ۴۵۴)
علامہ ابن الساعی علی بن انجب بغدادی لکھتے ہیں کہ آپ کوزہرسے انتہائی مظلومی کی حالت میں شہیدکردیاگیا(اخبارالخلفاء) علامہ ابوالفداء لکھتے ہیں کہ قیدخانہ رشیدمیں آپ نے وفات پائی (ابوالفداء جلد ۲ ص ۱۵۱) ،علامہ دیار بکری لکھتے ہیں کہ آپ کوہارون رشیدکے حکم سے یحی بن خالدبرمکی
وزیراعظم نے خرمہ میں زہردے کرشہیدکردیا(تاریخ خمیس جلد ۲ ص ۳۲۰) ۔
علامہ جامی لکھتے ہیں کہ آپ کوہارون رشیدنے بغدادمیں لاکرتاعمرقیدرکھاآخرمیں اپنے وزیراعظم یحی برمکی کے ذریعہ سے قیدخانہ میں زہردلوایااورآپ وفات پاگئے (شواہدالنبوت ص ۱۹۳) ۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ آپ کوکئی مرتبہ زہردیاگیالیکن آپ ہربارمحفوظ رہے ایک مرتبہ آپ نے وہ خرمہ اٹھاکرجس میں زہرتھا زمیں پرپھینک دیاجسے ہارون کے کتے نے کھالیااوروہ مرگیا کتے کے مرنے کی خبرسے ہارون رشیدکو شدید رنج ہوااوراس نے خادم سے سخت بازپرس کی (جلاء العیون ص ۲۷۶) ۔
تعداداولاد صواعق محرقہ میں ہے کہ آپ کے ۳۷ اولادتھی