جہادِ سید ِ سجاد (ع)
بنی امیہ نے جب حکومت ہاتھ میں لی تو میڈیا سے بہت فائدہ اٹھا یا اور شام میں پوری پروپیگنڈہ مشینری کو حکومت اسلامی کے حقیقی وارثوں کے خلاف پروپیگنڈے میں مصروف کردیا ، درباری محدثین ،مورخین، علمائ، خطبائ ،شعرأ وغیرہ کی خدمات حاصل کی جانے لگیں اور شامیوں کو یہ باور کرادیا کہ حکومت اسلامی کے حقیقی وارث بنی امیہ ہی ہیں ،بنی امیہ کی اس پروپیگنڈہ مشینری میں سب سے زیادہ خطرناک عنصر حدیثیں گھڑنے والوں کا تھا ،حدیثیں گھڑنے والوں نے تو پیسے کے لالچ میں اسلام ہی کو تہہ و بالا کرڈالا، بہت سے درباری محدثین تھے جنھوں نے بنی امیہ کے سکوںکے لالچ میں اسلام محمدی (ص) کا چہرہ ہی مسخ کرڈالا، جس کی مثالوں سے کتابیں بھری ہوئی ہیں ، بنی امیہ کے ذریعہ اہل بیت (ع) کے خلاف قائم کردہ اس ماحول میں امام حسین (ع)کی شہادت، اسلامی معاشرے کے لئے اتنی موثر نہ ہوتی اگراپنی شہادت کے بعد امام حسین (ع)نے اپنے مقصد کی تبلیغ اور بنی امیہ کے پروپیگنڈے کو بے اثر کرنے کی ذمہ داری امام زین العابدین (ع) اور جناب زینب (ع) کے سپرد نہ کی ہوتی اور آپ کا مقصد عورتوں اور بچوں کو کربلا میںساتھ لانے کا یہ بھی ہو سکتا ہے تاکہ جب آپ (ع) بنی امیہ کی فاسد حکومت پر کاری ضرب لگائیں تو امام زین العابدین (ع) اور جناب زینب (ع) شہر شہر ،قریہ قریہ امام حسین (ع) کی فکر اور ان کے مقصد شہادت کو عام کردیں اور بنی امیہ کی پروپیگنڈہ مشینری کو ناکام بنادیں ،اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ منصوبۂ کربلا میں امام زین العابدین (ع) کا بہت اہم کردار ہے ،اگر بعد شہادت امام حسین (ع) ،حضرت امام زین العابدین (ع) نے یہ جہاد نہ کیا ہوتا تو کربلا میں شہدا کی دی گئی عظیم قربانیاں رائیگاں چلی جاتیں ،جہاد کی کئی قسمیں ہیں جن میں جہاد بالنفس کا مقام سب سے بالا ہے اور جہاد بالسیف یا اسلحے سے جہاد کرنے کی منزل سب سے آخر میں ہوتی ہے اس بیچ جہاد باللسان یعنی زبان سے جہاد اور جہاد بالقلم کی بڑی اہمیت ہے ،
کربلا میں جب امام حسین (ع) اور آپ کے اعزا و انصار شہید ہوچکے تو بنی امیہ نے امام زین العابدین (ع) کو قیدی بناکر ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں لیکن ہتھکڑیاں ڈال کرتلوار کا جہاد ہی روکا جاسکتاتھا ،
یزیدیوں کے بس میں یہ ہرگز نہ تھا کہ امام زین العابدین (ع) کو زبان کے ذریعہ جہادکرنے سے روک سکیں، لہٰذا امام زین العابدین (ع) نے ہر گام پر زبان سے ایسا جہاد کیا جس سے بنی امیہ کی 30 سالہ سلطنت شاہی میں زلزلہ آگیا ،امام کو لٹے ہوئے قافلے کے ہمراہ جب ابن زیاد کے دربار میں پیش کیا گیا تو ابن زیاد نے غرور و نخوت بھرے لہجے میں امام (ع) سے کہا کہ :تم کون ہو؟ امام نے جواب دیا میں علی بن الحسین (ع) ہوں،ابن زیاد نے کہا کہ کیا خدا نے علی بن الحسین (ع)کو قتل نہیں کیا؟امام سجاد (ع) نے جواب دیا : کہ میرے بھائی بھی علی بن الحسین ﴿علی اکبر (ع)﴾ تھے جنہیں لوگوں نے قتل کردیا ،ابن زیاد پھرکہتاہے کہ علی بن الحسین (ع)﴿ علی اکبر (ع) ﴾ کوخدا نے قتل کیا ہے ،
امام (ع) نے جواب میں قرآن مجید کے سورۂ زمرکی آیت 42کی تلاوت فرمائی جس کا مطلب یہ ہے کہ:’’خدا ہی لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں ﴿اپنی طرف ﴾ کھینچ بلاتا ہے .‘‘ قیدی ہونے کے باوجودامام زین العابدین (ع) نے ابن زیاد کے دربار میں بنی امیہ کی بساط الٹ دی ،اوربنی امیہ کے بزرگوں کے اس نظریئے کو مردود قرار دے دیا جس کو ڈھال بناکر بنی امیہ اپنے حریفوں پر ظلم کیا کرتے تھے، بنی امیہ کے ایک بزرگ کا نظریہ تھا کہ خیر و شر اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ،بندہ مختار نہیں ہے لوگوں کی قتل و غارت گری کے لئے بھیجاگیا بنی امیہ کے ایک بزرگ کا قریبی سپاہی ’’بسر بن ارطاۃ ‘‘جب دل کھول کرلوگوں کو قتل کرچکا توان بزرگ کو اس کی رپورٹ پیش کی کہ میں نے کس بے دردی سے لوگوں کو قتل کیا ہے،توبنی امیہ کے بزرگ نے سن کر کہا کہ :اے بسر ! یہ مظالم تونے نہیں بلکہ اللہ نے انجام دیئے ہیں﴿شرح نہج البلاغہ ،شارح سنی دانشور ابن ابی الحدید ،جلد ۲، صفحہ 17 ،ناشر دار احیائ التراث العربی، بیروت لبنان﴾اسی نظریہ کو ابن زیاد بھی اپنے دربار میں چوتھے امام کے سامنے دہرا رہا ہے لیکن امام نے قرآن مجید کی روشنی میںاس نظریئے کی ہمیشہ کے لئے بھرے دربار میںتردید کردی ،جس کو سن کر ابن زیاد تلملا کر رہ گیا ،ابن زیاد نے یزید کے حکم پرامام سجاد(ع) کو اس قافلے کے ہمراہ شام کے لئے روانہ کردیا ،اہل شام صرف بنی امیہ کو اسلام کے حقیقی وارث کے طور پر پہچانتے تھے اور اس میں بنی امیہ کے پروپیگنڈے کا بڑا ہاتھ تھا اسی لئے جب اہل بیت(ع) کا قافلہ شام میں داخل ہوا تو ایک شامی امام زین العابدین (ع) کے قریب آیا اور کہنے لگا: ’’خدا کا شکر ہے جس نے تمہیں ہلاک کیا اور امیر﴿یزید﴾ کو تم پر فتح دی‘‘امام زین العابدین (ع)سمجھ گئے کہ اس پر بنی امیہ کا رنگ چڑھ گیا ہے آپ نے شامی سے فرمایا کہ : کیا تونے قرآن پڑھا ہے؟اس شخص نے جواب دیا :ہاں پڑھا ہے،امام (ع) نے فرمایا کہ کیا یہ آیت بھی پڑھی ہے: ’’اے رسول(ص)! تم کہہ دو کہ میں اس تبلیغ رسالت کا اپنے قرابتداروں ﴿اہل بیت (ع)﴾کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا ﴿سورۂ شوریٰ ،آیت 23﴾
شامی نے کہا کہ ہاںپڑھی ہے ،امام (ع) نے فرمایا کہ اس آیت میں قربیٰ سے مراد ہم ہی تو ہیں،پھر امام (ع) نے سوال کیا کہ یہ آیت بھی پڑھی ہے کہ: اے رسول (ص)! اپنے قرابتدار کاحق دے دو﴿سورۂ روم ،آیت۸۳و سورۂ اسرأ ،آیت ۶۲﴾؟ شامی نے جواب دیا ہاں ،امام (ع) نے فرمایا کہ وہ قرابتدار ہم ہی تو ہیں، امام (ع) نے پھر سوال کیا کہ یہ آیت پڑھی ہے کہ ’’اورجان لوکہ جو کچھ تم غنیمت حاصل کرو اس میں پانچواں حصہ مخصوص خدا اور رسول (ص) اور رسول (ص) کے قرابتداروں .کا ہے‘ ‘ ﴿سورۂ انفال، آیت 41﴾
شامی نے کہاہاں،پڑھی ہے، امام (ع) نے فرمایا وہ قرابتدار ہم ہی تو ہیں،امام (ع) نے پھر سوال کیا کہ یہ آیت پڑھی ہے ’’اے پیغمبر (ص) کے اہل بیت (ع) خدا تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو ہر طرح کی برائی سے دور رکھے اور جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے﴿سورۂ احزاب ، آیت ۳۳﴾شامی نے کہا ہاں ، امام (ع) نے فرمایا وہ اہل بیت (ع) ہم ہی تو ہیں،بوڑھے شامی نے کہا: خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، آپ جو کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں، امام (ع) نے فرمایا:خدا کی قسم ہم ہی وہ ﴿قرابتدار﴾ ہیں ،اپنے جد رسول خدا (ص) کے حق کی قسم ہم ہی وہ ﴿اہل بیت (ع) ﴾ ہیں ، شامی گریہ کرنے لگا اور اپنا سر و سینہ پیٹتے ہوئے سر آسمان کی طرف بلند کرکے کہنے لگا:پروردگار ! میں آل محمد (ص) کے دشمنوں سے بیزار ہوں،اس موقع پر تلوار بھی وہ کام نہ کرتی جو امام (ع) کی زبان مبارک نے کردیا ،کیونکہ اگر تلوار سے اس شامی کو قتل بھی کردیا جاتا تو وہ صرف ایک شخص کا قتل ہوتا ،لیکن شامی کے توبہ کرلینے سے اس تحریک پر ضرب پڑی جس کو چلانے کے لئے بنی امیہ نے خزانوں کے منھ کھول رکھے تھے بہر حال امام زین العابدین (ع) میر کارواں بن کر یزید کے دربار میں وارد ہوئے اور یزید فتح کے نشے میں چور تخت پر بیٹھا ہوا تھا ،یزید نے درباری خطیب کو تقریر کرنے کا حکم دیا تاکہ امام زین العابدین (ع) کی موجودگی میں آپ کے والد گرامی اور دادا حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی شان میں گستاخی کرے اور امام کو دربار میں نیچا دکھائے ،خطیب منبر پر گیا اور وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو یزید چاہتا تھا ،امام نے درباری خطیب کو مخاطب کرکے فرمایا کہ: ’’تجھ پر وائے ہو کہ تونے خلق ﴿لوگوں﴾کی خوشنودی کو خالق ﴿اللہ﴾ کی ناراضگی کے عوض خرید لیا اور اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا ، بھرے دربار میں اک قیدی سے اپنے بارے میں جہنمی ہونے کا اعلان جب اس درباری خطیب نے سنا ہوگا تو کتنی رسوائی ہوئی ہوگی ؟جب یہ درباری خطیب منبر سے اتر آیا تو امام نے اپنے لئے بھی منبر پر جانے کے لئے یزید سے اجازت چاہی یزید نے چار و ناچار امام زین العابدین (ع) کو اجازت دے دی یہی وہ موقع تھا کہ امام (ع)کو زبان کے ذریعہ جہاد کرکے بنی امیہ کے طرز فکر پر کاری ضرب لگانی تھی ،آپ (ع) نے حمد و ثنا کے بعد لوگوں کے سامنے اپنا تعارف کرایا اور لوگوں کے ذہنوں سے بنی امیہ کا پروپیگنڈہ دھو ڈالا اور لوگوں کو اچھی طرح باور کرادیا کہ ہم نے حکومت ِاسلامی یا خلیفہ ٔ رسول پر خروج نہیں کیا ہے بلکہ یہ حکومت و خلافت ہمارا حق تھا جس پر یزید ناحق بیٹھا ہے اور اس نے ہمارا پورا گھر تباہ کرڈالااور پھر آپ نے بنی امیہ کے شجرۂ ملعونہ کو بھی لوگوں کے سامنے بیان کیا ،دربار میں چہ می گوئیاں ہونے لگیں حتی کہ بعض افراد کے گریہ کی آوازیں بھی بلند ہونے لگیں ،یزید کو محسوس ہوا کہ وہ یہ مورچہ بھی ہار چکا ہے لہٰذا اُس نے امام زین العابدین (ع) کو خاموش کرنے کے لئے بے وقت اذان کہلوادی ،اگر چہ یزید اذان کے ذریعہ امام زین العابدین (ع) کو خاموش کرنا چاہتا تھا ،اذان کے احترام میں امام (ع) خاموش بھی ہوگئے لیکن جیسے ہی موذن نے ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدُ الرَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘کہا امام (ع) نے موذن کو روک دیا اور بھرے دربار میں یزید سے سوال کرلیا کہ :بتا !محمد رسول اللہ (ص) تیرے جد ہیں یا میرے ؟ یزید کے پاس امام زین العابدین (ع) کے اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا ،درباری سمجھ چکے تھے کہ یزید نے حکومت کے باغیوں کو نہیں بلکہ اولاد رسول (ص)کو قتل کرڈالا ،یزید کی مخالفت اور نفرت کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوگیا ،امام زین العابدین (ع)اپنے بہترین جہاد میں کامیاب ہوگئے ،کیونکہ اہل بیت (ع) کی اسیری اور جناب زینب (ع) اورامام زین العابدین (ع) کے خطبوں کے ذریعہ کربلا ،کوفہ اور شام اور ان کے راستوں میں آنے والی آبادیوں کے مکینوں کو معلوم ہوچکا تھا کہ یزید نے ناحق اہل بیت (ع) رسول (ص) کوستایا ہے جس کی وجہ سے مملکت اسلامی میں لوگ بنی امیہ کو خائن اور ظالم سمجھنے لگے اور بنی امیہ کی فکر کو برا سمجھا جانے لگا ،یہ امام زین العابدین (ع) کے جہاد کا ہی اثر ہے کہ آج بھی ہر انسان یزید ی فکر سے نفرت کرتا ہے...