طلوع شمس امامت
اے فخر ابن مریم وسلطان فقر iiخو
تیرے کرم کا ابر برستا ہے چار سُو
تیرے لیے ہوائیں بھٹکتی ہیں کو بہ iiکو
تیرے لئے ہی چاند اترتا ہے جوبجو ii!
پانی ترے لیے ہے سدا ارتعاش iiمیں
سورج ہے تیرے نقش قدم کی تلاش iiمیں
اےآسمان فکر بشر ، وجہ iiذوالجلال
اے منزل خرد کا نشاں ، سرحد iiخیال
اے حُسن لایزال کی تزئین iiلازوال
رکھتا ہے مضطرب مجھے اکثر یہی iiسوال
جب تو زمین واہل زمین کا نکھار iiہے
عیسیٰ کو کیوں فلک پہ ترا انتظار ہے ii؟
اے عکس خدوخالِ پیمبر جمال ِ iiحق
تیری ترنگ میں ہیں فضائیں شفق iiشفق
تیری عطا سے نبض جہاں میں سدا iiرمق
تیری کرن پڑے تو رُخ آفتاب iiفَق
تیرے نفس کی آنچ دل خشک وتر میں ہے ii!
تیرے ہی گیسوؤں کی تجلی سحر میں ہے!!
تو مسکرا پڑے تو خزاں رنگ رنگ iiہو
تو چُپ رہے تو سارا جہاں مثل سنگ ہو
تو بول اُٹھے تو نطق جہاں ساز دَنگ iiہو
ر دل میں کیوں نہ تیری "ولا" کی امنگ ہو
میں کیوں نہ تیرا شکر کروں بات بات iiمیں
ہر سانس تیرے دَر سے ملی ہے زکواۃ iiمیں
تیرے حشم سے رنگ فلک لاجورد iiہے
مہتاب تیرے حسن کے پرتو سےزرد iiہے
موج ہوائے خلد ترے دم سے سرد ہے
محشر کی دُھوپ کیا؟ تیرے قدموں کی گرد ہے
تیرا کرم بہشت بریں کا سُہاگ iiہے
تیرا غضب ہی اصل میں دوزخ کی آگ iiہے
اے باغ عسکری کے مقدس ترین پھول
اے کعبۂ فروع نظر ، قبلۂ iiاصول!
آ، ہم سے کر خراج دل وجاں کبھی iiوصول
تیرے بغیر ہم کو قیامت نہیں iiقبول
دنیا نہ مال وزر نہ وزارت iiکےواسطے
ہم جی رہے ہیں تیری زیارت کے iiواسطے
مولا تیرے حجاب معانی کی خیر iiہو
تیرے کرم کی، تیری کہانی کی خیر ہو
تیرے خرام تیری روانی کی خیر iiہو
نرجس کا لال تیری جوانی کی خیر iiہو
ممکن ہے اپنی موت نہایت قریب ہو !
اک شب تو خواب ہی میں زیارت نصیب ہو
اے آفتاب مطلع ہستی ، ابھر کبھی
اے چہرۂ مزاج دو عالم نکھر کبھی
اے عکس حق ، فلک سےادھر بھی اتر iiکبھی
اے رونق نُمو ، لے ہماری خبر iiکبھی
قسمت کی سرنوشت کو ٹوکے ہوئے ہیں ہم
تیرے لئے تو موت کو روکے ہوئے ہیں iiہم
اب بڑھ چلا ہے ذہن ودل وجاں میں اضطراب
پیدا ہیں شش جہات میں آثار iiانقلاب
اب ماند پڑ رہی ہے زمانے کی آب iiوتاب
اپنے رُخ حسیں سے اُٹھا تُو بھی اَب iiنقاب
ہرسُو یزیدیت کی کدورت ہے اِن iiدنوں
مولا ! تیری شدید ضرورت ہے ان iiدنوں
نسل ستم ہے در پئے آزار ، اب تو iiآ
پھر سج رہے ہیں ظلم کے دربار ، اب تو iiآ
پھر آگ پھر وہی درودیوار ، اب تو iiآ
کعبے پہ پھر ہے ظلم کی یلغار ، اب تو iiآ
دِن ڈھل رہا ہے ، وقت کو تازہ اُڑان iiدے
آ "اے امام عصر" حرم میں "اذان" iiدے