حضرت امام زین العابدین علیہ السلام(حصہ دوم)
حضرت امام زین العابدین کی شان عبادت
جس طرح آپ کی عبادت گزاری میں پیروی ناممکن ہے اسی طرح آپ کی شان عبادت کی رقم طرازی بھی دشوارہے ایک وہ ہستی جس کامطمع نظرمعبودکی عبادت اورخالق کی معرفت میں استغراق کامل ہواورجواپنی حیات کامقصداطاعت خداوندی ہی کوسمجھتاہواورعلم ومعرفت میں حددرجہ کمال رکھتاہو اس کی شان عبادت کی سطح قرطاس پرکیونکر لایاجاسکتاہے اورزبان قلم میں کس طرح کامیابی حاصل کرسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ علماء کی بے انتہاکاہش وکاوش کے باوجود آپ کی شان عبادت کامظاہرہ نہیں ہوسکا ”قدبلغ من العبادة مالم یبلغہ احد“ آپ عبادت کی اس منزل پرفائزتھے جس پرکوئی بھی فائزنہیں ہوا (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۹) ۔
اس سلسلہ میں ارباب علم اورصاحبان قلم جوکچھ کہہ اورلکھ سکے ہیں ان میں سے بعض واقعات وحالات یہ ہیں :
آپ کی حالت وضو کے وقت
وضونمازکے لیے مقدمہ کی حیثیت رکھتاہے ،اوراسی پرنمازکادارومدارہوتاہے ، امام زین العابدین علیہ السلام جس وقت مقدمہ نمازیعنی وضوکا ارادہ فرماتے تھے آپ کے رگ وپے میں خوف خداکے اثرات نمایاں ہوجاتے تھے ،علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جب آپ وضوکا قصد فرماتے تھے اوروضوکے لیے بیٹھتے تھے توآپ کے چہرہ مبارک کارنگ زردہوجایاکرتاتھا یہ حالت بارباردیکھنے کے بعدان کے گھروالوں نے پوچھا کہ بوقت وضوآپ کے چہرہ کارنگ زردکیوں پڑجایاکرتاہے توآپ نے فرمایاکہ اس وقت میراتصورکامل اپنے خالق ومعبودکی طرف ہوتاہے اس لیے اس کی جلالت کے رعب سے میرایہ حال ہوجایاکرتاہے (مطالب السؤل ص ۲۶۲) ۔
عالم نمازمیں آپ کی حالت
علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کوعبادت گزاری میں امتیاز کامل حاصل تھا رات بھرجاگنے کی وجہ سے آپ کاسارابدن زردرہاکرتاتھا اورخوف خدامیں روتے روتے آپ کی آنکھیں پھول جایاکرتی تھیں اورنمازمیں کھڑکھڑے آپ کے پاؤں سوج جایاکرتے تھے (اعلام الوری ص ۱۵۳) اورپیشانی پرگھٹے رہاکرتے تھے اورآپ کی ناک کاسرازخمی رہاکرتاتھا (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۹) علامہ محمدبن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جب آپ نمازکے لے مصلی پرکھڑے ہواکرتے تھے تولرزہ براندام ہوجایاکرتے تھے لوگوں نے بدن میں کپکپی اورجسم میںتھرتھری کاسبب پوچھاتوارشادفرمایا کہ میں اس وقت خداکی بارگاہ میں ہوتاہوں اوراس کی جلالت مجھے ازخود رفتہ کردیتی ہے اورمجھ پرایسی حالت طاری کردیتی ہے (مطالب السؤل ص ۲۲۶) ۔ ایک مرتبہ آپ کے گھرمیں آگ لگ گئی اورآپ نمازمیں مشغول تھے اہل محلہ اورگھروالوں نے بے حدشورمچایا اورحضرت کوپکارا حضورآگ لگی ہوئی ہے مگر آپ نے سرنیازسجدئہ بے نیازسے نہ اٹھایا، آگ بجھادی گئی اختتام نمازپرلوگوں نے آپ سے پوچھاکہ حضورآگ کامعاملہ تھا ہم نے اتناشورمچایا لیکن آپ نے کوئی توجہ نہ فرمائی۔
آپ نے ارشادفرمایا ”ہاں“ مگرجہنم کی آگ کے ڈرسے نمازتوڑکراس آگ کی طرف متوجہ نہ ہوسکا (شواہدالنبوت ص ۱۷۷) ۔
علامہ شیخ صبان مالکی لکھتے ہیں کہ جب آپ وضوکے لیے بیٹھتے تھے تب ہی سے کانپنے لگتے تھے اورجب تیزہواچلتی تھی توآپ خوف خداسے لاغرہوجانے کی وجہ سے گرکربے ہوش ہوجایاکرتے تھے (اسعاف الراغبین برحاشیہ نورالابصار ۲۰۰) ۔
ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت زین العابدین علیہ السلام نمازشب سفروحضردونوں میں پڑھاکرتے تھے اورکبھی اسے قضانہیں ہونے دیتے تھے (مطالب السؤل ص ۲۶۳) ۔
علامہ محمدباقربحوالہ بحارالانوارتحریرفرماتے ہیں کہ امام علیہ السلام ایک دن نمازمیں مصروف ومشغول تھے کہ امام محمدباقرعلیہ السلام کنوئیں میں گرپڑے بچہ کے گہرے کنویں میں گرنے سے ان کی ماں بے چین ہوکر رونے لگیں اورکنویں کے گردپیٹ پیٹ کرچکرلگانے لگیں اورکہنے لگیں ،ابن رسول اللہ محمدباقرغرق ہوگئے امام زین العابدین نے بچے کے کنویں میں گرنے کی کوئی پرواہ نہ کی اوراطمینان سے نمازتمام فرمائی اس کے بعدآپ کنویں کے قریب آئے اوراگرپانی کی طرف دیکھا پھرہاتھ بڑھاکر بلارسی کے گہرے کنوئیں سے بچے کوونکال لیا بچہ ہنستاہوابرآمدہوا، قدرت خداوندی دیکھیے اس وقت بہ بچے کے کپڑے بھیگے تھے اورنہ بدن ترتھا(دمعہ ساکبہ ص ۴۳۰ ،مناقب جلد ۴ ص ۱۰۹) ۔
امام شبلنجی تحریرفرماتے ہیں کہ طاؤس راوی کابیان ہے کہ میں نے ایک شب حجراسودکے قریب جاکردیکھاکہ امام زین العابدین بارگاہ خالق میں سجدہ ریزی کر رہے ہیں ،میں اسی جگہ کھڑاہوگیا میں نے دیکھاکہ آپ نے ایک سجدہ کوبے حدطول دیدیاہے یہ دیکھ کر میں نے کان لگایا توسنا کہ آپ سجدہ میں فرماتے ہیں ”عبدک بفنائک مسکینک بفنائک سائلک بفنائک فقیرک بفنائک “ یہ سن کرمیں نے بھی انہیں کلمات کے ذریعہ سے دعامانگی فوراقبول ہوئی (نورالابصار ص ۱۲۶ طبع مصر،ارشادمفیدص ۲۹۶) ۔
امام زین العابدین کی شبانہ روزایک ہزاررکعتیں
علماء کابیان ہے کہ آپ شب وروزمیں ایک ہزاررکعتیں ادافرمایاکرتے تھے (صواعق محرقہ ص ۱۱۹ ،مطالب السؤل ۲۶۷) ۔
چونکہ آپ کے سجدوں کاکوئی شمارنہ تھا اسی لیے آپ کے اعضائے سجود”ثغنہ بعیر“ کے گھٹے کی طرح ہوجایاکرتے تھے اورسال میں کئی مرتبہ کاٹے جاتے تھے (الفرع النامی ص ۱۵۸ ،دمعہ ساکبہ کشف الغمہ ص ۹۰) ۔
علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ آپ کے مقامات سجودکے گھٹے سال میں دوبارکاٹے جاتے تھے اورہرمرتبہ پانچ تہ نکلتی تھی (بحارالانوارجلد ۲ ص ۳) علامہ دمیری مورخ ابن عساکرکے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ دمشق میں حضرت امام زین العابدین کے نام سے موسوم ایک مسجدہے جسے”جامع دمشق“کہتے ہیں (حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔
امام زین العابدین علیہ السلام منصب امامت پرفائزہونے سے پہلے
اگرچہ ہماراعقیدہ ہے کہ امام بطن مادرسے امامت کی تمام صلاحیتیوں سے بھرپوراآتاہے تاہم فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری اسی وقت ہوتی ہے جب وہ امام زمانہ کی حیثیت سے کام شروع کرے یعنی ایساوقت آجائے جب کائنات ارضی پرکوئی بھی اس سے افضل واعلم برترواکمل نہ ہو، امام زین العابدین اگرچہ وقت ولادت ہی سے امام تھے لیکن فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری آپ پراس وقت عائد ہوئی جب آپ کے والدماجد حضرت امام حسین علیہ السلام درجہ شہادت پرفائزہوکرحیات ظاہری سے محروم ہوگئے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت ۳۸ ھء میں ہوئی جبکہ حضرت علی علیہ السلام امام زمانہ تھے دوسال ان کی ظاہری زندگی میں آپ نے حالت طفولیت میں ایام حیات گزارے پھر ۵۰ ھء تک امام حسین علیہ السلام کازمانہ رہاپھرعاشورا، ۶ ۱ ھ تک امام حسین علیہ السلام فرائض امامت کی انجام دہی فرماتے رہے عاشورکی دوپہرکے بعدسے ساری ذمہ داری آپ پرعائدہوگئی اس عظیم ذمہ داری سے قبل کے واقعات کاپتہ صراحت کے ساتھ نہیں ملتا،البتہ آپ کی عبادت گزاری اورآپ کے اخلاقی کارنامے بعض کتابوں میں ملتے ہیں بہرصورت حضرت علی علیہ السلام کے آخری ایام حیات کے واقعات اورامام حسن علیہ السلام کے حالات سے متاثرہوناایک لازمی امرہے پھرامام حسین علیہ السلام کے ساتھ تو ۲۳ ۔ ۲۲ سال گزارے تھے یقینا امام حسین علیہ السلام کے جملہ معاملات میں آپ نے بڑے بیٹے کی حیثیت سے ساتھ دیاہی ہوگا لیکن مقصدحسین کے فروغ دینے میں آپ نے اپنے عہدامامت کے آغازہونے پرانتہائی کمال کردیا۔
واقعہ کربلاکے سلسلہ میں امام زین العابدین کاشاندارکردار
۲۸/ رجب ۶۰ ھ کوآپ حضرت امام حسین کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچے چارماہ قیام کے بعدوہاں سے روانہ ہوکر ۲/ محرم الحرام کوواردکربلاہوئے، وہاں پہنچتے ہی یاپہنچنے سے پہلے آپ علیل ہوگئے اورآپ کی علالت نے اتنی شدت اختیارکی کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت تک اس قابل نہ ہوسکے کہ میدان میں جاکردرجہ شہادت حاصل کرتے، تاہم فراہم موقع پرآپ نے جذبات نصرت کوبروئے کارلانے کی سعی کی جب کوئی آوازاستغاثہ کان کان میں آئی آپ اٹھ بیٹھے اورمیدان کارزارمیں شدت مرض کے باوجودجاپہنچنے کی سعی بلیغ کی، امام کے استغاثہ پرتوآپ خیمہ سے بھی نکل آئے اورایک چوب خیمہ لے کر میدان کاعزم کردیا،ناگاہ امام حسین کی نظرآپ پرپڑگئی اورانہوں نے جنگاہ سے بقولے حضرت زینب کوآوازدی ”بہن سیدسجادکوروکو ورنہ نسل رسول کاخاتمہ ہوجائے گا“ حکم امام سے زینب نے سیدسجادکومیدان میں جانے سے روک لیایہی وجہ ہے کہ سیدوں کاوجودنظر آرہاہے اگرامام زین العابدین علیل ہوکر شہیدہونے سے نہ بچ جاتے تونسل رسول صرف امام محمدباقرمیں محدودرہ جاتی ،امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ مرض اورعلالت کی وجہ سے آب درجہ شہادت پرفائزنہ ہوسکے (نورالابصار ص ۱۲۶) ۔
شہادت امام حسین کے بعدجب خیموں میں آگ لگائی گئی توآپ انہیں خیموں میں سے ایک خیمہ میںبدستورپڑے ہوئے تھے ،ہماری ہزارجانیں قربان ہوجائیں،حضرت زینب پرکہ انہوں نے اہم فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں سب سے پہلافریضہ امام زین العابدین علیہ السلام کے تحفظ کاادافرمایا اورامام کوبچالیاالغرض رات گزاری اورصبح نمودارہوئی، دشمنوں نے امام زین العابدین کواس طرح جھنجوڑا کہ آپ اپنی بیماری بھول گیے آپ سے کہاگیاکہ ناقوں پرسب کوسوارکرواورابن زیادکے دربارمیں چلو،سب کوسوارکرنے کے بعدآل محمد کاساربان پھوپھیوں ،بہنوں اورتمام مخدرات کولئے ہوئے داخل دربار ہوا حالت یہ تھی کہ عورتیں اوربچے رسیوں میں بندھے ہوئے اورامام لوہے میں جکڑے ہوئے دربارمیں پہنچ گئے آپ چونکہ ناقہ کی برہنہ پشت پرسنبھل نہ سکتے تھے اس لیے آپ کے پیروں کوناقہ کی پشت سے باندھ دیاگیاتھا دربارکوفہ میں داخل ہونے کے بعدآپ اورمخدرات عصمت قیدخانہ میں بندکردئیے گئے ،سات روزکے بعدآپ سب کولیے ہوئے شام کی طرف روانہ ہوئے اور ۱۹ منزلیں طے کرکے تقریبا ۳۶/ یوم میں وہاں پہنچے کامل بھائی میں ہے کہ ۱۶/ ربیع الاول ۶۱ ھء کوبدھ کے دن آپ دمشق پہنچے ہیں اللہ رے صبرامام زین العابدین بہنوں اورپھوپھیوں کاساتھ اورلب شکوہ پرسکوت کی مہر ۔
حدودشام کاایک واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی، پیروں میں بیڑی اورگلے میں خاردارطوق آہنی پڑاہواتھا اس پرمستزادیہ کولوگ آپ برسارہے تھے اسی لیے آپ نے بعدواقعہ کربلاایک سوال کے جواب میں ”الشام الشام الشام“ فرمایاتھا(تحفہ حسینہ علامہ بسطامی)۔
شام پہنچنے کے کئی گھنٹوں یادنوں کے بعدآپ آل محمدکولیے ہئوے سرہائے شہدا سمیت داخل دربارہوئے پھرقیدخانہ میں بندکردئیے گئے تقریباایک سال قید کی مشقتیں جھیلیں۔
قیدخانہ بھی ایساتھاکہ جس میں تمازت آفتابی کی وجہ سے ان لوگوں کے چہروں کی کھالیں متغیرہوگئی تھیں (لہوف) مدت قیدکے بعدآپ سب کولیے ہوئے ۲۰/ صفر ۶۲ ھء کوواردہوئے آپ کے ہمراہ سرحسین بھی کردیاگیاتھا ،آپ نے اسے اپنے پدربزرگوارکے جسم مبارک سے ملحق کیا(ناسخ تواریخ)۔
۸/ ربیع الاول ۶۲ ھ کوآپ امام حسین کالٹاہواقافلہ ہوئے مدینہ منورہ پہنچے ،وہاں کے لوگوں نے آہ وزاری اورکمال رنج وغم سے آپ کااستقبال کیا۔ ۱۵ شبانہ وروز نوحہ وماتم ہوتارہا (تفصیلی واقعات کے لیے کتب مقاتل وسیرملاحظہ کی جائیں۔
اس عظیم واقعہ کااثریہ ہواکہ زینب کے بال اس طرح سفیدہوگئے تھے کہ جاننے والے انہیں پہچان نہ سکے (احسن القصص ص ۱۸۲ طبع نجف) رباب نے سایہ میں بیٹھناچھوڑدیا امام زین العابدین تاحیات گریہ فرماتے رہے (جلاء العیون ص ۲۵۶) اہل مدینہ یزیدکی بیعت سے علیحدہ ہوکرباغی ہوگئے بالآخرواقعہ حرہ کی نوبت آگئی۔
واقعہ کربلااورحضرت امام زین العابدین کے خطبات
معرکہ کربلاکی غم آگیں داستاں تاریخ اسلام ہی نہیں تاریخ عالم کاافسوسناک سانحہ ہے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اول سے اخرتک اس ہوش ربا اورروح فرساواقعہ میں اپنے باپ کے ساتھ رہے اورباپ کی شہادت کے بعدخوداس المیہ کے ہیروبنے اورپھرجب تک زندہ رہے اس سانحہ کاماتم کرتے رہے ۔
۱۰/ محرم ۶۱ ھء کاواقعہ یہ اندوہناک حادثہ جس میں ۱۸/ بنی ہاشم اوربہتراصحاب وانصارکام آئے حضرت امام زین العابدین کی مدت العمرگھلاتارہا اورمرتے دم تک اس کی یادفراموش نہ ہوئی اوراس کاصدمہ جانکاہ دورنہ ہوا، آپ یوں تواس واقعہ کے بعدتقریبا چالیس سال زندہ رہے مگر لطف زندگی سے محروم ہرے اورکسی نے آپ کوبشاش اورفرحناک نہ دیکھا،اس جانکاہ واقعہ کربلاکے سلسلہ میں آپ نے جوجابجاخطبات ارشادفرمائے ہیں ان کاترجمہ درج ذیل ہے۔
کوفہ میں آپ کاخطبہ
کتاب لہوف ص ۶۸ میں ہے کہ کوفہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدین نے لوگوں کوخاموش رہنے کااشارہ کیا،سب خاموش ہوگئے، آپ کھڑے ہوئے خداکی حمدوثناء کی ،حضرت نبی کاذکرکیا، ان پرصلوات بھیجی پھرارشادفرمایاائے لوگو! جومجھے جانتاہے وہ توپہچانتاہی ہے جونہیں جانتا اسے میں بتاتاہوں میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں ،میں اس کافرزندہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کاسامان لوٹاگیاجس کے اہل وعیال قیدکردئیے گئے میں اس کافرزندہوں جوساحل فرات پرذبح کردیاگیا،اوربغیرکفن ودفن چھوڑدیاگیااور(شہادت حسین)ہمارے فخرکے لیے کافی ہے اے لوگو! تمہارابراہوکہ تم نے اپنے لیے ہلاکت کاسامان مہیاکرلیا، تمہاری رائیں کس قدربری ہیں تم کن آنکھوں سے رسول صلعم کودیکھوگے جب رسول صلعم تم سے بازپرس کریں گے کہ تم لوگوں نے میری عترت کوقتل کیااورمیرے اہل حرم کوذلیل کیا ”اس لیے تم میری امت میں نہیں“۔
مسجددمشق (شام) میں آپ کاخطبہ
مقتل ابی مخنف ص ۱۳۵ ،بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۲۳۳ ،ریاض القدس جلد ۲ ص ۳۲۸ ، اورروضة الاحباب وغیرہ میں ہے کہ جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اہل حرم سمیت درباریزیدمیں داخل کئے گئے اور ان کومنبرپرجانے کاموقع ملاتوآپ منبرپرتشریف لے گئے اورانبیاء کی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ خطبہ ارشادفرمایا :
ائے لوگو! تم سے جومجھے پہچانتاہے وہ توپہچانتاہی ہے، اورجونہیں پہچانتامیں اسے بتاتاہوں کہ میں کون ہوں؟ سنو، میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں، میں اس کافرزندہوں جس نے حج کئے ہیں اس کافر زندہوں جس نے طواف کعبہ کیاہے اورسعی کی ہے ، میں پسرزمزم وصفاہوں، میں فرزندفاطمہ زہراہوں، میں اسکافرزند جس پس گردن سے ذبح کیاگیا،میں اس پیاسے کافرزند ہوں جوپیاساہی دنیاسے اٹھا،میں اس کافرزندہوں جس پرلوگوں نے پانی بندکردیا، حالانکہ تمام مخلوقات پرپانی کوجائزقراردیا،میں محمدمصطفی صلعم کافرزندہوں، میں اس کافرزندہوں جوکربلامیںشہیدکیاگیا،میں اس کافرزندہوں جس کے انصارزمین میں آرام کی نیندسوگئے میں اسکا پسرہوں جس کے اہل حرم قیدکردئے گئے میں اس کافرزندہوں جس کے بچے بغیرجرم وخطاذبح کرڈالے گئے ، میں اس کابیٹاہوں جس کے خیموں میں آگ لگادی گئی، میں اس کافرزندہوں جس کاسرنوک نیزہ پربلندکیاگیا، میں اس کافرزندہوں جس کے اہل حرم کی کربلامیںبے حرمتی کی گئی، میں اس کافرزندہوں جس کاجسم کربلاکی زمین پرچھوڑدیاگیااورسردوسرے مقامات پرنوک نیزہ پربلندکرکے پھرایاگیا میں اس کافرزندہوں جس کے اردگردسوائے دشمن کے کوئی اورنہ تھا،میں اس کافرزندہوں جس کے اہل حرم کوقیدکرکے شام تک پھرایاگیا، میں اس کافرزندہوں جوبے یارومددگارتھا۔
پھرامام علیہ السلام نے فرمایا لوگو! خدانے ہم کوپانچ فضیلت بخشی ہیں :
۱ ۔ خدا کی قسم ہمارے ہی گھرمیں فرشتوں کی آمدورفت رہی اورہم ہی معدن نبوت ورسالت ہیں۔
۲ ۔ ہماری شان میں قرآن کی آیتیں نازل کیں، اورہم نے لوگوں کی ہدایت کی۔
۳ ۔ شجاعت ہمارے ہی گھرکی کنیزہے ،ہم کبھی کسی کی قوت وطاقت سے نہیں ڈرے اورفصاحت ہماراہی حصہ ہے، جب فصحاء فخرومباہات کریں۔
۴ ۔ ہم ہی صراط مستقیم اورہدایت کامرکزہیں اوراس کے لیے علم کاسرچشمہ ہیں جوعلم حاصل کرناچاہے اوردنیاکے مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے۔
۵ ۔ ہمارے ہی مرتبے آسمانوں اورزمینوں میں بلندہیں ،اکرہم نہ ہوتے توخدادنیاکوپیداہی نہ کرتا،ہرفخرہمارے فخرکے سامنے پست ہے، ہمارے دوست (روزقیامت ) سیروسیراب ہوں گے اورہمارے دشمن روزقیامت بدبختی میں ہوں گے۔
جب لوگوں نے امام زین العابدین کاکلام سناتوچینخ مارکررونے اورپیٹنے لگے اوران کی آوازیں بے ساختہ بلندہونے لگیں یہ حال دیکھ کر یزیدگھبرااٹھاکہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس نے اس کے ردعمل میں فورا موذن کوحکم دیا(کہ اذان شروع کرکے) امام کے خطبہ کومنقطع کردے، موذن (گلدستہ اذان پرگیا) _
اورکہا”اللہ اکبر“ (خداکی ذات سب سے بزرگ وبرترہے) امام نے فرمایاتونے ایک بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اورایک عظیم الشان ذات کی عظمت کااظہارکیااورجوکچھ کہا”حق“ ہے ۔پھرموذن نے کہا”اشہد ان لاالہ الااللہ (میں گواہی دیتاہوں کہ خداکے سوا کوئی معبودنہیں) امام نے فرمایامیں بھی اس مقصدکی ہرگواہ کے ساتھ گواہی دیتاہوں اورہرانکارکرنے والے کے خلاف اقرارکرتاہوں۔
پھرموذن نے کہ” اشہدان محمدارسول اللہ“ (میں گواہی دیتاہوں کہ محمدمصطفی اللہ کے رسول ہیں) فبکی علی، یہ سن کرحضرت علی ابن الحسین روپڑے اورفرمایاائے یزیدمیںتجھ سے خداکاواسطہ دے کرپوچھتاہوں بتا حضرت محمدمصطفی میرے ناناتھے یاتیرے ، یزیدنے کہاآپ کے، آپ نے فرمایا،پھرکیوں تونے ان کے اہلبیت کوشہیدکیا، یزیدنے کوئی جواب نہ دیااوراپنے محل میں یہ کہتاہواچلاگیا۔”لاحاجة لی بالصلواة“ مجھے نمازسے کوئی واسطہ نہیں،اس کے بعد منہال بن عمرکھڑے ہوگئے اورکہافرزندرسول آپ کاکیاحال ہے، فرمایااے منہال ایسے شخص کاکیاحال پوچھتے ہوجس کاباپ(نہایت بے دردی سے) شہیدکردیاگیاہو، جس کے مددگارختم کردئیے گئے ہوں جواپنے چاروں طرف اپنے اہل حرم کوقیدی دیکھ رہاہو،جن کانہ پردہ رہ گیانہ چادریں رہ گئیں، جن کانہ کوئی مددگارہے نہ حامی، تم تودیکھ رہے ہوکہ میں مقیدہوں، ذلیل ورسواکیاگیاہوں، نہ کوئی میراناصرہے،نہ مددگار، میں اورمیرے اہل بیت لباس کہنہ مین ملبوس ہیں ہم پرنئے لباس حرام کردئیے گئے ہیں اب جوتم میراحال پوچھتے ہوتومیںتمہارے سامنے موجودہوں تم دیکھ ہی رہے ہو،ہمارے دشمن ہمیں برابھلاکہتے ہیں اورہم صبح وشام موت کاانتظارکرتے ہیں۔
پھرفرمایاعرب وعجم اس پرفخرکرتے ہیں کہ حضرت محمدمصطفی ان میں سے تھے، اورقریش عرب پراس لیے فخرکرتے ہیں کہ آنحضرت صلعم قریش میں سے تھے اورہم ان کے اہلبیت ہیں لیکن ہم کوقتل کیاگیا، ہم پرظلم کیاگیا،ہم پرمصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اورہم کوقیدکرکے دربدرپھرایاگیا،گویاہماراحسب بہت گراہواہے اورہمارانسب بہت ذلیل ہے، گویاہم عزت کی بلندیوں پرنہیں چڑھے اوربزرگوں کے فرش پرجلوہ افروزنہیں ہوئے آج گویا تمام ملک یزیداوراس کے لشکرکاہوگیااورآل مصطفی صلعم یزید کی ادنی غلام ہوگئی ہے، یہ سنناتھا کہ ہرطرف سے رونے پیٹنے کی صدائیں بلندہوئیں_
یزیدبہت خائف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑاہوجائے اس نے اس شخص سے کہاجس نے امام کومنبرپرتشریف لے جانے کے لیے کہاتھا ”ویحک اردت بصعودہ زوال ملکی“ تیرابراہوتوان کومنبربربٹھاکرمیری سلطنت ختم کرناچاہتاہے اس نے جواب دیا، بخدا میں یہ نہ جانتاتھا کہ یہ لڑکا اتنی بلندگفتگوکرے گا یزیدنے کہاکیاتونہیں جانتاکہ یہ اہلبیت نبوت اورمعدن رسالت کی ایک فردہے، یہ سن کرموذن سے نہ رہاگیا اوراس نے کہاایے یزید”اذاکان کذالک فلماقتلت اباہ“ جب تویہ جانتاتھا توتونے ان کے پدربزرگوارکوکیوں شہیدکیا،موذن کی گفتگوسن کریزیدبرہم ہوگیا،”فامربضرب عنقہ“ اورموذن کی گردن ماردینے کاحکم دیدیا۔